تشدد کا عالمی دن

کہا جاتا ہے اقوام متحدہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں جب بھی کوئی مسئلہ جاتا ہے تو اگر ایک ملک کمزور ہو اور دوسرا طاقتور تو کمزور ہار جاتا ہے اگر دونوں طاقتور ہوں تو مسئلہ غائب ہو جاتا ہے یا پھر اقوام متحدہ ہی غائب ہوجاتا ہے۔

اقوام متحدہ نے دو اکتوبر کو عدم تشدد کے دن کے طور منائے جانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ تشدد لفظ سے سب ہی واقف ہیں اور اسکی اقسام بھی بے تحاشا اور صورتحال کے حوالے سے الگ الگ ہیں۔ تشدد ہر سطح پر کہیں نہ کہیں دنیا میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور شاید رہتی دنیا تک یہ رہے گا بھی۔

اسکا سدباب صرف انسانوں کے پاتھوں میں ہی ہےا ور ان لوگو ں کے ہاتھوں میں جوکہ اسکو کرتے ہیں۔ تشدد ایک چھوٹے پر جو کہ دکانوں ورکشاپوں پر معمولی اجرت کے عوض کام کرتا ہے اس پر بھی کیا جاتا ہے اکثر زبانی بھی اور ہاتھا پائی کے ذریعے بھی اس پر تشدد کیا جانا ایک عام سی بات ہے۔ اسی طرح گھر میں کام کرنے والے ملازم لوگ ان پر بھی تشدد کے واقعات اکثر ہی سننے میں آتے رہتے ہیں۔ بعض واقعات میں تو تشدد اتنے برے چریقے سے کیا جاتا ہے کہ تشدد کا شکار جان سے بھی چلاجاتا ہے۔ اگر سکول کی سطح پر بات کی جائے تو سرکاری سکولوں میں اساتذہ کا تشدد کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے بلکہ اب تو یہ حال ہے کہ کسی سرکاری سکول کا نام لیتے ساتھ ہی سب سے پہلا لفظ جو ذہن میں آتا ہے وہ تشدد کا ہی ہے۔
پاکستان اس لحاظ سے کوش قسمت ہے کہ یہاں ابھی یہ صورتحال نہیں کیونکہ مغربی ممالک میں تو باقاعدہ سٹوڈنٹس اسلحہ ساتھ لے کر جاتے ہیں اور اس کا استعمال ساتھی سٹوڈنٹس کو تو ڈرانے سو ڈرانے بلکہ اساتزہ تک پر فائرنگ کرنے کے لئے تک بھی استعمال کرتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال پیش رہی تو آگے آنے والی نسل مزید پر تشدد اور خطرناک روئے کی حامل ہوگی۔

اگر رشتے میں بات کی جائے تو خاوند اور بیوی کا رشتہ ایسا ہے جس میں بت سے لوگ مارپیٹ کے قائل بہت خوبی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اور انکو اپنی نگرانی میں موجود عورت پر ہاتھ اٹھانا باقاعدہ شایان شان لگتا ہے۔ اور مسئلہ ہ ہے کہ اسطرح کے رشتے میں تشدد سے منع کرنا اکثر آس پاس کےلوگوں کے لئے ممکن نہیں ہوتا یا پٹنے والا فریق رپورٹ کر نہیں سکتا۔ اس حوالے سے بہت سے کیسز آخری حدوں تک پہنچ جاتے ہیں جن میں چولہا پھٹنا یا تیزاب سے جھلسا دینا جیسے واقعات اہم ہیں۔ بعض اوقات اسطرح کی حرکات بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر کی جاتی ہیں کہ جنکی اتنی اہمیت بھی نہیں ہوتی۔

اسی طرح پولیس کی طرف سے بیہمانہ تشدد اور خاص طور پر پاکستانی پولیس کا مشہور تشدد تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہاں پر بھی دوران تفتیش تشدد کی وجہ سے جان سے گزر جانے کے حوالے سے خبریں سننے میں آتی ہی رہتی ہیں۔ اسی طرح عوام پولیس کی ٹریننگ اور امپروومنٹ نہ ہونے اور ورک لوڈ میں اضافہ جیسے عوامل بھی پر تشدد کاروائیوں کو جنم دیتے ہیں کہ ایک شریف شہری تو پولیس تھانے کے نام سے بھی خوف کھاتا ہے اور جو چھوٹی موٹی واردتوں تک کی تو رپورٹ بھی نہیں کی جاتی تاکہ پولیس کے ساتھ نہ کھپنا پڑا۔

دنیا میں ہمیشہ سے ہی طاقتور اپنی برتری قائم کرنے کا خواہشمند رہا ہے اور اسی لئے طاقتور ممالک کمزور ممالک پر حملہ کرنے اور جدید ترین ہتھیاروں سے کمزور قوم کا سدباب کرنے کے لئے کمر کس کے رکھتے ہی ہیں۔ اسی حوالے سے ویتنم اور روس کی جنگ، امریکا اور افغانستان کی جنگ، امریکا اور عراق کی جنگ سب ہی جاتے ہیں۔ مہلک ترین ہتھیاروں کا ستعمال اور برتری دکھانے کا شوق انسانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتا اور اقوام کی اقوام کو تباہی کے دہانے پر لے آتا ہے۔

پاکستان اور انڈیا بھی غربت اور ترقی پزیر ہونے کے باوجود صرف ایک دوسرے پر جنگی برتری کو دکھانے کے واسطے ہی آج تک ہتھیاروں کی ریس میں اپنا سرمایہ لگائے ہوئے ہیں۔

انسان کو جنگل کے دور میں اپنے تحفظ کے لئے طاقت اور تشدد کا سہارا لینا پڑتا تھا مگر آج جبکہ زمانی اتنی ترقی کرچکا ہے تو قابل افسوس بات ہے کہ آج بھی زبان کا ستعما ل کرنے کی جگہ ابھی بھی انسان اپنی کمیونکیشن سکلز کو بہتر کرنے کی بجائے اپنی فائٹنگ سکلز پر ہی بھروسا کئے ہوئے ہے۔ بحیثیت انفرادی اور مجموعی بھی یہ ضروری ہے کہ کمیونکیٹ کس طرح کیا جائے کہ تشدد کی نوبت نہ آئے سیکھنا ضروری ہے۔

sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 273967 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More