جنت اور اس کی نعمتیں

اﷲ تعالیٰ تعالیٰ نے نیک اور مومن انسانوں کیلئے جنت جیسی عظیم نعمت بنائی ہے مگر یہ نعمت خاتمہ بالایمان ہو اور اعمال صالحہ کیے ہوں تو نصیب ہو تی ہے۔ جنت ہے مثال مقام ہے اور اس کی نعمتیں بھی انسانی ذہن سے وراء ہیں ۔اس مضمون میں ہم نے جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر کیا ہے تاکہ مومنین میں جذبۂ اعمال صالحہ پروان چڑھے ۔ یہ مضمون تنبیۃ الغافلین سے ماخذ ہے جس کے مصنت فقیہ ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اﷲ علیہ ہیں۔

جنت کس طرح بنائی گئی :حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ! جنت کس سے بنائی گئی ؟ ارشاد فرمایا پانی سے ۔ہم نے عرض کیا ذرا اس کی تعمیر کی تفصیل سے ہمیں مطلع فرمائیے۔ ارشاد فرمایا کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک چاندی کی ہے اور گارا کستوری کا ، اس کی مٹی زعفران اور اس کے سنگر یزے یا قوت اور موتی کے ہیں ۔جو اس میں داخل ہو گا ہمیشہ کے لئے نعمتوں میں ہو گا۔ کبھی تنگی نہ دیکھے گا اور نہ اسے موت آئے گی ۔نہ کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ جوانی کبھی ڈھلے گی ۔

تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوت
ی :پھر حضور اکرم ﷺ نے ارشیاد فرمایا کہ تین قسم کے آدمی ہیں جن کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی :عادل حکمران ،روز ہ دار جب کہ افطار کرنے لگے اور مظلوم کی دعا کو سب پر دوں سے اوپر اٹھا لیا جاتا ہے اور رب ذوالجلال فرماتا ہے مجھے اپنے جلال اور عزت کی قسم کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا گو کچھ عرصہ بعد ہی سہی ۔

جنت کی نعمتیں:حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں ایک ممدود کی آیت سے یہ مضمون سمجھ لو کہ وہاں کا سایہ بڑا لمبا ہو گا اور جنت میں ایسی نعمتیں ہوں گی جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کی خیالی پرواز وہاں تک پہنچ سکی حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک حور ہے جس کا نام لائنہ ہے جو مشک عنبر ،کافور اور زعفران کے عناصر اربعہ سے بنی ہے ۔ اس کا خمیر نہر حیوان کے پانی سے تیار کیا گیا ۔ رب عزیز نے اسے کن فرمایا۔ وہ وجود میں آئی ۔تمام حوریں اس کی مشتاق ہیں ۔ایک بار سمندر میں تھوک دے تو اس کا کڑوا پانی میٹھا ہو جائے۔ اس کے سینے پر لکھا ہوا ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میرے جیسی حور اسے مل جائے تو اسے میرے رب کی اطاعت میں لگنا چاہیے ۔

جنت کی زمین:حضرت مجاہد رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت کی زمین چاندی کی اور مٹی کستوری کی ہے ۔اس کے درختوں کے تنے چاندی کے ہیں اور شاخیں زبر جد اور موتیوں کی اور پتے اور پھل اس سے نیچے ہوں گے ۔ جو کوئی کھڑا ہو کر کھانا چاہے تو دقت نہیں ،جو بیٹھ کر کھانا چاہے تو اسے کوئی تکلیف نہیں اور جو لیٹ کر کھانا چاہے تو اسے بھی کچھ تکلف نہ ہو گا۔ پھر آپ نے تلاوت فرمائی :’’یعنی اس کے پھل قریب ہوں گے حتیٰ کہ کھڑا اور بیٹھنے والا با ٓسانی لے سکے گا۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم ! جس نے حضرت محمد ﷺ پر کتاب نازل فرمائی ہے کہ اہل جنت حسن و جمال میں یوں بڑھتے رہیں گے جیسا کہ وہ دنیا میں بڑھاپے کی طرف بڑھتے رہتے ہیں ۔ حضرت صہیب رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :’’جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو چکیں گے تو ایک پکارنے والا ندا دے گا کہ اے جنت والو! اﷲ تعالیٰ کے ہاں تمہارے ساتھ کیا ہواوعدہ باقی ہے جسے وہ پورا کرنا چاہتا ہے ۔ یہ کہیں گے وہ کیا وعدہ ہے ،کیا اس نے ہمارے میزانِ عمل کو بھاری نہیں فرمایا اور چہروں کو سفید نہیں کیا اور جنت میں داخل نہیں کیا اور ہمیں دوزخ سے نجات نہیں بخشی؟ فرمایا پھر پردہ اٹھا دیا جائے گا اور وہ جمال ذات دیدار سے بہرہ ور ہوں گے ۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اہل جنت کو حاصل ہونے والی نعمتوں میں سے کوئی نعمت بھی دیدار خدا وندی سے زیادہ محبوب نہ ہو گی ۔‘‘

یوم المزید:حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت عالیہ میں ایک صاف و شفاف آئینہ لائے جس میں ایک سیاہ نکتہ تھا ۔آپ نے سوال کیا جبرائیل ! یہ سفید شیشہ کیا ہے ؟ عرض کیا یہ جمعہ ہے اور یہ سیاہ نکتہ ساعت ہے جو جمعہ میں آتی ہے اور یہ فضیلت صرف آپ کو اور آپ کی امت کو ہی نصیب ہوئی ہے ۔دوسر ے لوگ یعنی یہود و نصاریٰ و غیرہ وہ سب اس میں آپ کے پیچھے ہیں ۔اس دن میں ایک ساعت اور گھڑی ایسی ہے کہ جس خوش نصیب مومن کو وہ مل جائے تو جس بھلائی کی بھی اﷲ تعالیٰ سے درخواست کرے وہ قبول ہوتی ہے اور جس برائی سے بھی پناہ مانگے اسے عطا ہوتی ہے اور یہ دن ہمارے ہاں یوم المزید کہلاتا ہے ۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یوم المزید کیا ہے ؟عرض کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے جنت الفردوس میں ایک وادی بنائی ہے جس میں مشک کا ایک ٹیلہ ہے ۔جب جمعہ کا دن ہو گا تو اس کے پاس منبر بچھائے جائیں گے جن پر انبیاء علیہم السلام تشریف فرما ہوں گے ۔کچھ منبر سونے کے ہوں گے جن پر یاقوت و زبرجد کا جڑاؤ ہو گا ۔ان پر صدیقین، شہداء ،صالحین بیٹھیں گے اور بالا خانوں والے بھی اتر آئیں گے اور ان حضرات کے پیچھے اس ٹیلہ پر بیٹھ جائیں گے اور سب اپنے رب کی طرف متوجہ ہوں گے ۔اس کی حمد و ثناء کہیں گے ۔اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے مجھ سے کچھ مانگو ۔وہ عرض کریں گے ہم آپ کی رضا چاہتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ میں تم سے راضی ہوں کہ اسی رضا نے تمہیں میرے گھر میں ٹھکانا دیا اور میرا اکرام تمہیں نصیب فرمایا ،پھر ایک تجلی ہو گی اور ان سب حضرات کو جمال جہاں آرا کا دیدار نصیب ہو گا ۔اس لحاظ سے اہل جنت کو جمعہ سے بڑھ کر کوئی دن بھی محبوب نہ ہو گا کہ جس میں انہیں مزید در مزید اعزاز و اکرام نصیب ہو گا۔

اللّٰہ تعالیٰ کی رضا اور دیدار :ایک روایت میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرمائیں گے میرے اولیاء کو کچھ کھلاؤ ۔چنانچہ کئی طرح کے کھانے لائے جائیں گے اور وہ ہر لقمہ میں پہلے سے الگ لذت پائیں گے ۔کھانے سے فراغت پر اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ میرے بندوں کو کچھ پلاؤ تو کئی طرح کے مشروبات لائے جائیں گے اور ہر سانس پر پہلے سے جدا ذائقہ اور لذت پائیں گے ۔اس سے فارغ ہو ں گے تو اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے میں تمہارا رب ہوں ، میں نے اپنا وعدہ جو تمہارے ساتھ کیا تھا سچا کر دیا ہے ۔ سو اب مجھ سے کچھ مانگو میں عطا کروں گا۔اہل جنت عرض کریں گے ۔ اے اﷲ ! ہم آپ کی رضا مندی چاہتے ہیں اور اس سوال و جواب کا دو دفعہ تکرار ہو گا تواﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ میں یقینا تم سے راضی ہو گیا اور میرے ہاں اس سے بھی مزید ہے ۔آج میں تمہیں وہ اکرام بخشوں گا جو سب انعامات سے بڑھ کر ہو گا ۔ چنانچہ پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جس قدر اﷲ تعالیٰ کو منظور ہو گا خوب خوب نعمت دیدار حاصل کریں گے پھر اس کی بارگاہ جمال میں سجدہ ریز ہوں گے اور جب تک خدا کو منظور ہو گا سجدہ میں رہیں گے ۔پھر ارشاد پاک ہو گا اپنے سر اوپر اٹھا لو ! یہ عبادت کا موقع نہیں ہے ۔پس وہ جنت کے تمام انعامات کو بھول جائیں گے ۔پس دیدار کی ایک جھلک انہیں ان تمام نعمتوں سے زیادہ محبوب لگے گی ۔ واپس لوٹیں گے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا مشک کے سفید ٹیلہ پر چلے گی اور ان کے سروں پر اور ان کے گھوڑوں کی پیشانیوں پر اسکی بکھیر ڈال دے گی ۔ اپنے اہل خانہ میں واپس آئیں گے تو ان کی بیویاں انکے حسن و جمال کا پہلے کی نسبت اضافہ دیکھ کر کہیں گی کہ تم تو پہلے سے کہیں زیادہ حسین بن کر آئے ہو۔

فقیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ پردہ ہٹانے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والوں پر جو پردہ تھا کہ وہ اس کی وجہ سے دیکھ نہ سکتے تھے وہ رکاوٹ دور کر دی جائے گی اور بعض نے اس کی طرف دیکھنے کا یہ مطلب کیا ہے کہ جنتی باری تعالیٰ کے اس اکرام کو دیکھیں گے جو اس سے پہلے نہ دیکھا ہو گا اور اکثر اہل علم ظاہری معنی ہی مراد لیتے ہیں کہ وہ باری تعالیٰ کو بلا کیفیت و بلا تشبیہ دیکھیں گے جیسے کہ آج دنیا میں اسے بلا تشبیہ پہچانتے ہیں۔

اہل جنت کا قد و قامت:حضرت عکرمہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل جنت مردیا عورت 33برس کے نوجوانوں کی طرح ہوں گے ۔اپنے جد اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے موافق ساٹھ ہاتھ ہوں گے ۔جوان ہوں گے ،بدن پر بال نہ ہوں گے اور نہ داڑھی ہو گی۔ آنکھیں سرمگیں ہو ں گی۔ ان پر ستر جوڑے ہوں گے ۔ ہر جوڑا ہر آن ستر رنگ بدلے گا۔ اپنا چہرہ بیوی کے آئینہ جیسے شفاف چہرے میں دیکھ لے گا۔ ایسے ہی اس کے سینے اور پنڈلیوں کا حال ہو گا اور ان کی بیویاں خودان کے شفاف چہروں ، سینوں اور پنڈلیوں میں اپنے چہرے دیکھ سکیں گی۔ انہیں تھوک بلغم وغیرہ نہ آئے گی۔ اہل جنت ہر قسم کی کراہت اور نجاست کی چیزوں سے پاک صاف ہوں گے ۔ ایک روایت میں ہے کہ جنتی عورت اگر اپنی ہتھیلی آسمان سے نیچے کی طرف کر دے تو زمین و آسمان کا درمیان سب منور ہو جائے ۔

جنتیوں کا کھانا اور اس کا ہضم ہونا:حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب کا ایک آدمی حضور اکرم ﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا ۔ کہنے لگا اے ابو القاسم! کیا آپ فرماتے ہیں کہ اہل جنت کھاتے پیتے ہیں ؟فرمایا ہاں! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! وہاں کے ایک آدمی کو سو آدمیوں کے کھانے پینے اور جماع کی قوت ملے گی۔ وہ کہنے لگا کہ جو کھائے پیئے گا، اس کو فراغت کی حاجت بھی ہو گی اور جنت تو پاکیزہ جگہ ہے جہاں نجاست کا نام نہیں ۔ارشاد فرمایا کہ ان کو کستوری جیسا خوشبودار پسینہ آئے گا اور یہی ان کی حاجت سے فراغت ہو گی۔

شجر طوبیٰ:حضرت معتب بن سمی (طوبیٰ لھم و حسن ماب)کے متعلق فرماتے ہیں کہ طوبیٰ جنت میں ایک درخت ہے ۔جنت میں جو بھی مکان اور رہائش گاہ ہے وہیں پر اس کا سایہ ہے ۔ اس کی ایک ایک شاخ ایسی ہو گی کہ اس میں قسم قسم کے پھل لگے ہوں گے ۔ ان پر بہت بڑے بڑے پرندے بیٹھتے ہوں گے ۔ جب کوئی شخص کسی پرندہ کی خواہش کرے گا، اسے بلائے گا۔ وہ اس کے دستر خوان پر آموجود ہو گا۔ وہ حسب خواہش اس کا کچھ حصہ کھائے گا اور یہ پھر پرندہ بن کر اُڑ جائے گا۔

جنتیوں کا حلیہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کا پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا، وہ چودھویں رات کے چاند جیسے ہوں گے ۔ ان کے بعد ایسے ایسے ہوں گے جیسے کوئی ستارہ آسمان کے تمام ستاروں سے زیادہ چمکدار ہو۔ پھر ان کے بعد درجہ بدرجہ ہوں گے ۔ انہیں پیشاب یا پاخانہ کی حاجت نہ ہو گی اور نہ تھوک اور بلغم وغیرہ آئے گا۔ ان کیلئے سونے کی کنگھیاں اور عود کی انگیٹھیاں ہوں گی ۔ پسینہ کستوری جیسا ہو گا۔ سب کے اخلاق شخص واحد کی طرح ایک ہی جیسے ہوں گے اور اپنے ابا حضرت آدم علیہ السلام کے قد کے موافق ساٹھ ہاتھ لمبے ہوں گے ۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما حضور اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ اہل جنت نوجوانی کے عالم میں ہوں گے ۔ چہروں پر داڑھیاں نہ ہوں گی بلکہ سر کے علاوہ اور آنکھوں کے ابرو اور پلکوں کے سوا باقی بدن پر بغل اور زیر ناف وغیرہ کہیں بال نہ ہوں گے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی لمبائی کے موافق ساٹھ ہاتھ قدہوں گے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لمبائی کے موافقت تینتیس برس کی عمر ، گوراچٹارنگ اور سبز لباس ہو گا۔

جنتیوں کی خوراک اور پوشاک:ایک جنتی اپنے آگے دستر خوان رکھے گا جس پر ایک پرندہ آکر کہے گا اے اﷲ کے ولی ! میں نے سلسبیل کے چشمہ سے سیرابی حاصل کی ہے ۔عرش کے نیچے جنت کے باغات میں چرتا اور فلاں فلاں پھل کھاتا رہا ہوں ۔اس کی ایک جانب کا ذائقہ پکے ہوئے گوشت کا ہو گا ۔ چنانچہ جس قدر مرغوب ہو گا وہ اس سے کھائے گا او ر اس جنتی ولی کے ستر حلے زیب تن ہوں گے ۔ ہر حلہ الگ رنگ کا ہو گا ۔ان کی انگلیوں میں دس دس انگوٹھیاں ہوں گی۔ پہلی انگوٹھی پر سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ ۔’’تم صحیح سلامت رہو گے اس کی بدولت کہ تم مضبوط رہے۔‘‘کندہ ہو گا۔دوسری پر ’’تم اس میں سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہو۔‘‘ لکھا ہو گا تیسری پر ’’اور یہ جنت ہے جس کے تم مالک بنا دیئے گئے ہوا پنے اعمال کے عوض میں ۔ ‘‘لکھا ہو گا۔ چوتھی پر ’’تمہارے سب غم و افکار دور کر دیئے گئے ۔‘‘ لکھا ہو گا ۔پانچویں پر ’’ہم نے تمہیں زیورات اور جوڑے پہنائے ۔‘‘نقش ہو گا۔ چھٹی پر’’ہم نے حورعین سے تمہارا عقد کر دیا۔‘‘تحریر ہو گا ساتویں پر ’’اور تمہارے لئے ان جنتوں میں وہ نعمتیں ہیں جن کو جی چاہتا ہے اور آنکھیں لذت پاتی ہیں اور تم یہاں پر ہمیشہ رہو گے ۔‘‘لکھا ہو گا آٹھویں پر ’’تمہیں نبیوں اور صدیقوں کی رفاقت نصیب ہوئی۔‘‘لکھا ہو گا۔ نویں پر ’’تم ایسے جو ان بنے ہو جنہیں بڑھا پا نہیں آئے گا۔‘‘لکھا ہو گا اور دسویں انگوٹھی پر ’’تمہیں اس کے پڑوس میں سکونت ملی ہے جو اپنے ہمسایہ کو ایذا نہیں دیتے ۔‘‘نقش ہو گا۔

یہ تھیں جنت کی نعمتیں اور جنت ۔اور یقینا قارئین کا دل تو چاہتا ہے کہ اس جنت میں جائیں اور اس کی نعمتیں پائیں ۔ اس کا طریقہ کار بھی نظر قارئین ہے۔

جنت کی نعمتیں حاصل کرنے کیلئے پانچ چیزوں کی پابندی:حضرت فقیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اہل جنت والے انعامات کو حاصل کرنا چاہتا ہے ،اسے پانچ چیزوں کی پابندی لازم ہے :پہلی یہ کہ اپنے نفس کو تمام گناہوں سے باز رکھے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’اور اس نے نفس کو خواہش سے روکا سو جنت اس کا ٹھکانہ ہو گا۔‘‘

دوسری یہ کہ دنیا کی تھوڑی سی مقدار پر راضی ہو جائے کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ جنت کی قیمت ترک دنیا ہے ۔ تیسری یہ کہ ہر نیک کام کی خواہش رکھے اور طاعت کے کسی کام کو نہ چھوڑے ۔ نا معلوم کون سی طاعت گناہوں کی بخشش اور جنت کے حصول کا سبب بن جائے ۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے :’’اور یہ وہ جنت ہے جس کے تم اپنے اعمال کے عوض مالک بنا دئیے گئے ۔‘‘اور ایک آیت میں ہے ’’کہ انہیں یہ بدلہ ان کے اعمال کی وجہ سے دیا جائے گا۔‘‘

اور انہیں جو کچھ بھی اعزاز و اکرام ملیں گے وہ طاعت کی بدولت ہی ملیں گے ۔ چوتھی بات یہ کہ نیک لوگوں سے محبت رکھ اور ان کی ہم نشینی اختیار کرے کیونکہ ان میں سے کسی ایک کی بھی جب بخشش ہو گی تو وہ اپنے بھائیوں اور احباب کی سفارش کرے گا۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ باہمی بھائی چارہ خوب پیدا کرو کیونکہ قیامت میں ہر بھائی کو سفارش کا موقعہ ملے گا اور پانچویں چیز یہ ہے کہ بکثرت دعا کیا کرے اور اﷲ تعالیٰ سے جنت کی اور خاتمہ بالخیر کی بہت زیادہ درخواست کرتا رہے ۔ بعض داناؤں کا کہنا ہے کہ ثواب کا یقین رکھتے ہوئے بھی دنیا کی طرف مائل ہونا جہالت ہے اور اعمال کے ثوا ب کو جان لینے کے باوجود ان کے لئے محنت نہ کرنا بے ہمتی اور اپنے کو عاجز بنانا ہے اور جنت میں یقینا راحت و آرام ہے ۔مگر یہ اسی کو ملے گا جس نے دنیا میں اس کیلئے تکالیف اٹھائی ہوں گی ۔ جنت میں غنیٰ اور تونگری ہو گی جو انہیں لوگوں کو ملے گی جنہوں نے بقدرِ ضرورت تھوڑی سی دنیا پر کفایت کی اور فضول اور زائد چیزوں کو چھوڑ دیا۔لہٰذا یہ پانچ کام کرنے والے کو جنت اور جنت کی نعمتیں میسر آئیں گی ۔ آج ہی ہم اپنا محاسبہ کریں کہ کیا پانچ کام ہم میں پائے جاتے ہیں۔

عبرت و بصائر :ایک زاہد کا قصہ منقول ہے کہ وہ روٹی کے بغیر سبزی اور نمک وغیرہ کھالیتے ۔ کسی نے کہا کہ بس آپ اسی پر گزارہ کرے ہیں؟فرمانے لگے میں اپنی دنیا جنت کیلئے بنا رہا ہوں اور تو اسے بیت الخلا کیلئے بناتا ہے ،یعنی تو مرغوب کھانے کھا کے بیت الخلا تک پہنچاتا ہے اور میں جو کچھ بھی کھاتا ہوں وہ اس لئے کہ عبادت و طاعت کیلئے سہارا بنے اور آخرکار جنت تک پہنچ سکوں۔

کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اﷲ علیہ حمام میں جانے لگے تو حمام والے نے روک دیا اور کہنے لگا کہ اجرت کے بغیر نہیں جا سکتے ۔ آپ روکر کہنے لگے اے اﷲ ! ۔یہ شیاطین اور فساق لوگوں کے آنے کا مقام ہے اور مجھے یہاں مفت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی تو میں انبیاء اور صدیقین کے مقام یعنی جنت میں کیسے داخل ہو سکوں گا۔؟

منقول ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام کی آسمانی تعلیمات اور وحی میں یہ بات ملتی ہے کہ اے ابن آدم ! تو دوزخ کو بھاری قیمت سے خرید تا ہے مگر جنت کو سستے داموں نہیں لیتا ۔ جس کی وضاحت یہ ہے کہ ایک فاسق آدمی اپنے جیسے فاسقوں کی دعوت کرتا ہے اور اس پر سینکڑوں روپے کا خرچ بھی معمولی سمجھتا ہے تو یہ اس کا دوزخ کا سودا ہے جو بھاری قیمت پر حاصل کیا ۔اگر وہ اﷲ کی رضا کیلئے ایک درہم خرچ کر کے بعض محتاجوں کی دعوت کرنا چاہے تو اسے شاق گزرتا ہے جب کہ یہی اس کیلئے جنت کی قیمت تھی۔

معزز قارئین !ہمارے اسلاف ہر موقع کو جنت کے حصول کیلئے تصرف میں لاتے۔ اگر ہمیں جنت اور جنت کی نعمتوں سے محبت ہے اور چاہت ہے تو ہمیں اسلاف کے نقش قدم پر چلنا ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے اور خاتمہ بالایمان اور جنت نصیب فرمائے ۔آمین

 
Peer Owaisi Tabassum
About the Author: Peer Owaisi Tabassum Read More Articles by Peer Owaisi Tabassum: 198 Articles with 615226 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.