سب سے بڑی بیماری۔۔۔۔ بھوک

رات کے نو بجے تھے۔ مجھے ایک چھوٹے سے کام کے لئے گھر کے قریب ایک جگہ جانا تھا۔ گاڑی تک پہنچا تو بیگم کی آواز آئی۔ باہر جا رہے ہیں تو صبح پکانے کے لئے کوئی سبزی لیتے آنا۔ سبزی کا نام بھی بتا دو تو میرا کام آسان ہو جائے۔ میں نے کہا۔ جواب ملا آلو لے آئیں۔ اپنا کام کرنے کے بعد میں حکم حاکم مرگِ مفاجات۔ بیگم کے لئے تلاش آلو میں سرگرم ہوا۔ قریب ہی میں روڈ پر کچھ درمیانے سے سٹور ہیں جو رات گیارہ بارہ بجے تک کھلے رہتے ہیں ۔ انہوں نے سٹور کے باہر سڑک پر پھل اور سبزیاں بھی سجائی ہوتی ہیں۔ ایسے ہی ایک سٹور پر پہنچ کر میں نے آلوؤں کا پوچھا۔ سٹور کے مالک نے ایک بچے کو فوری ہدایت کی کہ مجھے آلو تول کر دے۔ میں نے ریٹ پوچھا جواب ملا پچاس روپے کلو۔ خوشی ہوئی کہ دو تین پہلے منڈٰی میں آلو اسی (۸۰) روپے کلو تھے مگر یہاں منڈی سے دور پچاس روپے کلو۔ یقینا اچھی بات تھی۔ تھوک فروشوں کی نسبت پرچون فروش کا ریٹ بہت بہتر تھا۔ لڑکا آلو ڈال رہا تھا۔ میں آگے بڑھا اور اس سے پوچھا بیٹا آلو اچھے اور پھیکے ہیں؟ بالکل پھیکے ہیں اور بہت اچھے۔ اس دوران میری نظر آلوؤں سے بھرے ٹوکرے پر پڑی جس میں سے وہ میرے لئے لفافے میں آلو ڈال رہا تھا۔ خدا کی پناہ۔ اس قدر گندے آلو۔ ہر آلو داغدار۔ بہت سے آلوؤں میں کیڑے پڑے تھے۔ میں نے شور مچا دیا کہ یہ آلو ہیں جنہیں تم اچھے کہتے ہو؟ یہ انسانوں کے کھانے کے لئے ہیں؟ اس قدر گندے، دکاندار بولا جناب ناراض نہ ہوں آپ کو ان میں سے اچھے اچھے چن کر دے رہے ہیں۔ مگر ان میں کوئی ایک اچھا دکھا دو۔ جناب ہلکا سا داغ ہر ایک پر یقیناًہے مگر وہ چھری سے کٹ جائے گا۔ میری دکان کے اردگرد غریب آبادی ہے یہ سو روپے کلو والا آلو نہیں خرید سکتے اسی کو کاٹ کر پکاتے ہیں۔ منڈی سے اسی روپے کلو والا آلو لا کر سو روپے میں بیچیں تو ایک تو خریدار نہیں ملتا دوسرا سرکاری ریٹ ستر روپے ہے۔ چالان کرنے والے آ جاتے ہیں۔ مگر کیا اس گند کو بیچنے پر چالان نہیں ہوتا؟ دکاندار ہنسا اور بولا انہیں جو حکم ہوتا ہے فقط اس کے مطابق کارروائی کرتے ہیں۔ باقی کسی چیز سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ رپورٹ دیتے ہیں کہ وہاں آلو پچاس روپے کلو بک رہا ہے تو ساری سرکار خوش ہو جاتی ہے۔

مگر یہ زیادتی ہے۔ تم بیماریاں بیچ رہے ہو۔ دکاندار کے پاس ایک بوڑھا دیہاتی کھڑا تھا۔میری باتیں سن کر بڑے پیار اور تحمل سے مجھے کہنے لگا بابو جی! چھوڑیں ساری باتیں۔ آپ کہیں اور سے اچھے آلو لے لیں۔ آپ نے کبھی بھوک نہیں دیکھی اور اﷲ آپ کو بھوک سے محفوظ رکھے۔ آپ کو کیا پتہ کہ دنیا میں سب سے بڑی بیماری بھوک ہے جس کا علاج یہ گندی سبزیاں اور گلے سڑے پھل ہیں۔ انتہائی مفلسی میں جن کے پاس پیسے نہیں ہوتے وہ ان سے بھی بدتر چیزیں کھا کر اپنے پیٹ کی پیاس بجھاتے ہیں۔ آپ خریدنے کی بات کرتے ہیں وہ پھل اور سبزیاں جو دکاندار کے حساب سے بالکل خراب ہو جاتی ہیں جب دکاندار سڑک پر پھینکتا ہے تو بہت سے لوگ جھپٹ کر اسے اٹھاتے ہیں۔ آپ کو مفلسی، بھوک اور مجبوری کا کیا پتہ۔
چند سال پہلے چیزیں جتنی بھی مہنگی ہو جائیں غریب آدمی سمجھتا تھا کہ کوئی بات نہیں کچھ نہ ہوا تو دال پکا لیں گے۔ اب دال ایک سو بیس روپے کلو سے کم ملتی ہی نہیں۔ سبزی پکانے کا موڈ ہوا۔ کوئی سبزی سمجھ نہ آ رہی ہو کہ سب کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ آلو پکا لئے۔ معمولی پیسوں میں گزارہ ہو جاتا تھا اب آلو بھی سو روپے کلو سے کم میں دستیاب نہیں۔ پھل ہمیشہ مہنگے ہوتے تھے مگر غریب آدمی کا اگر پھل کھانے کی عیاشی پر دل چاہتا تو سب سے سستا پھل امرود انتہائی بدترین حالات میں بھی غریب کا سہارا ہوتا تھا۔ دو دن پہلے ٹھوکر نیاز بیگ چوک میں ایک دکاندار سے امرود کا ریٹ پوچھا اس کا جواب تھا صرف ایک سو اسی روپے کلو۔ میرے منہ سے بے ساختہ صرف نکلا۔ میں نے بڑے غور سے اس کی شکل دیکھی اور مایوسی کے عالم میں بوجھل قدموں کے ساتھ واپس چل دیا۔ افسوس اس بات کا تھا کہ اس دور نے غریب آدمی کی یہ عیاشی بھی اس سے چھین لی ہے۔

ایک استاد اور ایک بیوروکریٹ میں بہت فرق ہوتا ہے۔ دونوں ایک ہی گریڈ میں بھی ہوں تب بھی ان کے رہن سہن میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ استاد یا استاد جیسے افسروں کے پاس صرف گریڈ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ سینہ پھلائے رہتے ہیں۔ بیوروکریٹ کے لئے گریڈ بڑی معمولی چیز ہے۔ اس کے لئے اصل چیز اس کی بہتر پوسٹنگ اور بے پناہ مراعات ہیں۔ ٹیلی فون، سٹاف، گاڑیاں، جتنی اچھی پوسٹنگ اتنا اچھا حلقہ احباب۔ اتنے اچھے تحائف اور اتنا اچھا ہی بہت کچھ۔ اس کے بچوں کو سکول چھوڑنا، سکول سے واپس لینا اور راستے میں ان بچوں کے تمام ذاتی اور سکول کی ضروریات کی تکمیل سٹاف کی ذمہ داری۔ صاحب کی مصروفیات کے باعث بیگم کی شاپنگ کی ذمہ داری بھی سٹاف اور مہربان لوگوں کے ذمہ۔ گھر کی سبزی گوشت اور دیگر چیزوں کی فراہمی میں سٹاف کا کردار اس طرح ہوتا ہے کہ صاحب کو کچھ علم نہیں ہوتا کہ پیسے کہاں سے آئے اور چیزیں کہاں سے۔ بیوروکریٹ بس یہی سمجھتا اور جانتا ہے کہ اﷲ کارساز ہے۔

استاد گریڈ کے رقصاں گھوڑے پر سوار ہونے کے باوجود گھر کی سبزی گوشت اور دیگر چیزیں خود خرید کر لاتا ہے۔ بچوں کو سکول چھوڑنا اور دوپہر کو گھر واپس لانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ چھٹی کے دن بھی آرام ہے حرام کہ ہفتہ بھرسے گھر میں بند بیوی کچھ چھوٹی موٹی شاپنگ کرنا چاہتی ہے اور گھر کے اچھے ماحول کے لئے اسے خوش کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ استاد یا اُس جیسے افسران بیوروکریٹ تو نہیں ہوتے مگر اپنا رہن سہن بہتر رکھنے کے لئے سستی اور اچھی اشیاء کی دستیابی والی جگہوں کی تلاش میں رہتے ہیں کہ ان سے کم نظر نہ آئیں۔ نوکر ان کے پاس ہوتے ہی نہیں اور اگر ہوں بھی تو نوکروں پر انہیں بھروسہ نہیں ہوتا کیونکہ نوکر ہر چیز میں اپنا حصہ وصول ضرور کرتے ہیں اور یہ لوگ حصہ دینے کے متحمل نہیں ہوتے۔

میں بھی ایک استاد ہوں۔ مڈل کلاس کے ہر شخص کی طرح موجودہ مہنگائی کے طوفان میں تھیپڑے کھانے والا ایک فرد۔ اپنی بقا کے لئے مجھے چیزیں خریدنا بھی خود ہوتی ہیں اور سستی جگہوں کو تلاش بھی کرنا ہوتا ہے۔ سبزی میں ایک منڈی سے خریدتا ہوں۔ ریٹ کا فرق واضح ہوتا ہے۔ کل ایک کلو گاجریں میرا بیٹا گھر کے قریبی دکان سے پچاس روپے میں خرید کر لایا جبکہ چار دن پہلے میں نے منڈی سے پچاس روپے میں پانچ کلو خریدی تھیں لیکن منڈی میں جانے کے لئے بہت حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہے۔ اس قدر گند اور بدبو کہ دماغ پھٹ جاتا ہے مگر فکرکی کوئی بات نہیں، دو چار دفعہ کے بعد آپبھی میری طرح عادی ہو جائیں گے۔ میں نے یورپ اور چائنہ کی منڈیاں بھی دیکھی ہیں مگر صفائی کی جو بدترین صورت ہماری منڈیوں میں ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ اس مہنگائی میں منڈیاں مڈل کلاس لوگوں کے لئے رحمت سے کم نہیں ہیں مگر یہاں کا ماحول بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ بارش کے دنوں میں تو منڈی کے قریب سے گزرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ بدبو کے جھونکے چار سو گردش کر رہے ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ منڈیوں کا سروے کر کے انہیں اس قابل بنائے کہ بہتر صفائی کی وجہ سے لوگ ان سے استفادہ حاصل کر سکیں۔

منڈیوں سمیت زندگی کے ہر شعبے میں مڈل مین کا کردار مہنگائی اور بہت سے دوسرے مسائل کا باعث ہے۔ مڈل مین کے کردار کو ختم کرنے یا نسبتاً کم کرنے کے لئے منڈیوں میں کاشت کاروں کے لئے معمولی معاوضے پر ایسی جگہ فراہم کی جائے جہاں وہ اپنی کاشت کی ہوئی اشیاء کو براہِ راست لوگوں کو بیچ سکیں۔ا س طریقہ کار کی حوصلہ افزائی سے کاشت کاروں کو مڈل مین کی دست برد سے بچایا بھی جا سکے گا اور لوگوں کو بھی پھل اور سبزیاں بہتر قیمتوں پر مل سکیں گی۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 454402 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More