حضرت مرزا مظہر جان جاناں

حضرت مرزا مظہر جان جاناں کا نام ان قابل قدر شخصیات میں سے ہے جنہوں نے ہند وستان میں دین اسلام کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا۔آپ بیک وقت قرآن کریم کے مفسر ،حدیث کے محدث،خانقاہ کے عظیم صوفی اور میدان جنگ کے عظیم مجاہد تھے۔آپ نے ان تمام ذرائع کو اسلام کی خدمت اور اشاعت و ترویج کے لئے استعمال کیا۔

آپ 11رمضان ، جمعۃالمبارک ،1111ھ کو حضرت جان کے گھر پیدا ہوئے جو کہ عظیم مغلیہ حکمران اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں منصب قضاپر فائز تھے۔آپ کا نام اورنگ زیب عالمگیر نے ہی یہ کہہ کر کہ بیٹا باپ کی جان ہوتا ہے جان جاں رکھا۔مظہر تخلص ،شمس الدین اور حبیب اللہ لقب تھا۔
آپ دراز قد تھے، عمامہ بطور سنت باندھتے تھے ، لباس بہت معمولی مگر صاف اور قمیض پیش چاک پہنتے تھے ۔ بال پٹے ،کشادہ پیشانی ، باریک بھنویں ،بڑی بڑی آنکھیں ،لمبی ناک ،گھنی داڑھی ،بہت خوبصورت وجیہ اور تندرست و توانا انسان تھے ۔ فطرتا آپ بہت نفیس تھے ۔آپ کی نفاست کےواقعات بہت مشہور ہیں ۔
مرزا صاحب کے والد نے بچپن ہی سے انکی تعلیم و تربیت کا بہت اہتمام کیا تھا اور کم عمری میں ہی یہ سلسلہ شروع کردیا تھا۔آپ نے رسائل فارسی اپنے والد سے محاورۃ پڑھے ،قرآن شریف قاری عبد الرسول سے پڑھا اورتجوید و قراءت کی سند بھی انہی سے حاصل کی۔والد مرحوم کی وفات کے بعد حدیث و تفسیر کا علم حاجی محمہ افضل سیالکوٹی سے حاصل کیا۔

آپ کے اکثر معاصرین نے جن میں گردیزی،تہام الدین قائم،عنایت اللہ اور شاہ عبدالعزیزشامل ہیں،آپ کے علم و فضل کا اعتراف کیا ہے اور آپ کو علم تفسیر،فقہ اور سیر و تواریخ میں مہارت رکھنے والا ایک کامل عالم،عارف اور عامل قرار دیا ہے۔

علوم ظاہریہ کے ساتھ ساتھ علوم باطنہ میں بھی آپ کو نمایاں مقام حاصل ہے اور آپ سلسلہ نقشبندیہ کے ایک بلند پایہ صوفی کی حیثیت سے تاریخ میں پہچانے جاتے ہیں۔علوم باطنیہ کی تحصیل کے لئے بھی آپ نے خاصی جدوجہد کی۔سب سے پہلے آپ سیدنور محمد بدایونی سے بیعت ہوئے

ان کا طریقہ یہ تھا کہ بیعت کے لئے آنے والے شخص کی صلاحیتوں کا اولا اندازہ کرتے پھر استخارہ کرتے،اگر استخارہ حق میں آتا تو مرید کرتے تھے ورنہ انکار کر دیتے تھے۔لیکن مرزا صاحب کی صلاحیت اور استعداد سے متاثر ہو کر انھوں نے فورا اپنا مرید بنا لیا۔(معمولات مظہریہ ص 15،16)

چار سال پیر و مرشد کی خدمت میں رہ کر انھیں ولایت کبری و خرقہ و اجازت مطلقہ حاصل ہو گئی۔1135ھ میں حضرت سید نور محمد بدایوانی کا انتقال ہو گیا۔مرزا صاحب 6 سال تک اپنے مرشد کے مزار کی مجاوری کرتے رہے ،اس کے بعد حضرت جیو ،حضرت شاہ گلشن ،حضرت سید محمد زبیر اور حافظ سید سعد اللہ جیسے نامور صوفیاء سے بھی استفادہ کیا۔مدتوں بزرگوں سے کسب فیض کے بعد مرزا صاحب نے خود رشد و ہدایت کا کام شروع کیا ۔آپ کے نام کی رعایت سے آپ کے طریقے کو شمسیہ مظہریہ کہتے ہیں۔

تعلیم تزکیہ کے ساتھ آپ کو جھاد میں بھی خاصہ شغف تھا ،اسلحہ میں بہت مہارت رکھتے تھے۔خود فرماتے تھے کہ "اسلحہ کے استعمال میں مجھے ایسی مہارت ہے کہ اگر بیس آدمی تلواروں سے مجھ پر حملہ کریں اور میرے ہاتھ میں صرف لاٹھی ہو تو کوئی میرا بال بیکا نہیں کر سکتا۔(مقامات مظہری ص 12)

شاہ غلام علی آپ کے مرید خاص لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے سلام کے وقت ایک شخص نے خنجر سے آپ پر حملہ کرنا چاہا آپ نے لپک کر اس سے خنجر چھین لیا اور پھر واپس کردیا ،اس نے پھر وار کیا آپ نے پھر چھین کر واپس کردیا ، سات مرتبہ ایسا ہوا ،آخر وہ آپ کے قدموں میں گر پڑا۔(ایضا)
آپ نے اپنے عہد کی جنگوں میں بھی حصہ لیا اور بڑی بہادری و بے جگری سے لڑے ۔"

اللہ رب العزت نے آپ کو علوم متعارفہ تک ہی محدود نہ رکھا تھا بلکہ آداب شاہی، فنون سپہ گری اور صنائع ہنروری سے بھی نوازا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا صاحب امور سلطنت سے بھی بہرہ مند تھے اور آپ کے دور کا صاحب اقتدار طبقہ آپ سے امور مہمہ میں مشورہ کرتا تھا۔آپ کے خطوط میں وہ خطوط بھی شامل ہیں انتظام الدولہ اور نواب عمادالملک کے نام لکھے تھے۔

خود فرماتے ہیں کہ اورنگ زیب سے لیکر شاہ عالم ثانی تک تقریبا 15 بادشاہوں کا زمانہ میں نےپایا اور سبھی کی امور سلطنت میں رہنمائی کی۔(مقامات مظہری ص 38)

آپ کی ازدواجی زندگی بہت تلخ تھی ،آپ کی شریک حیات بہت تیز مزاج تھیں ،بات بات پر لڑتی تھیں ۔ آپ کے تین صاحبزادوں کا نام تاریخ میں پیر علی ،عبداللہ اور نظامی ملتا ہے ،لیکن ان میں سے کسی نے بھی شہرت نہیں پائی ۔

آپ نے خاصی عمر پائی ،آخر عمر میں صحت گر گئی تھی ،بہت ضعیف اور ناتواں ہو چکے تھے ،نظر کمزور ہو چکی تھی ،کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتے تھے ،آپ کو شہادت کی بہت تمنا رہتی تھی ۔ اللہ رب العزت نے بڑھاپے میں آپ کی اس خواہش کو پورا کیا۔ 7 محرم الحرام 1195ھ کچھ لوگوں نے آپ کے دروازے پر دستک دی ، رات کا کچھ حصہ بیت چکا تھا ،خادم نے عرض کیا کہ کچھ مرید ملاقات کو آئے ہیں ،حضرت نے فرمایا کہ لے آ ؤ ،تین آدمی دروازے کے اندر آگئے ،حضرت خوابگاہ سے باہر آئے اور ان لوگوں کے برابر کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے تصدیق کرکے آپ ہی مرزا صاحب ہیں،حضرت کو گولی ماردی جو کہ آپ کے سینے پر دائیں طرف لگی، کمزوری کی وجہ سے حضرت زمین پر گر گئے۔ تین دن بستر مرگ پر رہنے کے بعد دس محرم الحرام 1195ھ کو سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی یہ آفتاب رشدو ھدایت بھی ہمیشہ کے لئے اپنے نا نا کے محبین کے ھاتھوں غروب ہو گیا ۔(مقامات مظہری)

مولانا فخرالدین نے آپکا جنازہ پڑھایا جو کہ ایک دیدنی جنازہ تھا جس میں ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل غمگین تھا ۔دہلی میں آپ کی آخری خوابگاہ ہے۔

آخر میں آپ کی عظمت سے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ کا فرمان لکھنا ضروری سمجھتا ہوں :
شاہ صاحب فرماتے ہیں " اس وقت مرزا مظہر جان جاناں کی مثل دنیا کے کسی اقلیم اور شہر میں نہیں ہے۔شاید مرحومین میں بھی نہ ملے بلکہ زمانے کے ہر حصے میں ایسے عزیز الوجود لوگ کم ہو تے ہیں ۔"(کلمات طیبات)

اللہ رب العزت آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین )
Abdul Ghani
About the Author: Abdul Ghani Read More Articles by Abdul Ghani: 30 Articles with 31436 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.