مغرب میں قبول اسلام کا رحجان (قسط نمبر1)

انسانی زندگی کا ایک انتہائی مشکل فیصلہ ہوت اہے کہ جس دین و مذہب کی آگوش میں پرورش ہوئی ہو اسے ترک کرکے دوسرے دین کو اپنا لیا جائے۔ یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ دین اسلام میں فطری طور پر ایسی کشش اور جاذبیت موجود ہے کہ جس نے بھی تعصب اور بغض کی عینک اتار کر اسلام کی تعلیمات اور اسلوب حیات سے آگہی حاصل کی تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جنیہں قبولیت اسلام کی توفیق تو نہ ملی البتہ غیر مسلم ہونے کے باوجود اسلام کی عظمتوں کے معترف رہے اور بے شماروں لوگ ہیں جو اپنے آبائی مذاہب کو ترک کرکے حلقہ بگوش اسلام ہوئے لاکھں کی تعداد میں لوگ ہیں جنہوں نے مصائب و آلا کی پرواہ کیے بغیر نہ صرف حقانیت اسلام کا اعتراف کیا جب کہ اسے ضابطہ حیات کے طور پر اپنایا بھی۔ جو لوگ مسلمان مان باپ کے گھر پیدا ہوئے اور اسلامی ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ ان کیلئے یقینا ان نو مسلموں کے احوال حیات دلچسپی و موعظت اور کبھی سامانِ عبرت کا باعث ہوتے ہیں۔ بسا اوقات یہ واقات ان لوگوں کے لئے جو مسلمان گھروں میں پیدا ہونے کے باوجودبا عمل مسلمان نہ بن سکے، آنکھیں کھولنے اور اصلاح کی طرف متوجہ ہونے کا سبب بن جاتے ہیں۔

حضرت علامہ اقبال ؒ ایک عظیم دانشور اور مفکر تھے۔ آپ کی گفتگو میں دور اندیشی اور لہجے میں حکمتیں پنہاں ہوتی تھیں۔ آج کے موضوع کے حوالے سے آپ کی زندگی کا ایک واقعہ عرضِ خدمت ہے۔ ڈاکٹر عبد لمجید قریشی جو اپنی کتاب ’’اسلام زندہ باد‘‘ کے صفحہ نمبر7 اور 8 پر لکھتے ہیں۔ ’’28اکتوبر 1930 کو میں حضرت علامہ اقبال ؒ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ کرسی پر آرام فرما تھے۔ رسمی مزاج پرسی ہوئی اور اس کے بعد تبلیغ اسلام کے حوالے سے گفتگو شروع ہوگئی۔ علامہ اقبال ؒ نے کہا’’آپ ایک کتاب لکھیں۔‘‘
میں نے پوچھا ’’کیسی کتاب‘‘ ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ نے فرمایا کہ تحقیقات کرنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کے قصبوں اور دیہاتوں میں ہزار ہا غیر مسل حلقہ بگوش اسلا ہوچکے ہیں۔ اگر کوئی ان از خود مسلمان ہونے والوں سے ملے اور ان سے قبولیت اسلام کی وجوہات معلوم کرے اور ان تمام معلومات کو ایک کتاب میں جمع کردے۔ یقینا تبلیغ اسلا م کے مقاصد کو ایک کتاب میں جمر کردے۔ یقینا تبلیغ اسلام کے مقاصد کے حصول میں از خود مفید ہوگی۔ ڈاکٹر عبد المجید قریشی لکھتے ہیں کہ میں نے علامہ ؒسے پوچھا کہ کہا صداقت اسلا کے متعلق پہلے دلائل کافی نہیں ہیں؟ تو اس کے جواب میں علامہ نے فرمایا کہ بہت کافی ہیں۔ مگر ایسا کرنے سے کئی ایسے عجیب اور جدید دلائل تک آپ کی رسائی ہوگی کہ دنیا حیرت زدہ رہ جائے گی۔ علامہ نے فرمایا’’ میں سمجھتا ہوں کے دل اور دماغ کے کام کرنے کے طریقوں میں بہت فرق ہے دماغ بسااوقات مضبوط دلائل کو بھی مسترد کردیت اہے اور ان کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا لیکن دل اس کے برخلاف بعض اوقات کمزور سے کمزور چیزوں سے اس قدر متاثر ہوجاتا ہے کہ ایک جھٹکے میں دن کا سارا نقشہ بدل جاتا ہے۔ قبولیت اسلام کا جس قدر تعلق دل سے ہے دماغ سے نہیں۔ اصل بات جو مبلغ کو معلو م ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ کہ وہ کون سے نشتر ہیں جن سے دل متاثر ہوا کرتا ہے ہم کفار و مشرکین کی ہزاروں ایسی مثالیں دیکھتے ہیں کہ اپنے مذہب پر چٹان کی طرح قائم ہیں لیکن چشم زدن میں دل پر ایسا اثر ہو اکہ عشق کی اک جست نے ان کی زندگی بدل کے رکھ دی۔ نو مسلموں کے حالات سے اسلام کی سچائی کی وہ قلبی دلیل میسر آتی ہے کہ اسلام کی وہ کون سی بے ساختہ ادا تھی جو ان کے دل کو بھا گئی۔ اس وقت مغرب میں اسلام قبول کرنے والوں کا دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک خاصی تعداد ان عورتوں کی ہے جو اسلام کی تعلیمات اور حقوق نسواں سے متاثر ہو کر ایک طرف مسلمان ہو رہی ہیں تو دوسری طرف عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اسلام پا انگشت نمائی کرنے والوں کو اس کی سچائی کے حوالے سے عملی جواب دے رہی ہیں۔ قبولیت اسلام کے حوالے سے UKیونیورسٹی کے Swansea M.A. Kavin Brice نے A Report on converts to Islam in the U.K مرتب کی "Faith Matter's" سے 2011 میں اس رپورٹ کو شائع کیا۔ اس میں قبولیت اسلام کے حوالے سے چشم کشا حقائق ہیں۔ اس میں وہ دیکھتے ہیں کہ 9/11 کے بعد اندرون ملک اسلام کے حوالے سے نفسیاتی لہر تیز ہونے کے باوجود گزشتہ 10سالوں میں مشرف باسلام ہونے والوں کی تعداد میں دگنا اضافہ ہوا ہے Faith Mattersکی تازہ رپورٹ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہر سال تقریباً دس ہزار غیر مسلم صرف برطانیہ یں دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تک پہنچ چکی ہے۔ ایسی ہی ایک نو مسلم عورت Rose Kendrick ہیں جو کہ مذہبی تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور کچھ کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔ انہوں نے بھی 9/11 کے بعد ہی اسلام قبول کر لیا۔ وہ کہتی ہیں کہ آنے والے 20سالوں میں برطانوی نو مسلموں کی تعداد تارکین وطن کے برابر یا اس سے بھی کچھ بڑھ جائے گی۔ اٹلی کی ایک صحابی خاتون (Oriana Fallei)جو 2006 میں انتقال کرچکی ہیں نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ آنے والے 20 سالوں میں یورپ کے چھ برے شہر اسلا کی کالونی بن جائیں گے کیوں کہ مسلمانوں کی آبادی ان شہروں میں 40فی صد تک پہنچ جائے گی۔

کرسچن ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق 2033 تک برطانیہ کے 4000 چرچ مقفل ہوجائیں گے یا انہیں بیچ دیا جائے گا۔ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک مستشرق(Oriantalist) Bernard Lewizs ے پیشگوئی کی ہے کہ 2090 تک پورا یورپ مسلم اکثریتی علاقہ بن جائے گا۔ اسلام کے حوالے سے ماضی قریب میں طرح طرح کے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی کہ اسے بدنام کردیا جائے۔ کبھی Islamic Terrorism کی اصلاح نکالی گئی تو کبھی نبی کریم ﷺ کے کارٹوں بنا کر لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کی سعی ناحاصل کا ارتکاب کیا گیا۔ لیکن زمینی حقائق گواہ ہیں کہ ’’اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دو گے‘‘

اسلام کبھی زوال پذیر نہیں ہوا۔ اسلام کا لیبل استعمال کرکے دھوکے دینے والے خود ہی مکافاتِ عمل کا شکار ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہ اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور سوچیں کہ نو مسلم تو باعمل مسلمان بن کر دنیا و آخرت سنوار لیں اور ہم کہیں غفلت، بے عمل اور بداعتقادی کا شکار ہو کر سب کچھ نہ گنوا دیں۔ یہ حالات ہمارے لئے لمحہ فکریہ اور سامان عبرت ہونے چاہیے۔
لوٹ جا عہد نبی ﷺ کی سمت رفتار جہاں
پھر تیری درماندگی کو ارتقاء درکار ہے۔
(جاری ہے)
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 221423 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More