مالِ مفت دلِ بے رحم

بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا یا پوری ڈبکی لگانا، کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالے کرنا ،مالِ مفت دلِ بے رحم،جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ،بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی ،جیسے محاورے تو بہت پڑھے تھے مگر انکے حقیقی معنی اُس وقت آشکار ہوئے جب آزاد کشمیر اور پاکستان کے اخبارات میں آزاد کشمیر کے صدر سردار یعقوب خان کی ذاتی رہائش گاہ راولپنڈی چکلالہ ہاؤس(صدارتی ہاؤس ) کے لیے محض دو ’’وی آی پی‘‘ سات سیٹر صوفے کی خریداری کے ضمن میں ٹنڈر جاری کرنے کے لیے اشتہارات دئیے گئے ۔جس کا سریل نمبر AK_190-N ہے صوفوں کی خریداری بھی چکلالہ ہاؤ س جو کہ صدر آزاد کشمیر کی ذاتی رہائش گاہ ہے کے لیے کرنی مقصود ہے ۔جبکہ آئین اور قانون کے مطابق ذاتی رہائش گاہ کے لیے سرکاری خزانے کو پھکی دینا ایک جرم ہے اب یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ صدر آزاد کشمیر خود اس جرم کے مرتکب ہوئے ہیں یا پھر انکے سٹاف نے یہ بچگا نہ حرکت کی ہے ۔صدر آزاد کشمیر سردار یعقوب خان ایک انتہائی سادہ طبیعت کے حامل انسان ہیں اور سیاست میں آنے سے پہلے بھی اور آج بھی ذاتی کروڑوں روپے مالیت کے کاروباری ہیں مجھے ُان سے ایسی حرکت کی امید نہیں تھی کہ چکلالہ ہاؤس (صدارتی ہاؤس ) کے لیے دو صوفے خریدنے کی غرض سے اخبارات میں اشتہارات دیں گئے حلانکہ چکلالہ ہاؤس انکی ذاتی رہائش گاہ ہے جبکہ سرکاری صدارتی ہاؤس کشمیر ہاؤس ہے یا پھر مظفرہ آباد میں ہے ۔چکلالہ ہاؤس جو کہ صدر صاحب کی ذاتی رہائش گاہ ہے کے لیے سرکاری خزانے سے صوفہ خریدنا قوم کی امانت میں خیانت کے مترادف ہے ۔اور صدر آزاد کشمیر کا ایسی خیانت کا مرتکب ہونا میرے لیے بڑے دکھ کی بات ہے سات سیٹر کے دو صوفے زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے مالیت کے ہونگے یا دو لاکھ کر لیں اتنے پیسے جناب صدر لوگوں میں بانٹ دیتے ہیں اور صدارتی ہاؤس کے لیے صوفوں کی خرایداری کے لیے ایسی بچگانہ حرکت کم ز کم انہیں زیب نہیں دیتی اگر یہ بات ان کے علم میں نہیں اور انکے سٹاف کی کارستانی ہے تو انہیں اس بات پر ایکشن لینا چاہیئے اور ذمہ داروں کو انکے اس عمل کی سزا بھی دینی چاہئے۔انکے سٹاف کی یہ ایک ایسی بیہودہ حرکت ہے کہ جس سے نہ صرف صدر آزاد کشمیر بلکہ کے پوری کشمیر ی عوام کا تشخص مجروع ہوا ہے جس باشعور شخص نے بھی یہ اشتہار پڑھا اُ س نے لعن طعن کی ہے اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر لوگوں نے اپنے خیالات کا جو اظہا کیا ہے اور جن الفاظ میں کیا ہے وہ الفاظ میں یہاں نہیں لکھ سکتا۔ہماری بھولی بھالی مظلوم ، برادری ازم اور علاقائی تعصب کے خصار میں جکڑی عوام کے سامنے یہ حقائق پیش کرنا چمڑے کے بازار میں عطر فروشی اور نابینا سماج میں شمع فروشی کے مصداق ہے اور جن کی ایسی چوری پکڑی اور پھر عوام کے سامنے لائی جائے انکے نزدیک اور انکے حواریوں کے نزدیک سورج کو چراغ دکھانا اور آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے۔مگر کیا کروں جب اس طرح کے حالات دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسوں روتا ہے اور قلم میں بھی جنبش آ جاتی ہے پھر کسی کو اچھا لگے یا برا اس کی فکر نہیں رہتی کیوں؟کیونکہ سچ کڑوا ہوتا ہے ۔ ایک ایسی ریاست جو اپنا سالانہ بجٹ صرف اور صرف خسارے میں بناتی ہو ، جس ریاست کے بجٹ کا 75 فیصد غیر ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوتو ہو اُ س ریاست کے صدر کو قومی امانت میں خیانت کر کے اپنے ذاتی گھر کے لیے صوفے نہیں خریدنے چائیے کم از کم اس بات کو مد نظر رکھنا چائیے تھا کہ جو شتہارات اخبارات میں دئیے گئے انکی مالیت کے صوفے خریدے جا سکتے تھے اور اگر سرکاری خزانے کو ہی پھکی دینی ضروری تھی تو صرف صوفوں کی خریداری کی حد تک دی جاتی تو اچھا تھا قوم کے ٹیکس کا پیسہ یو ں اخبارات میں اشتہارات کی نذر کرنا اور پھر اتنی ہی ما لیت کے صوفے خریدنا قرین انصاف نہیں ہے۔مجھے صدر آزاد کشمیر سے کم از کم یہ توقع نہیں تھی یہ بات پوری کشمیری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور اگر اب بھی لوگ غفلت کی نیند سے نہیں جاگتے تو منگلا ڈیم جہاں سے بارہ سو میگا واٹ بجلی پیدا ہونے کے باوجود اپنی ضرورت ساڑھے تین سو میگا واٹ نہیں ملتی اس منگلا ڈیم میں اتنا پانی ضرور ہو گا کہ پوری کشمیری قوم اپنے اپنے حصے کا چلو بھر پانی لے کر اُس کو ٹھیک اُسی طرح سے استعمال کریں جس طرح چُلو بھر پانی کو استعمال کیا جانا چاہئیے۔صدر آزادکشمیر سردار یعقوب خان صاحب سے گذارش ہے کہ اگر انہیں اس بات کا علم نہیں تو اس پر ایکشن لیکر حقائق عوام کے سامنے لائیں اور پوری دنیا میں جو جگ ہنسائی ہوئی ہے اُس کا ازالہ تو ناممکن ہے لیکن عوام کو اصل حقائق سے اگاہ کرنا بھی انکی ذمہ داری ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں ہماری اس ریاست کے بے اختیار مجاور وزیر اعظم اپنی پارٹی کی اعلی پاکستانی قیادت اور زبردستی کے بھٹو بلاول زرداری بھٹو کی تشہیر اور سیاست کی مضبوطی کے لیے اگر ریاست کے قومی خزانے سے چھ کروڑ روپے لگا کر اپنے وزراء اور مشیران کی فوج ظفر موج کے ساتھ لندن میں ناکام جلسہ کر سکتے ہیں تو اس ریاست میں باقی سب سیاستدان بھی جو جی میں آئے کر سکتے ہیں جب اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہو تو کس نے پوچھنا یا وضاحت طلب کرنی ہے ۔وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید اور انکی کابینہ جس پیپلز پارٹی کی قیادت کو خوش کرنے کے لیے قومی خزانے کو کروڑوں کا ٹیکہ لگا رہے ہیں وہ پیپلز پارٹی اب ذولفقار علی بھٹو یا بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی نہیں رہی ۔ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی پی بنائی تھی تو اُس کا مطلب پاکستان پیپلز پارٹی تھا جو بینظیر بھٹو کی شہادت تک تقریبا قائم رہا مگر اب پی پی پی کا مطلب محض، پیو، پُتر، پھوپھی ( یعنی آصف زرداری، بلاول زرداری، فریال تالپور) کی حد تک رہ گیا ہے۔اب خدا کے لیے قومی خزانے کو قوم کی امانت سمجھ کر ریاست کی تعمیر و ترقی اور عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے پر خرچ کریں ۔
Asif Rathore
About the Author: Asif Rathore Read More Articles by Asif Rathore: 14 Articles with 11535 views writer . columnist
Chief Editor Daily Haveli News web news paper
.. View More