خون پسینے کی دوستی

وہاں سپاہی دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح سینہ سپر اور مزدور سڑکیں ،پل ،سرنگیں اور ڈیموں کی تعمیر میں مصروف ہیں ۔ دوپہر کا وقت ہے کام میں وقفہ ہے مزدوردوستوں یاروں کے جھرمٹ میں چائے پی رہے ہیں، موبائلز پر ایک دوسرے کے ساتھ فوٹو بنا بنا کر خوش ہورہے ہیں۔ شام ہورہی ہے رات کے کھانے سے پہلے نماز پڑھ کر آنے والے دو محنت کش اور وہ سپاہی جنکی ابھی ڈیوٹی شروع نہیں ہوئی تھی گپیں مارتے آرہے ہیں۔ اب سب کھانا کھا کر چائے کے انتظار میں ہیں۔ چائے کی پیالی پی کر اور سب تھکن اتارنے کے بعد ماہیے اور گانے سنائے جارہے ہیں۔رات کی تاریکی میں اضافہ ہورہا ہے، جھل مل تاروں سے مزین آسماں جنت کا سا سماں پیش کررہا ہے۔ رات ہوچکی سب محنت کش سارے دن کی محنت اور کام کی تھکاوٹ کی وجہ سے گہری نیند سور ہے ہیں۔ رات ڈھل رہی ہے، تاریکی میں کچھ سائے اس کیمپ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یکایک کہیں سے فائرنگ کی آواز آئی ہے۔ عظیم کی آواز آئی اٹھو دہشت گردوں کا حملہ ہواہے۔ لیکن پھر زور دار دھماکا ہوتا ہے کئی مزدور اور سپاہی گہری نیند سے ابدی نیند میں چلے گئے ہیں، بہت سے بانکے سپاہی اور مزدور شہید ہوگئے ہیں۔ گارڈ ڈیوٹی پر متعین سپاہی حملہ آور ہونے والے شیطانوں کا ڈٹ کا صبح تک مقابلہ کرتے رہتے ہیں اور صبح تک ان کا صفایا کر دیا جاتا ہے۔ صبح ہوئی ہے زخمی مزدوروں اور جوانوں کی مرہم پٹی ہورہی ہے۔ شہید ہو جانے والوں کو سپاہی سلوٹ کرتے اور انہیں ان کے گھروں کی طرف روانہ کرتے ہوئے اﷲ حافظ کرتے ہیں۔ بیرکوں میں واپس آکر اپنے شہید دوستوں انکی چیزوں کو اپنے سینے اور آنکھوں سے لگاتے ،ان کے خوبصورت چمکتے چہروں کو رات خوابوں میں دیکھتے اور صبح انہیں محفل میں یاد کرتے ہیں۔ طلوع فجر ہے، ان زخمی مزدوروں کو دیکھو اس کی آستین سے ابھی لہو رس رہا ہے۔ زخمی ماتھے اور سوجن کے ساتھ مسح کرر ہا ہے اور اسے دیکھو سجدہ ریز ہے۔ دیکھو ان کے شہید مزدوروں کے روشن چہرے وطن میں آنے والے روشن دنوں کی نوید دے رہے ہیں۔

گاؤں کے باہر کی جانب صحن میں دو مزدور بھائیوں کے تابوت پڑے ہیں۔ ماں باپ اور بیوی بچوں کے لرزتے لب ، آنکھوں سے ڈھلکتے آنسو ساری داستان بتا رہے ہیں۔ ان کے تابوت اٹھا کر لانے والے سپاہی بھائیوں کی نمناک آنکھیں جیسے کہہ رہی ہوں کہ اس ملک کی تعمیر کرنے والے اور اس وطن حفاظت کرنے والے یہ وہ اَن دیکھے ہیرو ہماری طرح ہی ہیں جنہیں انفرادی طور بہت کم لوگ پہچانتے ہیں لیکن انہیں جانتے اور مانتے سبھی ہیں۔ یہ مزدوراس مسکن کے گھر، گھروندوں کے معمار ہیں اور ہم اس وطن کے رکھوالے۔ ہماری طرح یہ زندگی اور موت کے دو پاٹوں کے درمیان بہتے آگ اور خون کے دریا کو یہ روزانہ پار کرتے ہیں۔ یہ مزدوراونچی عمارتوں کی آخری منزل پر کام کرتے ہوئے موت سے آنکھیں چار کرتے ہیں، کہیں چلچلاتی دھوپ میں بھٹے پر کام کرتے کہیں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر، کہیں رات کے اندھیروں میں لمبے سفر پر، کہیں بلند و بالا پہاڑوں پر سڑکیں اور ڈیم تعمیر کرتے ہوئے موت کا سامنا کرتے ہیں ۔ ہم سپاہی راتوں جاگ کرسرحدوں پر پہرہ دیتے ہیں، کہیں سیاچن کی برف پوش چوٹیوں پر چلتے ہوئے برف بنتے ہیں،کہیں صحرا کی تپتی ریت پر پگھلتے ہیں۔ کہیں دریاؤں سے ابلتے پانی کی لہروں میں ڈوبنے والوں کو بچاتے ، کہیں شہیدوں کا لہو چوم کر ساتھ لہو لہو ہوتے کہیں یہ مزدور پہاڑوں کی سینہ چاک کرکے کوئلہ کی کانوں میں دم گھٹ کر مر جاتے ہیں ۔ریلوے اسٹیشنوں پر ٹرینیوں کے ساتھ ساتھ دوڑتے بوجھ اٹھاتے بوڑھے ہو کر مر جاتے ہیں، کہیں گاڑی کے نیچے آجاتے ہیں۔

یہ مزدور جا بجا آگ اور آہن کی بھٹیاں جلا جلا کر سپاہ کے لئے سامان ِ حرب تیار کر تے ہیں۔اس کام میں کتنوں کے ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں۔ یہ بیرکیں تعمیر کرتے ،سڑکیں اورپل تعمیر کرتے ہیں اور ہمارے ساتھ مل کر اس ملک کی خدمت کرتے جانیں قربان کر دیتے ہیں۔ یہ مزدور ہم محب وطن مجاہدوں،سپاہیوں اور غازیوں کی طرح سخت گرمی میں کام کرتے، سردی جھیلتے اور لو کے تھپیڑے سہتے ہیں۔مزدور سمندر کی لہروں میں کشتیاں چلاتے اور ہم ان کی اور ان لہروں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کے حوصلے بھی آسمان کی طرح بلند ہیں۔ یہ ملک بنانے والے اور ہم اس ملک کو دشمن کی چالوں اور ناپاک ارادوں اور حملوں سے بچانے والے ہیں۔ دشمن کے ڈراوے میں نہ ہم آنے والے نہ یہ کسی بھکاوے میں آنے والے۔ ان مزدوروں کی کوششوں اور محنت کی مرہین منت ہم دنوں پر محیط طویل مسافت گھنٹوں میں طے طے کرلیتے ہیں، ان محنت کشوں کے بل بوتے پرہمیں پینے کے لئے صاف پانی میسر ہے۔ ان مجاہدوں اور مزدوروں کے خون اور پسینے اور قربانیوں سے اس وطن کی کھیتیاں سیراب اور بستیاں آباد ہیں۔ شہید ہوجانے والے محنت کشوں،اپنے ان ساتھیوں کو زمین کے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔ان عظیم سپوتوں کی قبر وں کے سرہانے کھڑے ہو کران کی مغفرت کی دعا کی جارہی ہے۔

جنگ کے دنوں میں جذبات اور لہوسے بہادر محنتی مزدوروں کی داستانیں موسم بہار میں رحمت کی بارشوں کی طرح ہیں۔ جن سے زمین میں ہریالی آتی ہے،محبتیں جاگ اٹھتی ہیں ،دل کھلتا ہے اور ان شہداء کی شہادت سے قوم کے جذبوں اور نصرت خدا کے اشارے ملتے ہیں۔ ان مزدوروں کے حوصلے دیکھ کر ڈرپوک، دشمنوں، بد امنی پیدا کرنے والے نفرتوں کے ابلتے برتنوں، ان فتنوں اور غداروں اور مکاروں اور شیطان کی چیلوں اور دشمن کے پٹھوؤں کے حوصلے پست ہونگے۔ جبکہ ان مزدوروں کی داستانیں ہمیشہ لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رہیں گی، کیونکہ یہ محنت کش جانتے ہیں کہ ان علاقوں میں جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں لیکن اپنا فرض ادا کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ان کی روح حق حلال کی روزی کمانے سے صحت مند اور توا نا ہے ، ان کا دماغ عقلمند اور ہوشیار، اور یقین کامل ہے کہ موت ایک دن مقرر ہے۔ ان کی دوستی کی خوشبو عطر کی مانند ہے، ان کی پرواز عقابوں کی مانند، ان کا ساتھ تاریکی میں شمع کی مانند، یہ بہادر مردوں اور مزدوروں کا ملک ہے، اس کی حقیقت دنیا نے تسلیم کی ہے۔ جس قوم میں دنیا کے لئے امن اور روشنی کا مینار بننے کی صلاحیت اور جذبہ موجود ہو،جس کے مزدوروں کے چہروں کی تازگی پھولوں کی مانند ہو، جنکے مجاہد سپاہیوں کے ہتھیار ضرب عضب کی مانند ہوں، اس قوم کو دہشت گرد ڈرا سکتے ہیں نہ ہرا سکتے ہیں۔

دہشت گردوں کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ۔دہشت گردوں کے ہاتھوں ہونے والی تخریب کا جواب یہ تعمیر کی صورت میں دیتے اور اپنی ہمتوں کے نشان رقم کرتے اور حسیں یادوں کوپھیلاتے چلے آرہے ہیں۔ اور کہتے چلے آرہے ہیں کہ ہم باہمی محبت اور اﷲ کی رحمت پر یقین رکھنے والے مزدور ہیں۔ ان کی مزدوری ان کے لہو پسینہ کی اجرت اس وقت ادا ہوجائے گی جب اس پاک زمین کودہشت گردوں سے پاک کر دیا جائے گا اور ان ظالموں کامکمل صفایا ہو جائیگا۔یہ مزدوری ایسی قومی حکمت عملی ہے، ایسا اتحاد عمل ہے، ایسا ولولہ اور ایسا جذبہ ہے جس پر عمل پیرا ہوکردہشت گردی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کیا جا سکتا ہے۔ ان کا علاج ایک بے رحم آپریشن ہے جس کے بعد مزدوروں کے قاتل دوبارہ سرنہ اٹھا سکیں گے۔جنگ کے دنوں میں سپاہ اورمزدوروں کی شہادتیں موت نہیں قوم کی فتح کا نشان ہوتی ہیں۔ تربت میں شہید ہونے والے مزدوروں نے ملک میں جاری اس جنگ کی خونی ہولناکیوں کے احساس کو قوم تک پہنچادیا ہے۔کہتے ہیں مزدورکاپسینہ خشک ہونے سے پہلے ان کی مزدوری ادا کردو۔گو اس وقت پوری قوم متحد ہے، حکومت اور افواج پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مصروف عمل ہیں لیکن ابھی تک ان دہشت گردوں کے کس بل پورے ختم نہیں ہوئے ہیں ۔ مزدوروں اور مجاہدوں کے خون پسینہ کا کوئی مول نہیں دے سکتا۔ اس خون اور پسینے کاحدیہ یہی ہے کہ اس ملک کو دہشت گردوں سے ہرصورت پاک کیا جائے۔ محب وطن مزدور مجاہدوں اور سپاہیوں کا خون پسینہ اس پاک زمین کو ہمیشہ سینچتا رہے گا اور اس سبز زمیں کو سر سبز وشاداب کرتا رہے گا۔
Kamran Rana
About the Author: Kamran Rana Read More Articles by Kamran Rana: 5 Articles with 6479 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.