گرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

ایک غریب افلاس کا مارا مسافر جو بہت بھوکا تھا اور جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نا تھی کچھ مدد ماننے نکلا اور مختلف مذہبی تنظیموں (جماعتوں) کے دروازے کھٹکھٹانے لگا۔ ہر ایک سے کہتا “بھائی اللہ کے نام پر کچھ دے دو میں دو دن سے بھوکا ہوں“ ہر طرف سے جو جواب ملا وہ ملاحظہ فرمائیے

تبلیغی جماعت والوں نے فرمایا
بھائی بھوک اور پیاس کا مٹانا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ اللہ پر توکل کیجیے اور چالیس دن کی جماعت میں نام لکھا دیجیے۔ اللہ تعالیٰ کارساز ہے وہ ہر پریشانی کو دور کردے گا۔

جماعت اسلامی کے بھائیوں نے کہا
ہم پہلے حلقہ کی اور پھر علاقے کی شورٰی میں بات رکھتے ہیں۔ وہاں سے منظوری لے کر مرکزی شوری کو لکھتے ہیں۔ جیسے ہی وہاں سے منظوری آجائے گی آپ کے لیے ایک ریلیف فنڈ قائم کر کے آپ کو جماعت کی طرف سے ایک سفارشی خط دے دینگے جسے آپ دکھا کر کسی سے بھی مدد حاصل کرسکتے ہیں۔

سلفی (اہل حدیث) حضرات نے فرمایا
ہر نئی چیز بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے۔ پہلے اپنی داڑھی بڑھائیے۔ اللہ کے رسول نے کبھی اللہ کے نام پر کچھ نہیں مانگا۔ اگر بخاری یا مسلم میں ایسا کوئی ثبوت ہو تو لائیے۔ خبردار کسی حنفی، بریلوی یا دیوبندی کا فتوٰی مت لائیے گا۔

اہل سنت والجماعت (بریلوی) بھائیوں نے فرمایا
اس طرح اگر اللہ کے نام پر سارا دن بھی مانگتے رہو گے تو کوئی جیب سے کچھ نہ نکالے گا۔ یا غوث یا قلندر یا خواجہ کا نعرہ لگاؤ پھر دیکھو وہ کیسے تمہاری جھولی بھر دیتے ہیں۔

اہل دیوبند حضرات نے کہا
شریعت نے مانگنے سے منع کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کوئی مانگنے آتا تھا تو آپ اس سے کہتے کہ ایک کلہاڑی لو، جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لا کر فروخت کرو اور کماؤ۔

مدرسے پہنچا تو ان بھائیوں نے کہا
بھائی ہمارے ساتھ مٹھی فنڈ چاول جمع کرنے نکلو۔ شام میں مل کر پکائیں گے اور مل کر کھائیں گے۔ اگر اناج کے ساتھ ساتھ پیسے بھی جمع ہوئے تو پچیس فیصدی کمیشن بھی آپ کا ہو گا۔

اہل تشیعہ بھائی نے کہا۔
آپ کا نام کیا ہے؟ مومن ہو تو چلو کہیں چلتے ہیں جہاں کی مجلس کے بعد طعام کا بھی انتظام ہو بس تھوڑا سننا، تھوڑا رونا اور پھر پیٹ بھر کھانا

قادیانی جماعت نے کہا
اگر آپ کلمہ احمدی پڑھ لیں تو آج ہی سے آپ کو ہم پانچ ہزار روپئے ماہانہ کا وظیفہ جاری کرواسکتے ہیں

مجلس اتحاد المسلمین والوں نے کہا
آپ ایسا کیجیے ہمارے ایریا کی کسی مسجد کا انتخاب کر لیجیے۔ ہم وہاں کے وارڈ کے صدر کو بتادینگے۔ پھر آپ مسجد کے باہر ہر نماز کے بعد اعانت وصول کیجیے گا۔ ففٹی پرسنٹ دارالسلام پر جمع کرائیے اور ففٹی پرسنٹ اپنے پاس رکھیے۔ اور دوسرے مانگنے والوں پر نظر رکھیے۔ صحیح مخبری کرنے پر آپ کو رہنے کے لیے کسی زمین کا قبضہ بھی دلایا جاسکتا ہے۔

زاہد علی خان صاحب ۔۔۔۔
انہوں نے فوری جیب سے سو روپیے نکال کر دیئے اور فوٹو گرافر کو بلوا کر اس بھوکے کے ساتھ تصویر کھنچوائی اور پیسے واپس لے کر جیب میں رکھ لیے اور چلتے بنے اور اگلے دن سیاست اور منصف میں تصویر کے ساتھ یہ شایع ہوا کہ پرانے شہر سے غربت دور کرنے زاہد علی خان کے فراخدلانہ عطیوں کا سلسہ جاری۔

بالاخر اتنے دروازے ٹٹولنے کے بعد وہ لاچار بھوک کی تاب نا لا کر گرا اور چل بسا۔ سڑک کے کنارے اس کی لاش کے اطراف کئی لوگ جمع ہوگئے۔ چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ ہندو تھا کہ مسلمان؟ شیعہ تھا کہ سنی ؟ بریلوی تھا کہ دیوبندی ؟ اپنے علاقے کا تھا کہ باہر کا ؟ پولیس والوں نے اس کی جیبوں کی تلاشی شروع کردی اور احتیاطا اینٹی بم اسکواڈ کو بھی بلوا بھیجا اتنے میں مختلف جماعتوں کے ذمہ داران بھی جمع ہوگئے اور اپنے تاثرات اور بیانات دینے لگے۔

تبلیغی جماعت کے لوگوں نے فرمایا
جب لوگ اللہ کے راستے کی محنت چھوڑ دیتے ہیں اور گھروں سے دین کی تبلیغ کے لیے نہیں نکلتے اور مساجد خالی پڑی رہتی ہیں تو اللہ کا عذاب ایسے ہی بھوک، افلاس، قحط اور سیلاب کی صورت میں آتا ہے۔

جماعت اسلامی کے بھائیوں نے کہا
خدمت خلق سب سے بڑی عبادت ہے اور ہم پچھلے ساٹھ سال سے انتہائی محنت و ایمانداری کے ساتھ اس کام میں لگے ہوئے ہیں عوام الناس سے اپیل ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس فنڈ کی اعانت کریں تاکہ ایسے موقع پر ہم کچھ مدد کرسکیں۔ اور کل مجلس شوریٰ کی منظوری کے بعد پریس کلب سے ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی جائے گی اور حکومت سے مطالبہ کیا جائے گا کہ بھوکوں کو کچھ دو ورنہ ۔۔۔

سلفی حضرات نے فرمایا کہ
جو ہوا اسمیں اللہ کی کوئی بہتری تھی۔ ہم سب کو چاہیے کہ مسلکی اختلافات سے دور رہیں اور اتحاد پیدا کریں اور خبردار، کوئی متوفی کے لیے فاتحہ، پھول یا پختہ قبر بنانے کی بات ہرگز نا کرے کہ ہر نئی چیز بدعت اور ہر بدعت گمرائی اور ہر گمراہی جہنم میں لے کر جائے گی۔

اہل سنت و الجماعت بھائیوں نے اعلان کیا کہ
مرحوم حضرت بھوکے شاہ رحمتہ اللہ علیہ کا سوئم جمعہ کے دن ہوگا۔ بعد نماز عصر ختم قرآن و فاتحہ ہو گی اور علامہ فخر العلماء تاج المشائخین عارف باللہ حضرت مولانا غوث جمالی چشتی و نقشبندی چادر گل پیش کرینگے۔ پہلی برسی پر انشاّ اللہ صندل و پنکھوں کا اہتمام کیا جائیگا اور محفل سماع بھی منعقد ہوگی ان کاموں کی سعادت باتکمیل کے واسطے مسجد کے باہر ایک نئی چندے کی پیٹی رکھ دی گئی ہے تمام بھائی حسب توفیق چندہ دیتے جائیں۔

جماعت دیو بند کے بھائیوں نے بڑے درد کے ساتھ فرمایا۔
لوگوں اللہ کے راستے میں نکلو وگرنہ یونہی اللہ کے عذاب کا شکار ہوتے رہو گے حکومت کو چاہیے کہ زکٰوۃ کا مرکزی نظام قائم کرے، بیت المال کی داغ بیل ڈالے تاکہ لوگوں کو بینک اور سود سے نجات ملے۔

اہل تشیع والوں نے کہا
“ایسی ظالم حکومتوں کے ہاتھوں مرنے والے حسین ( رضی اللہ تعالی عنہ ) کے ساتھی ہیں اور اس بے بس مرنے والے شخص کی موت کے ذمہ دار یزید کے ساتھی ہیں اور یزید تاقیامت لعن و طعن کا مستحق ہے۔ چلو بھائیوں اگر مومن ثابت ہوا تو لے چلو امام بارگا تاکہ اس کا انتظام کیا جائے “

قادیانیوں نے کہا
بے وقوف شخص اگر کلمہ احمدی پڑھ لیتا تو یوں بھوک سے تو نا مارا جاتا پس ثابت ہوا کہ کلمہ احمدی پڑھنے والے بھوک و پیاس سے نہیں مرتے خداوند کی مہربانی ہے

جماعت اتحاد السملمین کے بھائیوں نے جذباتی اور جوشیلی تقریر فرمائی کہ
سرکار غربت کو مٹانے میں ناکام ہوچکی ہے ہم اقلیتوں کے ساتھ مزید ناانصافی ہرگز برداشت نا کریں گے۔ اتحاد السملمین ہی بھوکوں اور لاچاروں کی مدد کرسکتے گا۔ کل چار مینار سے اسمبلی تک ایک تعزیتی جلوس منعقد کریں گے اور حکومت سے مطالبہ کرینگے کہ ہمارے آٹھوں حلقوں کے مسلمین کی ترقی کے لیے ایک ہزار کروڑ روپے فوری منظور کیے جائیں اور ہمارے حوالے کیے جائیں۔

زاہد علی خانصاحب نے پھر فوٹوگر افر کو بلوایا اور میت کے ساتھ تصویر کھنچوائی اور اگلے دن سیاست اور منصف میں تصویر شائع ہوئی کہ پرانے شہر کی ایک چھوٹی سی جماعت کی لوٹ مار کے نتیجے میں غربت و افلاس میں زبردست اضافہ، سرکاری بجٹ کے ناجائز استعمال کا شاخسانہ - ایک اور غریب فاقوں کے ہاتھوں مارا گیا۔

مدرسے والوں نے ہنگامی کاروائی کرتے ہوئے فوری قدم اٹھالیا اور آواز لگا دی
حضرات ایک لاوارث میت کی تجہیز و تکفین کیلیے فوری طور پر دل کھول کر چندہ دیجیے آپ کا دیا ہوا چندہ ضائع نہیں جائے گا اور اس کا اجر آپ کو ملے گا اللہ کے ہاں جا کر“

منجانب
ابو الخلیل

( بھائیوں یہ کہانی سمجھ لیں یا گھڑی ہوئی کوئی چیز۔ تمام بھائیوں سے معذرت کے ساتھ جن کو برا لگے مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں ہے بلکہ ایک سبق ہے جو ہم سب کو سیکھنا ہے کہ کیا ایسے ہی حالات تو نہیں ہیں وگرنہ کیا وجہ ہے کہ ہماری حالت اس کہانی کے مرکزی کردار یعنی بھوکے شخص جیسی ہی ہے اور کیا بھوکے بے بس کی اعانت کے لیے اللہ عزوجل کو کیا مزید کوئی ہدایات بھیجنی باقی ہیں۔۔۔۔

غریبوں کو نئے سال کا ایک تحفہ ہے کہ گیس اور سی این جی کی قیمتوں میں اٹھارہ فیصدی فوری اضافہ - واہ رے جمہوریت۔ )

ایک بار پھر اگر آپ کا دل دکھا تو معذرت قبول کیجیے گا اور خصوصاً مذکورہ جماعتوں کے نام لینے سے یقیناً بہت سے بھائیوں کے دلوں کو ٹھیس لگی ہوگی واللہ میرا دل بھی اس کہانی کو پڑھ کر دکھا ہے مگر آئینہ میں تصویر ویسی ہی نظر آئے گی جیسے ہم ہیں۔ کیونکہ آئینہ خود کچھ نہیں پیدا کرتا دکھانے کے واسطے وہ تو عکس دکھاتا ہے
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 501253 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.