ہمی کو آسمان ہونا پڑے گا

’’سپیشل ایڈیشن کے لیے(خواتین کا عالمی دن )‘‘
صدیاں بیت گئیں خواتین کے عالمی دن کو مناتے ہوئے مگر نہ قدامت پسندی کے تالے ٹوٹے اور نہ ہی قبائلی اور سماجی روایات کے بندھنوں کی زنجیریں ڈھیلی ہوئیں۔خواتین کیلئے بہتری اور فلاح و بہبود کے دعوے تو بہت کئے گئے اور صوبائی و قومی اسمبلیوں میں ان کو حقوق دلانے کی باتیں بھی بکثرت سننے میں آئیں ،حقوق نسواں کی تنظیمیں بھی سرگرم رہیں ، بے شمارزسیمینارزبھی منعقد کئے گئے ،ورکشاپس کے ذریعے بھی آگاہی منصوبے شروع کئے گئے اوردیہی اور مجبور خواتین کو بااختیار بنانے کا عزم بھی کیا گیا لیکن ’’ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز رہا ‘‘ کے مصداق صنف نازک کی بہتری کے لیے عملاً اور صریحا ً کوئی قابل قدرکام نظر نہیں آیا اور تہذیب حاضر کی آزادی بھی ظاہر میں آزادی اور باطن میں گرفتاری ہی رہی کیونکہ اس زمانے میں قانون کی عملداری کمزور واقع ہوئی ہے اور مجرم با اثر ثابت ہو رہے ہیں ،ایسا نہیں کہ یہ پاکستان میں ہی ہوا عالمی سطح پر بھی خواتین کی حالت ناگفتہ بہ ہے اورہر تیسری عورت معاشرتی استحصال اور مردانہ آمریت کا شکار ہے ۔

نئے قوانین بنیں یا بلند و بانگ دعوی کئے جائیں اصل مسئلہ مائنڈ سیٹ کا ہے جو کہ عورت کو سورج مکھی کا وہ پھول سمجھتاہے جس کا فرض ہے وہ سورج کے آگے گردن موڑتا رہے یہ کس قدر قابل افسوس امر ہے کہ انسانی آبادی کا نصف خواتین پر مشتمل ہے اور جب بھی وقت پڑا وہ مردوں کے شانہ بشانہ دیکھی گئیں،لیکن ان کے لیے عام رائے یہی ہے کہ وہ صنف نازک ہیں اور با لآخرگھر کی’’ زینت ‘‘ہیں ،چار دیواری میں ہی اچھی لگتی ہیں اور اگر وہ باہر نکلیں گی تو مردکی وقعت کم ہوجائے گی یہ متعصبانہ معاشرتی روّیہ اور مردانہ نفسیات معاشرے میں یوں راسخ ہو چکے ہیں کہ یہ اس کے استخوانوں میں بھی بولتا ہے اور اسی روّیہ نے عورت کی عزت اور وقار کو کماحقہّ نقصان پہنچایا ہے ۔

اگر ہم مجموعی طور پر خواتین کی حالت کا جائزہ لیں تو حالات مسلسل ابتری کی طرف جا رہے ہیں ۔گھریلو تشدد ،جنسی زیادتی ، گینگ ریپ ،غیرت کے نام پر قتل ،کم عمری کی شادیاں ،تیزاب پھینکنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔پہلے ایسے واقعات اِکاّ دُکاّ ہی نطر آتے تھے مگراب کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب حوّاکی بیٹی کسی بھیڑیئے کا شکار نہیں ہوتی اور دوسری طرف نوکری پیشہ خواتین کے ساتھ توہین آمیز سلوک ،ڈرانا دھمکانا،آوازیں کسنا ، ہراساں کرنا ،جبری عصمت فروشی اورزندگی کے بیش تر شعبوں میں صنفی امتیاز ،محنت کش خواتین کا استحصال ،دیہاتی خواتین کی کسمپرسی اورتیزاب پھینک کر پوری زندگی کے لیے حلیہ بدل دینا اور بے سہارا کر دینا،ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر دینا اور چولہا پھٹنے جیسے دیگر مسائل میں گذشتہ چند سالوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔بلاشبہ انفرادی طور پر چند ایک شعبوں میں خواتین نے نہ صرف خود کو منوایا ہے بلکہ بہت زیادہ نیک نامی بھی حاصل کی ہے مگر مجموعی طور پر خواتین کے حالات دگرگوں ہی ہیں ۔اور یہ بھی قابل فکر انگیز بات ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم کی بین الاقوامی سطح پر خواتین سے امتیازی سلوک کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو بھی ان ممالک میں شامل کیا گیا ہے جہاں خواتین کا استحصال جا ری ہے اور ان کی حالت میں کوئی قابل قدر بہتری نہیں آئی ۔

سوال یہ ہے !جن کے لیے عالمی دن منایا جاتا ہے ان میں سے کتنے فیصد خواتین ایسی ہیں جو اس سے باخبر ہیں کہ آج ان کی بہبود کے لیے دن منایا جا رہا ہے یا کتنی خواتین ایسی ہیں جو کہ اپنے حقوق اور قوانین سے واقف ہیں ،پاکستان کا المیہ یہ ہے !کہ یہاں فلاح و بہبود کے دعوے تو کئے جاتے ہیں اور قوانین بھی مرتب کئے جاتے ہیں مگر وہ سب فائلوں میں بند ہو کر رہ جاتے ہیں ۔بہ ظاہر خواتین کے تحفظ کے لیے بہت سے قوانین اور ضابطے موجود ہیں مگر در حقیقت ان کی عملداری کہیں بھی نظر نہیں آتی اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ان قوانین کا نفاذ کرنے والے بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جو حقیقی معنوں میں عورت کو اس کے جائز حقوق فراہم کرنے میں تنگ نظر ہیں ۔ یہاں ہمارے معاشرتی حالات بھی مسلسل سیاسی چپقلشوں اور انتشار کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے جا بجا گھریلو ماحول بھی تناؤ کا شکار ہو رہا ہے رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر شرح طلاق اور خلا ع میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ایسے واقعات کا اثر بھی براہ راست عورت پر پڑتا ہے کیونکہ مرد نئی زندگی بسا لیتا ہے مگر عورت آج بھی اسلامی حق طلاق یا خلاع کو استعمال کر کے شکر خدا کرنے کی بجائے اس میں احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے اور نئی زندگی کو اﷲ کی رحمت شمار نہیں کرتی کیونکہ معاشرہ مرد کو تو ہر بے راہ روی پر سپورٹ کرتا ہے مگر عورت کے جائز حقوق کی فراہمی پر آمادہ اور خوش نظر نہیں آتا ۔

اس حوالے سے قانونی ماہرین اور مبصرین ایک ہی بات کہتے ہیں کہ خواتین کے لیے جو کاوشیں اور ضابطے مرتب کئے جاتے ہیں ان کا علم کسی کو نہیں ہوتا کیونکہ سرکاری سطح پر ان کا نفاذعمل میں نہیں آتا اور نہ ہی کوئی ایساذریعہ ہے جس سے خواتین اپنے حقوق کے بارے میں جان سکیں ۔میڈیا بھی اس سلسلے میں کوئی نمایاں کام کرتا نظر نہیں آرہا ۔

ایسے دِگر گوُں حالات میں کچھ ایسی خواتین بھی ہیں جودنیا کے افق پر ستاروں کی مانند اُبھری ہیں اور پاکستان کا نام روشن کیا ہے ۔محترمہ فاطمہ جناح ،محترمہ بے نظیر بھٹو ،محترمہ فہمیدہ مرزا اسپیکر قومی اسمبلی جنھوں نے پاکستانی عورت کی عظمت کا لازوال روپ پیش کیا اور حال ہی میں ملالہ یوسف زئی پاکستان کی وہ پہلی خاتون ہیں جنہیں امن کا نوبل پرائز ملا اس کے علاوہ بھی انہیں کئی دیگر اعزازات سے نوازا گیا ہے ،ثمینہ بیگ جنھوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایوریسٹ کو سر کر کے پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما کا اعزاز حاصل کیا ،شرمین عبید چنائے نے انسانی حقوق اور خواتین کے لیے آواز اٹھانے والی ڈاکومینٹری فلم کے ذریعے عورتوں کی آواز پوری دنیا میں پہنچا کر کرسٹل ایورڈ حاصل کرکے پاکستان کا نام بلندکیا ۔۹ برس کی عمر میں مائیکروسافٹ سر ٹیفائیڈ پروفیشنل امتحان پاس کر کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں تہلکا مچانے والی پہلی لڑکی بھی ایک پاکستانی ارفع کریم تھی ۔ستارہ بروج اکبر نے ۹ برس کی عمر میں بیالوجی اور ۱۰ سال ۴ ماہ کی عمر میں تمام مضامین میں او لیول کر کے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا ۔اورسابق صدر سپریم کورٹ بار عاصمہ جہانگیر کو قانونی ،سماجی اور سیاسی خدمات پر سویڈن کا اعلیٰ ترین رائٹ لائیولی ایوارڈ دیا گیا اور ممتاز صحافی اور سابق سفیر ملیحہ لودھی کواقوام متحدہ میں پاکستان کی پہلی مستقل خاتون مندوب مقرر کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ بھی بہت سی خواتین ہیں جو پاکستانی تاریخ میں اعلی مناصب پر فائز رہی ہیں اور آج بھی ہیں ۔الغرض پاکستان کی بیٹیاں بلاشبہ پاکستان کے لیے ہمیشہ قابل فخر ٹھہریں ہیں اور ان کو دیکھ کر وطن عزیز کی فضائیں گنگنا اٹھتی ہیں ۔
ہم مائیں ،ہم بہنیں ،ہم بیٹیاں
قوموں کی عزت ہم سے ہے
زنجیراستحصال نے ۔۔روکے ہوئے تھے راستے
اب چل پڑے ہیں قافلے ۔۔جن میں حرارت ہم سے ہے

نامساعد حالات میں خود کو ثابت کرنے والی یہ خواتین بلاشبہ ملکوں اور قوموں کی تاریک رات میں جگنوؤں کی مانند ہیں جو دوسری تمام خواتین کے لیے پیغام امید بن کر سامنے آرہی ہیں کہ جو عورت ایک وجود کو زندگی دے سکتی ہے وہ کچھ بھی کر سکتی ہے چاہے وہ کسی بھی مقام پر ہو وہ سرداری کرے یا نوکری وہ قابل احترام ہے اور اپنے حقوق کا تحفظ اسے خود کرنا ہوگا۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ترجیحی بنیادوں پر خواتین کی بہتری اور تعلیم کے لیے قانون سازیاں عمل میں لائے ۔آگاہی مہم چلائی جائیں جن میں انھیں ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا جائے اور ان کے تحفظ کے لیے جو قوانین مرتب کئے گئے ہیں انھیں ان کے نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ وہ بہ وقت ضرورت اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکیں ۔اور اس استحصالی معاشرے کا استحصال کر سکیں ۔اور حقوق نسواں کی تنظیمیوں اور NGOs کو اپنے طریقہ کار میں خاطر خواہ تبدیلی لانا ہوگی اور ڈھنگ ٹپاؤ پالیسیوں اور مفادات کو پس پشت ڈالنا ہوگا تاکہ ان کی کاوشوں کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہو سکیں ۔میڈیا بھی ایسے پروگرامز کا آغاز کرے جن میں خواتین کو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین سے آگاہ کیا جائے ۔
آخر میں اپنی بہنوں سے ایک بات کہوں گی کہ کب تک آسمان سے اترنے والی فرشتوں کی جماعت کا انتظار کیا جائے گا نوحے لکھے جائیں گے اور عورت بعض غیر ذمہّ دارمرد وں کی وحشت اور دیوانگی کا شکار ہوتی رہیں گی ،ہمیں بھی بحثیت عورت عصر حاضر کے وقتی تقاضوں کو سمجھنا ہوگا ، اپنی سمت کا خود تعیّن کرنا ہوگا اور اپنی قوت فکر و نظر کو بلند رکھنا ہوگا راہیں کھٹن ضرور ہیں مگر منزل تابناک ہے اسلام نے بھی ہمیں جو مقام اور عزت دی ہے اس کا بھی کوئی بدل نہیں اسلام کی ترویج اور اسلامی مہمات میں عورتوں کا کردار ناقابل فراموش ہے ،اور قرآن بلا تفریق عورتوں کے حقوق کی علمبرداری کا حکم دیتا ہے ۔جب آسمان والا بھی ہمارے ساتھ ہے اور زمین بھی سب کے لیے ہے تو ظلمت شب کا شکوہ کیوں ہے؟
زمیں پر چاند کا آنا ہے مشکل
ہمی کو آسماں ہونا پڑے گا

یہ بات سچ ہے کہ مردوں کی اہمیت اور عزت اپنے اپنے مقام پر بے شمار ہے اور اسی وجہ سے ان کے فرائض بھی زیادہ ہیں مگر یہ حقیقت انھیں بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ
الگ یہ بات کہ سورج نے مات دی شب کو
لہو ستاروں کا شامل مگر سحر میں رہا !
Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 126 Articles with 90808 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.