انسان طبعی اور فطری طور پر اختلاط پسند واقع ہوا ہے ، یہ
میل جول اور کنبہ وبرادری اور عائلی ومعاشرتی زندگی کا عادی ہوتا ہے ، یہی
وجہ ہے کہ اسے ’’معاشرتی حیوان ‘‘بھی کہا جاتا ہے ، یہ معاشرے اور کنبے
وخاندان سے کٹ کر زندگی بسر نہیں کرسکتا، انسان کو اس کی پیدائش سے لے کر
اس کی زندگی کے آخری لمحات تک مختلف طریقے سے تعلقات اوررشتہ داریوں سے
واسطہ پڑتا ہے ، جب وہ بچپن میں اپنی شعور کی آنکھیں کھولتا ہے تو اپنے آپ
کو جان نثار ماں ، شفیق باپ اور مہربان بہنوں کے جھرمٹ میں پاتا ہے ، پھر
انہیں ماں باپ اور بھائی بہنوں کے رشتے سے اسے بے شمار رشتہ داریوں ،
تعلقات وبرادریوں سے نسبت ہوجاتی ہے ، پھر جب وہ سن بلوغ کو پہنچ کر خود
صاحبِ اہل وعیال ہوجاتا ہے تو یہاں سے رشتہ داریوں کی ایک مزید شاہر اہ کھل
جاتی ہے ، پھر جب وہ اپنی اولاد کو نکاح کے بندھن میں باندھ دیتا ہے تو
یہاں سے تعلقات اور رشتہ داری کا ایک اور در وا ہوجاتا ہے ، پھر اس کی
اسلام کی نسبت پر بمصداق اس حدیث کے ’’ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی
ہے‘‘ اخوتِ اسلامی کی یہ کڑی اسے تمام مسلمانانِ عالم کے ساتھ جوڑ دیتی
ہے۔پھر اس کے کاروباری وتجارتی تعلقات اور پاس پڑوس اور دوستیوں کا ایک
وسیع وعریض سلسلہ ہے ، الغرض انسان کو اس کی زندگی میں مختلف طریقے سے
تعلقات اور قرابتوں سے واسطہ پڑتا ہے ، وہ ان تعلقات اور رشتہ داریوں کو
کیسے نبھائے ، ان متعلقین کے حقوق کی ادائیگی کیسے کرے ، ان قرابت داروں
اور رشتہ داریوں میں آنے والے بگاڑ اور خراب کا خاتمہ کیسے کرے ؟یہ بھی ایک
حقیقت ہے کہ انسان اس دنیا میں فرشتہ بنا کر نہیں بھیجا گیا ، اﷲ عزوجل نے
اس میں خیر وشر ہر دو طرح کے مادے اس میں ودیعت کر رکھے ہیں ، نفس وشیطان ،
خود اس کے خواہشات ولذات کا لا متناہی سلسلہ بھی اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے ،
وہ کبھی اپنی نفسانی خواہشات ، دنیاوی اغراض ، مال ومتاع کی اندھی ہوس اور
اپنی زندگی کو آرام دہ اور پرسکون بنانے کے لئے دوسروں پر ظلم وزیادتی پر
اتر آتا ہے ، دوسروں کے اموال پر ناجائز قبضہ کے ذریعے اس کو زیر کرنے کی
کوشش کرتا ہے ، یہ ظلم وزیادتی اس کے تعلقات کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے ،
یا دوسرے کی ترقی ، اس کی کامیاب زندگی اسے بغض وحسد کی آگ میں جلا کر آپسی
تعلقات اور رشتہ داریوں کو اس کے راکھ تلے بھسم کردیتی ہے ، یہی سے لڑائی
جھگڑے ، توڑ ، پھوڑ ، خون خرابی ، دنگے فساد کے دروازے کھل جاتے ہیں۔آج بھی
یہی کچھ صورتحال ہمارے معاشرے میں دیکھنے کو مل رہی ہے ، برق رفتار مادی
ترقی ، تعیش وآرام کے وسیع وسائل وامکانات اور اس کے حصول کی اندھادھند تگ
ودو نے انسان کو ایک دوسرے سے دست وگریباں کردیا ہے ، جس کی وجہ سے ہر سطح
پر گھریلو تعلقات ، ملکی تعلقات اور بین الاقوامی تعلقات دھماکو صورتحال
اختیار کرتے جارہے ہیں ، رشتہ کا تقدس پامال ہوا جارہا ہے ، اولاد ماں باپ
کو ’’اولڈ ایج ہوم‘‘ کے حوالے کر رہی ہے ، میاں بیوی کے رشتہ میں خلوص اور
پیار نہیں رہا ، یہ سچ ہے کہ انسان کی یہ آپس کی یہ آویزش وٹکراؤ اور
تعلقات کا بگاڑ ابتدا ہی سے چلا آرہا ہے ، حضرت آدم علیہ السلام کا مختصر
خاندان جو کہ ان کی اہلیہ حوا اور ان کے بیٹوں اور بیٹیوں پر مشتمل تھا
،وہاں پر بھی ایک بھائی قابیل نے ہابیل پر زیادتی کی اور اسے قتل
کردیا۔ارشاد باری عزوجل ہے ’’آخر کار اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر
آمادہ کر دیا تو اس نے اسے مار ڈالا اور نقصان اٹھانے والوں میں(شامل )ہو
گیا۔‘‘(المائدہ:30)یہ انسانی زندگی کا سب سے پہلا ناحق قتل اور تعلقات کا
بگاڑ تھا، انسان کی اسی سرشت وفطرت کی وجہ سے جب اﷲ عزوجل نے انسان کی
تخلیق کا ارادہ فرمایا تو’’ فرشتے کہنے لگے : کیا آپ پیدا کریں گے، زمین
میں ایسے لوگوں کو جو فساد کریں گے، اس میں اور خون ریزیاں کریں گے اور ہم
برابر تسبیح کرتے رہتے ہیں ، بحمد اﷲ ، تقدیس کرتے رہتے ہیں ، حق تعالیٰ نے
ارشاد فرمایا : میں جانتا ہوں اس بات کو جس کو تم نہیں جانتے ‘‘(البقرہ :
30)،یہاں پر تحقیق طلب امر یہ ہے کہ کیا انسان کو فطری طور پر جھگڑا لو کہہ
کر اس کی لڑائی کو مزید ہوادی جائے گی اور اس کے خراب وبگاڑ کی خلیج کو
مزید وسعت دی جائے گی ؟ چونکہ تعلقات کابگاڑ ، آپس کی نفرت ودشمنی یہ شعلہ
زن آگ کے مانند ہوتی ہے ، کیا آگ کو اس کی شدت اور حدت کی حالت میں بغیر
بجھائے یوں ہی چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ ہر چیز کو خاکستر اور ملیامیٹ کردے ؟
نہیں ، بلکہ ایسے وقت سارا معاشرہ ایک باہم یک دست وبازو ہو کر اس آگ کو
بجھانے کے لئے لگ جاتا ہے ، ایسا بھی نہیں ہوتا کہ چند مخصوص لوگ ہی اس کو
بجھانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ، خواہ کسی بھی ایک گھر یا چند گھروں کو آگ لگ
جائے تو سارا معاشرہ اور ساری بستی مل کر اس کو بجھانے لگ جاتی ہے ، اس طرح
اس آگ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔یہ لڑائی جھگڑے ، تعلقات کا بگاڑ ، رشتہ
داریوں کی پامالی ، دنگا وفساد یہ بھی ایک طرح کی آگ ہے جو عمارتوں ،
پتھروں کو خاکستر نہیں کرتی ، ساز وسامان ، لکڑیاں ، تختے وغیرہ اس کے لقمے
نہیں بنتے ؛ بلکہ یہ آگ دلوں اور ضمیر انسانی کو کھاجاتی ہے ، یہ انسانی
قلب میں موجود محبت ،خیرخواہی وہمدردی کے جذبات کو ملیامیٹ کر دیتی ہے ،
معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس آگ کو بجھانے کے لئے ایک ہوجائیں۔ اس
لئے سارے معاشرے کی ذمہ داری ہے اگر معاشرے میں کہیں بھی کسی بھی قسم کا
بگاڑ پیدا ہوجائے تو وہ یک بازو ہو کر اس فساد وبگاڑ کو دور کریں ، اگر اس
قسم کا بگاڑ شوہر اور بیوی کے درمیان ہوتا ہے،تو زوجین کے رشتہ داروں کی
ذمہ داری ہوتی ہے کہ معاملے کو طلاق تک پہنچنے سے پہلے ہی خوشگوار ماحول
میں اس مسئلہ سے نمٹا جائے۔ارشادباری تعالیٰ ہے،کہ اگر تمہیں میاں بیوی میں
کھٹ پٹ کا اندیشہ ہو تو ایک شخص مرد کے کنبے میں سے مقرر کرو اور ایک شخص
عورت کے کنبے میں سے۔ اگر دونوں اشخاص کی نیت اصلاح حال کی ہوگی تو اﷲ میاں
بیوی میں باہم رضا مندی کرا دے گا۔ بیشک اﷲ تعالیٰ سب سے بڑے علم والے اور
بڑے خبر دینے والے ہیں۔‘‘یہاں پر حکم ہے کہ میاں بیوی کے درمیان تعلقات کے
بگاڑ اور خراب کی صورت میں خاندا ن اورمعاشرے کے ذمہ دار لوگوں کو حکم اور
ثالثی کا رول ادا کرتے ہوئے ، اس فساد اور بگاڑ کو دور کرنے کی کوشش کرنی
چاہئے۔اور جب دو گروہوں کے درمیان لڑائی ہوجائے تو اس سلسلے میں حکم ربانی
ہے۔’’ اور اگر مسلمانوں میں دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو انکے درمیان اصلاح
کرادو پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس گروہ سے لڑو
جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع ہوجائے، پھر اگر
رجوع ہوجائے تو ان دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ اصلاح کرادو اور انصاف کا
خیال رکھو بیشک اﷲ انصاف والوں کو پسند کرتا ہے ، مسلمان تو سب بھائی ہیں
سو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہا کرو تاکہ
تم پر رحمت کی جائے ‘‘(الحجرات 01-9)،قرآن کریم نے یہاں دو مسلمانوں کے
درمیان آپسی جھگڑے کی ایک صورت پیش کی ہے اور بتلایا ہے کہ اگر اتفاق سے
مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑپڑیں تو پوری کوشش کروکہ اختلاف رفع
ہوجائے ،اس میں اگر کامیابی نہ ہو اور کوئی فریق دوسرے فریق پرچڑھ جائے اور
ظلم وزیادتی پر کمر کس لے تو یکسو ہو کر نہ بیٹھے رہو ؛ بلکہ جس کسی کی
زیادتی ہو سب مسلمان اور پورا معاشرہ مل کر اس سے لڑائی کرے ، یہاں تک کہ
وہ فریق مجبور ہو کر اپنی زیادتیوں سے باز آجائے ، اور خدا کے حکم کی طرف
رجوع کر کے صلح صفائی کے لئے آمادہ ہوجائے ، اس وقت چاہئے کہ مسلمان دونوں
فریقوں کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ صلح ومیل ملاپ کرادیں ، کسی ایک کی
طرف داری میں جادہ حق سے نہ پھر جائیں ، اس مصالحانہ کوشش کے درمیان یہ بات
ملحوظ رہے کہ زوجین کی صلح صفائی کے دوران بات خاندان سے باہر نہ جانے پائے
، اسی طرح مسلمانوں کے درمیان آپسی صلح وصفائی کے دوران غیر مسلموں سے مدد
نہ لی جائے۔غرضیکہ اسلام آپسی تعلقات کے بگڑنے کی صورت میں اصلاح ذات البین
کا حکم کرتا ہے کہ آپس میں صلح صفائی سے کام لیا جائے ، اس طرح آپسی خلش
اور خلیج کوختم کرنے کی کوشش کی جائے ، قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں
تعلقات کے بگاڑ کو دور کرنے کا حکم دیا ہے۔اﷲ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے ’’
پس تم لوگ اﷲ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اﷲ اور اس کے
رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو‘‘(الانفال : 1)اس آیت کریمہ میں تعلقات
کی اصلاح کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ : آپس میں مسلمانوں کا کام یہ ہے
کہ ہر معاملہ میں خدا سے ڈریں ، آپس میں صلح وصفائی برقرار رکھیں ، ذرا ذرا
سی بات پر جھگڑا نہ ڈالیں، اپنی آراء وجذبات کی رومیں نہ بہہ جائیں ، اﷲ
اور اس کے رسول کا حکم مانیں ، جب خدا اور رسول کا نام آجائے تو ہیبت وخوف
کایہ عالم ہو کہ ایمان ویقین اس قدر مضبوط ہوجائے کہ ہر معاملہ میں ان کا
اصلی بھروسہ اور اعتماداﷲ کے سوا کسی پر نہ رہے۔جس طرح معاشرہ میں آگ بھڑک
اٹھنے پر اس کو بجھانے کے لئے فائر بریگیڈعملہ، فائر انجن گاڑیاں ہمہ وقت
تیار رہتی ہیں ، اس سے بڑھ کر اس بات کی ضرورت ہے کہ تعلقات کے بگاڑ
اورخراب کی اس آگ کے شرارے قبل اس کے کہ خاندان ، کنبہ برادریوں ، ایمانی
واسلامی اخوتوں کو جلا کر خاکستر کردیں ، اس کے لئے ایسے ہی رضا کار ،
افراد اور تنظیمیں تیار ہوں جو تعلقات کے بناؤ کا کام کریں اور اس آگ پر
پوری تیاری کے ساتھ قابو پالیں۔آج مادی ہوس نے انسان کو اس قدر اندھا ،
بہرا کردیا ہے کہ رشتہ داریوں اور تعلقات کی اہمیت وتقدس کا بالکل خیال
نہیں رہا ، ہر شخص دولتِ دنیا کے جمع کرنے اور سامانِ راحت کی تلاش وجستجو
میں ماں باپ ، بھائی ، بہن ، آل واولاد ہر چیز کو نظر انداز کررہا ہے اور
محض اپنی نفسانی وحیوانی جذبات کی تکمیل وتسکین کی دوڑ میں لگا ہوا
ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلقات اور رشتہ داریوں کی اہمیت کو سمجھیں ، اﷲ
کا ڈر خوف اپنے اندر پیدا کریں ، اگر تعلقات اور رشتہ داریوں کی بے احترامی
اور بے ادبی کی یہی صورتحال رہی تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہمارا یہ مشرقی
معاشرہ بھی مغرب کی طرح وصفِ انسانیت سے عاری ہو کر مشینوں کے مانند ہوجائے
کہ ضرورت کی حد تک استعمال کیا جائے پھر اسے بند کرکے رکھ دیا جائے ، مغرب
میں انسان ایک مشین بن کر رہ گیا ہے ، نہ کنبہ ہے نہ برادری ذرا سوچیں۔ |