پولیس کی وردی اور کیپ تحفظ کی علامت ہے!

دنیا کے کسی بھی جمہوری معاشرے میں قانون کی حکمرانی قانون کا بنیادی اصول ہے کیونکہ اس سے ہی شہریوں کے حقوق و فرائض کا پتہ چلتا ہے ۔اور اس سے ہی پولیس کے فرائض اور ان کی ادائیگی کا طریق کار وضع ہوتا ہے ،قانون کی حکمرانی کا مطلب ہے قانون کا احترام اور اس پر عمل در آمد ،اس کی بنیاد پر ایک ریاست اور شہریوں کے باہمی تعلقات کا جب توازن قائم ہوتا ہے تو اسے قانون کی بالا دستی کہتے ہیں ،جب ریاستی ادارے اور کارندے اپنے فرائض کی انجام دہی میں آمرانہ ،مادر پدر آزاد اور جبر پرستی پر مبنی طرز عمل اختیار کرتے ہیں تو ان کا رویہ قابل مذمت قرار پاتا ہے کیونکہ ان کے اس رویے سے باہمی تعلقات کا توازن خراب ہو جاتا ہے ،جس سے باہمی اعتماد کی فضا خراب ہو کر شہریوں کا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد اٹھ جاتا ہے اور کچھ ایسا ہی محکمہ پولیس کے ساتھ ہوا ہے بلاشبہ اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں مگر پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ اپنے فرائض کو تندہی سے سرانجام دینے والے چند ہی لوگ ہیں یہی وجہ ہے کہ محکمہ پولیس منفی تنقید کا شکار ہوتا رہتا ہے ،سوال یہ ہے کہ کہ کیا ایسا ہونے سے پولیس کو کوئی فرق نہیں پڑتا ؟کیا پولیس موجودہ رائے عامہ سے خوش ہے؟ کیا پولیس کا محکمہ واقعی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتا ہے اور دادرسی کے نام پر پانی پرتحریر یں لکھی جاتی ہیں ؟ یا یہ فرضی باتیں ہیں جو لوگوں نے پھیلائی ہیں اور چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے پورے محکمے کا تشخص داؤ پر لگ چکا ہے ۔

حقائق کچھ بھی ہوں اگر محکمہ پولیس کے حالات کا عمیق نظری سے جائزہ لیں تو یہ مسلسل انتشار و لاقانونیت کا شکارچلے آرہے ہیں ، اس کا زیادہ تر سبب حکومتی عہدے داران کی ہر وقت اوربے جا مداخلت ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر آنے والی حکومت اپنی مرضی کے پولیس افسران کی تعیناتی کرتی ہے جو یہ جان کر بیٹھتے ہیں کہ ’’حکم حاکم مرگ مفاجات ‘‘حکمران اپنے زور بازو اور اختیارات کے بل بوتے پر پولیس اور بعض اوقات عدلیہ پر بھی اثر اندازہونے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ،جب وہ پوری طرح خدمات سر انجام دے نہیں پاتے تو پھر انھیں معطل اور تبادلوں کے ذریعے بچا لیتے ہیں لیکن اس کا براہ راست اثر محکمہ پولیس کی ساکھ پر پڑتا ہے اور ان دیانت دار افسران کی خدمات بھی رائیگاں جاتی ہیں جو اس نوکری کوعبادت اور فرض سمجھ کر سر انجام دیتے ہیں کیونکہ اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ پولیس کے جوان ہم ہی میں سے ہیں ،وہ بھی انسان ہیں اور ہمارے جیسے جذبات اور احساسات رکھتے ہیں اور 24گھنٹے ڈیوٹی پر مامور ہیں ۔عوام کے جان و مال کا تحفظ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتے اوراس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ اگر پولیس کا وجود نہ ہو تو غنڈے ،بدمعاش ،رسہ گیر ،قبضہ گروہ ،چور ،ڈاکو ،اغواء کار اور دہشت گرد شب و روز دندناتے پھریں ۔ اس حد تک مفید اور نفع بخش خدمات سرانجام دینے والے اہم طبقہ کے خلاف عوام الناس ،مختلف لیڈران اور بے شمار دانشوروں کی رائے ہمہ وقت منفی ہونا بھی محکمہ پولیس پر سوالیہ نشان ہے ؟

اسی سلسلے میں گذشتہ دنوں پولیس کے اعلی افسر سی سی پی او لاہور، کیپٹن امین وینس نے بموجودگی دیگر افسران ایس ایس پی انویسٹی گیشن، رانا ایاز سلیم اور ایس پی سی آئی، عمر ورک نے ایک بریفینگ میں بتایا کہ ہم نے کوشش شروع کر دی ہے کہ عوام میں اپنا وقار بحال کیا جائے اور عوام کی شکایات دور کرنے اور پولیس کی وردی اور ٹوپی کو عوامی حفاظت کی علامت بنانے کے لیے عملی طور پر اقدامات کر رہے ہیں اور اسی طرح کے خیالات کا اظہار ایک موقع پر ڈی آئی جی انویسٹی گیشن شہزاد سلیم نے بھی کیا ہے۔سی سی پی او لاہور کا کہنا تھا کہ کینٹ ایریا کے 8تھانوں میں ایڈمن تعینات کر دئیے ہیں اور لاہور کو 150 یو سی میں تقسیم کر دیا ہے ۔جبکہ ہر یو سی میں 15رکنی تحفظ کمیٹی بنا دی ہے ۔مزید برآں تین یا چار گلیوں کے اوپر کوارڈینیٹر مقرر کر دئیے ہیں جو گلی محلوں میں ظلم و ستم بارے آگاہی لیں گے ۔جس پر پولیس سخت اور فوری ایکشن لے گی ۔انھوں نے مذید بتایا کہ آج دہشت گرد پولیس کو ہر طرح سے نشانہ بنانے کے لیے تیار ی کر رہے ہیں ۔جبکہ دوسری طرف میڈیا پولیس کی ہر منفی سرگرمی اور کوتاہی والی داستانوں کو شہ سرخیوں میں چھاپتا ہے اور بسا اوقات حکومتی احکام پر عملدرآمد کرتے ہوئے اگر کچھ غیر معیاری واقعات سامنے آتے ہیں تو ان کی حتمی ذمہ د اری بھی پولیس پر ہی ڈال دی جاتی ہے ۔انھوں نے یہ شکوہ کیا کہ پولیس والے اگر کسی قابل تعریف کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو میڈیا اس کی خاطر خواہ کوریج نہیں دیتا اور نہ ہی کالم نویس اسے کوئی اہمیت دیتے ہیں ۔لکھاریوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حقائق کی نشاندہی کریں اور اچھے کاموں کی بھی حوصلہ افزائی کریں تاکہ عوام کے دلوں میں نفرت کم ہو سکے ۔

سی سی پی او صاحب کی بات سے انکار نہیں کہ پولیس کا محکمہ ہر طرح ہر طرح کے ناسور کے خاتمے کے لیے کوشاں رہتا ہے اور ہماری پنجاب پولیس ہر واردات کو پکڑنے میں مصروف تو رہتی ہے مگر ۔۔اگر یہ ارادہ کر لیں اور ٹھان لیں تو کوئی مجرم پنجاب میں زندہ یا سرگرم نہیں رہ سکتا ۔مگر قابل افسوس امر یہ ہے کہ ان کے تفتیش کرنے کے رویہ سے سبھی نالاں ہیں کہ جب سنگین سے سنگین جرائم کرنے والے بار بار ایک ہی طریقہ سے بدنام زمانہ گروہ بن کر ڈکیتیاں کرنیو الے اگر پکڑے جائیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ نامزد اور شناخت شدہ مجرمان کے جسمانی ریمانڈ میں اقبال جرم اورانکشافات کے باوجودمدعیان کو کوئی ریکوری نہ ملے اور یہاں تک بد دیانتی ہو کہ ایسے بد نام زمانہ ڈکیتوں کی سرپرستی اور پشت پناہی کرنیو الے گروہوں کے افراد تھانوں سے اپنے گروہ کے سرغنوں کو سرعام رہا کروانے آئیں اور پولیس کے تفتیشی افسرانکے ہمراہ خوشحالی سے اپنی مرضی سے ڈکیتوں کو بے گناہ بنانے والے ضمانت لکھیں ،مدعی کے نہ گواہان کے بیانا ت لکھیں ،نہ شناخت کی کاروائی مکمل کریں ،ملزمان سے ریکوری مال مقدمہ یا اسلحہ یعنی کوئی چیز برآمد کر کے انھیں حق و صداقت سے گنہگار ہوتے ہوئے بھی گنہگار نہ ٹھہرائیں بلکہ یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں افسران بالا کو سفارش کروائیں اور افسران بالا کا حال یہ ہو کہ سائیلان کی پورا دن کوشش کے باوجود ملاقات کی باری نہ آئے اور اگر خوش نصیبی سے اپنی درخواست پیش کرنے کا موقع مل ہی جائے تو کوئی اس درخواست کو بھی نہ پڑھے اور اس طریقے سے تفتیشی افسران ساز باز ہو کر مجرمان کے جسمانی ریمانڈ کو بغیر مقاصد حاصل کئے مکمل کروا لیں تو پھر اس میں گنہگار کس کو ٹھرایا جائے ہاں ! اگر افسران بالا پیشہ ور جرائم پیشہ افراد کو بے گناہ ہونے کی معاونت میں ملوث نہ ہوں تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ ناقص تفتیش کرنے والے تفتیشیوں کے خلاف کاروائی کر کے لٹے ہوئے معصوم شہریوں مال مقدمہ کی برآمدگی کی ازخود کوشش نہ کریں اور مواخزے کے طور پر ایسے تفتیشی افسران کے خلاف سخت ایکشن ہی نہ لیں جیسا کہ گذشتہ دنوں میاں شہباز شریف نے اسی طرح کے ایک ناقص تفتیش کرنے والے کے خلاف لیا تھا سوچنے والی بات ہے کہ مثال کے طور پر اگر ایک مدعی کی ڈکیتی ایک کروڑ ۵۱ لاکھ کی ہوئی ہو ملزمان نامز ہوں ،شناخت شدہ ہوں ایک ہی طریقہ کے دفعہ 395 کے جرم کے پیشہ ور اور بدنام ڈاکو ہوں اور متعلقہ تھانہ تین ملزمان کو یک بعد دیگرے پکڑ کر کوئی ریکوری ہی نہ کرے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پولیس نے مقدمہ کیوں درج کیا تھا ؟ گرفتاریاں کرنے کا مطلب کیا تھا ؟ جب وہ اقبالی مجرم تھے تو ریکوری کرنے کے لیے جسمانی ریمانڈ کیوں لیا گیا تھا ؟کیا ایسے ہائی پروفائیل اور سنگین مقدمات کے مجرمان کی ضمانتیں ممکن ہونے کے لیے یہ سارا کھیل کھیلا گیا ۔اگر اس میں در حقیقت افسران بالا خود کو دعووں اور عزم کے ثبوت کے طور پر سچا ثابت کرنا چاہتے ہیں تو اس طرح کی بھی زیادتیوں کا حل کریں اور ایسی وارداتوں میں جو خاتون مجرم بنیادی کردار ادا کرتی ہیں اور انھوں نے پوری لوٹ مار کا حصہ لیا ہوتا ہے جبکہ ایسی وارداتوں میں ان کے حقیقی بیٹے اور عزیزو اقارب گروہ کا حصہ ہوتے ہیں تو ان کے لیے معمولی جرائم والی عورتوں جیسا سلوک مناسب نہیں ۔پولیس کو ایسے مقدمات کو اپنے لیے ٹیسٹ کیس کے طور پر سامنے رکھنا ہوگا۔

اگر جناب سی سی پی او ،ڈی آئی جی ، ایس ایس پی ،ایس پی ، ڈی ایس پی صاحبان سچے دل سے محکمہ پولیس کا سر فخر سے بلند کرنے کے عزم سے کوشاں ہو چکے ہیں تو یقینا وہ دن دور نہیں کہ عوام ایک بار پھر انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان پر نازاں اور شاداں ہونگے ۔پولیس کے اعلیٰ افسران کو چاہیئے کہ ردی کی ٹوکری سے سائیلان کی درخواستوں کو نکال کر معززین کو اپنے عزم کا فائدہ پہنچائیں اور جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ شکنی کریں ۔تاکہ مدعیان کی داد رسی ہو ۔ہماری پولیس جیسی بھی ہے پھر بھی پوری دنیا سے بہتر ہے ہم اس کی عظمت کوسلام کہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ پولیس کی وردی اور کیپ کو تحفظ اور عظمت کی علامت بنا کر دم لیں گے ۔
 
Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 126 Articles with 90782 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.