پیغمبر اکرم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب مبارک - 2

واقعہ عام الفیل
حضرت عبدالمطلب کے عہد میں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک واقعہ ”عام الفیل“ تھا۔ اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ یمن کے حکمران ابرہہ نے اس ملک پر اپنا تسلط برقرار کرنے کے بعد یہ محسوس کیا کہ اس کی حکومت کے گرد و نواح میں آباد عرب کی خاص توجہ کعبہ پر مرکوز ہے اور وہ ہر سال کثیر تعداد میں اس کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔

اس نے سوچا کہ عربوں کا یہ عمل اس کے نیز ان حبشی لوگوں کے لئے جو یمن اور جزیرہ نما عرب کے دیگر مقامات پر آباد ہیں کوئی مصیبت پیدا نہ کر دے۔ چنانچہ اس نے یمن میں ”قیس“ نام کا بہت بڑا گرجا تیار کیا اور تمام لوگوں کو وہاں آنے کی دعوت دی تاکہ کعبہ جانے کی بجائے لوگ اس کے بنائے ہوئے کلیسا میں زیارت کی غرض سے آئیں۔ اس کے اس اقدام کو لوگوں نے ناپسند ہی نہیں کیا بلکہ بعض نے تو اس کے کلیسا کی بے حرمتی بھی کی۔

لوگوں کے اس رویے سے ابرہہ سخت طیش میں آگیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ ان کے اس جرم کی پاداش میں کعبہ کا وجود ہی ختم کر دے گا۔ اس مقصد کے تحت اس نے عظیم لشکر تیار کیا جس میں جنگجو ہاتھی پیش پیش تھے۔ چنانچہ پورے جنگی ساز و سامان سے لیس ہو کر وہ مکہ کی جانب روانہ ہوا۔ سردار قریش حضرت عبدالمطلب اور دیگر اہل شہر کو جب ابرہہ کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے شہر خالی کر دیا اور نتیجے کا انتظار کرنے لگے۔ جنگی ساز و سامان سے لیس اور طاقت کے نشے میں چور جب ابرہہ کا لشکر کعبہ کی طرف بڑھا تو ابابیل جیسے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی منقاروں اور پنجوں میں کنکریاں لے کر اس کے لشکر پر چھا گئے اور انہیں ان پر برسانا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے ان کے جسم ایسے چور چور ہو گئے جیسے چبایا ہوا بھوسا۔

یہ واقعہ بعثت سے 40 سال قبل پیش آیا، چنانچہ عربوں نے اس واقعے سے ہی اپنی تاریخ شروع کر دی جو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کے عہد تک جاری رہی اور واقعات اسی سے منسوب کیے جانے لگے۔

قابل ذکر باتیں
ابرہہ کا حملہ اگرچہ مذہبی محرک کا ہی نتیجہ تھا مگر اس کا سیاسی پہلو یہ تھا کہ سرزمین عرب پر سلطنت روم کا غلبہ ہو جائے۔ اس کی اہمیت مذہبی پہلو سے کسی طرح بھی کم نہ تھی۔ ابرہہ کا مکہ اور حجاز کے دیگر شہروں پر قابض ہو جانا سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے روم جیسی عظیم طاقت کی اہم فتح و کامرانی تھی کیونکہ یہی ایک ایسا طریقہ تھا جسے بروئے کار لاکر شمال عرب کو جنوب عرب سے متصل کیا جاسکتا تھا۔ اس طرح پورے جزیرہ نما عرب پر حکومت روم کا غلبہ و تسلط ہوسکتا تھا۔ نیز اس کا استعمال ایران پر حملہ کرنے کے لئے فوجی چھاؤنی کے طور پر کیا جاسکتا تھا۔

خداوند تعالیٰ کے حکم سے معجزہ کی شکل میں ابرہہ کے لشکر کی جس طرح تباہی و بربادی ہوئی اس کی تائید قرآن مجید اور آل بیت علیہ السلام کی ان روایات سے ہوتی ہے جو ہم تک پہنچی ہیں۔ قرآن مجید کے سورہ فیل میں ارشاد ہے:۔۔۔الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیلoالم یجعل کیدھم فی تضلیل وارسل علیھم طیرا ابابیلoترمیھم بحجارة من سجیل فجعلھم کعصف ماکونo

”تم نے دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا، اس نے ان کی تدبیر کو اکارب نہیں کر دیا اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیئے، جو ان پر پتھر پھینک رہے تھے، پھر ان کا یہ حال کر دیا جیسے (جانوروں) کا کھایا ہوا بوسا۔“

جو لوگ اس واقعہ کی توجیہ پیش کرتے ہیں کہ اس سال مکہ چیچک کی بیماری ابرہہ کے سپاہیوں میں مکھیوں اور مچھروں کے ذریعے پھیلی اور ان کی ہلاکت کا باعث ہوئی، بعض وہ مسلمان جو خود کو روشن فکر خیال کرتے ہیں وہ بھی مغرب کے مادہ پرستوں کے ہم خیال ہوگئے ہیں، قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ بعض مسلم مورخین اور مفسرین بھی اس مغرب پرستی کا شکار ہوگئے ہیں۔

ابرہہ کے لشکر کی شکست اور خانہ کعبہ کو گزند نہ پہنچنے کے باعث قریش پہلے سے بھی زیادہ مغرور و متکبر ہوگئے چنانچہ حرام کاموں کے کرنے، اخلاقی پستیوں کی جانب جانے اور ان لوگوں پر ظلم و ستم روا رکھنے میں جو حرم کے باہر آباد تھے ان کی گستاخیاں اور دراز دستیاں پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئیں۔ وہ برملا کہنے لگے کہ ہم ہی آل ابراہیم ہیں، ہم ہی پاسبان حرم ہیں، ہم ہی کعبہ کے اصل وارث ہیں، ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ جاہو مرتبت میں عربوں کے درمیان کوئی ہمارا ہم پلہ نہیں ہے۔

ان نظریات کی بناء پر انہوں نے حج کے بعض احکام جو حرم کے باہر انجام دیئے جاتے ہیں جیسے عرفہ میں قیام، قطعی ترک کر دیئے۔ ان کا حکم تھا کہ ان زائرین بیت اللہ کو جو حج یا عمرہ کی نیت سے آتے ہیں یہ حق نہیں ہے کہ اس کھانے کو کھائیں جسے وہ اپنے ساتھ لاتے ہیں یا اپنے کپڑے پہن کر خانہ کعبہ کا طواف کریں۔

حضرت عبداللہ
حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے حضرت عبداللہ تھے کہ جنہیں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے والد ہونے کا فخر حاصل ہو۔ وہ حضرت ابوطالب، امیر المومنین علی علیہ السلام کے والد اور زبیر ایک ہی ماں یعنی حضرت فاطمہ کے بطن سے تھے۔ حضرت عبداللہ اپنے والد کی نظروں میں دوسرے بھائیوں کے مقابل زیادہ قدر و منزلت تھی، جس کی وجہ ان کے ذاتی اوصاف اور معنوی کمالات تھے۔ اس کے علاوہ دانشوروں اور کاہنوں نے بھی یہ پیشین گوئی کی تھی کہ ان کی نسل سے ایسا فرزند پیدا ہوگا جسے پیغمبری کے لئے منتخب کیا جائے گا۔ اس خوشخبری کی تائید و تصدیق اس خاص تابانی سے ہوتی تھی جو حضرت عبداللہ کے چہرے سے عیاں تھی۔

حضرت عبدالمطلب نے اپنے جواں سال فرزند حضرت عبداللہ کے لئے طائفہ بنی زہرہ کے سردار حضرت وہب بن عبدمناف کی دختر نیک اختر حضرت آمنہ سے رشتہ مانگا اور انہیں اپنے فرزند دلبند کے حبالہ نکاح میں لے آئے۔ اس شادی خانہ آبادی کا حاصل و ثمرہ حضرت محمد کا وجود مسعود تھا اور یہی وہ ذات گرامی ہے جسے بعد میں خاتم الانبیاء کہا گیا۔

حضرت آمنہ سے شادی کرنے کے بعد حضرت عبداللہ تجارتی قافلے کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئے۔ سفر سے واپسی پر شہر یثرب میں بیمار ہوگئے اور اس بیماری کی وجہ سے وہیں ان کا انتقال ہوگیا اور اسی شہر میں انہیں دفن کیا گیا۔۔۔۔۔۔جاری ہے

نوٹ۔۔۔۔آپ کی رائے راقم کی عزت افزائی اور معلومات میں قیمتی اضافہ ہوگی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 112040 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More