غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں

ملک میں جس منظم سازش کے تحت فرا تفری اور سیاسی انتشار بام عروج پر ہے ، اس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کے تمام مسائل فورا حل ہوجائیں گے اور اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھے گا۔ پھر پاکستان دنیا کے مسلم ممالک کی نمائندگی کرے گا اور عراق و شام میں فرقہ واریت کی خانہ جنگی کے خاتمے اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت کیخلاف بھرپور کردار ادا کرے گا۔ ایران کا سعودیہ عرب سے دوستانہ ہوجائے گا اور تمام مسلم امہ ایک امت واحدہ ہوکر دنیا میں امن قائم کردیں گے ۔

چلیں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ لانگ مارچ یا انقلاب کے بعد ایسا کچھ نہیں ہوگا ، تو پھر کیا ہوگا ، شاید یہ ہوگا کہ پاکستان میں فرقہ واریت ختم ہوجائے گی ، لسانیت ختم ہوجائے گی ، صوبائیت ختم ہوجائے گی ، بھائی چارہ ہوگا ، کراچی میں مکمل امن قائم ہوجائے گا ۔کوئی غریب کسی نو گو ایریا میں جانے سے نہیں ڈرے گا۔ رینجرز واپس اپنی بیرکوں میں چلی جائے گی ۔ پولیس عوام کی خدمت کرے گی ۔بے گناہ عوام کو بد امنی سے نجات مل جائے گی، لوڈ شیدنگ ختم ہوجائے گی۔بے روزگاری ختم ہوجائے گی۔باپ ، بیٹے ، بیٹا باپ کو نہیں مارے گا۔، طوائف اپنا جسم نہیں بیچے گی ، ماں اپنے بچوں کیساتھ دریا میں چھلانگ لگا کر خودکشی نہیں کرے گی۔لڑکیوں کے چہرے تیزاب سے جھلسنے سے بچ جائیں گے۔جہیز کی لعنت ختم ہوجائے گی ، کوٹہ سسٹم نہیں رہے گا ، میرٹ پر نوکریاں ملا کریں گی۔سرکاری ادارے ، عوام کاکام کریں گے ۔ عوام کو اپنا جائز کام کروانے کیلئے رشوت نہیں دینے پڑے گی۔روٹی کپڑا مکان کا وعدہ پورا ہوجائے گا۔ انصاف سستا ہوجائے گا۔وکیلوں کو بھاری فیسیں نہیں دینا پڑے گی۔سستا انصاف مہیا کرنے کے دعوے سچ ثابت ہوجائیں گے ، ایک غریب بھی ہائی کورٹ ، سپریم کورٹ جا سکے گا ۔ لاکھوں زیر التوامقدمات ختم ہوجائیں گے ، ججز انتظار کریں گے اور اردلی اعلان کرے گا کہ کوئی ہے انصاف طلب کرنے والا، شیر ، بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیئں گے۔ بے گھر ہونے والے آئی ڈی پیز واپس اپنے گھروں میں چلے جائیں گے ۔ الیکشن میں الیکڑونک مشین کا استعمال ہوگا ۔ جس کا ووٹ ہوگا وہی ووٹ ڈالے گا۔ عوام کا غریب نمائندہ ہی پارلیمان جائے گا۔ امرا ء کے لئے ایوانوں کے داخلے بند ہوجائیں گے ۔عوام اچھے دنوں کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں گے ، کیونکہ اچھے دن جوآجائیں گے ، تمام سیاست دان اپنا غیر ممالک میں رکھا ہوا سرمایہ واپس پاکستان لے آئیں گے ، پاکستان کے قرضے اتر جائیں گے ، نظام تعلیم ایک ہوجائے گا ۔ قومی زبان اردو کو قرار دے دی جائے گی ۔ تمام علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ مل جائے گا ، سی ایس ایس کے امتحانات میں مڈل کلاس کے اردو میڈیم بھی حصہ لینے کا قابل ہوجائیں گے ۔ وہ سب کچھ ہوجائے گا ، جو قائد اعظم بھی نہیں کرسکے تھے ۔ جو ہٹلر بھی نہیں کرسکا تھا ۔پاکستان تمام دنیا میں ایک آئیڈیل ملک ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔

اس سے زیادہ بھی بہت کچھ ہوجائے گا بس ، لانگ مارچ اور انقلاب کامیاب ہوجائے ، ۱۴ ـ اگست کو نیا پاکستان بن جائے گا ۔ مبارک ہو ، مبارک ہو ، نیا پاکستان بن رہا ہے ، اسمبلیوں کو فوری طور قرارداد منظور کرکے اس نئے پاکستان کی منظوری دے دینی چاہیے۔ ویسے بھی تو پاکستان کی چیدہ چیدہ قوم پرست، لسانی جماعتیں ، اپنی اپنی ڈگڈی لیکر اپنی اپنی راگنی گا رہے ہیں۔یہ سہانے خواب ہیں اور سہانے خوابوں کی تعبیر لازمی نہیں کہ سہانے ہو ، کیونکہ ہم دن میں بھی خواب دیکھتے ہیں اور جاگتی آنکھوں میں خواب سجا لیتے ہیں ۔ لیکن کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس کا ردعمل کس طرح منفی اور خطرناک ہوسکتا ہے۔ انسان اپنے جذبات کے تابع ہے تو کبھی وہ اپنے جذبات کو اپنے تابع کرلیتا ہے اور یہی اس کی معراج ہوتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں ثقافتی اقدار بتدریج ختم ہوتی جا رہی ہیں اور انسانی مقصد صرف اپنے فروعی مفادات کا حصول رہ گیا ہے ۔

ماد ی جذبات کی لے میں بہتے ہوئے وہ پنا سب کچھ کھوتا جا رہا ہے ۔ مجھے میرے ایک بزرگ نے پشتو کی مثال سمجھائی کہ ہم جب کسی کے پاس ملنے جاتے یا پھر کسی کے پاس آنے سے کوئی بہانہ تراشتے تو وہ ایک بات کہتا کہ ،" خوار خوشے خو نہ یم ، اخپل جماعت حجرہ لرم "۔۔۔ میں کوئی غریب و بے نسل نہیں ہوں اپنی مسجد و حجرہ ہوتے ہوئے تم کہاں جا سکتے ہو ۔ ای طرح اگر کسی کو جرگے میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کیلئے کہا جاتا تو سب سے پہلے یہی دیکھا جاتا کہ اس کی مسجد یا حجرہ بھی ہے کہ نہیں۔

چونکہ ہر قوم کی ثقافت و روایات ہی نئی نسل کی آبیاری کا سبب بنتی ہیں اس لئے ان باتوں کا مقصد یہ نہیں ہوتا تھا کہ کسی کی ذات کو مجروح کرنا ہے بلکہ اس سے اس کو یہ ظاہر کرانا مقصود ہوتا تھا کہ میں کم ازکم اتنا تو ضرور کرسکتا ہوں کیونکہ میرے علاقے کی مسجد ہوتے ہوئے میں دوسری مسجد اس لئے نہیں جاتا کیونکہ وہاں مجھے اجنبیت ملے گی ، علاقائی مسجد میں پانچ اوقات میں اپنا دکھ درد شیئر کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی جاننے والا سامنے رہے گا اور حجرہ ، اوطاق وہ جگہ ہے جہاں بیٹھ کر نئی نسل اپنے اجداد سے اپنی ثقافت اور روایات کو سیکھ کراپناتی ہے ۔ لیکن بدقسمتی اب ایسا نہیں ہورہا ، شومئی قسمت سے معاشرتی اقدار اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مملکت پاکستان ہو یا اہل اسلام کی دنیا ، سب جگہ مادی ضرورت نے لافانی رشتوں پر سبقت حاصل کرلی ہے۔

اپنائیت کہ جگہ خودغرضی نے لی ہے، کھوکھلے دعوؤں نے حقیقت پسندی کو زمینی حقائق سے دور کردیا ہے ۔ انسانیت کی جگہ مادیت نے لے لی ہے اور انسانیت کے مقاصد کی جگہ فسطائیت نے حاصل کرلی ہے۔ امن کی جگہ بد امنی نے لے لی ہے اور محبت کی جگہ نفرت نے لے لی ہے۔

ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کیلئے بھی وقت میسر نہیں ہے ، ہم اپنے آپ کو اچھائی یا برائی کے توازن میں تولنا بھی پسند نہیں کرتے ، احساس پر بے حسی غالب آچکی ہے ۔ روز گرتی لاشوں ، سوختہ بریدہ جسموں پر صرف چند لمحوں کیلئے ماتھے پر گرہ پڑتی ہے اور لب سے یہ استفسار بیان ہوتا ہے کہ کون تھا ؟۔ جب پتہ چلاہے کہ اس کا تعلق اس کی ذات ، فرقے ، پارٹی سے نہیں تھا تو اس کے سینے سے ٹھنڈی سانس نکل جاتی ہے اور اس کے قدم آگے بڑھ جاتے ہیں کہ یہ تو روز کا معمول بن چکا ہے اﷲ جانے کب حالات بہتر ہونگے اور اگر کوئی غلطی سے شناسا نکل آئے تو ۔۔
کوئی تم سے پوچھے کون ہوں میں ،
تم کہہ دینا کوئی خاص نہیں۔
ایک دوست ہے کچھ کچا پکا سا ۔
ایک جھوٹا سچا سا۔۔جذبات کو دیکھے ایک پردہ بس ،
ایک بہانہ ہے بس اچھا سا۔

ہمیں اپنی ثقافت بچانی ہوگی اپنی اقدار کوبچانا ہوگا اپنی نئی نسل کو اپنے اسلاف کے مثبت اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی رہنمائی کرنا ہوگی ۔ بصورت دیگر اس کے برخلاف گئے تو پھر کہنا پڑے گا کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے ۔ سب حالات قابو میں ہیں ۔ یاد رکھیں کہ پاکستان ، مزید تجربات کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اس دیس میں ثقافت فروخت ہوچکی ہے ، انسانیت ختم ہوچکی ہے ۔ مفاد پرستی اور فروعی اختلافات کی وجہ سے اجتماعی مفادات کو بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ میرے دیس میں دہشت گردی ، بے امنی اور اقربا پروری کا کاروبار جب تک جاری رہے گا۔ انقلاب آئے گا ، مارچ کرے گا اپنی قیمت وصول کرے گا اور پھر چھٹیاں منانے واپس ٹھنڈے ملک چلے جائے گا۔ نوکر شاہی خوش ہے راوی چین ہی چین لکھتا ہے اور یہ سب پروپیگنڈا ہے کہ ۔۔۔۔۔کون کہتا میرے دیس میں کاروبار مندے پڑ گئے ہیں ؟بلکہ ۔۔۔۔آؤ آؤ میرے ساتھ آؤ۔۔۔
وقت کم ہے یہ نہ ہو دکانیں جل کر خاکستر ہوجائیں !!!
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 662859 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.