اسلام اور نفاذ شریعت کا مطالبہ حصہ اول

ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام خدا کی طرف سے آخری دین اور مکمل دین ہے جو انسانیت کے تمام مسائل کا حل پیش کرتاہے اور آج کی سسکتی ہوئی انسانیت کو امن اور سکون کی دولت عطا کرتے ہوئے دنیاوی کامیابی کے ساتھ اخروی نجات کا باعث بن سکتا ہے لیکن ایک عام مسلمان کے لیے بعض اوقات بڑی مشکل صورت حال ہوتی ہے جب ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اسلام میں جائیز ہے جبکہ دوسری یہ آواز آتی ہے کہ یہ اسلام میں جائیز نہیں، یہ حرام ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس کو حق حاصل ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ یہ اسلام میں یہ جائیز ہے یا نہیں۔ اسی طرح یہ کہنا کہ یہ شریعت کے عین مطابق ہے یا یہ شریعت کے منافی ۔توسوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ طے کرنا کس کی اتھارٹی ہے کہ یہ شریعت ہے یا یہ شریعت نہیں۔ دین اسلام میں اتھارٹی کس کی ہے یا بصورت دیگر اسلام ہے کیا ؟ غیر مسلم تو ایک طرف خود مسلمانوں کے سامنے بھی دین کا واضع تصور نہیں ہوتا۔ ایک عام مسلمان یہ ضرور جاننا چاہتاہے کہ اسلام کا آئین، قانون اور دستور کون سا ہے جس سے انحراف اور اختلاف ممکن نہ ہو۔ اور جب کبھی بھی کوئی بات سامنے آئے اُسے پرکھنے کے لیے ایک واضع حقیقت کیا ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دین اسلام کا ماخذ اور منبع کیا ہے اور وہ کون سا ضابطہ حیات ہے جس کی رہنمائی میں ہمیں سفر زندگی طے کرنا چاہیے۔دین کیا ہے؟ اسی طرح اگر ایک غیر مسلم اسلام کی حقانیت پر ایمان لاتے ہوئے مسلمان ہوجاتا ہے تو اُسے اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق بسر کرنے کے لیے کس دستور العمل کی ضرورت ہوگی۔ یہ وہ سوالات ہیں جو اکثر ذہن میں گردش کرتے ہیں۔ اسلام عربی زبان کا لفظ ہے جو س ل م سے نکلا ہے کس کے معنی سلامتی ،اطاعت کرنا، سر تعلیم خم کرنا، ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہونا، اعتدا ل اور توازن کی راہ اختیار کرنا ہے۔ دین اسلام کی کی تعریف Definition یوں کی جاسکتی ہے -

’’ اسلام اﷲ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی طرف خدا کا بھیجا ہوا دین یعنی نظام زندگی ہے جس کا آئین قرآن حکیم ہے، اُس پر مکمل ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس کے مطابق زندگی بسر کرنا اسلام ہے‘‘ یا دوسرے الفاظ میں ’’ اسلام مسلمانوں کا دین یا نظام زندگی ہے جس میں اﷲ کی توحید کا اقرار کرتے ہوئے اس کی حاکمیت اعلٰی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کو آخری نبی ماننا۔ اسلام کا آئین قرآن ہے ، اس پر مکمل ایمان اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنا اسلام ہے‘‘
اسلام وہ دین یا نظام حیات ہے جس میں حضور ختم المرسلینﷺ کی وساطت سے انسانیت کے نام خدا کے آخری پیغام یعنی قرآن مجید کی روشنی میں زندگی بسر کی جائے۔ اُس وحی خداوندی کی روشنی میں فطرت کی قوتوں کو مسخر کرتے ہوئے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے بروئے کار لایا جائے۔اُس ضابطہ حیات پر کامل ایمان لاتے ہوئے قوانینِ خداوندی کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کرنے کا نام اسلام ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے جو نظام اور قانون دیا ہے اس کا نام اسلام ہے۔ اس نظام زندگی کی رہنمائی انبیا اکرام کی صورت میں جاری رہی اور حضور پاک ؐ پر یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ جس کا اس دین پر دل و دماغ کی مکمل ہم آہنگی کے ساتھ غیر متزلزل ایمان ہو وہ مسلمان کہلاتا ہے۔ قرآن حکیم کو اسلام میں سپریم اتھارٹی حاصل ہے ، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں اس کے رہنما اصولوں کے مطابق عمل پیرا ہونا لازم ہے۔ یہی کتاب جائز یا ناجائیز کا فیصلہ کرتی ہے اور ایک مسلمان کی آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتی ہے۔ اسوہ حسنہ یعنی پیغمبر اسلام ؐ کی حیات طیبہ بہترین نمونہ ہے۔ قرآن حکیم کے بعد رسول اکرامؐ کی صحیح احادیث رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔سنت خیرالانام ایک مسلمان کے لیے زندگی گذارنے کے لیے بہترین راستہ ہے۔اسلام دوسرے مذاہب کی طرح محض چند رسمی عبادات کا مجموعہ نہیں جس کا مقصدصرف اُخروی نجات ہو بلکہ یہ ایک دین یعنی نظام زندگی ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کرتا ہے اور حضور ؐ اس دنیا سے تشریف لے جانے سے قبل دین کو مکمل کرکے گئے تھے۔ اسلام کے پانچ ارکان ہیں ۔ پہلا رکن شہادت ہے یعنی اس بات کی شہادت دل و دماغ کے مکمل اطمینان کے ساتھ دینا کہ اﷲ ایک ہے، حضرت محمد ﷺ اُس کے آخری رسول اور نبی ہیں۔ اﷲ کے بھیجے ہوئے تمام نبیوں پر ایمان لانا، اُس کی نازل کردہ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان، اﷲ کے فرشتوں پر ایمان، حیات آخرت اور روز جزا پر ایمان لانا لازم ہے۔ دیگر چار ارکان اسلام میں صلوٰۃ (نماز)، روزہ، زکوٰۃ اور حج شامل ہیں۔

دین ہمار ے دنیاوی معاملات کو سنوارے کے لیے آتا ہے جس سے دنیا میں فلاح اور آخرت میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ انہی اصولوں کی بنیاد پر رسول اکرمﷺ نے ایک بے مثال اسلامی معاشرہ متشکل کیا جس کا تسلسل خلفاء راشدین کے دور بھی رہا۔ اُس معاشرہ میں نہ کوئی سرمایہ داری کا تصور تھا، نہ رہبانیت کا اور نہ ہی مذہبی پیشوائیت کا۔ نہ ہی اُس میں مذہبی جبر اور تشدد تھا اور نہ ہی کسی لیے امتیازی قوانین تھے۔ نہ ہی کوئی کسی پر جبراََ شریعت نافذ کرسکتا تھا اور نہ ہی کوئی فتویٰ دینے مجاز تھا۔ یہ تھا وہ اسلام جسے خدا نے انسانوں کے لیے پسند کیا تھا۔ اور ہم آج بھی پھر وہی نظام دہرا سکتے ہیں اگر بالکل اسی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے اُسی ضابطہ حیات کو اپنا لیں اور اس کی روشنی میں اپنے لیے طریقہ کار وضع کریں۔ خوش قسمتی سے خدا کی آخری کتاب ہمارے پاس مکمل اور اصل حالت میں موجود ہے اب یہ ہم پر کہ ہم اُس سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ کتا ب جو سمجھنے میں آسان اور جس کے احکام آج بھی قابل عمل ہیں جس بارے میں اُس کے مصنف نے سورہ القمر میں چار بار واضع طور پر اعلان کردیا کہ یہ آسان کتاب ہے تاکہ کوئی کل کو یہ نہ کہے کہ یہ کتاب مشکل ہے، اسے سمجھنا آسان نہیں یا اس کے سمجھنے کے لیے پہلے بہت سے علوم کا جاننا ضروری ہے یا پھریہ کہ اس کے سمجھنے کے لیے کسی مزید گائیڈ کی ضرورت ہے ۔ ہر گز نہیں بلکہ واضع طور پراعلان کردیا کہ ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے سچے سمجھے ((54/17, 22, 32, 40۔ قرآن حکیم کو سمجھنے کا اصول اور طریقہ بھی خود قرآن نے بتا دیا ہے کہ تصریف آیات یعنی کسی ایک موضوع کے بارے میں تمام آیات کو پڑھا ااور سمجھا جائے۔ مضامین کے اعتبار سے قرآن فہمی کے لیے بہت سی کتب دستیاب ہیں جن سے عام آدمی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔قرآن اپنی آیات کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے ، آیات متشبہات اور آیات محکمات ۔ متشبہات کی آیات کائنات اور دیگر حقیقتوں کے بارے میں ہیں جس کی مختلف انداز میں تشریح ممکن ہے اور جوں جوں انسانی علم ترقی کرتا چلا جاتا ہے اُن کی آیات کے سمجھنے میں وسعت آتی جاتی ہے۔ مگرآیات محکمات کا مفہوم روز اول سے ایک ہی ہے اور وہ احکامات کی آیات ہیں جن میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ یہ کام کرو یا نہ کرو۔ قرآن مجید انہیں اصل کتاب قرار دیتا ہے اور ایک عام مسلمان کے لیے ضروری یہی ہے کہ وہ ان آیات جو تقریباََآٹھ سو کے قریب ہیں یعنی قرآن کا آٹھواں حصہ ، ان کی روشنی میں اپنی زندگی کی گاڑی کو رواں رکھے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کتاب عظیم سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر ہم یہ نہ کریں گے توروز قیامت حضورؐہماری خدا سے شکائیت کریں گے کہ میری امت نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا جیسا کہ سورہ فرقان کی آیت تیس میں ہے۔قرآن سے رہنمائی اہل عقل لیتے ہیں۔قرآن اور عقل کا تعلق ایسے ہی ہے جیسے آنکھوں اور روشنی کا ہے۔ قرآن بار بار غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ یہ ایک بڑی حیران کن حقیقت ہے کہ قرآن میں جنہیں ہم عمومی طور پر عبادات کہتے ہیں اُن کے بارے دو فی صد سے بھی کم آیات ہیں جبکہ کائنات کے غوروفکر کے بارے میں گیارہ فی صد سے زیادہ آیات ہیں۔ قرآن ہی سے ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین ہوتی ہیں اور یہی ایک سپریم اتھارٹی ہے۔اﷲ تعالٰی نے واضع طور پرفیصلہ دے دیا کہ جو قرآن کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ کافر ہیں (5/44 )۔ (جاری)
Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 275 Articles with 236045 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More