خدمت خلق کا جذبہ

خدمت خلق وہ پاکیزہ جذبہ ہے جسے ہر مذہب و ملت اور ضابطہ اخلاق میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ دنیا کی زندگی میں ہر انسان دوسروں کا محتاج ہے۔ اگر ہم غور کریں کہ ایک نوالہ جو ہم منہ میں ڈالتے ہیں کتنے انسانوں کی محنت اس میں شامل ہوتی ہے۔ کسی نے بیج بویا۔ فصل کی حفاظت کی۔ اسے کاٹا اور اناج تیار کرکے بازار میں لایا۔ کسی نے خریدا اور کھانے کیلئے تیار کیا۔ اس طرح فطری طور پر ا قدرت انسان کو انسان کا محتاج بنا دیا ہے۔ اس کار و بار حیات میں زندگی کے حالات میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔یہ زندگی ایک آزمائش ہونے کی وجہ سے دکھ اور سکھ کا مجموعہ ہے۔ اگر آج ہم آسائش سے سانس لے رہے ہیں تو اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے اﷲ کے شکر گزار ہوں اور دوسروں کے غموں میں شریک ہو کر ان کی داد رسی کریں۔ جہاں آج خوشیوں سے بھرپور لمحات دکھائی دے رہے ہیں کسی کو کیا معلوم کہ کل وہاں سے پریشانیوں اور دکھوں نے ڈیرے ڈالے ہوں۔ بقول کسے
خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں جہاں بجتی ہیں شاہناہیاں، وہاں موتم بھی ہوتے ہیں

حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا قول ہے کہ ’’ اگر دنیا کی زندگی میں پریشانیاں اور غم نہ ہوں تو کئی ایک اپنوں میں چھپے غیروں اور غیروں میں چھپے اپنوں کی پہچان نہ ہو سکے‘‘۔ دنیا میں جن اقوام نے بھی نام پایا اور ترقی کی ان کے اوصاف میں سے قدر مشترک خدمت خلق ہے۔ اس حوالے سے تین پہلو حد درجہ قابل توجہ ہیں ۔ خوراک۔ صحت اورتعلیم ۔ انسانوں کو زندہ رہنے کیلئے خوراک اوربیماری کی حالت میں علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ باوقار اورسنجیدہ زندگی گزارنے کیلئے علم کی روشنی سے قلوب و اذہان کو منور کرنا بھی انسان کا فطری حق ہے۔ یورپ میں رہتے ہوئے اپنے معاشروں کا اگر اس پہلو سے موازنہ کریں توخوفناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ پاکستان میں آنے والی ہر حکومت بلند و بانگ دعوے ضرور کرتی ہے لیکن آج تک اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ رتبدیلی عمل میں نہیں آئی۔ طب کا شعبہ خدمت خلق کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں دولت کی حرص اور لالچ میں یہ شعبہ بھی اپنی وقعت کھوتا جارہا ہے۔ زیادہ تر ڈاکٹر ضابطے کی کاروائی کے طور پر سرکاری ہسپتالوں میں جاتے ہیں جبکہ اصل علاج کیلئے مریضوں کو پرائیویٹ کلینک کا پتہ بتایا جاتا ہے۔ اس وقت پرائیویٹ ہسپتال بہت بڑا بزنس بن چکے ہیں جن میں بیکس، لاچار اور نادار لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اگرچہ کچھ خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے افراد اور تنظیموں نے خیراتی ہسپتال بھی بنائے ہوئے ہیں لیکن معیار اور آبادی کے لحاظ سے ضرورت پوری نہیں کر سکتے۔

اسی طرح تعلیم جو کہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے وہ بھی محروم توجہ ہے۔ دانش یا کسی اور نام سے ایک ہاتھ کی انگلی پر گنے جانے والے سکول آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ایک مذاق سے کم نہیں ۔ ارباب اختیار کو پوری آبادی کیلئے ایسے تعلیمی نظام کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو فعال ہوں اور وقت و حالات کے تقاضوں کو پورا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری سکولوں کی ابتر صورت حال اور غیر معیاری نظام تعلیم کی وجہ سے زیادہ تر بچے نجی سکولوں میں داخلہ لینے پر مجبور ہیں۔ ان نجی سکولوں میں فیس اور دیگر واجبات ادا کرنا انتہائی مشکل عمل ہے۔ ایک محنتی اور پڑھا لکھا شخص اپنی پوری تنخواہ تین بچوں کی تعلیمی فیس پر لگا دے تو باقی معاملات زندگی کیسے چلائے گا۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں اس وقت نجی تعلیمی ادارے بہت کام کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ غریبوں کی پہنچ سے دور اور بہترین کاروبار کی شکل بھی اختیار کر چکے ہیں۔ زندہ رہنے کیلئے ہرذی روح کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس حوالے سے بھی افرا تفری کا دور دورہ ہے۔ کچھ وہ ہیں جو عیش و عشرت میں زندگی گزار رہے ہیں اور کچھ وہ کہ جو جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے بھی پریشان حال ہیں۔ ستر فیصد زرعی آبادی کے ملک میں بھی کچھ لوگ بھوکے سوئیں تو یقینا شرمناک صورت حال ہے۔ اگر چہ انکم سپورٹ کے نام پر کچھ سکیمیں حکومتی سطح پر کام کر رہی ہیں لیکن وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہیں۔
اس حواالے سے منیر نیازی کے بقول صورت حال کچھ یوں ہے کہ
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

وہ تو ہے جو بھی ہے۔ مایوسی گناہ ہے۔ ہم پر امید ہیں کہ انشاﷲ عنقریب صورت حال تبدیل ہو گی اور حقیقی معنوں میں وطن عزیز ایک اسلامی فلاحی ریاست بنے گا۔لیکن اصحاب ثروت اور جو ترقی یافتہ ممالک میں رہ رہے ہیں ان کی بھی خدمت خلق کے حوالے سے کچھ ذمہ داریاں ہیں جوانہیں ادا کرنی چاہییں۔ ہم جس محلہ یا شہر سے وابستہ ہیں وہاں بھی کئی ایسے لوگ ہوں گے جو ہماری مدد کے منتظر ہوں گے۔ ہمارے رشتہ داروں اور اعزہ و اقارب میں بھی کئے ایسے ہوں گے جو محتاج ہوں گے۔ ان حالات میں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ہمیں ان کی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھنا چاہیے۔ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کر کے ہم دین و دنیا میں عزت پا سکتے ہیں۔ مسلمان دنیا کے جس حصے میں بھی رہے وہ پہلے مسلمان ہے اور پھر کچھ اور۔ ہمارے دین نے ہمیں خدمت خلق کی طرف بھرپور طریقے سے متوجہ کیا ہے۔ یتیموں، بیواؤں، اقربا اور معاشرے کے مجبور لوگوں کی دستگیری ایک مسلمان کیلئے اعزاز سے کم نہیں۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 221403 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More