تفسیرالقرآن بالقرآن:-

 قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَO - ’فرما دیجئے : (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت کے باعث ہے پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں - ( سورہ يونس، 10 : 58 ) -

قرآن کی سب سے افضل تفسیر وہ ہوتی ہے جو قرآن سے ہی کی جائے یا قرآن کی تفسیر با زبان صاحب قرآن کی جائے پھر درجہ آتا ہے صحابہ کی بیان کردہ تفسیر کا ہر مفسر نے تفسیر یا با القرآن کی یا مصطفی کریم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان یا صحابہ کرام سے لی ۔ میرے گذشتہ آرٹیکل کو پڑھ کر ایک صاحب نے فرمایا کہ طالبان بھی اپنی مرضی کی انٹرپٹیشن کرتے ہیں اور میں ( عثمان ) بھی ۔ گذارش یہ ہے کہ طالبان اپنی مرضی کی تفسیر اور تشریح کرسکتے ہیں مگر میں نہیں کرسکتا کیونکہ میں جانتا ہوں تفسیر بالرائے یعنی اپنی مرضی کی تفسیر کرنے والا جہنمی ہوتا ہے اور لہذا میں تفسیر بالرائے کرنے سے گھبراتا ہوں ۔ میں نے قرآنی آیات کی تفسیر کتب تفاسیر سے بیان کی تھی ہاں البتہ اصل عربی عبارات نقل نہ کیں طوالت کے ڈر سے اور کچھ الفاظ مدعا سمجھانے کے لئیے میرے ضرور تھے جوکہ تفسیر بالرآئے کے زمرے میں نہیں آتے ۔ آجکل ماشآ الله دین کو سمجھنے والے لوگ باکثرت پائے جاتے ہیں جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ دین سمجھتے ہیں مگر دین کے ٹھیکداروں سے چھپاکر ۔ شائد یہ علماء پر چوٹ کرتے ہیں - مانا کہ علماء میں برے لوگ ہیں دیگر شعبوں کی طرح مگر تمام علماء برے نہیں ہوتے ۔ قرآن کا حکم ہے جس چیز کا علم نہ ہو تو علماء سے پوچھو مگر آج طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو خود ہی دین سمجھ لیتا ہے ۔ ٢٠٠٣ میں کویت کے ایک ہوٹل میں ایسے ہی دین کو سمجھنے والے شخص سے میری ملاقات ہوئی وہ بھی دعویدار تھے کہ مولویوں کے بغیر ہی وہ دین کو سمجھتے ہیں ۔ میں نے قرآن کی ایک آیت پڑھی اوراس سے کہا اسکا ترجمہ کرو کہنےلگے وہ تو میں نہیں کرسکتا - میں تو ترجمے والا قرآن کھول کر ہی بتا سکتا ہوں ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ایسے مترجم کا ترجمہ دیکھ کر سناؤ جو عالم مولانا نہ ہو اپنے اباجان کا کیا ہوا ترجمہ سناؤ کہنے لگا جاہل تو ترجمہ کرہی نہیں سکتا - میں نے کہا پتر بادانے عالم کی مدد کے بغیر تو ایک آیت نہیں سمجھ سکتا پورا دین کیسے سمجھے گا ۔ علماء سے اتنی نفرت اچھی نہیں ہر ایرا غیرا جسے ناک صاف کرنے کی تمیز نہیں مولوی پر چڑھ دوڑتا ہے ۔ میں نے پوچھا تم نے شادی چرچ میں کی تھی یا آگ کے گرد پھیرے لئیے تھے ؟ کہنے لگا نکاح کیا تھا ۔ میں نے پوچھا کس نے پڑھایا تھا کہنے لگا مولوی نے ۔ میں نے کہا شرم کرو پھر بھی مولوی سے اتنی نفرت ؟ آخری سوال یہ بتاؤ جب تمھارے ہاں کوئی فوت ہوجائے تو جنازہ گوگل سے پڑھواتے ہو یا مولوی سے - اسکا جواب تھا مولوی سے میں نے کہا علماء کا احترام کیا کر علماء حق کی بڑی شان ہے عالم کا رآت کو سونا عابد کی ساری رآت نفلی عبادت کرنے سے افضل ہوتا ہے - اچھے برے لوگ ہر شعبے میں ہوتے ہیں ۔ اسکی کھوپڑی میں بات آگئی کیونکہ وہ ہٹ دھرم نہیں تھا ۔

تفسیرالقرآن بالقرآن:-
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام کائنات کے لیے سراپا رحمت بنایا گیا ہے جس میں صرف عالمِ اَرضی ہی نہیں بلکہ دیگر سارے عوالم بھی شامل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائرہ رحمت تمام انسانیت کو محیط ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کا مجسم رحمت بنایا جانا جملہ بنی نوع انسان کی رُشد و ہدایت کے لیے ہے اور اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معبوث فرمایا گیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں متشکل ہو کر منصہ عالم پر جلوہ گر ہوئی۔ فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُـنْـتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ ’’پس اگر تم پر اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً تباہ ہو جاتےo‘‘ درج ذیل آیہ کریمہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اللہ کا فضل اور رحمت ہونے کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہے :
وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاً ’’اور (اے مسلمانو!) اگر تم پر اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتےo‘‘

بعثتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل پورا عالم انسانی گمراہی و ضلالت میں مبتلا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو تلاوتِ آیات اور کتاب وحکمت کی تعلیم کے ذریعے جہالت و گمراہی کے اندھیروں سے باہر نکالا، ان کے دلوں کو ایمان کے نور سے منور کیا اور ان کی جانوں اور روحوں کو نبوی تعلیم و تربیت کی بدولت تمام دنیوی آلائشوں سے پاک اور صاف کیا۔ یہ عالم انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا فضل اور رحمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اسے اپنے اِحسانِ عظیم کے طور پر ذکر کیاہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا انعام ہے کہ ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ کے اس مصداق پر اہلِ اِسلام جتنی بھی خوشی منائیں کم ہے۔ یہ خوشی صرف محسوس ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کا کھلا اظہار ہونا بھی ضروری ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (م 68ھ) الْفَضْلِ الْعَظِيمِ کی مراد یوں بیان کرتے ہیں: ’’فضلِ عظیم یعنی دینِ اسلام اور نبوتِ محمدی کی صورت میں احسانِ عظیم ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : مومنوں پر اسلام کی صورت میں احسان عظیم ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : مخلوق پر وجودِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نزولِ قرآن کی صورت میں احسانِ عظیم ہے۔‘‘ ( تنوير المقباس من تفسير ابن عباس : 471 )

علامہ طبرسی (م 548 ھ) مذکورہ الفاظ کی مراد یوں واضح کرتے ہیں :- ذو المن العظيم علي خلقه ببعث محمد صلي الله عليه وآله وسلم ( مجمع البيان فی تفسير القرآن، 10 : 429 ) ۔

علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) فرماتے ہیں :- (وَاﷲُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيْمِ) بإرسال محمد صلي الله عليه وآله وسلم ’’اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ اور (اس کا یہ فضل) بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہوا۔‘‘ ( ا بن جوزي، زاد المسير في علم التفسير، 8 : 260 ) یعنی رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنی نوع انسان میں تشریف آوری اور بعثت اﷲ کا بہت بڑا فضل (الفضل العظیم) اور انعام ہے۔

میں نے اپنی مرضی یا رائے سے تفسیر نہیں کی بلکہ تفاسیر سے بیان کیا ہے قرآن کی تفسیر آیات سے کی ہے الله کا حکم ہے کہ جب اسکا فضل اجتماعی اور رحمت ہو تو خوب خوشی منانی چاہئیے میرے آقا کی آمد فضل ربی بھی ہے رحمت الہی بھی ۔۔۔ باقی آئندہ ۔۔۔ ( جاری ہے )
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 173822 views System analyst, writer. .. View More