سیّد بشیرحسین جعفری-ایک ہمہ جہت شخصیّت

عنوان پرنظرڈالتے ہی کئی احناب کاماتھاٹھنکے گا کہ زیرِ تبصرہ شخصیت توابھی حیات ہیں، ان پرلکھنے کی کیاضرورت آن پڑی اوریہ کہ زیرِ تبصرہ شخصیت اورتبصرہ نگاردونوں ایک دوسرے کے عزیز دکھائی دیتے ہیں۔

آخر یہ ماجرہ کیاہے؟
بات دراصل یہ ہے کہ سیدبشیرحسین جعفری واقعتاً ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں اورآج کل صاحب فراش ہیں۔ یہ توکہنامناسب نہیں کہ چراغ سحری ہیں، لیکن عمرکی اس منزل پر ہیں جہاں انہیں تواس تبصرے کی ضرورت نہیں، البتہ ہمارے قارئین کواس کی ضرورت ہے کہ وہ جان سکیں کہ سیدبشیرحسین جعفری کون ہیں اورکیاکیاکرگزرے ہیں کہ انہیں ہمہ جہت شخصیت کہتے ہوئے فخرمحسوس ہوتاہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی لازم ہے کہ وہ میرے رشتہ دارنہیں، بلکہ علمی بزرگ ضرور ہیں۔ باقی باتیں تبصرے میں ملاحظہ فرمائیے۔

سیدبشیرحسین جعفری ہمہ گیروہمہ جہت شخصیت کیسے ٹھہرتے ہیں؟ اس کے لیے ان کی زندگی پرایک نظرڈالناہوگی:
آپ 15مئی 1934ء کوسابق ریاست پونچھ کی اس وقت کی تحصیل باغ (اب) ضلع کے گاؤں سوہاوہ شریف میں ایک ناموردینی وروحانی خانوادے میں پیداہوئے۔ آپ کے دادا پیرسیدعلی شاہ رحمۃ اﷲ اس دورکے جیّد عالمِ دین اورولّی اﷲ تھے۔ انہیں پیرسوہاوی کے نام سے یادکیاجاتاہے۔ سیدبشیرحسین جعفری کے والد کا نام پیرسیدمحمدایوب شاہ تھا۔ سیدبشیرحسین جعفری کے چھ بھائی اورچاربہنیں ہوئیں۔ ان کے بھائیوں میں پیرسیدمحمدکبیرشاہؒ ایک ولّی اﷲ شخصیت تھے۔ اسی طرح مولانا سیدمظفرحسین ندوی، ندوۃ العلماء (لکھنؤ) میں اُستاد رہے تھے۔ دیگربھائی بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاہوئے۔ سیدبشیر حسین جعفری نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول سیسر(دھیرکوٹ) میں حاصل کی، پھرگورنمنٹ مڈل اسکول دھیرکوٹ اورباغ شہرمیں تعلیم جاری رکھی۔ مقبوضہ پونچھ کے اسلامیہ ہائی اسکول میں زیرِ تعلیم رہے۔ میٹرک راولاکوٹ سے کیا۔ اسلامیہ کالج لاہورسے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی اوراورینٹل کالج لاہورسے ماسٹرز کیا۔

آپ نے اپنے کیرئیر کاآغاز 1958ء میں مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرکے راولپنڈی میں بطوراربن ڈیولپمنٹ آفیسر کے کیا۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، وزارتِ سائنس وٹیکنالوجی کے زیرِ اہتمام پاکستان سائنس فاؤنڈیشن میں خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی آف آزادجموں وکشمیر، الخیریونیورسٹی آزادکشمیر اوردیگر ملکی اداروں سے وابستگی کے ساتھ ساتھ آپ امریکہ اوربرطانیہ سمیت کئی ملکوں میں لیکچر دیتے رہے۔

سیاحت-لیکن علمی آپ کامشغلہ رہا۔ چھ برّاعظموں کے بھرپور دورے کیے۔ لکھنے کا شروع سے ہی شوق تھا، اس لیے ’’سورج میرے پیچھے‘‘ کے نام سے عالمی سفرنامہ لکھا۔ پاکستان اورکشمیر کاکونہ کونہ دیکھا اوراس کے بارے میں لکھا۔ میری ان سے یادگارملاقات مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔ جب عُمرہ اورزیارتِ روضۂ رسولﷺ کے بعد آپ برطانیہ جارہے تھے۔ بشیرحسین جعفری کاایک المیہ یہ رہاہے کہ وہ دنیاکاکونہ کونہ تودیکھ پائے، لیکن اپنے وطن کشمیر کے دوشہر سری نگر اورجموں نہ دیکھ سکے۔ سری نگر مظفرآباد سے 130کلومیٹر دورہے اورجموں کی روشنیاں بھی آزاد کشمیر کے کئی مقامات سے دکھائی دیتی ہیں لیکن یہ حالات کاجبر ہے کہ وہ زندگی کی اس عزیز ترین خواہش کواب تک پوراہوتے نہ دیکھ پائے حال ہی میں ان سے ملاقات ہوئی توآبدیدہ ہوگئے اورکہنے لگے کہ خونی لکیر نے انہیں اپنے وطن کا دوسراحصہ نہ دیکھنے دیا۔ لعنت ہے ایسی کنڑول لائن پر- آبدیدہ آنکھوں سے کہا۔

سیربشیرحسین جعفری مطالعے کی عادت کے آگے مجبورتھے۔ کتابیں اُن کااوڑھنا بچھونابنی رہیں۔ پبلک سروس کمیشن کی پُرآسائش زندگی پر ’’علمی فقیری‘‘ کوترجیح دی اورزرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے وابستہ ہوئے جہاں لائبریری سے بھرپورفائدہ اٹھایا۔ انہوں نے مطالعہ کے ذریعے اپنی علمی استعداد کوبڑھانے کے ساتھ ساتھ تحقیقی اندازمیں سائنسی مقالات، اورمونوگراف لکھناشروع کیے۔ عمومی موضوعات پرساٹھ، ستّر اوراسّی کی دہائیوں میں پاکستان کے تمام اخبارات ہفتہ روزوں اورماہناموں میں بھرپور اندازمیں لکھا۔ اتنالکھاکہ بہت سے لوگ انہیں بشیرحسین جعفری کے بجائے بشیرحسین جن کہنے لگے اس لیے کہ جنّوں کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ کام سے نہیں تھکتے یہ ایک حقیقت ہے کہ صاحب فراش ہونے کے باوجود بشیرحسین جعفری تھکتے نہیں اورلکھتے رہے ہیں۔ اسی لیے انہیں بھی علمی جن سمجھا جاتاہے۔

سیدبشیرحسین جعفری نے اپنی سوانح حیات -’زندہ باد‘ (2002ء)پائندہ باد (2004ء) لکھیں۔ ان میں علی الترتیب 850اور750صفحات ہیں۔ بے شمار تصاویر سے مزیّن یہ کتابیں سیدصاحب کاانسائیکلوپیڈیا کہلاتی ہیں۔ تاہم یہ ان کی ذات کے گردگھومنے کے بجائے پاکستان اورکشمیر کی ایک تاریخ ہیں، تیسری جلد ’’تابندہ باد‘‘ زیرِ ترتیب ہے، لیکن اس میں سری نگر اورجموں کی سیاحت کاتذکرہ نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ برصغیر میں کشمیر وہ واحد بدقسمت خطہ ہے، جس کے باسیوں کوباہم ملنے کی اجازت نہیں۔ آزادکشمیر اورمقبوضہ کشمیر کے مابین بس سروس جاری ہے۔ لیکن سفروہی لوگ کرسکتے ہیں، جن کے رشتہ دار آرپار موجودہوں۔ بشیرحسین جعفری اورمزمل حسین سری نگریاجموں نہیں جاسکتے۔ اس لیے کہ وہاں ہمارے خونی رشتہ دارنہیں، البتہ آزادی کے لیے خون دینے والے بے شمار موجود ہیں، جن میں سیدبشیرحسین جعفری کے ہمسایہ اورراقم کے قریبی دوست بشارت عباسی اوران کے بھائی شامل ہیں اُن کا تعلق اسی گاؤں سیسر سے تھا، جہاں سے سیدبشیرحسین جعفری نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی تھی۔ سیدبشیرحسین جعفری کے المیہ کے ایک اورشریک سردارمحمدعبدالقیوم خان بھی ہیں، جو1947-48ء میں اُبھرے اوراب تک جگمگارہے ہیں۔ سردارصاحب برسراقتدار بھی رہے اورحقیقت یہ ہے کہ وہی برسرِ اقتداررہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے فرزندِ ارجمند نے ان کا قرض اُتاردیاہے اوراپنے والد گرامی قدرکی لمبے عرصے تک برسراقتداررہنے والی جماعت کوحقیقی معنوں میں تانگہ پارٹی نہیں تو چنگ چی پارٹی ضروربنادیاہے۔

سیدبشیرحسین جعفری تاریخ نویسی بھی کرتے رہے۔ 1947-48ء کی جنگِ آزادی کواپنا موضوع بنایااور1971ء تک قربانیاں دینے والوں کی داستان ’’تذکرۂ جنگِ آزادیٔ کشمیر‘‘ لکھا۔ اس کے علاوہ تاریخ حکومت آزاد ریاست جموں وکشمیر، تاریخِ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اورتاریخ سُدھن قبیلۂ آزادکشمیر بھی آپ کے نمایاں مطبوعہ کام ہیں۔ اپنی ذاتی سوانح عُمریوں کے علاوہ آپ نے مشاہیر کشمیر کے بارے میں اورپیرسید محمد کبیرشاہ مرحوم کے بارے میں بھی خوب لکھا۔

راقم کوپڑھنے کا’’مرض‘‘ جی ہاں ’’مرض‘‘ میٹرک سے ہی لاحق ہوگیاتھا۔ اس لیے کہ میری اہلیہ غزالہ یاسمین مجھے ’’مریض‘‘ قراردیتی ہیں۔ میں نے بار ہاغزالہ کوسمجھایا کہ میں کیاکروں، میٹرک سے ہی اس مرض میں مبتلا ہوگیاتھا۔ میٹرک میں تھاتوگورنمنٹ ہائی اسکول چمن کوٹ کی جانب سے رسالہ ’’چمن‘‘ اور’’باغبان‘‘ شائع ہواکرتے تھے۔ جن میں سیدبشیرحسین جعفری کے مضامین پڑھاکرتاتھا۔ اس وقت یہ بھی معلوم نہ تھا کہ سیدبشیرحسین جعفری کہیں دوردراز کے مستنصرحسین تارڑ نہیں، بلکہ چمن کوٹ سے زیادہ سے زیادہ 15کلومیٹر دورکے رہنے والے ہیں۔ الغرض دن گزرتے رہے اورراقم بشیرجعفری کے سحر میں گرفتارہوتارہا۔ 16سال تک وہ ماہنامہ ’’بصیرت‘‘ نکالتے رہے اوراس عرصے میں وہ میرے اُستاد رہے۔ اس میں شک نہیں کہ میرے فوری اساتذہ سردارمحمدمطیع اﷲ خان مرحوم، مستری کالامرحوم اورپروفیسر محمد یعقوب شاہق تھے، لیکن مطالعے کاوائرس پھیلانے میں حقیقی کردارسیدبشیرحسین جعفری کاتھا۔ بشیرحسین جعفری کی کتابوں کے مطالعے سے جونتیجہ مرتب ہوتاہے وہ یہ ہے کہ افرادہوں یااقوام-محنت اورمسلسل محنت ہی کامیابی کی جانب لے جاتی ہے۔ افرادکے لیے وہ مسلسل مطالعے کولازم قراردیتے ہیں تاکہ وہ دنیاکی رفتارسے ہم آہنگ رہ سکیں۔

اﷲ تعالیٰ سیدبشیرحسین جعفری کولمبی عمر عطافرمائے۔ ان کا سایہ ہمیشہ ہم پرقائم ودائم رہے۔ سیدبشیرحسین جعفری کے نام کے لاحقے ’’جعفری‘‘ سے کسی کوغلط فہمی یاخوش فہمی نہ ہو۔ سیدبشیرحسین جعفری پتہ نہیں کیوں اپنے نام کے ساتھ یہ لاحقہ لگابیٹھے۔ پکّا حنفی، دیوبندی اورندوی گھرانا جعفری بھی کہلائے توکتناحسین امتزاج ہوگا، یہ اس زمانے کے لوگ ہیں، جب لوگ لاحقے اورسابقے شناخت کے لیے لگایاکرتے تھے، تفاخروتعصّب کے لیے نہیں، رئیس احمدجعفری کودیکھ لیجئے، وہ کوئی ذاکرتونہ تھے۔ اسی طرح سیدبشرحسین جعفری بھی ’روایتی ذاکر‘نہیں، بلکہ سرمایۂ ملّت ہیں۔ راقم کوسیدبشیرحسین جعفری کافکری شاگردہونے پرفخر ہے۔ اسی لیے کبھی جعفری کالاحقہ لگایاتھا، لیکن محسوس ہواکہ نئے زمانے میں پرانے زمانے کی باتیں مناسب نہیں۔ سیداحمدشاہ گردیزی مرحوم نے تذکرۂ سادات گردیزیہ جعفریہ لکھاتو آغاز میں رسوم ورواج کے خلاف مولانا احمد علی لاہوری کی تحریر شامل کی، جواُنہوں نے لاہورجاکر1923ء میں اُن سے حاصل کی تھی۔ مولانااحمدعلی لاہوری نے سیّد احمدشاہ گردیزی کے جعفری ہونے پراعتراض نہ کیاتھا، اس زمانے کے علماء دلوں کوفتح کیاکرتے تھے لوگوں کے سروں کونہیں جھکاتے تھے۔
Syed Muzamil Hussain
About the Author: Syed Muzamil Hussain Read More Articles by Syed Muzamil Hussain: 41 Articles with 62217 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.