اسلام میں احترام ِاموات

الہامی وغیر الہامی تمام مذاہب و ادیان انسانیت کو مہذب بنا نے کے لئے ہیں، اس حوالے سے میرا وسیع مطالعہ کم سے کم ،میرے لئے اس بات پرشاہدِ عدل ہے کہ مذہب بنی نوع بشری کو احترام آدمیت کا ہی درس دیتاہے ،ہمارے ایمان اوردانست کے مطابق اسلام چونکہ خاتمۃ الادیان والمذاہب ہے، اس واسطے اسلام نے روز اول ہی سے یہی سبق پڑھایا ہے،اور احترام آدمیت، انسانی حقوق ،اکرام صنف نازک، ،یتیموں سے حسن سلوک ،قیدیوں سے اچھا برتاؤ، حالت جنگ وامن میں پوری انسانیت کی بلا تفریقِ رنگ ،نسل ، عقیدہ ،مذہب بنیادی حقوق ،واجبات، فرائض اور ذمہ داریوں کو اپنے ماننے والوں پر کلیات کی شکل میں لاگو کیا ہے ، جزئیات کا تعین زمان ومکان اور حیثیات وکیفیات کے اعتبار سے اہل اسلام کے ذمہ داروں پر چھوڑا ہے۔
ڈیڈباڈیز یا نعشوں اورلاشوں کے بارے میں مختلف مذاہب نے متعدد طریقوں سے احترام کی ہدایات دی ہیں، لیکن ان سب میں احترام اور ریسپیکٹ کااعلی سے اعلی، بہتر سے بہتر، طبعی اور الہامی طریقہ وہ ہے جو اسلام نے اختیار کیاہے، جس میں انسانی اموات کی ڈیڈ باڈیز کو بڑے احترام سے زمین میں دفنانے کا حکم دیاگیاہے، قرآن کریم نے دلالۃ النص کے طورپریہی بتایا ،کہ’’ ثم أماتہ فاقبرہ ‘‘ (سورۂ عبس21 ) ترجمہ : اﷲ تعالی نے پھراس سے موت دی ،پس اس کو قبر میں دفنادیا ۔

مختلف معاشروں میں جلانے ،صحرا ٰمیں رکھنے ،یا دریا بُرد کرنے کے جوطریقے ہیں ،وہ اس لئے بھی قرینِ قیاس نہیں ہیں ،کہ خالق کائنات نے بنی نوع بشری میں سب سے پہلی میت کو دفنانے کا جو قصہ قرآن کریم میں ایک کوّے کے دوسرے مردے کوّے کو دفنانے کے طریقے کے ذریعے بتلایا،وہ زمین میں تدفین کا ہی ہے، یہ واقعہ تمثیلی زبان میں آدم کے دوبیٹوں کے دو مختلف کرداروں کی صورت میں اب موجودہ انسانی علم ومعرفت اور تہذیب وتمدن کاایک حصہ ہے ۔

ان کی کہانی یہ ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کے دو صاحبزادوں میں سے ایک نے اس دوسرے کو جس کی قربانی قبول ہوئی تھی، محض حسد کی بنیاد پر قتل کردیاتھا ،پھر جلد ہی اپنے کئے پر وہ ناد م ہوا تھا، کیونکہ وہ اس کی لاش کندھے پر اٹھائے پھرتاتھا،اس کو دفنا نے کا طریقہ نہیں آرہاتھا ،پس انہیں ایک نظارہ دیکھایا گیا ،کہ ایک کوّے نے دوسرے مردے کوّے کی نعش کو زمین میں قبر کھود کر کیسے دفنادیا، اس منظر کو دیکھنے سے اس کو بھی یہ ترکیب سمجھ میں آگئی، چنانچہ اس نے اپنے بھائی کی نعش کو زمین میں اسی طرح دفن کردیا ۔روایات ِتفسیرسے ان دونوں کے نام قابیل (قاتل ) اور ہابیل (مقتول ) معلوم ہوئے ہیں ۔(تفصیل کے لئے سورۂ مائدہ،31-27)۔

حدیث پاک ’’لا تسبوا الأموات، فانہم قد افضوا الیٰ ما قدّموا‘‘سے یہ بھی معلوم ہوا ہے ،کہ جناب محمد رسول اﷲ ﷺ نے مردوں کو سب وشتم کرنے، لعن طعن اوربرا سلوک کرنے سے مسلمانوں کو منع فرمایا ہے، کیونکہ یہ لوگ اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ چکے ہیں،(صحیح بخاری،6516،بروایت حضرت عائشہ صدیقہؓ)،یاد رہے، اس حدیث کا تعلق توہین ِمعنوی سے ہے۔

’’نہیٰ رسول اﷲ عن المثلۃ‘‘،(صحاح ستہ)۔گویا آپ ﷺ نے نعش کو مسخ کرنے سے منع فرمایا۔ جیسا کہ ظاہر ہے ،اس حدیث کا تعلق توہین ِ بدنی وجسمانی سے ہے۔سنگسارکرنے کے مسئلہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ،نہ ہی وہ مثلے کے حکم میں آتا ہے،ہاں دشمن کو آگ میں جلانا اسلام میں ممنوع ہے،(سنن ابی داؤد،کتاب الجہاد،باب فی کراھیۃ حرق العدو با لنار)۔نیز اسلام میں بلا جواز یا پھر زائد از ضرورت سفک دماء یعنی خون کی ندیاں بہانا بھی جائزنہیں، کہ یہ تخلیقِ انسانیت کے بنیادی مقاصد ،تسبیح، تحمید اور تہلیل کے منافی ہیں،(سورۂ بقرہ،30)۔

لاشوں کی وہ بے حرمتی جو حالیہ جنگوں میں سوویت یونین کے دور میں، یا بوسنیا میں،اسی طرح امریکن فورسز کی طالبان کی لاشوں پر دن دیہاڑے پیشاب کرنے اورلاتیں مارنے سے متعلق ہیں،ان کی کوئی معقول توجیہ نہیں کی جاسکتی،نہ ہی کوئی مذہب ،قانون یاتہذیب اس کی اجازت دے سکتی ہے۔ بلکہ دشمن کی لاشوں کو بھی باعزت طریقے سے دفنانا لازمی ہے،غزوۂ بدر کی مثال اس باب میں پوری انسانیت کے لئے مشعلِ راہ ہے۔

ابوالرجال اورعمرہ بنت عبدالرحمن نے آپ ﷺ سے یہ روایت کی ہے’’ لعن رسول اﷲﷺ المختفی والمختفیۃ،(یعنی نبّاش القبور)‘‘، کہ حضور ﷺ نے قبروں کو (بد نیتی اور بے حرمتی کے طور پر) اکھاڑنے والے مردوں اور عورتوں پر لعنت بھیجی ہے ،(التمہیدلما في الموطأ من المعانی والأسانید( موطأامام مالک)،ص:139-138)۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’لأن یجلس أحدکم الیٰ جمرۃ فتحرق ثیابہ،فتخلص الیٰ جلدہ،خیر من أن یجلس علیٰ قبرہ‘‘، (مسلم) ۔ یعنی آپ میں سے کوئی آگ کے انگارے پر بیٹھ جائے،جس سے اس کے کپڑے جل جائے،پھر اس کی کھال بھی جل جائے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ میت کی قبرپر بیٹھ جائے۔ آپ ﷺ نے ادباً و احتراماً قبور پر بیٹھنے سے سختی سے منع کیا ،ارشاد فرمایا:’’لا تجلسوا علیٰ القبور‘‘، قبروں پر نہ بیٹھا کریں،(مسلم)۔قبروں پر مساجد یا قبے شبے بنانے میں بھی چونکہ اکھاڑ پچھاڑ اورقبور کو روندنے کا عمل ہوتاہے،اس لئے اسلام نے ان کوبھی ممنوع قراردیاہے۔

قرآن وسنت کی نصوص کے پیشِ نظراسلامی فقہ میں ڈیڈباڈی کے پوسٹ مارٹم کے متعلق بھی اسی حترام وتکریم کے پیشِ نظر دوآراء پیش کی گئی ہیں : اگر توہین ِمیت کا خطرہ ہویا خدا نہ خواستہ یہی مقصود ہو،تو جائز نہیں، اگرماہرین کی آراء کے مطابق طبی تعلیم کے لئے ہو ،یا وجۂ موت معلوم کرنی ہو ،اہانت کا پہلو نہ ہو،تو جائز ہے۔کیونکہ ’’ ولقد کرّمنا بنی آدم․․‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل70)،یعنی بلا ریب ہم نے بنی آدم کو محترم ومکرم ٹہرایاہے، نیزآپ ﷺ کا ارشاد ہے ،’’کسرعظم المیت ککسرہ حیّا‘‘،(مسلم)۔یعنی میت کی ہڈیوں کی توڑ تاڑ اسی طرح ممنوع ہے،جیسے زندہ انسان کی،اس فرمان ِ الٰہی اورمذکورہ ارشادِ نبو ﷺکا تقاضا یہ ہے کہ زندہ ومردہ ہر حال میں احترامِ آدمیت کو ملحوظ رکھاجائے، (احکام الغسل والتکفین والجنائز، شیخ خالد المصلح)۔
اسلام میں میت کے حقوق یہ ہیں:میت کو غسل دینا، تکفین کرنا، نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا،ایک معزز مہمان کو رخصت کرنے کی طرح لاش کے ساتھ احتراماً جنازہ گاہ اور قبرستان جانا،قبر کی تیاری میں کام کرنا، لاش کی نہایت ادب واعزاز کے ساتھ تدفین کرنا،اس کے لئے دعائیں کرنا،ایصالِ ثواب کرنا،وقتاً فوقتاً زیارت قبور کے لئے جانا، میت کی قبر اور اس کے اعضاء کا احترام کرنا۔لاش اور میت کے یہ دس حقوق قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں ،ہم نے یہاں اختصار کے ساتھ بیان کیا، تفصیل کے لئے احکام ِمیت، کتاب الجنائز ، حقوقِ میت اور فتاویٰ القبور کو دیکھا جاسکتا ہے۔

بین الاقوامی قانون انسانیت میں بھی احترامِ اموات کویوں اجاگر کیا گیاہے،’’ ان قانونی قواعد کا مجموعہ جو مسلح تصادم کے متاثرین کے حقوق متعین کرتاہے اور جنگی طاقت کے وسائل کے استعمال اور اس کے اثرات کو صرف فوجی ہدف تک محدود رکھنے کے لئے مقاتلین پر قیود عائد کرتاہے ۔ ‘‘ مسلح تصادم کے متاثرین میں بالعموم بری ، بحری یافضائی معرکوں میں قتل ،زخمی یا ڈوب جانے والے افراد(اوران کی ڈیڈ باڈیز) ،نیز مریض اور قیدی کے علاوہ وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو مقبوضہ علاقوں میں محبوس ہوں یا وہاں وہ قانوناًتحفظ کے مستحق ہوں‘‘ (بین الاقوامی قانون انسانیت،از ڈاکٹر زمالی،ص:158)۔حسنِ اتفاق سے اسلام اس قانون کی بنیادیں صدیوں پہلے ہی فراہم کرچکا ہے،اہلِ اسلام چونکہ اس کو اپنی مذہبی اقدار کا تسلسل سمجھتے ہیں،اس لئے وہ اس سے مکمل اتفاق کرتے ہیں ۔

اسی طرح رسول اﷲ ﷺ نے مسلمانوں کو تعلیم دی کہ جنگ میں مخالفین کا قتل جنگی ضرورت کی وجہ سے جائز ہوجاتاہے لیکن ان پر لازم ہے کہ وہ قتل کرتے وقت مخالف کو کم سے کم اذیت دیں ، بالکل اسی طرح جیسے ذبح کرتے وقت ذبیحے کو کم سے کم اذیت دینی چاہئے: ’’اﷲ تعالی نے ہر کام میں احسان( خوبصورتی سے انجام دہی)کولازم کیاہے ، پس جب تم قتل کرو، تو بہترین طریقے سے قتل کرو، اور جب تم ذبح کرو تو بہترین طریقے سے ذبح کرو ،اورتم اپنی چھری تیز کرو ،تاکہ اپنے ذبیحے کو راحت دو ،‘‘ (سنن الترمذی ، کتاب الدیات ، باب ماجاء فی النہی عن المثلۃ ،صحیح مسلم ، کتاب الصید والذبائح ، باب الامر باحسان الذبح والقتل وتحدید الشفرۃ )۔ ایک اور روایت میں یہ حقیقت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے : ’’ لوگوں میں سب سے اچھے طریقے سے قتل کرنے ولے اہل ایمان ہیں ۔‘‘ (سنن ابی داؤد ، کتاب الجھاد ،باب فی النہی عن المثلۃ )۔1949ء کے جنیوا معاہدات نے مقتولین اور غرق ہونے والے لوگوں کی لاشوں کا احترام لازم کیاہے، نیز لاشوں یا ان کے اعضا ء کی بے حرمتی کو ناجائز ٹھہرایاہے ۔ اسی طرح ان معاہدات کی روسے ریاستوں کی ذمہ داری ہے ،کہ مقتولین کی شناخت اور ان کی تدفین کے متعلق تفصیلات متعین کرنے کے بعد متعلقہ ریاستوں تک اس کی معلومات پہنچائیں ۔

جاہلیت کے زمانے میں لاشوں کا مثلہ اور مقتولین پر دل کی بھڑ اس نکالنا ایک عام عمل تھا، تاہم غزوۂ بدر کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے مقتولین کی لاشوں کے احترام کے متعلق اسلامی اخلاق کانمونہ بہترین دکھایا اور مشرکین کے مقتولین کی لاشوں کی تدفین کا حکم دیا، اس کے بعد اسلامی شریعت کے احکام کے موافق جنگ کے دوران میں وقفہ دینے کا رواج بھی قائم ہوگیا،تاکہ دونوں فریق اپنے مقتولین اور زخمیوں کو میدان جنگ سے دور لے جاسکیں ، مسلمانوں کے مقتولین شہداء کو غسل اور کفن کے بغیرہی دفنا یا جاتاتھا اور جن کپڑوں میں وہ شہید ہوجاتے تھے، انھی سے ان کو ڈھانپ لینے کو کافی سمجھا جاتاتھا ، اس ضمن میں قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ عتبہ بن عامر الجہنی رضی اﷲ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے پاس مشرکین کے مقتولین میں سے ایک شخص کا سر لے آئے ، اس پر حضرت ابوبکر صدیق ناراض ہوئے اور انھوں نے اپنے کمانڈ روں کو لکھا : ’’میرے پاس کوئی سرنہ لایاجائے ور نہ یہ حد سے تجاوز ہوگا، یعنی دل کی بھڑاس نکالنے میں ۔میرے لئے اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کافی ہے ۔‘‘

اس انوکھے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد بن حسن الشیبانی فرماتے ہیں : ’’یہ مثلے کی ایک قسم ہے، کیونکہ سرلاش کا حصہ ہے ،جسے دفن کرنا واجب ہے ، نہ کہ اسے لوگوں کو دکھایا جائے ، ــــ․․․ پس اﷲ تعالی کا تقوی ہمیں ایسے کام سے دور رکھے گا، جو دشمن کے ساتھ معاملہ بالمثل کے بجائے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے ہو(السیر الکبیر،ص: 277)۔

نوٹ:یہ مضمون بروزِ جمعہ6جون2014کو صبح 9بجے icrcکی طرف سے ’’احترامِ اموات‘‘ کے موضوع پرمنعقدہ انٹر نیشنل کانفرنس ،رمادہ پلازا میں پڑھا گیا۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 814150 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More