کاش میں بیٹی نہ ہو تی

اس وقت اگر پورے عالم کا طائرانہ جائزہ لیا جا ئے تو نہا یت ہی دلخراش حقیقت منکشف ہو تی ہے کہ کہیں تو اسے آزادی نسواں کے نام پر رونق بازار بنایا جا رہا ہے اور کہیں اسے لفظ عورت جس کے معنی ہی چھپانے والی چیز ہے اس کی عصمت کو چا ک چاک کیا جا رہا ہے اور کہیں اسے شہوت نفسانی تک محدود تصور کیا جا رہا ہے اور یہ سب مذہبی اور اخلاقی قدروں سے دوری اور اندھی مادہ پرستی ہے جس کی کھائی میں ہمارا معاشرہ گرتا چلا جا رہا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو جس نگاہ سے دیکھا جا تا ہے ہم سب کے دل جانتے ہیں اور دلوں کے راز اﷲ خوب جانتا ہے اور بسا اوقات بندوں پر بھی ظاہر کر دیتا ہے رواں دور میں جس قدر مشکلات اور تذبذب کا شکار صنف نازک ہے وہ موجودہ حالات سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے اس پر آشوب دور میں صنف نازک ایک ایسے مسیحا کی تلاش میں ہے جو ہمارے معاشرے میں رہنے والے درندوں کی جانب سے لگائے گئے زخموں پر ایک مرحم کی حثییت رکھتا ہواور ان خواتین کے لئے ایک رہنما اصول ثابت ہو اور جو ابھی تک معاشرے میں اپنی کم عقلی یا لا شعوری کی بدولت انجام سے ناواقفیت رکھتے ہوئے تقدس زن کو تار تار کررہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ عورت کی کوکھ سے جنم لینے والے ابن آدم کے لئے بھی ایک سبق ضروری ہے جسے پڑھ کر وہ غیر عورتوں اور اپنی عورتوں میں فرق مٹا دے اس مو قع پر برادرم محمد علی رانا نے نہایت ہی خوبصور ت اور ایک انتہا ئی سبق آموز تصنیف تخلیق کی ہے جو اپنے انداز میں ایک منفرد حثییت رکھتی ہے اس میں جس طریقے سے ہمارے معاشرے کے ان تما م غلیظ پہلوؤں کی عکاسی کی گئی ہے جو کہ عام نظروں سے اوجھل ہیں کہ کس طرح بنت حوا بے راہ روی کا شکار ہے اور کیسی چالوں سے ابن آدم اسے اپنے چنگلوں میں پھنسا کر جھوٹی اور بناوٹی ،محبت کے دعووں سے احساسات و جذبات پر قابض ہو جا تا ہے جو صرف چند لمحوں کے بعد ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں ظاہر ہے جن کی بنیاد چند لمحات ہو گی ان کی معیاد بھی چند لمحات ہی ہو نگے مگر ان بنیادوں کو ٹوٹنے اور ریزہ ریزہ ہونے میں ایک لمحہ بھی درکار نہیں ہو تا جنہوں نے پوری زندگی بنیادیں کھڑی کرنے میں صر ف کی ہو تی ہے ان کے دامن پر ایک داغ ان کی تمام زندگی کا روگ بن جا تا ہے جنہوں نے زندگی لگائی ہو تی ہے ان کو اپنے دامن کو خوشیوں سے بھرنے کے لئے صرف ایک حقیقی جذبے اور مسکراہٹ درکار ہوتی ہے ۔ ۔ ۔

اس کتاب میں حقیقی معنوں میں ہمارے ان تمام معاشرتی پہلوؤں کی عکاسی کی گئی ہے جن کی بدولت ہم معاشرتی بگاڑ کا شکار ہو چکے ہیں۔

اخلاقی لحاظ سے ہم اس ضمن میں جس حد تک گِر چکے ہیں بات وہی ہے عورت پہلے بھی مظلوم و مغلوب تھی اور آج بھی۔ ہمیں عرب میں اسلام سے پہلے صنف نازک کے ساتھ رواں رکھا جانے والا سلوک ذہن نشین کرنا چا ہیے ۔ ۔ اس وقت ہمیں تاریخ دہرانے کی بجائے اصلاح کے پہلو تلاش کر نے چا ہیے ۔اس خوبصورت کتا ب میں محمد علی رانا نے نہایت ہی خوبصورت انداز میں معاشرے میں اس برائی اور اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس امر کی عکاسی کی ہے کہ ان مسائل پر یہ تصنیف ایک بہترین شاہکار ثابت ہو گی ۔ ۔۔جس طرح چرچل نے کہا تھا کہـ''تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا''اس پُرخار دور میں اچھی مائیں تیار کرنے اور تربیت کے لئے ہمیں اس قسم کی تخلیقات کی اشد ضرورت ہے ہماری نوجوان نسل کو معاشرے کے بگڑے ہوئے اس چہرے سے آشنائی ضروری ہے جو اس وقت پوشیدہ ہے جو صرف داغ لگنے کے بعد ہی نمایاں ہو تا ہے مگر اس داغ کے بعد کوئی بھی سفیدی اسے چھپا نہیں سکتی ہے ۔۔۔

آخر میں مصنف نے فکری انداز میں بنت حوا کو مخاطب کرتے ہوئے جھنجھوڑا ہے اور ضمیر جگانے کیلئے عورت کے رتبے اور شان میں شاعری زبان میں تخلیق کیا ہے۔۔۔
تو عظیم ہے جنت کا نشان ہے تو
خود پہ ہو نازاں،پیغمبروں کی ماں ہے تو
بیت گیا تو حاصل کچھ نہ آئے گا
ٹھہر جا اے بیٹی! گزرتا سما ء ہے تو
پاکیزہ ہے تو، تو جنت کا نشاں ہے
ہے شیطان کی پیروکارتو گنا ہ ہے تو
آئندہ نسلیں محتاج ہیں تیری
تیر نکلے جہاں سے وہ کماں ہے تو
ہر سو نظر آتا ہے رنگینوں میں شیطاں
اے پردہ نشین عورت کہاں ہے تو ؟
علی رضاشاف
 
Ali Raza shaAf
About the Author: Ali Raza shaAf Read More Articles by Ali Raza shaAf: 29 Articles with 24528 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.