دیکھنا وہ دن پھر آئینگے!

ایک وقت تھا جب بچوں کیلئے گرمیوں کی دوپہر بہت بھرپور ہوتی تھیں۔۔۔تھکے ماندے اسکول سے آتے ۔۔۔کھا پی کے دوبارہ سے چاق و چوبند ہوجاتے تھے۔۔۔شدید گرمی دھوپ کی تمازت یا لو کہ تھپیڑے ۔۔۔ہر تکلیف سے آزاد بس کھیل کی لگن ہوتی تھی۔۔۔ کھیلوں کی کئی قسمیں تھیں۔۔۔کہیں کرکٹ، ہاکی اور فٹبال نظر آتا۔۔۔کہیں گولیاں گلی ڈنڈا۔۔۔تو کہیں بھمریاں پکڑنے پر زور ہوتا تھا۔۔۔گھروں میں بچیاں گڑیا گڈے اور آپا بوا نامی کھیلوں میں مگن ہوتی تھیں۔۔۔پھر قرآن پڑھنے مسجد جاتے تھے۔۔۔شام میں ٹیوشن ۔۔۔ تھوڑا وقت ٹیلیوژن کو بھی دیتے تھے۔۔۔ زندگی بھرپور انداز سے گزرتی تھی۔۔۔بلا خوف و خطر گھومتے تھے۔۔۔محلے میں رہنے والے بزرگ بچوں کی گاہے بگاہے رہنمائی کرتے اور حسبِ ضرورت کان بھی کھینچا کرتے تھے۔۔۔اس وقت بچے بڑوں کی آنکھ کا اشارہ بھی سمجھتے تھے۔۔۔ نہ کوئی انٹرنیٹ نہ ہی موبائل جیسی کوئی بلا تھی اور سب سے بڑھ کر خوف و ہشت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔۔۔تحفظ کو دائمی سمجھتے تھے۔۔۔ اس لفظ سے کوئی خاص شناسائی نہیں تھی۔۔۔رات کو لمبی تان کہ سوتے تھے۔۔۔جب بزرگوں کا ادب لحاظ اور خوف بھی تھا۔۔۔نوک جھوک اور محبتیں بھی تھیں۔۔۔جب لوگ زبانوں کی تفریق سے بھی واقف نہیں تھے۔۔۔نہ ہی فرقہ واریت سے کچھ لینا دینا تھا۔۔۔دیگر مذاہب کہ لوگ ایک ساتھ رہتے تھے۔۔۔نہ ہی معیشت کی دوڑ تھی اور نہ روپے پیسے کی حوس۔۔۔

آج تو شائد کوئی صبح دوپہریا شام اچھی نہیں ہوتی ۔۔۔آج قدم قدم پر احتیاطوں کی قدغن لگے ہیں۔۔۔جیسے گلی گلی بیریر لگے ہیں۔۔۔ہر انسان کی اولین ترجیح اور خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ جہاں رہتا ہے وہ جگہ پر سکون ہو، محفوظ ہو۔۔۔بچوں کو اسکول بھیجنے میں کوئی خطرہ نہ ہو۔۔۔کہیں اغوا ہونے کا ڈر نہ ہو۔۔۔دفتر جانے آنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔۔۔پانی ، گیس اور بجلی کی فراہمی میں کوئی تعطل نہ ہو۔۔۔موبائل ، گاڑی چھننے کا خوف نہ ہو۔۔۔یوں لگتا ہے ہم اپنے ہی دیس میں اپنے شہروں میں اپنے علاقوں میں اجنبی ہو کہ رہ گئے ہیں۔۔۔ہم آپس میں ایک دوسرے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔۔۔ایک دوسرے سے ملنے جلنے میں خوف آتاہے۔۔۔ہمیں اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے خوف آتا ہے۔۔۔بچوں کو کہیں بھیج نہیں سکتے ۔۔۔سارا دن انہیں الجھنوں میں گزر جاتاہے ۔۔۔رات بستر پر کروٹیں بدلتے گزرجاتی ہے۔۔۔بس خوف و دہشت کا راج رہتا ہے۔۔۔الام و مصائب میں مبتلا ہیں۔۔۔ہمارے ذہن کسی جنگ کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں۔۔۔کیا پاکستان اور پاکستانیوں کہ مقدر میں یہ سب کچھ لکھ دیا گیا ہے۔۔۔

نہ جانے کب ۔۔۔اورکون پاک سر زمین میں یہ خوف و دہشت و بر بریت و نفرت کا بیج بو گیا ہے۔۔۔کون ہمارے بچوں سے ان کا بچپن چرا لے گیا ۔۔۔ان کی مسکراہٹیں ۔۔۔ان کے سب کھیل چھین لے گیا۔۔۔آج کا بچپن ضدی اور خود سر ہوا جا رہا ہے۔۔۔اپنے بزرگوں سے بڑھوں سے نالاں ہوا جا رہا ہے۔۔۔استادوں کے احترام سے منحرف نظر آتا ہے ۔۔۔اپنی مستی میں مست رہنے کا عادی ہوا جا رہا ہے۔۔۔ڈراؤناہوا جارہا ہے۔۔۔وہ تو یہ بھی نہیں جانتا وہ ایسا کیوں ہے۔۔۔ان کہ پاس ہزاروں ایسے سوال ہیں جن کہ جواب ہمارے پاس نہیں ہیں۔۔۔کیا ہمارے بچے اب ساری دوپہریں اسی طرح خوف زدہ گزارینگے ۔۔۔کیا ہم اب جیتے جی پاکستان کو اس دہشت سے آزاد نہیں دیکھ سکیں گے۔۔۔

دراصل یہ بچے نہیں ہیں یہ ہمارا کل ہیں ۔۔۔یہ پاکستان کا مستقبل ہیں۔۔۔پاکستان کہ معمار ہیں۔۔۔آنے والے کل میں پوشیدہ خوشگوار پاکستان کی علامت ہیں۔۔۔یہ روشنی کہ چراغ ہیں۔۔۔ہمارا دشمن ہمارے بچوں کو ڈراکر انہیں گھر میں بٹھا نا چاہتا ہے۔۔۔اسکول سے، تعلیم سے دور رکھنا چاہتا ہے۔۔۔یہ ڈرپوک لوگ جو بچوں اور عورتوں کو خوف ذدہ کرکے پاکستان پر مسلط ہونا چاہتے ہیں۔۔۔ہمارے بچوں نے اسکول جانے پر کسی خوف کر تذکرہ نہیں کیا۔۔۔کسی خوف کا کوئی اظہار نہیں کیا۔۔۔انہوں نے تہیہ کیا کہ وہ دشمن کا جواب اپنی تعلیم جاری و ساری رکھ کر ہی دینگے۔۔۔یہ ننھے سپاہی اپنے محاظ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔۔۔ا ب ان کے حوصلے آہنی ہوچکے ہیں۔۔۔ایک بند بعنوان ننھے سپاہی ان مستقبل کہ معماروں کہ نام کرتا ہوں(جو بے ساختہ میرے دل سے نکلے )۔۔۔اور اﷲ سے انتہائی عجز و انکساری سے دعا کرتا ہوں ۔۔۔کہ وہ دن پھر آئیں جب گرمیوں کی دوپہر ۔۔۔محلے اور علاقوں میں ویسی ہی رونق ہو۔۔۔آمین۔۔۔
وقت سے اب وہ بالا تر ہوگیا ہے
خوف و خطر سے آزاد نڈر ہوگیا ہے
شرمائے گا دشمن اب اپنی چالوں سے
میرے دیس کہ بچوں کا آہنی جگر ہوگیا ہے
Sh. Khalid Zahid
About the Author: Sh. Khalid Zahid Read More Articles by Sh. Khalid Zahid: 526 Articles with 407447 views Take good care of others who live near you specially... View More