خادمِ اعلیٰ کا اندازِ خدمت اور پنجاب کا تعلیمی منظرنامہ

محترم شہباز شریف صاحب نے جب وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالا تو ان کے بیانات میں ملک کے نظامِ تعلیم کے بگاڑ کے حوالے سے خاصی شدّت تھی۔ اپنے جلسوں اور محفلوں میں وہ سابق حکمرانوں کو اس کا موردِ الزام بھی بڑی شدّ و مد کے ساتھ ٹھہراتے تھے۔ جس سے ان کا اخلاص اور قوم سے گہری وابستگی کا اظہار ہوتا تھا۔ اس وقت ان کے اخلاص کی سب سے بڑی علامت یہ تھی کہ نصاب اور نظامِ تعلیم کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں شامل تمام لوگ زیرک، ماہرِ تعلیم اور نظامِ تعلیم کی نزاکتوں اور باریکیوں کا ادراک رکھنے والے تھے۔ وزیرِ اعلیٰ محترم کے ان جذبات کے پیچھے دیگر ممکنہ عوامل کے بشمول ان کے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں جلا وطنی اور قیدو بند کی صعوبتیں تھیں جس کی وجہ سے ان کی پزیرائی کا گراف بھی خاصا بلند ہوا۔ اور پھر چیف جسٹس کی بحالی پر ان کو ملنے والا خراج بھی زیادہ تر انہی کے کھاتے میں گیا۔ اس سے فائدہ اُٹھا کر عین ممکن تھا کہ میاں صاحبان احمدی نژاد جیسی (شاید اس میں میری فکری غلطی شامل ہو) یا اس سے کسی کم تر درجے شخصیت بن جائیں۔ راقم الحروف کی بھی دعاؤں اور تمناؤں کا رخ قوم کی ایک بڑی اکثریت کی طرح انہی کی طرف ہی تھا۔ سامراجی طاقتوں نے یہ سارا منظر دیکھا اور بھانپا۔ امریکی سفیروں کی پے در پے ملاقاتیں ہوئیں۔ قصہ مختصر یہ کہ دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل گیا۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے داؤ پیچ جاننے والوں نے متعدد سیاسی وجوہات کا تذکرہ کیا جو اپنی جگہ پر درست ہے مگر راقم بحثیتِ معلّم اس یو ٹرن کے پسِ پردہ اس صوبے کے نظامِ تعلیم کی بساط کو الٹنے کے لیے میاں صاحبان کی شہرت کو استعمال کرنا تمام عوامل میں سے ایک بڑا عامل ہے۔

وہ جو گزشتہ دورِ آمریت میں نظامِ تعلیم کے خرمن میں آگ لگائی گئی تھی اسے بجھانے کی بجائے اس کے تسلسل کو برقرار رکھنا ہی نہیں تھا بلکہ اس سے آگے والے مراحل کی تکمیل میاں صاحبان کے مبارک ہاتھوں سے وقوع پزیر ہونا تھی۔ پھر کیا ہوا معلوم نہیں؟ کون سے معاہدے کس قیمت پر ہوئے، ہمیں کچھ پتہ نہیں۔ ہاں جن پالیسیوں پر عمل ہو رہا ہے ان سے ان معاہدوں کی حقیقت اور ان کی قیمت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ جس طرح پرویز مشرف اور شوکت عزیز خزانہ بھرنے کی بشارتیں قوم کو سنایا کرتے تھے ان سے کہیں آگے بڑھ کر خادمِ اعلیٰ پنجاب یہ خوشخبریاں قوم کو سُنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ پرویز الٰہی کی طرح اپنی پالیسیوں کو درست ثابت کرنے اور ان کی تلخیوں کو اشتہار بازی کے دھوئیں میں چھپانے کے لیے وہ سابق وزیرِ اعلیٰ سے زیادہ کچھ کر سکتے ہیں۔ شاید چند ماہ میں یہ مہم بھی انہیں مجبوراً شروع کرنی پڑے۔ خادمِ اعلیٰ اپنےاسم با مسمّیٰ ہونے کے منصب سے زود رفتاری کے ساتھ دور ہو رہے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دور ہٹائے جا رہے ہیں۔ دوسروں کی عطا کی ہوئی خیرات پر بنگلہ نما انگلش میڈیم سکول تعمیر کرنا اور ان بنگلہوں کو طبقاتی تفریق کا گہرا بیج بونے کے لیے وطنِ عزیز کی سر زمین استعمال کرنا مستقبل کے کسی بڑے خطرے کی علامت ہے۔ جناب خادمِ اعلیٰ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح طبقہ اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کے دورے کر رہے ہیں اور بلند و بانگ دعوؤں میں یکساں نظامِ تعلیم کا چرچا کر ہے ہیں۔ کون سا یکساں نظامِ تعلیم؟ وہی جسے امریکہ چاہتا ہے۔ یعنی تمام سرکاری سکولوں کو انگلش میڈیم بنا دیا جائے۔ اس پر خادمِ اعلیٰ کے حکم پر انتہائی تیزی سے عمل شروع ہے اور انتہائی خفیہ انداز سے شروع ہے۔ آئیںِ پاکستان سے متصادم اور مشاورت سے بالا بالا ان کے اس کام نے نچلے طبقے میں نفرت اور خوف کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔ قوی امکان ہے کہ خادمِ اعلیٰ بہت جلد پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ پرویز الہیٰ بن جائیں۔ عجیب منطق ہے کہ ایک طرف مسلم لیگ ن آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے اور ایک آمرِ مطلق کے مواخذے کے مطالبے کر رہی ہے اور دوسری طرف انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آمریت کے جرم کا خود ارتکاب کر رہی ہے۔ دانش سکول کھولنے کا فیصلہ اور دس فیصد سرکاری سکولوں میں انگلش میڈیم کلاسوں کا ہنگامی اجراء اور اردو میڈیم سکولوں کو اقلیت میں بدل کر انگلش میڈیم میں بدلنا ایک ایسا خوفناک اور قتلِ عمد کا سا عمل ہے جو سالمیتِ پاکستان کے لیے اس کے چپے چپے پر ایٹمی حملہ کرنے کے مترادف ہے۔

ہر خاص و عام کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ پاکستان کا محافظ نظامِ تعلیم فقط اردو میڈیم ہے۔ اگر انگلش میڈیم کے سامراجی ایماء پر فروغ کے ذریعے زمینی اور جغرافیائی حالات بدلنے کی کوششیں جاری رکھی گئیں تو اس ملک کے پاس اکٹھا رہنے کی کوئی دلیل باقی نہیں بچے گی۔ اسلام اور قومی زبان دو ہی سب سے بڑے عوامل ہیں جو ملک کی سالمیت اور وحدتِ ملّی کے لیے لازم ہیں۔ یہی نظریہ پاکستان کے سب سے بڑے عناصرِ ترکیبی ہیں۔ پاکستان میں خصوصاً پنجاب میں انہی دو عناصر کو ہی جڑ سے اکھاڑنے کی کوششیں جناب وزیرِ اعلیٰ پنجاب غیر ملکی خیرات کی طاقت سے کر رہے ہیں۔ مردانہ سکولوں میں خواتین اساتذہ کی بھرتی اور سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں قومی زبان کی عملداری کم سے کم کرنے کی کوششیں ان کی نیت کے بارے میں شک میں ہی مبتلا نہیں کرتیں بلکہ حق الیقین تک پہنچا دیتی ہیں۔ "جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے"مائیکروسافٹ کو پاکستان کے سرکاری سکولوں کے لیے ملنے والے بڑے بڑے ٹھیکے فقط نظریہ پاکستان کے مذکورہ بالا اجزائے ترکیبی کو ہی ملک بدر کرنے کی قیمت پر ہیں۔ جو ملک کو چینی اور آٹا نہیں دے سکتے ان کے لیے اس طرح کے محلوں کی تعمیر اور لیبارٹریوں کے لیے جدید ترین اور مہنگے ترین کمپیوٹروں کی بھرمار سے محلاتی سازشوں کے تانے بانے کا صرف پتہ ہی نہیں چلتا بلکہ پنجاب کو ایک طرح سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز کا اڈا بنا دینے کی طرف اب تک کا سب سے بڑا قدم ہے۔

ظاہر بات ہے عالمی بینک اور ایشین بینک کے بڑے بڑے امدادی پیکیج اپنے ساتھ ان رقوم کو معاہدہ شدہ مَدوں میں خرچ کرنے کے لیے ایک مربوط نگرانی کا عمل بھی لائے ہیں۔ یہ امدادی پیکیج اور ان کی قیمت پر قومی سلامتی، نظریہ پاکستان اور نظامِ تعلیم کی بیخ کنی کا عمل اور اس کی مانیٹرنگ وغیرہ کا نظام کیا کیری لوگر بل سے کچھ کم خطرناک ہے۔ آج دو الفاظ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف صاحب کے لیے بڑے عجیب سے لگنے لگے ہیں۔ ایک "خادمِ اعلیٰ" اور دوسرا " مسلم لیگ" ان دونوں الفاظ کا وقار اور تشخص انتہائی سرعت کے ساتھ میاں صاحب کے دامن سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

دانش سکول سسٹم فقط پنجاب میں ہی قائم ہونا قرار پائے ہیں اور یہ منصوبہ میاں شہباز شریف کا ایک لحاظ سے ذاتی ہے کیونکہ اس کے لیے کہیں بھی مشاورت نہیں ہوئی اور یہ ۲۰۰۹ کی اعلان شدہ تعلیمی پالیسی کے بھی صریحاً مخالف ہے جس میں انگریزی صرف پہلی جماعت سے لازمی قرار دی گئی ہے مگر یہ سکول مکمل طور پر انگلش میڈیم ہیں۔ جنرل مشرف کی آمریت کو بنیاد بنا کر انتخابات میں جیتنے والے اسے کون سی آمریت کا نام دیں گے؟ یہ سوال اب ہر کوئی میاں صاحب اور دوسرے مسلم لیگی رہنماؤں سے کر رہا ہے۔ قومی دھارے سے الگ تھلگ اس محلاتی سکول سسٹم کا وجود ہی قطعاً غیر آئینی ہے۔ باون ارب روپے کی خطیر رقم سے قائم کیے جانے والے پنجاب میں ۱۰۴ سکول کھولنے سے پہلے میاں صاحب کو پنجاب کے ان ہزاروں سکولوں کا دورہ کروانا چاہیے جن میں چار دیواری نہ ہونے کے باعث جانوروں کی گزرگاہیں بنی ہوئی ہیں۔ جہاں بچوں کے بیٹھنے کی جگہ دستیاب نہیں ہے اور جہاں بچے اور ان کے اساتذہ باتھ روم اور پینے کے پانی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ انہی کے ووٹوں سے منصبِ اقتدار پر فائز ہونے والے آج انہی سے بے وفائی کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ بڑے بڑے محلاتی سکولوں کے دورے کرنے والوں اور وہاں بڑی بڑی گرانٹوں کا اعلان کرنے والوں کو اپنے ووٹروں کے ان خستہ سکولوں کی طرف آنکھ اٹھا بھی دیکھنے کی توفیق نہیں ہے۔ ایک طرف باون ارب روپے کی خطیر رقم سے بننے والے اس قبیل کے تعلیمی ادارے ہیں اور دوسری طرف تصویر کا رخ انتہائی بھیانک ہے جس کے مطابق صرف صوبہ پنجاب میں 84 ہزار سکول چار دیواری سے محروم ہیں، 18 ہزار عمارت سے محروم ہیں، 70 ہزار میں پینے کا پانی موجود نہیں ہے، 83 ہزار سکولوں میں بیت الخلاء نہیں ہے، جنوبی پنجاب کے پانچ ہزار دیہات میں ایک بھی سکول نہیں۔ ان سب محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے فنڈ مختص کیے ہیں وہ ہیں 2 ارب چوبیس کروڑ روپے۔ایک طرف نیا محلاتی سکولوں کا نظام جو باون ارب روپے سے بن رہا ہے اور دوسری طرف صرف 2 ارب چوبیس کروڑ روپے۔ اسے کہتے ہیں اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ کیا خادمِ اعلیٰ کے پاس اس بے مروتی اور نانصافی کا جواب ہے؟ نہیں ہے اور نہ ہوگا۔ بھیک کے پیسوں سے جھولی بھرنے والے کتنے آزاد ہیں اور کتنے جمہوریت پسند ہیں سب کچھ روزِ روشن کی طرح واضح ہو چکا ہے۔

سب سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ ایسے خفیہ اور چپکے سے معاہدے ہو جاتے ہیں کہ کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ پتہ اس وقت چلتا ہے جب عملدرآمد کے احکامات جاری ہو جاتے ہیں۔ ہم دورِ آمریت کا رونا روتے ہیں مگر دورِ جمہوریت کی آمریت دورِ آمریت کی آمریت سے کہیں زیادہ خطرناک نظر آتی ہے۔ دانش سکول سسٹم کا سب سے نقصان دہ اور تباہ کن پہلو یہ ہے کہ اس کا قومی تعلیمی پالیسی اور قومی دھارے کے نظامِ تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا انتظامی ڈھانچہ الگ سے تشکیل دینا اس بات کا عندیہ دیتا ہے صوبہ پنجاب کے سرکاری نظامِ تعلیم کی پشت میں طبقاتی تفریق کا ایک ایسا خنجر گھونپا جا رہا ہے جس نے پہلے سے موجود سرکاری تعلیمی ڈھانچے کو نیم بسمل کر کے رکھدیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ ایک دانش سکول کے لیے پچاس کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں اور صرف ایک سکول کے لیے کم و بیش دو سو ایکڑ اراضی مختص کی گئی ہے۔ پنجاب کا اتنا بڑا رقبہ جو ان محلاتی سکولوں کے لیے وقف کیا جا رہا ہے ہر محبِ وطن کے لیے ایک حیرت و استعجاب کا باعث ہے۔ ایک طرف کیری لوگر بل کے خطرناک مندرجات کا شور ہے جو بر وقت، درست اور قومی حمیت اور غیرت کی کچھ بچی کھچی رمق کا پتہ دیتا ہے تو دوسری طرف اس سے بھی زیادہ خطرناک منصوبے مذکورہ بل پر تنقید کرنے والے خود شروع کر رہے ہیں۔ یعنی ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور۔ کیری لوگر بل کی ایک شق جس میں سکولوں اور ہسپتالوں کے ترقیاتی کاموں کی امریکہ خود نگرانی کرے گا، اس پر پوری شدت سے عمل ہو رہا ہے۔

ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈیویلپمنٹ وحدت روڈ لاہور امریکی کالونی کا سا منظر پیش کر رہا ہے ۔ یہاں سے پورے پنجاب کے تعلیمی نظام کی اتھل پتھل کے لیے مانیٹرنگ اور نگرانی ہو رہی ہے۔ قومی زبان کو پنجاب بدر کرنے اور اردو میڈیم کے انتہائی سرعت کے ساتھ خاتمے کے تمام تر اقدامات کا مرکز و محور یہی ادارہ بنا ہوا ہے۔ اسے پنجاب میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا سب سے بڑا اڈا قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ معلوم نہیں خادمِ اعلیٰ کیوں ملک کی قومی زبان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں اور نظریہ پاکستان کے تمام عناصرِ ترکیبی کی جڑوں کو کاٹنے کے لیے ہر سامراجی امدادی پیکج کو اپنا اور غریب قوم کا نصیب قرار دے رہے اور ان کی اس خیرات کی مدد سے یکساں نظامِ تعلیم کو رائج کرنا چاہتے ہیں۔ یکساں نظامِ تعلیم بھی وہ جو ملک و قوم کے لیے موت کے سندیسے سے کم نہیں ہے۔ جسے امریکہ چاہتا ہے۔ جو ملک کے تمام علمی اور ادبی سرمائے کو نسلِ نو کے لیے شجرِ ممنوعہ قرار دینا ہے۔ وہ یکساں نظامِ تعلیم جس سے بچہ بچہ ٹیوشن کی لعنت کا رسیا ہو جائے۔ وہ یکساں نظامِ تعلیم جس سے پچانوے فیصد بچے میٹرک کرنے سے پہلے ہی سکول چھوڑ کر چور اور ڈاکو یا پھر ہوٹلوں پر برتن مانجھنے لگیں۔ وہ یکساں نظامِ تعلیم جو نظریہ پاکستان کے بچے کھچے اثرات کو نسلِ نو کے دل و دماغ سے نکال باہر کرے۔ وہ یکساں نظامِ تعلیم جو ایک قوم کو اتنی اکائیوں میں بانٹ دے جو رنگ و نسل اور لسان و زبان کی بنیاد پر بٹ کر ملک کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دے۔ وہ یکساں نظامِ تعلیم جس سے غریب کا بچہ اس طرح نکل جائے جیسے مکھن سے بال نکالا جاتا ہے۔ وہ یکساں نظامِ تعلیم جس کی کوکھ سے میر جعفر اور میر صادق ہی پیدا ہو سکیں۔ وہ یکساں نظامِ تعلیم جو غیر ملکی خیرات کے بل بوتے پر قائم کیا جائے اور اسی کے مقاصد کی تکمیل کے لیے کام کرے۔

ذرا غور کریں کہ اگر خادمِ اعلیٰ (فقط اشرافیہ کے) یہ اعلان کرتے کہ پورے صوبے کا نظامِ تعلیم اردو میڈیم ہوگا اور تمام سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی ادارے اردو میڈیم ہی نصاب پڑھائیں گے تو اس کے لیے کون سی غیر ملکی امداد کی ضرورت تھی؟ اگر ایسا ہوتا تو پوری قوم میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی۔ پوری قوم کو ایک بار پھر وہ آزادی نصیب ہو جاتی جو قیامِ پاکستان کے مقاصدِ حقیقی میں سے تھی۔

کمپیوٹر لیبارٹریوں کا قیام اور ان میں جدید ترین کمپیوٹروں کی فراہمی کے لیے تاریخ ساز ٹھیکے بھی نظامِ تعلیم سے تمام تر نظریہ پاکستان کے اجزائے ترکیبی کے اخراج کی قیمت پر ہی کیے جا رہے ہیں۔ ایسے ہی جیسے کوئی شخص اپنی عزت اور آبرو کے بدلے بہت سی دولت جمع کر کے خوش ہو جائے اور ڈینگیں مارتا پھرے کہ اس نے اپنے نظریے کو بیچ کر اتنی دولت کما لی ہے۔ خادمِ اعلیٰ اور ان کی ٹیم کے لیے علامہ اقبال کا یہ شعر کتنا بر محل لگتا ہے کہ
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

حیرانی کی بات یہ ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے کچھ حواری ان کی اسی طرح مدح سرائی کرتے ہیں جس طرح سابق وزیرِ اعلیٰ پرویز الٰہی کے چند پرستار کیا کرتے تھے۔ حالانکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ پرویز الٰہی کی طرح موجودہ وزیرِ اعلیٰ بھی سامراجی پیسے سے ان کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ یہاں وہ آئین و قانون کی تمام تر حدود و قیود کو بھی پھلانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دراصل ان کے اپنے مزاج آمریت سے عبارت ہیں۔ مشاورت اور صلاح نام کی کوئی چیز ان کے اپنے پاس موجود نہیں ہے۔ جس جرم کا خود ارتکاب کرتے ہیں اسی کا نام لے کر اور اسی کی وجہ سے مخالفین کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ خادمِ اعلیٰ وہ سب کچھ کر رہے ہیں جن کی مخالفت کر کے وہ عوام الناس سے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں کمپیوٹر لیبارٹریاں بنانے کی بجائے وہ اگر تعلیمی پروگرامات پر مبنی سی ڈیز تیار کر کے مارکیٹ میں بھیجتے تو ہزاروں گنا زیادہ فائدہ پہنچنا تھا۔ اس کے لیے چند مخلص لوگوں کی ہی ضرورت تھی۔ غیروں کے آگے اپنی عزت و وقار کو داؤ پر لگا کر جھولی پھیلانے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ ایک بڑی وجہ اس جلد بازی میں معاہدے کرنے کی یہ بھی ہے کہ خادمِ اعلیٰ اور ان کی ٹیم تعلیم کے حقیقی عمل اور اس کی نزاکتوں کو نہیں سمجھتی۔ سامراجی ماہرین ان کو باآسانی دھوکہ دینے اور اپنے دامِ تزویر میں پھنسانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اب کی بار تو خادمِ اعلیٰ کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ اس پر ظلم یہ کہ اہم اور کلیدی تعلیمی آسامیوں پر اس امداد کے عوض سامراج کی مرضی کے مطابق افراد کو تعینات کیا گیا ہے۔ جس کے ہاتھوں کئی تعلیمی پالیسیاں ناکام ہوئیں اسے پھر سیکریٹری تعلیم کے عہدے پر ترقی دینا اس کے علاوہ اور کیا معنی رکھتا ہے؟ جناب خادمِ اعلیٰ سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ ان تمام معاہدوں کو توڑ دیں جن کا مقصد ملک کے نظامِ تعلیم کی اینٹ سے اینٹ بجانا مقصود ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو خادمِ اعلیٰ کے منصب سے تہی دست ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
Ishtiaq Ahmed
About the Author: Ishtiaq Ahmed Read More Articles by Ishtiaq Ahmed: 52 Articles with 169873 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.