عطائے رسول خواجہ معین ا لدین چشتی کے صوفیانہ ارشادات اور عہد جدید کے مسائل کا حل

اﷲعز و جل کے مخصوص بندوں میں صوفیا کرام کی جماعت بڑی عظمتوں کی حامل اور خدا رسیدہ جماعت ہے جس نے خلق خدا کو اپنے علم و فن ، زہد تقویٰ ، خلوص و ﷲیت اور دینداری سے اعلائے کلمۃ ا ﷲ کا مقدس فریضہ انجام دیا ۔ اور اپنی بے پناہ خدا داد صلاحیت و لیاقت کی بدولت توہمات اور بت پرستی میں مبتلا قوموں کو اسلامی توحید و رسالت کے سانچے میں ڈھال کر ہر چہار سو اسلام کا جھنڈا بلند کردیا ۔ جس کی بدولت عالم عرب عموماً اور برصغیر ہند و پاک خصوصاً اسلام کی دولت سے مالا مال ہوگیا ۔ اس گروہ نے مذہب و ملت کی پرواہ کئے بغیر محض انسانیت اور خدا پرستی کی بنیادپر سسکتی ہوئی انسانیت کی فریاد رسی کی ۔انسانی سماج اور معاشرے میں امن و آشتی اور بھائی چارگی کا ماحول برپا کیا ان ہی گروہ اصفیا میں خانوادۂ چشت کے فرد فرید جامع شریعت وطریقت عطائے رسول ، سلطان ا لہند خواجہ خواجگاں خواجہ معین ا لدین چشتی اجمیری ( متوفی 6رجب ا لمرجب 633ء) کی شان وا لا ستودہ صفات بڑی اہمیت و عظمت کی حامل اور نہایت ارفع و اعلی ہے۔آپ ولایت و بزرگی کے مقام عظمیٰ پر فائز ہیں۔ برصغیر ہندو پاک میں آپ نے مذہب و ملت کی پرواہ کئے بغیر محض انسانیت اور خدا پرستی کی بنیادپر سسکتی ہوئی انسانیت کی فریاد رسی کی ۔انسانی سماج اور معاشرے میں امن و آشتی اور بھائی چارگی کا ماحول برپا کیا۔ آپ خدا اور اس کے رسول ﷺ کی سچی محبت سے آراستہ تھے جو تصوف اور معرفت خدا وندی کی حقیقت سے اپنے پیر و مرشدخواجہ عثمان ہارونی کی زیر تربیت سیراب ہوئے اور خلق خدا کو اپنے علم و فن ، زہد تقویٰ ، خلوص و ﷲیت اور دینداری سے اعلائے کلمۃ ا ﷲ کا مقدس فریضہ انجام دیا ۔ اور اپنی بے پناہ خدا داد صلاحیت و لیاقت کی بدولت توہمات اور بت پرستی میں مبتلا قوموں کو اسلامی توحید و رسالت کے سانچے میں ڈھال دیا اور ہر چہار سو اسلام کا جھنڈا بلند کردیا ۔ جس کی بدولت قریب نوے لاکھ غیر مسلموں کو اسلام کی دولت سے مالا مال کیا ۔جس سے بر صغیر کا چپہ چپہ گونج اٹھا ۔

آپ کے لب ہائے نازنیں سے نکلے ہوئے کلمات قدسی عام لوگوں کے ہزاروں وعظ و تذکیر سے افضل ہوا کرتے ۔ کیوں کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے کے مصداق آپ کے ارشادات دل سے نکلتے اس لئے دل میں اثر کرتے ۔ مفہوم کا عطر ہواکرتے ۔ظاہر و باطن کو محیط ہوتے ۔ عمومیت کے ساتھ خصوصیت بھی رکھتے ۔ ہر قول قرآن و حدیث کا ترجمان ہوتا۔ اسلامی و عرفانی جامع شریعت و طریقت میں ڈوبے ہوئے آپ کے صوفیانہ ارشادات و اقوال آج بھی امت مسلمہ کے فلاح و بہبود کے لے مشعل راہ اور عہد جدید کے مسائل کا حل اور مداوا کرتے نظر آتے ہیں اورخصوصاً آج کے اس پرفتن دور میں جب کہ ’’ہم چو من دیگرے نیست ‘‘ کا ماحو برپا ہے۔ کوئی کسی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اسلام کے نام پر جنم لینے والی شدت پسندانہ نظریات کی حامل جماعتیں، صوفیا کرام کی خدمات اور ان کے اقوال و ارشادات کو گمرہی اور بے دینی بتانے میں لگی ہے ایسے وقت میں صوفیا کرام کے تصوف اور ان کے افکار و نظریات اور ان کے اقوال و ارشادات کی روشنی میں عہد جدید کے مسائل کا حل تلاش کرنا اور صوفیا کرام کے ’’احسان نا سناش ‘‘ کو مثبت پیغام دینا ہے کہ صوفیا کرام کے ارشادات صرف ان کے زمانے تک کے لئے ہی نہیں تھے بلکہ ہردور اور ہرزمانے میں امت مسلمہ سمیت پوری انسانیت کے لئے رہنما اصول ہیں ۔گو یا ہم تو مائل با کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں راہ د کھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں

’’آمدم بر سر مطلب ‘‘عہد جدید کے مسائل تین طرح کے ہیں‘‘ ایک تو پوری نوع انسانی سے وابستہ ہیں دوسرے بنام مسلمان فرقوں اور گروہوں سے اور تیسرے چرند پرند اور ماحولیات سے اور اگر حقیقت پوچھو تو تیسرا مسئلہ پہلے ہی مسئلہ سے جڑا ہوا ہے ۔ اس لحاظ سے عہد جدید (موجودہ دنیا ) پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو فرزندان آدم سمیت روئے زمین پر بسنے والی ہزاروں مخلوق کسی نہ کسی پریشانی سے دوچار ہے عالمی سطح پر حضرت انسان کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں سب سے بڑا مسئلہ کمیونز م (خدا بے زاری اوردہریہ پن اور بے دینی) ہے ۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر پانچ لوگوں میں ایک خدا بے زاری ذہنیت کا حامل شخص ہے اس’’ دہریہ مزاج ‘‘نے انسانوں کو مادہ پرستی اور دنیا کی ہمیشگی کا ذہن دے کر انہیں جرائم کرنے اور گناہ کرنے پر جری بنادیا اور اگر حقیقت پوچھو تو اس نظریہ کی وجہ سے کثرت کے ساتھ مسائل پیدا ہوئے ۔ مرد کا مرد سے عورت کا عورت سے جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے باہم رضا مندی سے شادی کرنا ۔ جوا بازی ،شراب نوشی ، ہیروئن ، چرس ، گانجہ اور دیگرمہلک نشیلی داؤں کا کثرت سے مرد و زن کا استعمال کرنا۔ ان مسائل کی وجہ سے یومیہ اربوں روپے ضائع اور برباد ہوتے ہیں اور مخصوص ایام مثلاً انگریزی نئے سال کی آمد ، اپریل فول یا آئی پی ایل یا ورلڈ کپ جیسے کھیل کود کے مواقع اور اب تو الیکشن م میں پارٹی کی جیت اور ہار کے اعلان پر کئی ہزار کرور روپے سٹہ بازی اور شراب نوشی وغیرہ میں پانی کی طرح بہایا جاتا ہے(حالانکہ ان کثیر سرمایہ کا صحیح مصرف میں اگر استعمال کیا جائے تو انسانیت کا بڑا فائدہو)مرد و عورت میں جنسی بے راہ روی برپا کرنے والی انٹر نیٹ پر موجودفحش اور گندی فلمیں (جس نے انسانی شرافت کا لبادہ لوگوں سے اتار کر انہیں عریاں اور بے حیا بنا دیا)زنا کاری اور بدکاری کا کثرت سے ہونا ، عورتوں کی بڑھ رہی روز افزوں عصمت دری ، اظہار رائے کی آزادی کے نام پر دوسرے مذاہب اور ان کے پیشواؤں کے ساتھ کھیلواڑ کر کے ان کے ماننے والوں کے جذبات کا استحصا ل کرنا ، بوڑھے ماں باپ کے ساتھ’’ نہایت وحشیانہ ‘‘ طریقہ کار اختیاکرتے ہوئے انہیں ان کے ہی’’ آشیانہ ‘‘سے بے دخل کردینا، نابالغ بچے اور بچیوں کو تعلیم دلوانے کے بجائے انہیں کام کاج پر لگانا ، بہت سے ممالک میں اولاد آدم کا بھکمری کا شکار ہونا ، مظلوم اور مجبور مثلاً فلسطین اور برما کے لوگوں کی مدد نہ کرنا ، ظالم اور طاغوتی طاقتوں مثلاً صیہونی حکومت اسرائیل کی یورپین ممالک کا مدد کرنا ،عالمی سطح پر روز افزوں نیو کلیائی ہتیاروں کی دوڑ میں ایک دوسرے ملک کو پیچھے چھوڑنے کی سعی کرنا اور اس سے خارج ہورہے ہلاکت خیز تابکاری مادوں کا خارج ہونا اور اس سے انسانوں ،دیگر جانداروں اور ماحولیات پر مرتب ہورہے برے اثرات سے عالمی رہنماؤں کا غافل اور بے پرواہ ہونا اور اس کے تدارک کے لئے سنجیدہ کوششیں نہ کرنا ،مفلسی اور محتاجی کے خوف سے شکم مادر میں جنین (بچے اور بچیوں) کا قتل کرنا اور حقیقت حال کی تفتیش کئے بغیر میڈیا اور دیگرلوگوں کے پروپیگنڈہ کا شکا ر ہونا ، وغیرہ اہم مسائل ہیں۔’’تن ہمہ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم‘‘

مسلمانوں سے وابستہ مسائل :: مذکورہ بالا بہت سے مسائل کے ساتھ ہی مسلمانوں کا ذاتی دنیوی مفاد کے حصول کے لئے بے دینی اختیار کرنا اور دوسروں کی عزت کے پرخچے اڑانا ، اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے حقائق کو توڑ مروڑ کر ایک دوسرے کے سامنے پیش کرنا ،مسلمانوں کا اپنے مسائل کا شرعی حل تلاش کر کرنے کے بجائے انہیں کورٹ اور عدالتوں میں کثرت سے پیش کر کے اپنے مال و دولت اوذہنی سکون کو ضائع اور برباد کرنا ، مکر و فریب ، دھوکہ دہی ، باہمی حسد اور جلن کا ہوناجھوٹ وعدہ خلافی ’’مدارس اسلامیہ اور دیگر محکمے میں رشوت خوری کو گناہ نہ سمجھنا ، چودہ سو سالہ درست اسلامی عقائد و نظریات سے برگشتہ ہوکر مسلمانوں کا کثرت کے ساتھ فرقوں اور گروہوں میں منقسم ہونا ، بنام مسلمان مسلم حکمرانوں کا کتاب و سنت کے فرمان کو چھوڑ کریہود و نصاریٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا، ،وہابیت ،قادیانیت اور بنام مسلمان اسلام مخالف فرقوں کا اسلام کے مسلمہ عقائد و نظریات کے خلاف تحریک چلا کر یہود و نصاریٰ کے اسلام مخالف مشن کی تکمیل کرنا ، ہندوستان میں آر ایس ایس اور فرقہ پرست بی جی پی پارٹیوں کامسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ نظریات اور فرقہ وارانہ ماحول برپا کرنا ، ان کی مستند تاریخوں کو توڑ مروڑ کر نصابی کتابوں میں شامل کرنا اور انہیں درسگاہوں اور پاٹھ شالاؤں میں پڑھانا حکومت ہند کا اس کے خلاف کارراوائی نہ کرنا،ہندوستان سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا، اور انہیں صیہونی آلہ کار دہشت گرد تنظیم القاعدہ ، طالبان ، لشکر طیبہ ، لشکر جھنگوی ، انصار ا لسنہ اور (فرضی تنظیم) انڈین مجاہدین وغیرہ جیسی شدت پسند تنظیموں سے جوڑنے کی ناپاک کوششیں کرنا ، ان دہشت گرد تنظیموں کا اپنے دہشت پسندانہ عقائد و نظریا ت اور دہشت گردانہ فکر و عمل کو اسلام سے موسوم کرنا اور اس جیسے سیکڑوں مسائل ’’عہد جدید‘‘ کے پیداوار ہیں جن سے مسلمانوں سمیت قریب پوری نوع انسانی متاثر ہے۔ گویا ۔۔ ایک ہنگامہ محشر ہو تو اس کو روؤں سیکڑوں زخم کا رہ رہ کے خیال آتا ہے ۔

صوفیا کرام کی بتائی ہوئی درست اسلامی باتوں پر پوری ’’نوع انسانی‘‘ اگر توجہ دے تو’’عہد جدید کے مسائل ‘‘کا حل ان گروہ صوفیا کے تصوف سے معمور اقوال کی روشنی میں تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ برصغیر کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں کہ ’’اﷲ پاک کے نزدیک جو چیزیں مبغوض اور ناپسندیدہ ہیں اس چیز سے نفرت رکھنا ضروی ہے ‘‘ اس قول کی روشنی میں دیکھیں تو ا ﷲ رب ا لعزت نے بنی نوع انسان کو اپنی ناپسند چیزوں کو ترک کرنے کا حکم دیامثلا دنیا کو ہمیشگی کی جگہ تصور کرکے برائیوں میں ملوث ہونے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ’’ اﷲ پاک ‘‘ کے سوا ہر چیز فانی ہے (سور رحمٰن آیت 36) اورہر چیزکا حساب اس کی بارگاہ میں لیا جائے گا ( سورہ انعام آیت 31تا32 ) لہذا جزا اور سزا سے بے فکرہو کر ’’دہریہ مزاج ‘‘مت ہوجاؤ) ً’’شراب نوشی ، جوابازی اور سٹہ بازی سے منع فرماتے ہوئے اسے بڑا گناہ بتایا(سورہ بقرہ آیت 219)، ہیروئن ، چرس ، گانجہ اور دیگرمہلک نشیلی داؤں کااستعمال اور دیگر’’ ہلاکت خیز ‘‘چیزیں اپنا کراپنے کو ہلاکت میں ڈالنے سے بھی منع کرتے ہوئے ’’لا تلقوبایدیکم الی ا لتھلکۃ‘‘ فرمایا۔ زنا کاری اور بدکاری کو کثرت سے فروغ دینے والی چیزیں مثلاً عورتوں کی بڑھ رہی روز افزوں عصمت دری اورمرد و عورت میں جنسی بے راہ روی برپا کرنے والے ذرائع کا سد باب کرتے ہوئے ان اسباب کے قریب جانے سے منع فرمایا (سورۂ بنی اسرائیل آیت32) مرد و عورت کو نظروں کی حفاظت کرنے ، عورتوں کو اپنے بناؤں سنگار کو اجنبی غیر محرم کے سامنے ظاہر نہ کرنے کا حکم دیا( سورہ نور آیت 31؍32) اور نہ ماننے کی صورت میں زنا کاری کے مرتکب کے لئے سخت سزا تجویز کی (سورہ نور آیت 2) عالمی سطح پر سپر پاور حکومتوں کا انسان اور دیگر جانداروں کی ہلاکت کا سامان تیار کر نے پر بتا یا کہ انسان کا قتل ناحق پوری انسانیت کا قتل ہے (سورہ المائدہ آیت 32 ) اس لئے انسانی ہلاکتوں کے ہتیار تیار کرنے سے عالمی طاقتوں کو باز رہنا چاہئے،مفلسی اور محتاجی کے خوف سے شکم مادر میں جنین (بچے اور بچیوں) کا قتل کرنے سے منع کرتے ہوئے اسے بڑا گناہ بتایا اور بتا یا کہ رزق کی ذمہ داری ہمارے ہی رحم و کرم پرہے(سورہ بنی اسرائیل آیت 31)

اظہار رائے کی آزادی کے نام پر دوسرے مذاہب اور ان کے پیشواؤں کے ساتھ کھیلواڑ کر کے ان کے ماننے والوں کے جذبات کا استحصا ل کرنے والے مزاج پر قدغن لگاتے ہوئے فرمایا کہ سبھی انسان ایک آدم اور ایک حوا کے بیٹے ہیں (سورہ حجرات آیت 13)توایک دوسرے کا مذاق اڑانا کیسا ؟ اور اگر ہم ان کیساتھ ’’غیرشریفانہ ‘‘ سلوک اختیار کرتے ہیں تو وہ ہمارے حقیقی معبود اﷲ پاک ،سچے انبیا اور اولیا کرام کا بھی مذاق اڑائیں گے جو ہمارے لئے نہایت ہی تکلیف دہ بات ہو گی اس لئے لا تسبوا لذین یدعون من دون ا ﷲ فیسبو ا ا ﷲ عدواً بغیر علم‘‘ فرمایا ۔ والدین کے ساتھ اچھا اور بہتر سلوک کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان کے بڑھاپے کا سہارا بننے کا حکم دیا (سورہ بنی اسرائیل آیت 24) حقیقت حال کی تفتیش کئے بغیر میڈیا یا دیگر لوگوں کے پروپیگنڈہ کا شکا ر ہونے اور حقیقت حال کی تفتیش کرنے کا حکم دیا(سورہ حجرات آیت 6) ، نابالغ بچے اور بچیوں کو تعلیم دلوانے کے بجائے انہیں کام کاج پر لگانے سے منع کرتے ہوئے انہیں رب کی طرف سے آزامائش بتا یا(سورہ انفال آیت 28)کہ اب تم ان کی بہترین تعلیم و تربیت کر کے اس آزمائش میں کھرے اترتے ہو یا نہیں؟ اگر کھرے اتروگے تو تمہیں انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔عطائے رسول سلطان ا لہند غریب نواز فرماتے ہیں کہ ’’غریب اور محتاجوں کوپیٹ بھر کھانا کھلانا ، غربا کی فریاد سننا اور حاجت روائی کرنا ، درماندوں کی دستگیر ی کرنا عذاب دوزخ سے بچنے کی بہترین تدابیر ہیں‘‘ جدید دنیا میں بسنے والے عالمی رہنما اور سیاسی سماجی لوگ اگر آپ کے اس قول کو اپنا لیں تو میں سمجھتا ہوں کہ دنیا سے بھکمری اور ظلم و سرکشی کا خاتمہ ہوجائے گا اور ظالم اور طاغوتی طاقتوں پر لگام کسنے میں آسانی ہوگی اور اس طرح ایک پر امن ماحول ہندوستان سمیت عالمی سطح پر قائم کیا جاسکتا ہے ۔

مسلمانوں سے وابستہ مسائل کا حل :: سلطان ا لہندغریب نواز فرماتے ہیں کہ ’’نیکوں کی صحبت نیک کام سے بہتر ہے ( کیوں کہ نیکوں کی بارگاہ سے نیکی کرنے کا سلیقہ ملتا ہے ) اور بدوں کی صحبت بد کام ( برے کام)سے بد تر ہے۔( کیوں کہ ان کی صحبت سے گناہوں پر جرات پیدا ہوتی ہے ) آپ کے اس قول کی روشنی میں مذکورہ بالا بہت سے مسائل کے ساتھ ہی مسلمان ابنائے اوطن اور مغربی کلچر جیسی ذہنیت رکھنے والوں کے دنیوی معاملات کے طرز عمل سے الگ ہٹ کر اپنے مسائل کا شرعی حل ’’قرآن و حدیث اور اقوال فقہا ‘‘کی روشنی میں اہل سنت کے ’’دارا الافتا مجلس شرعی‘‘ یا دیگر مستند دارالافتا و غیرہ سے حاصل کرسکتے ہیں اور مسلمان کی شان بھی ہے کہ وہ اپنے معاملات کے حل کے لئے اﷲ اور اس کے رسول کے فیصلے کو مانتے ہیں( سورہ نساآیت 65) اور اس طرح ان کا بہت سا مال و منال اور ذہنی سکون و اطمینان ضائع اور برباد ہونے سے محفوظ رہ سکتا ہے )، مکر و فریب ، دھوکہ دہی ، باہمی حسد ، جلن ،جھوٹ وعدہ خلافی اور’’مدارس اسلامیہ اور دیگر محکمے میں رشوت خوری کے ماحول پر بھی اچھے لوگوں کی روش اپنا کرکنٹرول کیا جاسکتا ہے اور اسی وجہ سے اچھے لوگوں کے ساتھ رہنے کا حکم بھی ہے (سورہ توبہ ،آیت 19) اور برے لوگوں کا یہ طریقہ بھی چھوڑا جاسکتا ہے جس سے ذاتی دنیوی مفاد کے حصول کے لئے بے دینی اختیار کی جائے ، دوسروں کی عزت کے پرخچے اڑائے جائے ، اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے حقائق کو توڑ مروڑ کر ایک دوسرے کے سامنے پیش کیا جائے کیوں کہ فرمان غریب نواز ہے کہ ’’کسی شخص کو اس کا گناہ اتنا نقصان نہیں پہونچاتا جتنا نقصان اپنے مسلمان بھائی کو ذلیل و خوار کرنے سے ہوتا ہے ‘‘۔ ، یہودو نصاریٰ کی بری صحبت بھی مسلم حکمراں چھوڑ کر کتاب و سنت کے فرمان کے مطابق اپنی حکمرانی قائم کر سکتے ہیں اور یہودو و نصاریٰ کی غلامی سے آزادی حاصل کرکے ملت کے بہت سے مسائل حل کر سکتے ہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب یہودو نصاریٰ کی بری دوستی سے’’مسلم حکمراں ‘‘خدائی حکم کے مطابق دست بردار ہوجائیں (سورہ مائدہ ،آیت 51)با لواسطہ یہود و نصاریٰ کے اسلام مخالف مشن کی تکمیل میں مصروف وہابیت ،قادیانیت اوربنام مسلمان باطل جماعتوں کا اسلام کے مسلمہ عقائد و نظریات کے خلاف تحریک چلانا، چودہ سو سالہ درست اسلامی عقائد و نظریات سے برگشتہ ہوکر مسلمانوں کا کثرت کے ساتھ فرقوں اور گروہوں میں منقسم کرنا بھی مغرب پرستوں کی صحبت مال و منال کا شاخسانہ ہے جس سے اجتناب کر نے اور اپنے عقائد باطلہ اور شدت پسندانہ عقائد و نظریات سے دست بردار ہوکر امت ایک امت ہو سکتی ہے اور اس کی بدولت ہندوستان میں آر ایس ایس اور فرقہ پرست بی جی پی پارٹیوں کامسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ نظریات اور فرقہ وارانہ ماحول برپا کرنے ، ان کی مستند تاریخوں کو توڑ مروڑ کر نصابی کتابوں میں شامل کرنے اور انہیں درسگاہوں اور پاٹھ شالاؤں میں پڑھانے اور حکومت ہند کا اس کے خلاف کارراوائی نہ کرنے جیسے معاملات پر قدغن لگا کر مسلمانوں کے جان و مال کا تحفظ کیا جا سکتا ہے ،ہندوستان سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا، اور انہیں دہشت گردانہ فکر و نظر کی حامل صیہونی آلہ کار دہشت گرد تنظیم القاعدہ ، طالبان ، لشکر طیبہ ، لشکر جھنگوی ، انصار ا لسنہ اور (فرضی تنظیم) انڈین مجاہدین وغیرہ جیسی شدت پسند تنظیموں سے جوڑنے کی کوششیں بھی نا کام کی جاسکتی ہیں۔بشرطیکہ ’’غریب نواز‘‘ کے اس فرمان ’’ جاہلوں سے دور رہنا ، باطل کو ترک کرنا ( خدا و رسول کے ) منکروں سے روگردانی کرنا ) محبوب( اﷲ اور اس کے رسول ) سے محبت رکھنا ،خیرات کرنا ، توبہ کو درست کرنا ، اور مظالم کو رد کرنا قبول توبہ کے لئے اہمیت رکھتے ہیں‘‘ کو اختیار کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیموں کا اپنے دہشت پسندانہ عقائد و نظریا ت سے توبہ کرکے اپنے دہشت گردانہ فکر و عمل کو اسلام سے موسوم کرنے کا طریقہ چھوڑنا ہو گا اور مسلمانوں کو عالمی سطح پر اپنے کردارو عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ اگر کوئی’’دہشت گردانہ فکر و عمل کا طرز عمل اختیار کرتا ہے تو مسلمان اس کے مظالم کو رد کرتے ہیں اور صوفیا کرام کے تصوف بھرے ’’امن و شانتی کے ماحول‘‘ کو دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں اور عہد جدید کے مسائل ان کے تصوفانہ مزاج کی روشنی میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بشرطیکہ دنیا اسے تسلیم کرلے۔

Md Arif Hussain
About the Author: Md Arif Hussain Read More Articles by Md Arif Hussain: 32 Articles with 58474 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.