قلم کا مزدور

گزشتہ روز یکم مئی کومحنت کشوں اور مزدوروں کا عالمی دن تھااور آج 3مئی کو قلم کے مزدوروں کا عالمی دن ہے ویسے توصحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے مگر قلم قرطاس کا مزدور آج بھی رضاکار انہ کام کرنے پر مجبور ہے نسل درنسل اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے باوجود علاقائی صحافی مزدو ر جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں ریاست کے چوتھے ستون کی بنیادی اکائی کے حقوق سلب کرنا ظلم وزیادتی کے مترادف ہے میڈیا اداروں میں کارکن صحافیوں کو عارضی کنٹریکٹ پر رکھا جاتا ہے جبکہ علاقائی صحافیوں کے لیے کنٹریکٹ تودور کی بات انہیں اعزازی طورپر بھرتی کرکے حالات کے رحم کرم پر چھوڑدیاجاتاہے علاقائی صحافی کی کم ازکم تنخواہ ایک مزدور کے برابرطے ہونے سے نہ صرف زردصحافت کا خاتمہ ہوگا بلکہ ریاست کا چوتھا ستون بطور صنعت ابھر کر اہم مقام حاصل کرلے گاپاکستان میں صرف صحافت کا ہی برا حال نہیں ہے بلکہ جس محکمہ یا ادارے کی کارکردگی بھی دیکھی جائے تو وہ صفر ہے پاکستان کو آزاد ہوئے 67سال ہونے والے ہیں اور ہم نے ابھی تک اپنی ترقی کاراستہ تلاش نہیں کیا اگر ہم نے کسی چیز میں مہارت حاصل کی ہے تو وہ دوسروں کی جیب صاف کرنے، لوٹ مار اور دو نمبری میں کی ہے رشوت دینے اور لینے میں کی ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کی ہے ملک کی جڑیں کمزور کرکے عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈال کر دولت کو بیرون ملک لے جانے میں کی ہے اور ان سب لٹیروں کے سیاہ کارناموں کو عوامی خدمت کا درجہ دیکر تحفظ دینے والے ہمارے میڈیامالکان اورانکے حواریوں نے بھی اپنے کام میں مہارت حاصل کی ہے یہی وجہ ہے کہ کل کا ناجائز فروش آج کا صحافی بن کر نہ صرف اپنے آپ کو محفوظ کرچکا ہے بلکہ اپنے جیسوں کا محافظ بھی بن گیا جبکہ رہی سہی کسر اخباری مالکان نے پوری کردی جنہوں نے سیکیورٹی اور فیس کے نام پر علاقائی نمائندوں سے لاکھوں روپے بٹور کر ایسے افراد کو بطور صحافی متعارف کروادیا جن میں سے اکثریت کے پاس پیسہ غیر قانونی تھا اور جب ایسے ایسے بے ضمیرے افراد اپنے آپ کو صحافی کہلانا شروع کردینگے تو پھر باقی اداروں کی طرح شعبہ صحافت بھی کسی گہرے کنویں میں جا گرا ہے اب تو ہر اخبار اور ٹی وی چینلز میں بھی گروپ قبضہ کیے ہوئے ہیں میٹرک پاس ایڈیٹر ہے تو ایم اے پاس نوکری کے لیے سفارشیں ڈھونڈ رہا ہے اب بھی لاہور ،کراچی ،فیصل آباد ،پشاور ،کوئٹہ اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں بغیر تنخواہ کے کام کرنے والوں کی بھر مار اور ایسے افراد کو چن چن کر صحافی بھرتی کیا جاتا ہے جو خود کمانا جانتا ہو اور حصہ اوپر بھی پہنچا سکے ایسے افراد کو ہر ادارے اور ہر کلب میں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے کیونکہ وہ کماؤ جو ہوتا ہے اسکے برعکس کام کرنے والے صحافی ہر دور میں اور ہر کسی کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتے ہیں نہ یہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور نہ ہی اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھاتے ہیں اور حکومت بھی ایسے ہی خوش آمدیوں کو نوازتی ہے جو ہر وقت انکی تعریفوں میں لگے رہیں کیونکہ آج صحافیوں کا عالمی دن ہے اسی لیے یہ بات ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ آج کی صحافت ایک بزنس ہے اور جن کے ہاتھوں میں صحافیوں کی ڈور ہے وہ بزنس مین ہیں پاکستانی بزنس مین کبھی بھی گھاٹے کا کام نہیں کرتا اسے نہ تعلیم سے غرض ہوگی نہ کام سے اسے وہ بندہ چاہیے جو اسے کما کردے اسکے ناجائز کاموں کو تحفظ فراہم کرواسکے اور اعلی عہدوں پر بیٹھی ہوئی شخصیات سے انکا تعارف کرواسکے بڑے شہروں میں غربت صحافیوں کی ہڈیوں تک جاپہنچی ہے اور جو چھوٹے شہروں میں لاکھوں روپے دیکر کسی اخبار یا ٹیلی ویژن چینل کی نمائندگی حاصل کرتا ہے اسکا اندازہ پڑھنے والے خود لگالیں کہ وہ کس قسم کی صحافت کریں گے اور کس کس کو بلیک میل کرکے صحافت کا نام روشن کریں گے جس طرح باقی اداروں کا حکومتی سرپرستی میں خانہ خراب ہوچکا ہے اسی طرح شعبہ صحافت اور صحافی حضرات بھی حکومتی بے حسی کا شکار ہیں ایک کام کرنے والے صحافی نے اگر کسی شہر سے اخبار شروع کرنے کی اجازت لینی ہو تو اسے متعلقہ ڈی سی او اجازت دینے میں مہینوں لگا دیتا ہے لیکن یہی کام کسی سرمایہ دار نے کرنا ہوتو اخبار کی اجازت اسکے گھر میں پہنچ جاتی ہے اگر کسی کام کرنے والے صحافی کو حکومتی مدد کی ضرورت پڑ جائے تو حکومت اسے چند ہزار روپے دینے میں مہینے لگا دیتی ہے لیکن یہی کام حکومت اپنے چاہنے والے صحافیوں کو لاکھوں روپے انکے گھر جاکر پہنچا آتی ہے اسی اخبار کو اشتہار دیے جاتے ہیں جو حکومت کی چاپلوسی کرنے میں مگن رہے اور جو عوام کی بات کرے اسکا گلا گھوٹنے کی ہر ممکن کوشش کرکے اسے دبا دیا جاتا ہے حکومت کا کام سب کی مدد کرنا ہے نہ کہ صرف چند افراد کو نوازدیا جائے یہی وجہ ہے کہ آج کا م کرنے والاصحافی ایک مزدور سے بھی بد تر زندگی گذارنے پر مجبور ہے اور جو لوٹ مار میں مصروف ہیں انہیں نہ حکومت کی پرواہ ہے قانون کی اور نہ ہی کسی کی مدد کی وہ گروپ ہر جگہ اور ہر اخبار میں مضبوط ہوتا ہے انہیں کوئی نہیں ہلا سکتا ۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 795 Articles with 518034 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.