تحفظ اسلام کی خاطر شہدائے کربلا کی جانی اور مالی قربانیاں

تحفظ اسلام کی خاطر شہدائے کربلا کی جانی اور مالی قربانیاں اور ان سے عقیدت مندی کا طرز اظہار

مبارک ہو ، تمام عالم اسلام کو مبارک ہو کہ اسلامی سال کے پہلے مہینے محرم ا لحرام کی آمد آمد ہے۔ لائق مبارک باد ہیں وہ بزرگ اور اہل خیر حضرات جو اس با برکت مہینے سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ اپنے معاملات کا احتساب کرکے اپنے خالق و مالک رب تعالی کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے، عاشورہ جیسے مقدس دن میں غربا و مساکین کی امداد و اعانت کرنے ،نماز و روزہ سمیت تمام شرعی اصول و آئین کی پابندی کرنے کا عہدو پیمان کرتے ہیں، اور شہزدۂ گل گوقبا سیدنا امام حسین رضی ا ﷲ عنہ کی محبت میں جگہ جگہ ان کی محفل پاک منعقد کرکے ان کے پیغام کربلا کو عام کرنے کی مثبت کوششیں کرتے ہیں اور ان کے اور ان کے اہل خانہ کی بارگاہ محبت میں اپنی عقیدتوں کا خراج پیش کرنے کے لئے قرآن خوانی کرتے ہیں،علمائے اہل سنت سے شرعی احکام سیکھتے ہیں ۔اور شرعی اعتبار سے یہ جائز اور صحیح بھی ہے جیسا کہ اس تعلق سے جماعت اہل سنت کے معروف عالم دین صدر ا لشریعہ علامہ امجد علی اعظمی اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ بہار شریعت ‘‘ میں لکھتے ہیں’’ عشرۂ محرم میں مجلس منعقد کرنا اور واقعات کربلا روایات صحیحہ کے ساتھ بیان کرنا جائز ہے کیوں کہ اس میں صبر و تحمل ،رضا و تسلیم کا مکمل درس ہے اور اتباع سنت کا عملی ثبوت ہے کہ دین حق کی حفاظت کے لئے اپنے اعزا ، اقربا اور خود کو راہ مولیٰ میں قربان کیا ۔

سیدا لشہداء امام حسین رضی ا ﷲ عنہ نے اپنے اہل خانہ سمیت خودکو راہ مولی میں قربان کرکے اسلامی اصول و آئین کی حفاظت فرمائی۔جیسا کہ صحابی رسول کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی ا ﷲ عنہ کے60ھ میں انتقال کے بعد جب ان کا بیٹایزید تخت خلافت پر متمکن ہوا تو اس کے فسق و فجور ،ظلم و تعدی اور شریعت مصطفوی کی کھلی خلاف ورزی کے سبب اس کے دور حکومت میں لوگ شراب نوشی ، زنا کاری اور ماں ، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ حرام طریقے پر نکاح کرنے لگے تھے، فسق و فجور اور ظلم و تعدی کا یہ حال ہوگیا تھا کہ صحابی رسول غسیل ا لملائکۃ حضرت حنظلہ رضی ا ﷲ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبد ا ﷲ رضی ا ﷲ عنہ نے کہا کہ واﷲ ہم نے یزید کے ظلم کے خلاف حق کی آواز اس وقت بلند کی جب ہمیں اس کے ظلم و سرکشی کی وجہ سے یہ اندیشہ ہو چلا تھا کہ ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہوگی اور اسی ظلم و تعدی اور شریعت مصطفوی کی خلاف ورزی کرنے والوں کا سر تہ تیغ کرنے ،حق کی سربلندی اور اس کی حمایت کے لئے امام حسین رضی ا ﷲ عنہ 72 نفوس پرمشتمل ا پنے اہل خانہ اعزاء و اقربا کے ہمراہ کربلا کی سرزمین پر پہونچ کر اپنی جان و مال کی قربانی دی اور اپنے نانا جان ﷺ کے دین اسلام کی حفاظت فرمائی۔اوررہتی دنیا تک زمانے کو یہ پیغام دیاکہ جب بھی حق کو مٹانے کے لئے ظالم طاقتیں سر ابھا ریں تو تو حق کی سر بلندی کے لئے جو بھی قربانی دینا پڑے قربان کردینا اور حق کا ساتھ دے کر باطل کو نیست و نابود کرنے کی سعی کرنا کیوں کہ یہی اہل ایمان کا طریقہ اور حسینی کردار کا روشن شاہکار ہے ۔شاید اسی وجہ سے سلطان ا لہند عطائے رسول خواجہ معین ا لدین چشتی اجمیری رحم ربہ ا لقوی نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا ۔ شاہ است حسین، بادشاہ است حسین دین است حسین دین پناہ است حسین سر داد نہ داد در دست یزید حقہ کہ بنائے لا لہ ہست حسین۔

بلا شبہ شہدائے کربلا کی عظیم قربانی کے پاکیزہ عمل سے یہ درس حیات ملتا ہے کہ بندہ کوحق کی سربلندی ،صالح معاشرہ کی تشکیل اور اپنے رب عز و جل کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنی محبوب ترین چیزوں اور اپنی خوہشات نفسانی کو قربان کرکے اپنے اندر فیاضی باہمی ہمدردی اور ایک دوسرے کے تئیں ایثار کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرے تاکہ قربانی کے مقصد کی تکمیل بحسن و خوبی انجام پذیر ہوسکے ۔ اور ہم اپنے رب عز و جل کی رضا اور خوشنودی اور اس کے حبیب ﷺ پر نازل ہونے والے ’’دین حنیف‘‘ دین اسلام کی حمایت کے لئے اپنی غلط اوربری حرکتوں کی بھی قربانی دینی پڑے گی مثلاً اظہار آزادی کے نام پر جنم لینے والی مادہ پرستی، مغربی تہذیب و ثقافت ، اپنے گھر کی عورتوں میں بے پردگی، جنسی بے راہ روی ،جھوٹ ، وعدہ خلافی ،باہمی حسد جلن، مسلمانوں سے بغض و کینہ ، چغل خوری ، عیب جوئی ، دوسروں کی حق تلفی، دینی اور دنیوی معاملات میں خیانت، کو فروغ دینے والی جیسی بیماریوں کی قربانی ہمیں دینا چاہئے اسی لئے اسلام جیسے امن پسند مذہب میں قربانی کی بڑی اہمیت ہے۔

مقام حیرت و افسوس ہے کہ جس نبی اعظم ﷺ کے پیارے نواسے نے دین اسلام کی حفاظت کے لئے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا سب کچھ راہ مولیٰ میں قربان کردیا ان کی روح مبارک کو خوش کرنے کے لئے ان کی سچی اور درست تعلیمات کو بھلا کر آج قوم مسلم کی اکثریت اسلامی اصول و آئین کی حفاظت و صیانت اور امام عالی مقام کی جھوٹی محبت کے نام پر طرح طرح کے شریعت مخالف طریقہ ء کار میں مصروف ہوگئی، ذکر الہی، قرآن مقدس کی تلاوت اور قضافرض نماز کی ادائیگی میں مصروف رہنے کے بجائے اس با برکت اور محترم مہینے اور اس کی دسویں تاریخ عاشورہ جیسی مقدس اوربا برکت شب میں لہو لعب ،کھیل کود ،ادھم ڈھکیل میں مشغول ہوکر رہ گئی ہے۔ خلاف شرع ڈھول، باجہ اور تاشہ وغیرہ بجانے کو ماہ محرم کا مقصد سمجھ بیٹھی ہے ۔ اور ایک زمانے تک نواب حکومتوں کے زیر سایہ رہنے والی سیدھی سادھی قوم مسلم کے بہت سے افرادنواب ( شیعوں )کی ایجاد کردہ چیزیں مثلاً تعزیہ داری اور اکھاڑا (جس میں ڈھول ، باجہ ، تاشہ کی کثر ت ، باہمی مرد و عورت کا اختلاط ( ملاپ ) ،بہترے شراب و کباب میں بدمست ہونے والوں سے عجیب و غریب حرکت کا صدور اور کچھ تو چیتا ،لومڑی ، بھالو وغیرہ کی شکل اختیار کرکے عاشورہ جیسے مقدس دن کی حرمت پامال کرتے ہیں )وغیرہ کی جانے انجانے میں دلداہ ہوگئی اور اسی کو مدار اسلام و سنیت سمجھ بیٹھی ہے۔ گویا خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ سازکرے

اس تعلق سے رائج بری رسم رواج سے امت مسلمہ کو آگاہ کرتے ہوئے جماعت اہل سنت کے معروف عالم دین صدر ا لشریعہ علامہ امجد علی اعظمی اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ بہار شریعت ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ (کچھ لوگ )تعزیہ داری کہ واقعات کربلا کے سلسلے میں طرح طرح طرح کے ڈھانچے بناتے ہیں کہیں ضریح (گنبد نما تعزیہ)اور علم اور شدے (جھنڈے یا نشان جو محرم میں شہدائے کربلا کی یاد میں تعزیوں کے ساتھ)نکالے جاتے ہیں، تعزیوں سے منتیں مانی جاتی ہیں، سونے چاندی کے علم چڑھائے جاتے ہیں، ہار پھول ناریل چڑھاتے ہیں ،،وہاں جوتے پہن کر جانے کو ناجائز سمجھتے ہیں بلکہ اس شدت سے منع کرتے ہیں کہ گناہ پر بھی ایسی ممانعت (روک)نہیں کرتے ۔تعزیوں کے اندر مصنوعی (بناؤٹی) قبریں بناتے ہیں ایک پر سبز غلاف اور دوسری پر سرخ غلاف ڈالتے ہیں سبز غلاف والی کو حضرت امام حسن رضی ا ﷲ عنہ کی قبر اور سرخ غلاف والی کو امام حسین رضی ا ﷲ عنہ کی قبر سمجھتے ہیں اور وہاں شربت ،مالیدہ، وغیرہ پر فاتحہ دلواتے ہیں(واضح رہے کہ نفس فاتحہ پر اعترض نہیں بلکہ غیر شرعی طریقہ پر) یہ تصور کرکے حضرت امام عالی مقام کے روضے پر فاتحہ کرارہے ہیں پھر یہ تعزیے دسویں تاریخ کو مصنوعی (بناؤٹی) کربلا (کیونکہ حقیقی کربلا عراق میں ہے )میں لے جاکر دفن کرتے ہیں گویا یہ جنازہ تھا جسے دفن کر آئے تھے پھر تیجہ چالیسواں سب کچھ کیا جاتا ہے اور ہر ایک خرافات پر مشتمل ہے (بہار شریعت حصہ 16ص 646 )

آگے فرماتے ہیں کہ(بعض حضرات) ’’امام قاسم رضی ا ﷲ عنہ کی مہندی نکالتے ہیں گویا ان کی شادی ہورہی ہے اور مہندی رچائی جائے گی اور اسی تعزیہ داری کے سلسلے میں کوئی پیک باندھتا ہے (قاصد بنتا ہے )جس کے کمر میں گھنگرو بندھے ہوتے ہیں گویا یہ حضرت امام عالی مقام کا قاصد اور ہرکارہ ہے جو یہاں سے خط لے کر ابن زیاد کے پاس جائے گا ۔ کسی بچہ کو فقیر بنایا جاتا ہے اس کے گلے میں جھولی ڈالی جاتی ہے اور گھر گھر اس سے بھیک منگواتے ہیں کوئی سقہ (پانی بھر کر لانے والا )بنایا جاتا ہے چھوٹی سی مشک اس کے کاندھے پر لٹکتی ہے گویا یہ دریائے فرات سے یہ پانی بھر کر لائے گا ،کسی علم پر مشک لٹکتی ہے اور اس میں تیر لگاہوتا ہے گویا یہ حضرت عباس علم دار ہیں کہ فرات سے پانی لارہے ہیں اور یزیدیوں نے مشک کو تیر سے چھید دیا اس قسم کی بہت سی لغو اور خرافات باتیں ہیں جن سے سیدنا امام حسین رضی ا ﷲ عنہ ہرگز خوش نہیں ہوگے کیوں کہ انہوں نے تو احیائے دین و سنت (دین و سنت کو زندگی بخشنے ) کے لئے یہ سب قربانیاں دیں اور ہم میں سے بیشتر لوگوں نے اسے بدعات و خرافات کا ذریعہ بنالیا۔مزید فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ’’ بعض جگہ تعزیہ داری کے سلسلے میں عجیب و غریب شکل کا براق اور مجسمہ بنایا جاتا ہے ، کہیں دلدل بنتا ہے تو کہیں بڑی بڑی قبریں بنتی ہیں بعض جگہ آدمی ریچھ ، بندر ، لنگور (جس کا منھ کالا اور دم لمبی ہوتی ہے )بنتے ہیں اور کودتے پھرتے ہیں جن کو اسلام تو اسلام انسانی تہذیب بھی جائز نہیں رکھتی ایسی بری حرکت اسلام ہرگز جائز نہیں رکھتا افسوس کہ محبت اہل بیت کا دعویٰ اور ایسی بے جا حرکتیں یہ واقعہ تو تمہارے (ہمار ے) لئے نصیحت تھا اور تم (ہم) نے اسے کھیل تماشا بنالیا ۔

مسلمانوں میں ماتم زنی اور مرثیہ خوانی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’اس سلسلے میں نو حہ اور ماتم بھی ہوتا ہے اور سینہ کوبی (سینہ پیٹنا) بھی ، اتنے زور زور سے سینہ کوٹتے ہیں کہ ورم (سوجن)ہوجاتا ہے، تعزیوں کے پاس مرثیہ بھی پڑھا جاتا ہے اور تعزیہ جب گشت کو نکلتا ہے تو اس وقت بھی مرثیہ خوانی ہوتی ہے مرثیوں میں غلط واقعات نظم کئے جاتے ہیں ، اہل بیت عظام کی بے صبری جزع فزع (خوف و گھبراہٹ ) ذکر کر کے ان کی بے حرمتی بھی کی جاتی ہے اور چونکہ اکثر مرثیہ نگار رافضی (شیعہ )ہوتے ہیں جس میں صحابہ کرام کی شان میں تبرا(گالی)ہوتی ہے جسے سنی بھی رو میں بہ کر بے تکلف پڑھ جاتے ہیں (حالانکہ )یہ سب ناجائز اور گناہ کے کام ہیں ۔(ماہ محرم آتے ہی کتنے لوگ ) اظہار غم کے لئے سر کے بال بکھیرتے ہیں ، کپڑے پھاڑتے ہیں ، اور سر پر خاک (مٹی) ڈالتے ہیں یہ بھی ناجائز اور( زمانہ )جاہلیت کے کام ہیں(اور اب تو کتنے لوگ مچھلی ، ساگ اور مسالے دار چیزیں کھانے کوگناہ سمجھتے ، اچھے اور عمدہ لباس سے پرہیز کرکے کالے کپڑے پہننے ،سر میں تیل اور آنکھوں میں سرمہ نا لگانے کو ضروری جانتے ہیں)حالانکہ احادیث میں ان کی (غیر شرعی کاموں کی )سخت ممانعت (روک)آئی ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسے امور (کام کاج ) سے پرہیز کریں اور ایسے کام کریں جس سے اﷲ اور اس کا رسول راضی ہو کہ یہی نجات کا راستہ ہے ۔

آخر میں ہم تمامی علمائے اہل سنت کی طرف سے آپ کے موقر اخبار کے تمامی قارئین سے نہایت ہی ادب و احترام سے عرض کریں گے ہماری اس تحریر کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم امام عالی مقام اور ان کے اہل خانہ کی قربانیوں کو صحیح معنوں میں سمجھیں اور ان کے مشن( شریعت کی حفاظت کے لئے اپنا سب کچھ ضرورت پڑنے پر راہ مولیٰ میں قربان کرنے کے جذبہ)کو عام تام کرنے کی کوشش کریں اور ان کے نام پر طرح طرح کی رائج بری رسم و رواج سے پرہیز کریں ورنہ تو آپ بتائیں کیا امام عالی مقام نے کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں اپنی اور اپنی اہل خانہ کی قربانی ااسی لئے دی تھی کہ ان کے نام پر طرح طرح کی خرافات گڑھ کر اسے دین اسلام سمجھ لیا جائے ؟ اور اسلام کی حقیقی روح کو پس پشت ڈال دیا جائے ؟وا ﷲ ہر گز نہیں بلکہ آپ کی قربانیوں کا عظیم مقصد تھا جس سے مذہب مہذب اسلام کو بڑا فائدہ پہونچا اس لئے ہمیں بھی اسلام کی بہتر شبیہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے مقصد کربلا کو سامنے رکھ کر دیناسلام کی خدمت کرنی چاہئے ۔ مقصود ہے اس بزم میں اصلاح مفاسد نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا .
Md Arif Hussain
About the Author: Md Arif Hussain Read More Articles by Md Arif Hussain: 32 Articles with 58476 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.