تعطیلات

جرمنی کے معروف ویکلی میگزین فوکس (Focus) نے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سالانہ تعطیلات کے لئے دنیا کے کن مما لک میں سیفٹی ہے اور کون سے خطے خطر ناک قرار دئے گئے ہیں ، ان کا کہنا ہے اگر آپ تعطیلات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو پہلے نقشہ پر دنیا کے تمام ممالک پر ایک نظر ڈالیں کہ کن ممالک میں سفر کرنا مفید ہے اور کون سا ملک خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے ۔ دنیا کے ہر ملک اور خطے کی خوبصورتی مختلف محرکات اور انفرادیت سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں تاہم کئی ممالک خطرات اور موت کا سبب بن سکتے ہیں۔

دوہزار چودہ میں کس ملک میں تعطیلات منائی جائیں ؟

اس سوال کا جواب لندن کے رِسک مینیجمنٹ انسٹی ٹیوٹ نے مشاورت کے بعد دنیا کے تمام ممالک کی لسٹ جاری کی ہے جس میں پانچ سطحوں پر تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کون سا ملک انتہائی خطر ناک ہے کس میں کم خطرہ یا کس ملک میں جرائم کی سطح کم ہے ۔ گزشتہ سال کی طرح دو ہزار چودہ میں بھی دنیا کے سات ممالک کو انتہائی خطر ناک قرار دیا گیا جن میں وسطی افریقی صومالیہ ، افغانستان ، شام ، عراق ، سوڈان کا علاقہ دارفور اور داغستان جہاں گزشتہ سال بار بار دہشت گردوں نے حملے کئے اور فوج تعینات کی گئی سر فہرست ہیں ۔ رِ سک مینیجمنٹ کنسلٹ کے تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق وسطی افریقی ممالک میں سیکیورٹی ہونے کے باوجود سیاسی کون فلکٹ کی وجہ سے خطرہ ہے ، ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے سکینڈے نیوین ممالک ، مونا کو ، لکسمبرگ ، سلو وینیا اور سوئیٹزر لینڈ میں کم خطرہ اور رِسک ہے جبکہ کیریبک کے جزائر انگویلا ، بر مودا ، ڈومینیکا ، بر طانوی ورجن جزائر ترک وغیرہ خطرے سے محفوظ ہیں ۔ فی الحال چیک ری پبلک میں خطرہ ہے کیوں کہ سیاسی صورتِ حال غیر مستحکم اور کرپشن سکینڈلز کے واقعات سامنے آئے ہیں ، دو ہزار تیرہ میں ترکی احتجاجی مظاہروں کے باوجود نئے رِسک میپ سے باہر ہے لیکن دوسری طرف روس کے چند ممالک میں دوبارہ خطرے کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ افریفا کے کم خطرات والے ممالک موریشس ، کیپ وردے ، بوٹسوانا اور نامبیا کے نام لئے گئے ہیں ۔ لاطینی امریکا کونٹی نینٹ میں ارجنٹائن ، بولیویا ، ہیٹی ، نکاراگووا ، ایکوا ڈور اور وینیز ویلا سیاسی خطرات کی وجہ سے غیر محفوظ ممالک ہیں البتہ ورلڈ کپ کی وجہ سے برازیل میں کم خطرہ ہے ۔ ایشین پیسیفک کے علاقے بھوٹان ، برونائی ، جاپان ، نیوزی لینڈ ، نیو کیلی ڈونیا ، سنگا پور ، جنوبی کوریا ، تائیوان اور ٹونگا جیسے ممالک میں اعتماد سے سفر کیا جا سکتا ہے ۔ اغواہ کے خطرات بھارت ، نائیجیر یا ، پاکستان ، لبنان ، فلپا ئن ، کولمبیا اور میکسیکو میں ہیں ۔

سیاست ، مذہب ، انسانی حقوق ، صحت ، تہذیب ، سفر ، سماجی مسائل ،سیفٹی ، خواتین ، اطفال غرض یہ کہ دنیا بھر میں کوئی بھی ادارہ ، انسٹی ٹیوٹ یا اور گنائزیشن جب بھی کسی موضو ع پر ریسرچ کرتے ہیں تو پاکستان کو اس میں ضرور شامل کیا جاتا ہے اور ہمیشہ سے ان اداروں کا طرہ رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ منفی مارکس دئے جائیں بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے ، پاکستان کو ان اداروں سے یہ توقعات نہیں رکھنی چاہیئں کہ ہمیں تنقید کا نشانہ نہیں بنائیں گے علاوہ ازیں حقائق سے منہ موڑنا جہالت میں شمار ہو تا ہے ، اوپر بیان کئے گئے ان چند مسائل کے علاوہ پاکستان کے ہر گھر میں ختم نہ ہونے والے ایسے ایسے بے مقصد اور بے معنی فیملی مسائل ہیں جن سے یہ بیرونی ادارے ناواقف ہیں مثلاً ساس بہو کا جھگڑا ، نند بھابی تکرار زمین کے ٹکڑے پر بھائی بھائی کا قتل وغیرہ وغیرہ۔پاکستان کے ان مسائل کو کوئی ادارہ نہ تو کسی رینکنگ لسٹ ، کتاب اور نہ ہی ویب سائٹ پر بیان یا تحریر کرے گا کیونکہ ان مسائل کا حل دنیا کی کسی کتاب میں موجود نہیں یہ خود کی پیدا وار ہیں جو پاکستان کو ورثے میں ملے ہیں اور نسل در نسل شریانوں میں گردش کر رہے ہیں یہ قوم رہتی دنیا تک ان سے نجات حاصل نہیں کر سکتی ان مسائل کے حل کے لئے کسی قانونی یا مذہبی کتاب کی رہنمائی کی ضرورت نہیں بلکہ قوم میں احساس ، اخلاق ، پیار ، ایثار ، ہمدردی اور برداشت کی ضرورت ہے جو ان میں نہیں ہے۔ اس قوم نے اگر آنے والے وقتوں میں اپنے آپ کو تبدیل نہ کیا تو یہ ادارے ہر چھ ماہ اور سال بعد اس ملک کی رینکنگ لسٹ میں مزید اضافہ کرتے رہیں گے اور ایک دن گھٹیا ترین ملک قرار دے دیں گے تب یہ قوم اپنے ان دقیا نوسی رسم و رواج کو گلے لگائے روتی رہے گی اور ان کی آہ وبکا سننے والا کوئی نہیں ہو گا۔

پاکستان کے چاروں صوبوں میں ایسے ایسے خزانے موجود ہیں کہ دنیا کا ہر انسان انہیں دیکھنا پسند کرے گا پشاور سے کراچی تک چپہ چپہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن جب تک اسے سنوارا نکھارا نہیں جائے گا سیاح تو کیا اپنے ملک کا با شندہ بھی اسے دیکھنا پسند نہیں کرے گا حکومتیں صرف کاغان پر ہی توجہ دیں تو لوگ سوئس اور کشمیر کو بھول جائیں ۔

سوال یہ ہے کہ آج تک کسی حکومت کے پاس اتنا وقت ہوا کہ وہ ملک اور قوم کے بارے میں کچھ سوچے۔؟؟؟

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 230821 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.