غذائی قلت

گذشتہ دنوں خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) نے ایک رپورٹ جاری کی ، جس میں یہ خیال پیش کیا گیا کہ "دنیا کو کیڑے کھانے پر قائل کیا جائے تاکہ بڑے پیمانے کی بھوک سے بچا سکے۔"دراصل یہ نظریہ مالتھس کے مقابلے میں پیدا کیا گیا ہے، تقریبا دو صدیوں پہلے مالتھس نے یہ خیال پیش کیا "کہ غریبوں کی مدد کرنا غلطی ہے ان کو فاقوں سے مر جانا چاہیے کیونکہ فطرت سب کی ضروریات پوری نہیں کرسکتی" ،بہت سے مفکرین ، بشمول مارکس اور ینگلز نے اس نظرئیے کو رد کیا اور بورژوازی نے عملا اس نظرئیے کو مسترد کردیا کہ مالکان کو مختلف شعبوں ، میدانِ جنگ ، کارخانوں اور فیکٹریوں کیلئے انسانی قوت محنت کی ضرورت ہے۔خود دو سو سال کے سائنسی ثبوت مالتھس کے نظرئیے کو جھٹلانے کیلئے کافی ہیں ۔مالتھس کے پیروکار ہر بار قیامت آنے کے پیشگوئیوں کے ساتھ دنیا کی آبادی کو ایک ارب سے دو ، اور پھر تین ارب تک لے جانے کے ساتھ دوسو پچاس تک دنیا کی آبادی 9ارب ہوجانے کا دعوی پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ چالیس سالوں میں طلب کو پورا کرنے کیلئے غذائی پیداوار میں60فیصد اضافہ درکار ہوگا۔خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) کی رپورٹ کے مطابق "آج بھی انسانیت کو دائمی غذائی کمی کی تلخ حقیقت کا سامنا ہے ، جو 800ملین لوگوں کو متاثر کر رہی ہے جس میں17فیصد ترقی پزیر ممالک ،34فیصد افریقہ اور کچھ دیگر ممالک میں ہیں۔ـ"امریکی ادارہ برائے خوراک کے مطابق 2012ء میں تقریبا1کروڑ 80گھرانے خوراک کی کمی کا شکار تھے اور70لاکھ گھرانے مشکل سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرتے تھے"۔یہ امریکہ جیسے ملک کی اپنی مملکت کے بارے رپورٹ ہے ، وہ امریکہ جو خوراک کا بڑا برآمد کنندہ ہے اور اپنے لوگوں کو ان کی ضروریات سے زیادہ غذا فراہم کرسکتا ہے۔جب امریکہ جیسے مستقبل منصوبہ ساز ملک و ترقی یافتہ مملکت کا یہ حال ہو تو ذرا سوچیں کہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کی عوام کا کیا حال ہوگا۔

خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) کی رپورٹ میں کہا گیا کہ"دنیا میں1900افسام کے خوردنی کیڑے ہیں جن میں سینکڑوں آج بھی بہت سے ممالک میں غذا کا حصہ ہیں۔در حقیقت دو ارب لوگ باقاعدگی سے مختلف اقسام کے کیڑے پکا کر یا خام حالت میں کھاتے ہیں ، رپورٹ کے مصنفین کے مطابق" غذائی نکتہ نظر سے کیڑے کھانے سے عمومی نفرت کاکوئی جواز نہیں"۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مغربی ممالک میں جیسے فرانسیسی ، اطالوی پنیر میں کیڑے شامل کئے جاتے ہیں، کیلیفورنیا اور فرانس میں کچھ ریستوانوں میں کیڑے دستیاب ہیں ، کچھ کمپنیاں کیڑے مکوڑوں سے بنی غذا فروخت کرتی ہیں 1996ء میں چینی حکام نے درجنوں ایسی غذائی اجناس کی منظوری دی جن کے اجزا میں چیونٹیاں شامل تھیں ، تھائی لینڈ میں انہیں پکوان کا درجہ حاصل ہے ، چین میں لاروا اور پیوپا عمومی طور پر کھایا جاتا ہے ، لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ سب بچارے غریبوں کی قسمت میں اس لئے ہے کیونکہ سرمایہ داری نظام نے انھیں اچھی خوراکوں سے محروم رکھا ہے اور یہ حقیقت خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) بہت اچھی طرح جانتی ہے کہ کروڑوں انسانوں نے ایک بار بھی اچھی خوراک زندگی بھر نہیں چکھی۔

صحت اور تعلیم کے ساتھ اسباب زرق کے ذرائع یعنی روزگار فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے لیکن اس کے باوجود ہر روز1130بچے قابل علاج بیماریوں سے مر جاتے ہیں جبکہ60فیصد بچے اسکول ہی نہیں جا پاتے۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 3کے مطابق ریاست ہر شہری کو روزگار دینے کی پابند ہے۔ لیکن اس کے برخلاف سرمایہ دار کیلئے بس شرح منافع بڑھنی چاہیے۔ اوزن لیئر کمزور ہو یا ختم ہوجائے ، گلوبل وار منگ بڑھتی رہے ، انسان مرتا رہے تو مرتا رہے ، جنگیں ضروری ہیں تاکہ امریکہ ، روس ، جرمنی وغیرہ کی اسلحہ ساز فیکٹریاں چلتی رہیں ، دہشت گردی ختم تو میڈیا کا کاروبار ہی ختم ہوجائے ، دہشت گردی کے تازہ لہر سے پہلے پاکستانی میڈیا "تھنک ٹینکوں"میں یہ پلان کر رہا ہوتا تھا کہ کس طرح اسٹار پلس کے ڈراموں کا زور توڑا جائے ، لیکن دہشت گردی کی چکا چوند اور بریکنگ نیوز کی سنسنی نے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ، حالاں کہ میڈیا کے سامنے دہشت گردی سے بھی بڑے مسائل سامنے موجود ہیں ، بھوک ، بے روزگاری ، صحت کی سہولتوں کی عدم فراہمی سے مرنے والوں کی تعداد دہشت گردی سے مرنے والوں سے کئی زیادہ ہے۔دراصل جب انسان نے رزق کے قدرتی سرچشموں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا شروع کردی اور انسان کو اپنا غلام بنانا شروع کردیا تو اس وقت سے ہی ، سرمایہ دار اور غریب انسان کے درمیان تصادم شروع ہوا۔سرمایہ دار نے دولت کو ایک جگہ اپنے تصرف میں رکھنے کیلئے طرح طرح کی منصوبہ بندیاں کیں اور اپنی مرضی کی حکومتیں بنانا شروع کردیں تاکہ اس کے مفادات پورے ہوسکیں ،ایک ملک اگر طاقتور ہوا تو اس نے دوسرے کمزور ملک کو اپنی غلامی میں جکڑنے کیلئے استعماری جال بچھاکر ایسے اپنا معاشی غلام بنا لیا۔ اسی طرح پاکستان میں آنے والی ہر حکومت میں کسی غریب کیلئے کوئی جگہ نہیں بچتی کیونکہ ہر حکومت نے دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کو پیش نظر رکھنا مقصود ہوتا ہے ۔ مراعات یافتہ طبقے کے دو سو ارب ڈالرز صرف سوئس بنکوں میں ہیں ، جبکہ پوری دنیا میں کالے دھن کا کتنا ذخیرہ ہوگا جو ، وڈیروں ، جاگیرداروں ،صنعتکاروں ، ملکوں اور خوانین نے اپنی کمزور عایا پر ظلم کرکے ملک سے باہر جمع کیا ہوگا؟۔ اس کا حساب سالوں کا لیا جائے تو مشینیں بھی گنگ ہوجائیں۔

دراصل ہم نے اساسَ پاکستان ہی نہیں بلکہ دین اسلام کے لازوال و سنہرے قوانین و اصولوں کو پس پشت اس لئے ڈال دئیے کیونکہ ہم نے مغرب کی نقالی کا ٹھیکہ جو اٹھا رکھا ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہقیام پاکستان بننے کیانگریزوں سے وفاداری نبھانے والوں کو تحفے میں ملیں تمام زمینیں ، جاگیریں قومیائے ملکیت میں لے لی جاتی اور بھارت کی طرح تمام زمینوں کی ملکیت کسی فرد واحد کے پاس نہیں رہنے دی جاتی ،یا پھر زرعی ٹیکس کا نفاذ ہوتا۔ بلکہ پاکستان بننے کے بعد ایسا معاشرہ قائم ہونا چاہیے تھا کہ اسلام کے نام پر تخلیق کئے گئے ملک میں زکوۃ کے اسلامی نظام سے ضیرات دینے کی رسم کے بجائے ایسا نظام قائم کیا جاتا جس کا مقصد نوع انساں کیلئے سامان نشو ونما مہیا کرنا ہوتا۔ اﷲ تعالی کے ساتھ مومنین کا ایک معائدہ ہوا ہے کہ "اﷲ نے خرید لیا ہے مومنین سے ان کا جان اور مال بعوض جنت کے"یہ اﷲ تعالی کا دیا گیا وعدہ ہی ہے جس میں رب کائنات کا ارشاد ہے کہ "تم لوگ اپنی اولاد کو افلاس کے ڈر سے قتل نہ کردیا کرو ، ہم تمھارے رزق کے بھی ذمے دار ہیں اور تمہاری اولاد کے بھی" لیکن یہ ہمارے مشاہدے میں روز آتا ہے کہ قحط کی وجہ سے ، تو کبھی غربت کی وجہ سے کروڑوں انسان مر جاتے ہیں ، اور یہی وجہ ہے کہ خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) کو کہنا پڑتا ہے کہ انسان کو کیڑے کھانے چاہیں۔حقیقت میں قصور ہمارا ہے اوراس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ رزق کے بہتے سرچشموں پر چند خاندانوں نے قبضہ کر رکھا ہے ، سرمایہ داری نظام میں کسی غریب کو اس لئے جینے کا حق ہ نہیں کہ ایسے زندہ رہنے کیلئے خوراک کی ضرورت ہے بلکہ سرمایہ دار کو غریب کی اس لئے ضرورت ہے تاکہ وہ اس سے اپنا سرمایہ بڑھانے کیلئے کام لے سکے اور اس کی بنیادی اجرت بھی پوری نہ کرے تاکہ وہ اپنی ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہمیشہ سرمایہ دار کاغلام بنا رہے۔حکومتوں کے بجٹ ان کی مالیاتی پالسیاں ان کی ترجیحیات ، سب کچھ سرمایہ دار انہ نظام کے تابع ہوتا ہے۔جو نظام (حکومت) اﷲ کے نام پر قائم ہوتا ہے تو انسانوں کی تمام ذمے داریاں اس حکومت کے فرائض میں شامل ہوکر ترجیحات بن جاتی ہیں، اﷲ کے دئیے گئے نظام کے تحت قائم حکومت میں ربوبیت کے تمام انتظامات انسان ، اﷲ تعالی کے دئیے گئے احکامات و اصولوں کے تحت اپنے ذمے لے کر ایسے پورا کرتا ہے ۔لیکن جب انسان اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کیلئے سود کے سرمایہ دارانہ نظام کو اپنا لیتے ہیں تو ، اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے کی جانے والی جنگ میں کامیابی کا تصور خام خیالی ہوگا اور ایسا نظام جوسرمایہ داری طبقاتی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے تو پھر غریب انسانوں کو زندہ رہنے کیلئے کیڑے مکوڑے کھانے پڑتے ہیں ، پانی کے ایک گندے گھاٹ پر کتے ، جانور اور انسان ایک ساتھ پلید پانی پیتے ہیں، ایسے ہوشربا نظارے اس جدید میڈیا کی دنیا میں روز دیکھائے جاتے ہیں ۔لیکن سرمایہ دارنہ نظام کے سرخیل خود کو بچانے کیلئے ایک ہوجاتے ہیں لیکن غریب عوام میں پھر بھی انتشار اور افرا تفری رہتی ہے۔جب تک غریب اپنے جینے کے حق کو اپنے ہاتھوں خود حاصل نہیں کرے گا اس وقت تک سرمایہ دار ی نظام کے مورثی طبقہ ان کی محنت ، خون پسینے کی کمائی سے محلات بناتے رہیں گے اور غریب عوام کیڑے کھائیں گے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 666689 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.