کیا سارے دہشتگرد مسلمان ہیں ؟

بھارت کے علاقے بہار کے ایک حلقے سے سیاسی جماعت بی جے پی کے امیدوار گری راج سنگھ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ سہی ہے کہ جتنے دہشتگرد گرفتار کیے جاتے ہیں، وہ سبھی مسلمان ہیں؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سبھی مسلمان دہشتگرد ہیں، لیکن جو بھی دہشتگردی میں ملوث پایا جاتا ہے وہ مسلم برادری سے ہی کیوں ہوتا ہے؟راج سنگھ نے پاکستان کے متعلق نفرت اگلتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستان دہشتگردوں کا مکہ مدینہ ہے۔

انڈیا کے ایک ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے لائیو پروگرام میں ایک ہندو طالبہ نے مسلمان عالمِ دین سے سوال پوچھا کہ ـ؛
ہر دہشتگرد مسلمان ہی کیوں ہوتا ہے؟
اس سوال کا جواب مسلمان عالمِ دین نے ان الفاظ میں دیا؛
مہاتما گاندھی کو جس نے قتل کیا، وہ مسلمان تھا کیا؟ اندرا گاندھی کو جس نے قتل کیا، وہ مسلمان تھا کیا؟ بابری مسجد کو جس نے شہید کیا، وہ مسلمان تھا کیا؟ دہلی کی سڑکوں پر سکھوں کی گردنیں کاٹنے والے مسلمان تھے کیا؟ گجرات کے گلی کوچوں میں جن لوگوں کو قتل کیا گیا اور بے گھر کیا گیا، اسکے ذمہ دار مسلمان تھے کیا؟ برائی برائی ہوتی ہے، آپ اسے مذہب کے اینگل سے مت دیکھئے۔

قارئین ! دہشتگردی مسلمانوں کا خاصہ ہرگز نہیں ہے۔ پچھلے 250 سالوں میں بے گناہ انسانوں کا قتل جو عیسائیوں کے ہاتھوں سے ہوا، پوری انسانی تاریخ میں کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کے ہاتھوں ایسا ظلمِ عظیم نہیں ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم میں بیشمار یہودیوں کو گیس چیمبرز میں ڈال کر جلا دیا گیا۔ امریکی صدر بش اور ٹونی بلیئر کے مظالم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ آج بھی امریکی قیادت اور اسکی ظالمانہ فوجی کاروائیوں کی طرف انگلی اٹھانے والا کوئی نہیں۔ تاریخ میں رقم ہونیوالی بڑی دہشتگرد کاروائیوں میں شامل ایٹم بم کے حملے ۔۔ جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بمز گرا کر لاکھوں بے گناہ اور معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔ یہ دونوں شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ کیا اس ساری دہشتگردی کے پیچھے کوئی ایک بھی مسلمان ہے؟ ان خیالات کا اظہار بھارت کے ایک بزرگ کالم نگا ر اور بین الاقوامی سطح کے صحافی سوامی ناتھن ایار نے اپنے ایک مضمون میں کیا۔ سوامی ناتھن ایک معروف ہندو قلمکار ہیں اور اکنامک ٹائم کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ موصوف دو کتابوں Towards Globalisation اور Swaminomics کے مصنف بھی ہیں۔ ان کے مطابق جب آپ سیاسی مفادات کی خاطر سویلین کو قتل کرتے ہیں تو اسکو دہشتگردی کہا جاتا ہے۔ 1881ء میں روس کے حاکم الیگزینڈر دوئم کو اکیس ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا گیا۔ 1901ء میں امریکی صدر مکنلے اور اٹلی کے بادشاہ ہمبرٹ کو قتل کیا گیا۔ 1914ء میں آسٹریا کے آرکڈیوک کو ہلاک کیا گیا جسکے نتیجے میں پہلی جنگِ عظیم شروع ہوگئی۔ انگریزوں کے دور میں آزادی کی جنگ لڑنے والے بھگت سنگھ اور چندرا سبکر کو انگریزوں نے دہشتگرد ڈکلیئر کیا تھا، کیا یہ سب بھی مسلمان تھے؟ دوسری جنگ عظیم کے فوراََ بعد فلسطین پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا۔ ان یہودیوں نے آزادی کی جنگ لڑنے والے فلسطینیوں کو دہشتگرد کہہ کر قتل کرنا شروع کردیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔اب یہودی یہ سننے اور ماننے کو ہرگز تیار نہیں کہ وہ ریاستی دہشتگردی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ کیامقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانیوالے مظالم اور بربریت کے ذمہ دار مسلمان ہیں؟کیا مظالم کے خلاف اورحقِ آزادی کیلئے آواز بلند کرنیوالے لوگ دہشتگرد ہیں؟کیا افغانستان، عراق میں اپنی سرزمین سے حملہ آوروں کو باہر دھکیلنا دہشتگردی کے مترادف ہے؟ مسلمانوں پر خودکش حملوں کا اعتراض اٹھانے والے پارسا لوگ کیا سری لنکا کے ہندو تامل ٹائیگرز کو بھول گئے جنہوں نے 2003ء سے 2007ء تک 400خودکش حملے کرکے افغانستان اور عراق میں خود کش حملوں کی تاریخ کو بھی مات دیدی۔
ہندو صحافی نے اپنی کتاب میں لکھا :
The root of the post war resurgence in terrorism whether one likes it or not started and happens to be the plight of the six million Phalestinians who have been made homeless and humiliated for the last six decades.
ترجمہ:
ٓآپ پسند کریں یا نہ کریں دہشتگردی کی جڑیں دراصل ساٹھ لاکھ فلسطینیوں کی حالتِ زار میں ہیں جن کو بے گھر کرکے بے عزت کیا گیا۔

گذشتہ دنوں امریکا کے ایک معروف اداکار، فلم پروڈیوسر اور مصنف بن افلیک نے ایک ٹی وی پروگرام میں مسلمانوں اور اسلام کا بھرپور دفاع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں کے ہاتھوں جتنے مسلمان قتل ہوئے ہیں، اتنے مسلمانوں کے ہاتھوں ہمارے لوگ نہیں مارے گئے۔ اسکے باوجود تعصب ، انتہا پسندی اور دہشتگردی کا الزام صرف مسلمانوں پر ہی عائد کیا جاتا ہے، جوکہ قطعی ناانصافی ہے۔ اس پروگرام میں امریکی مصنف سام ہرئس بھی شریک تھے۔ سام ہریس اور میزبان بیل ماہر مسلمانوں کے خلاف خوب زہر فشانی کررہے تھے لیکن بن افلیک نے ان دونوں کے سوالات کا بھرپور جواب دیتے ہوئے انہیں خاموش کروادیا۔ اس پروگرام کے میزبان نے بن افلیک سے سوال پوچھا کہ جب ہم مسلمانوں پر تنقید کرتے ہیں تو ٓپ پر گراں کیوں گزرتی ہے؟ تو بن افلیک نے فوراََ جواب دیا کہ ٓپ کی تنقید بھی انتہا پسندی اور اشتعال انگیزی کا مظہر ہوتی ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ دنیا بھر میں موجود ایک ارب سے زائد مسلمان سب دہشتگرد اور متعصب کیسے ہوسکتے ہیں؟ اس موقع پرمیزبان نے حسبِ روایت اسلام کے خلاف زہرفشانی کرتے ہوئے بن افلیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ غلطی سے آج آپ بھی مسلمانوں کے خلاف کوئی بات کہہ دیں ، کوئی گستاخانہ کارٹون بنا دیں یا اسلام کے خلاف کوئی تنقیدی کتاب لکھ دیں تو مسلمان آپ کو بھی قتل کردیں گے۔ اس پر افلیک نے پرعزم لہجے میں جواب دیا کہ ٓپ کی کیا تجویز ہے، کیا ہم اسلام کی مذمت شروع کردیں۔ آپ ہم سے مسلمانوں کے بارے میں مزید کیا کروانا چاہتے ہیں؟ مسلمانوں کے ہاتھوں ہمارے آج تک اتنے لوگ نہیں قتل ہوئے جتنے ہم نے مسلمانوں کے قتل کردیئے ہیں۔ کتنے ہی مسلمان ممالک ہیں جن پر ہماری فوجوں نے حملے کیے۔ کیا ہمارے دعوے سچے ہیں؟ کیا عراق پر امریکی حملہ واقعی ایک صائب فیصلہ تھا؟ کیا اسکے پسِ پردہ مسلمانوں کے خلاف بلاوجہ نفرت اور تعصب کارفرما نہیں تھا؟

کیامسلمانوں پر دہشتگردی کا الزام لگانے والے عناصر کو فلسطین میں جاری یہودی مظالم نظر نہیں آتے؟ کیا مسلمانوں پر دہشتگردی کا الزام لگانے والے عناصر کو افغانستان اور عراق میں امریکی اور اتحادی فوجی کاروائیاں نظر نہیں آتیں؟ کیا مسلمانوں پردہشتگردی کا الزام لگانے والے عناصر کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور مظالم نظر نہیں آتے؟ کیاافریقہ میں ہونے والے مظالم میں مسلمان ملوث ہیں؟ کیا برما اور نیپال میں ہونے والے مظالم میں مسلمان ملوث تھے ؟ کیا یہ لوگ بوسنیا کے مظالم کو بھول گئے؟ لیبیا میں امریکی جارحیت پر کوئی بات کیوں نہیں کرتا؟ مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں، عالمی میڈیا اور عالمی برادی ان پر آنکھیں بند کرلیتی ہے۔ اسکی کیا وجہ ہے؟

قصہ مختصر، اسلا م تو محض سلامتی کا دین ہے۔ اسلام میں کافروں کے ساتھ بھی صلہ رحمی سے پیش آنے کا درس دیا گیا ہے۔ اﷲ کے نبی ﷺ نے کافروں کو بھی حسنِ سلوک سے اسلام کی طرف مائل کیا۔ انشاء اﷲ رہتی دنیا تک اسلام کا پرچم سربلند رہے گا اور اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنیوالوں اور نبی پاک ﷺ کو اﷲ کا آخری نبی ماننے والوں کی جان، مال ، عزت اور ایمان کا محافظ اﷲ کریم ہے۔ دشمنانِ اسلام کے ان بے منطق الزامات کی کوئی حیثیت نہیں۔
Lala Sana Ullah Bhatti
About the Author: Lala Sana Ullah Bhatti Read More Articles by Lala Sana Ullah Bhatti: 20 Articles with 14832 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.