کوٹ رادھا کشن جیسے واقعات کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلائے جانے کا واقعہ انتہائی دلسوز ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنی ہی کم ہے ،ایسا کرنے والے مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں ،کوئی بھی درد دل رکھنے والا انسان اس جیسے واقعات کی حمایت نہیں کر سکتا ،اس سے پوری دنیا میں پاکستان اور اسلام کی بدنامی ہوتی ہے ،پاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے علماء ،مذہبی اور سیاسی قائدین نے اس واقعے کی پر زور مذمت کی ہے ،اسے ظلم قرار دینے میں جتنا مبالغہ کیا جائے اتنا ہی کم ہے ،مگر اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ ایسے واقعات کو اسلام کے ساتھ نتھی کر کے توہین رسالت کے قانون پر بحث کا موقع تراش لیا جاتا ہے ،اور دنیا بھر میں یہ ڈنڈورہ پیٹا جاتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں ،قانون توہین رسالت دفعہ 295C کا غلط استعمال کیا جاتا ہے ،المیہ یہ ہے کہ اس دوران ہمارے اپنے اچھے خاصے پڑھے لکھے مسلمان رہنما بھی یہی راگ الاپنے لگ جاتے ہیں ۔

اسلام میں کسی کو زندہ جلانے سے سخت ممانعت آئی ہے ،حالت جنگ میں دشمن کو بھی زندہ جلانے اور مثلہ کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے ،ان اسلامی تعلیمات کے باوجود چندلوگوں کے عمل کو جواز بنا کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا سمجھ سے بالا تر ہے ،ایسے واقعات کے فورا بعد پاکستان میں موجود قانون توہین رسالت زیر بحث آ جاتا ہے ،سوال یہ ہے کہ ایک شخص قانون کی طرف جاتا ہی نہیں،مقدمے کا اندراج کرواتا ہے نہ عدالتوں سے رجوع کرتا ہے بلکہ قانون ہاتھ میں لے لیتا ہے اور خود اقدام کرتا ہے تو اس میں قانون کی کیا غلطی ہے ؟اور قانون کا غلط استعمال کہاں ہوا ہے؟قانون کی طرف جانے کی تو زحمت ہی گوارہ نہیں کی گئی،عدالتیں اگر ایسے مقدمات میں انصاف کے تقاضے پورے نہ کریں تو بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ قانون کا غلط استعمال کیا گیا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ توہین رسالت کے کئی ملزمان عدالتوں سے بری بھی ہو جاتے ہیں،24 اپریل کو لاہور ہائیکورٹ نے توہین رسالت کے مقدمے میں سزائے موت پانے والے ملزم کو بری کر دیا جس کے خلاف تھانہ ہیڈ مرالہ میں مقدمہ درج ہوا تھا۔اسی طرح گزشتہ سال5 اپریل کو لاہور ہائیکورٹ نے یونس مسیح کو بری کیا جس کے خلاف 2007 میں توہین رسالت کا مقدمہ درج ہوا تھا ،ایسے کئی واقعات ہیں جن میں عدالتوں نے ایسے ملزمان کو بری کیا ۔

ہمارا دعوی یہ ہے کہ پاکستان میں قانون توہین رسالت کی موجودگی کی وجہ سے ایسے واقعات میں کمی آئی ہے ،29 مئی 2013 کو اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں بھی کہا گیا تھا کہ اگر توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی گئی تو پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ جائیں گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگ ذاتی دشمنیوں کی بنا پر جھوٹا الزام لگا دیتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس قانون کو ہی ختم کر دیا جائے ،آئین پاکستان میں غلط دعوی دائر کرنے والے کے خلاف دفعہ 211 اور غلط شہادت دینے والے کے خلاف دفعہ 194 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے ،یہ دو ایسی دفعات ہیں جن کی مدد سے تمام قوانین کا غلط استعمال روکا جا سکتا ہے ،اس سلسلے میں مزید قانون سازی بھی کی جا سکتی ہے ،گذشتہ سال ستمبر میں اسلامی نظریاتی کونسل نے توہین رسالت کا غلط الزام لگانے والے کے لئے بھی سزائے موت کی سفارش کی تھی ،ایسے معاملات کو بغیر تحقیق اور تفتیش کے توہین قرآن اور یا توہین رسالت کا رخ دے دینا یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینا سرا سرا غلط ہے اس سلسلے میں علمائے کرام اور مذہبی رہنماؤں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔

یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ایسے واقعات میں اچانک اضافہ ہوا ہے ،ہماری ناقص رائے میں اسکی ذمہ دار وہ قوتیں ہیں جو ہر وقت دفعہ 295C کے درپے رہتی ہیں،اس قانون کے خلاف بات کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں اور ایسے واقعات کو غیر معمولی اہمیت اور ملزمان کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے ،انہیں یورپی شہریت دینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ،ابھی حال ہی میں اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید توہین رسالت کے مجرم محمد اصغر کو برطانیہ لے جانے کی کوششیں کی گئیں ،اصغر کذاب نے کئی لوگوں کو خط لکھ کر اپنے پیغمبر ہونے کا دعوی کیا تھا اور پولیس کے سامنے عدالت میں اس الزام کو تسلیم بھی کیا،16 اکتوبر کو یہ خبر اخبارات میں چھپی کہ سکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر الیکس سالمنڈ نے اصغر کذاب کی برطانیہ منتقلی کے لئے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے رابطہ کر لیا ،برطانیہ کی لیگل چیر ٹی(RE PRIEV ) نے بھی مطالبہ کیا کہ محمد اصغر پاکستان میں محفوظ نہیں انہیں برطانیہ منتقل کیا جائے ،اسی طرح گذشتہ سال نومبر میں توہین رسالت کے الزام میں گرفتار ہونے والا مسعود احمد لندن فرار ہو گیا اور اب وہ گلاسکو میں اپنے بچوں کے ہمراہ مقیم ہے ۔

یورپی پارلیمنٹ میں کئی بار ہمارے اس قانون کو زیر بحث لایا گیا ،اسی سال اپریل میں اجلاس کے دوران یورپی وزیر ڈیوڈ لڈنگٹن نے الزام عائد کیا کہ پالستان کے توہین رسالت قانون کا تجارتی تنازعات میں ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے غلط استعمال کیا جاتا ہے ،کنزرویٹو رکن پارلیمنٹ رحمن چشتی جو کے 1999 سے 2007 تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے مشیر بھی رہے انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ توہین رسالت کے پرانے قانون میں اصلاحات کرے ،ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 15 سال کے دوران ایک محتاط اندازے کے مطابق اس قانون کے تحت 1274 افراد کے خلاف چارجز عائد کیے گئے ہیں،اسی طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رپورٹ جاری کی اور کہا کہ پاکستان مسیحیوں کے لئے انتہائی خطرناک ملک ہے ۔

چنانچہ رمشا مسیح سے لیکر مسعود احمد تک بے شمار ایسے لوگ ہیں جو اس بنیاد پر یورپی شہریت حاصل کر چکے ہیں ،اس پہلو پر بھی غور ہونا چاہیے کہ کیا ایسے واقعات کہیں یورپی شہریت کے حصول کے لئے ہی تو رونما نہیں ہو رہے ،کیونکہ سزائے موت کا قانون ہونے کے باوجودآئے روز ایسے واقعات کیسے رونما ہو جاتے ہیں ،9 مارچ کو جوزف کالونی لاہور سے ساون مسیح کو گرفتار کیا گیا اور اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا ،جولائی 2013 میں شفقت مسیح اور اس کی بیوی شگفتہ بی بی کے خلاف گوجرہ پولیس نے مقدمہ درج کیا،اسی طرح جولائی 2013 میں ہی توہین رسالت کے مجرم سجاد مسیح کو سزا سنائی گئی ،9 دسمبر 2012 کو امریکی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر کے آنے والے ڈاکٹر شیخ افتخار احمد کو توہین رسالت کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا،16 نومبر 2012 کو چترال میں حضرت علی شاہ کو سزا ہوئی جو مارچ 2011 میں توہین رسالت کا مرتکب ہوا تھا ،اسی طرح 2010 میں آسیہ کو گرفتار کیا گیا اور سزا سنائی گئی ،سوال یہ ہے کہ یہ اوپر تلے اتنے واقعات کیوں رونما ہوئے ؟

ستمبر 2012 میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں سابق صدر زرداری نے تجویز پیش کی تھی کہ توہین رسالت کے سد باب کے لئے عالمی قانون سازی کی جائے ،او آئی سی نے جس کی حمایت کی تھی اور اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کو بھی یہ تجویز ارسال کی تھی ،ہماری رائے میں پاکستان میں موجود توہین رسالت کے قانون کے پیچھے " لٹھ" لیکر پڑنے کے بجائے ایسے واقعات اور سانحات کی روک تھام اور توہین رسالت کے سدباب کے لئے عالمی سطح پر قانون سازی کی جانی چاہیے اورکسی بھی مذہب کی قابل احترام ہستیوں کی توہین کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے اور اس معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں تبھی کوٹ رادھا کشن جیسے واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔
Abdul Rauf
About the Author: Abdul Rauf Read More Articles by Abdul Rauf: 2 Articles with 1740 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.