ایگزیکٹ ،شعیب شیخ ، بول ٹی وی اور ایف آئی اے

سردار عتیق احمد خان صدر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس وسابق وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر۔

پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مستقبل کیا ہو گا ابھی طے ہونا باقی ہے لیکن اس کا ماضی بہت بھیانک ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے شناختی کارڈ بنانے کا کام فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں شروع ہوا لیکن آج تک ضلع اسلام آباد اور اُس کی نواحی بستیوں کے کئی افراد شناختی کارڈ کے حصول سے محروم ہیں ۔ مسلمان تہذیب کیلئے یہ کام دنیا میں سب سے آسان تھا اس لیے کہ واقعہ معراج انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بھی معراج ہے ۔

جس سائنس کی صداقت پر ہمارا کامل ایمان ہے اُسے سیکھنا سکھانا مسلمان معاشروں کے فرائض کا حصہ ہے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ اس میدان میں مغرب کی تحقیق و ایجادات سے بھی ہم پوری طرح مستفید ہونے کے لیے تیار نہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جہاں ملک نے داخلی اور خارجی محاذ پر نیک نامی کے کئی کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ وہاں ڈاکٹر عطا ء الرحمان جیسے قابل شخص کی دریافت اور ان کی خدمات سے استفادہ بھی جنرل پرویز مشرف کا ایک عظیم کارنامہ ہے ۔ ہندوستانی سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو دی جانے والی ایک خفیہ بریفنگ (جو بعد میں ہندوستانی اخبارات میں مفصل شائع ہو گئی) میں پاکستانی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈاکٹر عطاء الرحمن کا ذکر جن شاندار الفاظ میں کیا گیا وہ ساری قوم کے لیے قابل فخر ہے اور جس پر ڈاکٹر عطاء الرحمن کو کئی اعزازات اور انعامات سے نوازا جانا چاہیے لیکن بقول شاعر:
نیرنگی سیاست ِدوران تو دیکھئے ۔۔۔ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

جنرل پرویز مشرف کے خلاف نواز لیگی حکومت نے جب غداری کا مقدمہ درج کر کے اس کی بھر پور تشہیر کا اہتمام کیا تو میں نے کہا تھا کہ ’’مشرف محض بہانہ ہے ۔۔۔ فوج اصل نشانہ ہے ‘‘۔ بعد کے واقعات نے میرے اندازے کو درست ثابت کیا ۔

اس وقت میں والد گرامی سردار محمد عبدالقیوم خان کی اچانک شدید علالت کے باعث راولپنڈی کے قائداعظم ہسپتال میں مجاہد اول کے ساتھ اٹنڈنٹ ڈیوٹی کی سعادت سے مستفید ہو رہا ہوں جس کے باعث خیالات کا بے ربط ہونا قدرتی امر ہے تا ہم جو ذہن میں آرہا ہے قارئین کی خدمت میں حاضر ہے ۔

Axactایگزیکٹ ، بول ٹی وی، شعیب شیخ اور ایف آئی اے کی پھرتیاں آج کا اصل موضوع ہے ۔ شیخ صاحب سے میرا بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی تعلق یا واقفیت نہیں ۔میرے نزدیک ہر محب وطن پاکستانی میرا دوست عزیز ہے اور ہم ایک قبیلے اور خاندان کے افراد ہیں۔ کسی دانشور نے کہا ہے درجنوں بے خبر احمقوں کا بولتے رہنا اتنا نقصان دہ نہیں جتناایک با خبر کا خاموش رہنا نقصان کا باعث ہے ۔

مجھے اتنا معلوم ہے کہ BOL TVکے خلاف سب سے پہلی خبر ہندوستانی اخبارات نے دی جسے پاکستان میں کچھ لوگوں نے اچھالنے کی بھر پور ناکام کوشش کی۔ پھر ایک ہندوستانی شہری کی ڈگری جعلی ثابت ہو گئی اورپھر ایک امریکی صحافی ڈیکلن والش کی ایگزیکٹ کے خلاف خبر کیا چھپی کہ ساری حکومت پاکستان اور بطور خاص ’’محترمہ ایف آئی صاحبہ‘‘ پوری طرح حرکت میں آ گئیں۔

حیرت ہے کہ جو صحافی پاکستان کے لیے تو ناپسندیدہ شخص قرار دیا جا چکا ہے لیکن اُس کی خبر میثاق جمہوریت کے تحت چلنے والے نظام کیلئے کس قدر معتبر ٹھہر گئی۔

میں مغربی میڈیا یا امریکی ذرائع ابلاغ کو برا بھلا کہنے کے فیشن سے کبھی متاثر نہیں ہوا نہ ہی اب کوئی ارادہ ہے بلکہ میں تو قائداعظم اور لیاقت علی خان کی دوربینی کو تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے قیام پاکستان کے آغاز میں ہی امریکہ سے تعلقات کے قیام کا بہت درست فیصلہ کیا اور امریکی قیادت ،عوام اور اُس کے اداروں کے حوصلے اور ہمت کی داد دیتا ہوں کہ جنہوں نے پاکستانی حکومتوں کی بدترین کرپشن اور لوٹ مار کے باوجود اپنے عوام کے ٹیکس سے حاصل شدہ اربوں ڈالر آج تک ہمیں فراہم کرتے رہنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا۔ اس لیے کسی ایک اخبار یا ٹی وی کی خبر کو امریکی پالیسی قرار دینا درست نہیں تا ہم یہ بھی غلط نہیں کہ بعض مغربی اخبارات کی خبروں سے دنیا کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑااور بعد میں چند سطور کی معذرت پر اکتفا کر لیا گیا ۔

یہ فیصلہ ہماری حکومتوں کو کرنا ہے کہ پاکستان کے خیرخواہ اور بد خواہوں کی خبروں میں فرق محسوس کریں اور اسی کے مطابق رد عمل کا مظاہرہ بھی ۔ پاکستان کے خلاف یہ میڈیا مہم خود ملک کے اندر بھی اپنے عروج پر ہے ۔ پاکستان دشمن کاروائیوں کو پاکستان کے نام کر کے پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کو بدنام کرنے کی مہم میں تو ہمارے بعض صحافیوں کے علاوہ کابینہ کے اراکین بلکہ وزیر دفاع تک بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔معرکہ کارگل کی فوجی فتح کوسیاسی شکست میں بدلنا، بمبئی حملہ کیس کے اجمل قصاب کوپاکستانی ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج کے ایک مایہ ناز سپوت سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کو ایک صحافی پر حملہ آور اور قاتل ثابت کرنے کی کوشش اور بنگلا دیش حکومت کوافواج پاکستان کے خلاف عالمی عدالت میں جنگی جرائم کا مقدمہ درج کروانے کی ترغیب دینا کسی غیر ملکی میڈیا کا نہیں بلکہ خود پاکستان کے اندر چلنے والے میڈیا کا کارنامہ ہے ۔ سابقہ یا موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی کے دفاع کا کافی انتظام موجود ہے ۔میرے پیش نظر آزاد کشمیر میں تباہ کُن زلزلے کے بعد جنرل خالد نواز اور جنرل ظہیر الاسلام کا ناقابل فراموش کردار کافی ہے ۔

اس لیے اگر حکومت کے لیے میثاق جمہوریت کے تحت کوئی گنجائش بنتی بھی ہو تو ریاستی اداروں کو غیر جانبدارانہ رویہ تر ک کر کے اپنے فرائض ادا کرنے چاہیے ۔ غیر جانبداری کو کسی بھی صورت بزدلی، کوتاہی ، کمزوری ، نا اہلی اور ذمہ داری سے فرار کا ذریعہ نہیں بننے دینا چاہیے نہ ہی ملک و ملت اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی بے لگام جمہوریت کو دوست اور دشمن میں فرق کرنے کی تمیز سکھائی جائے اور اسے پاکستان کے سر پر سوار ہونے کے بجائے پاکستانی مفادات کے ماتحت کیا جائے ۔

سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ کے بقول تین طرح کے لوگ آپ کے دوست ہوتے ہیں۔ ایک آپ کا دوست دوسرا دوست کا دوست تیسرا دشمن کا دشمن۔ اس اصول کے تحت بھی میں شعیب شیخ سے ایک گہرا تعلق محسوس کرتا ہوں اور اس کا کھل کر اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ بعض واقعات بہت دلخراش ہیں ۔ میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستان کو باہر سے زیادہ نقصان پہنچا ہے یا خود اپنے ہاتھوں سے ۔ ماضی قریب میں میثاق جمہوریت اور سابق تھیف جسٹس کی ملی بھگت سے پاکستانی معیشت اور اقتصادی وقار کو مسلم کمرشل بنک کی پرائیویٹائزیشن ، کراچی سٹیل ملز، بلوچستان کی گولڈ اینڈ کاپر مائن Reko Diq، ندی پور پاور پراجیکٹ اور اس طرح کے دیگر منصوبہ جات کے حوالے سے جو نقصان پہنچا اُس کی تلافی کیسے ممکن ہو گی ۔لاہور اور راولپنڈی میں ایک ہی شہر کے دو کناروں کو آپس میں ملوانے کے لیے تعمیر کی جانے والی میٹرو بس سروس کے نتیجے میں پرائیویٹ ٹرانسپورٹس سے وابستہ ہزاروں افراد کی بے روزگاری اور بے شمار افراد کی ذاتی اور کاروباری جائیدادوں کے بے پناہ نقصان کے علاوہ اس منصوبے کی لاگت کے نصف سے بھی کم خرچ پر ہندوستان مریخ (MARS)پر پہنچ گیا ۔ کسی کو کبھی نہ کبھی تو اس کا حساب دینا پڑے گا۔

نیو یار ک ٹائمز کی خبر کو بنیاد بنا کرشعیب شیخ جیسے معزز ، معتبر اور محب وطن شخص کے ساتھ کی جانے والی بد سلوکی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ رحمان ملک صاحب جیسے ’’شریف النفس‘‘شخص کو بھی ان واقعات پر شرمندگی محسوس ہوئی حالانکہ انھیں مسلمان ملک کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے سورہ اخلاص نہ پڑھ سکنے پر قطعاً کوئی ندامت نہیں ہوئی تھی نہ ہی ایان علی منی لانڈرنگ کیس میں اپنا ذکر بار بار سننے کے باوجود انھیں کوئی ناگواری ہوئی ہو گی بلکہ عین ممکن ہے کہ ایان علی کے ساتھ نسبتوں کے کھلِ عام تذکرے اور تصور پر گُنگنا تے ہوں کہ ’’مجھ سے میرا ذکر اچھا ہے کہ اُس محفل میں ہے‘‘۔ زرداری حکومت کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے رحمان ملک کو اگر کبھی کسی ایک جرم کا حساب بھی دینا پڑا تو انھیں نسلوں تک بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔ زرداری دور میں امریکہ میں مقیم ایک معروف کاروباری شخصیت سید لخت حسنین کی سربراہی میں کرنسی کی تجارت کرنے والی کمپنی ZARCOجس نے چند سالوں میں پاکستان کے لیے اربوں کا زرِمبادلہ حاصل کیا اُسے اور اُس سے وابستہ ہزاروں افراد کا مستقبل تاریک کرنے کامجرمانہ فعل بھی قابل فراموش نہیں۔

نیویارک ٹائمز کی خبروں پر عراق میں مہلک ہتھیار(WMDs)تو نہ مل سکے البتہ ہزاروں بے گناہ انسانوں کے سر آج تک قلم کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے ایک مایہ ناز بنکار مرحوم سید آغا حسین عابدی کا قائم کردہ عالمی شہرت یافتہ مالیاتی ادارہ ،بنک آف کریڈٹ اینڈ کامرس (BCCI)بھی ایسی ہی ایک خبر کی نظر ہو گیا تھا۔ ان سب خبروں پر بعد از وقت چند سطور میں معذرت کر لی گئی لیکن اس سے جو نقصان ہوا اُس کی تلافی کسی بھی صورت ممکن نہیں ۔

شعیب شیخ کی بھرپور پہل قدمی اور طویل المدت انقلابی منصوبہ بندی یقینا اُن کے صاحب بصیرت ہونے کی دلیل ہے ۔ نہ جانے کیوں اُن کی نظر سے پاکستان کے حساس اور دفاعی اداروں کے خلاف پاکستان دشمن قوتوں کا آلہ کار بننے والے میڈیا اور اُس کے سرپرست میثاق جمہوریت کا کردار اوجھل رہا ۔ شیخ صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ پاکستان کے لیے اربوں ڈالر کمانے اور پاکستان کو آئی ٹی کی دنیا میں بلند مقام پر لے جانے کی خواہش کے اظہار سے پہلے ڈاکٹر عطاء الرحمن اور سید لخت حسنین سے رہنمائی حاصل کر لیتے ۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ’’شریف آدمی سے ڈرو جب وہ مظلوم ہو اور کمینے آدمی سے ڈرو جب وہ اقتدار میں ہو ‘‘۔ سبحان اﷲ انسانی نفسیات کے متعلق پندرہ سو سال پہلے کتنی جامع رہنمائی فراہم کر دی گئی ۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ ذاتی دلچسپی کے نتیجے میں آزاد کشمیر میں اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران میں نے بوسٹن (BOSTON)سے دنیا میں آئی ٹی کے ادارے کے ایک بڑے سربراہ نیگرو پانٹے کو مدعو کر کے آزاد کشمیر میں پرائمری سطح کے طلبہ و طالبات کو آئی ٹی سے وابستہ کرنے کی ابتدائی منصوبہ بندی کر لی تھی جس سے کسی بھی وقت استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ مجھے شعیب شیخ کے ساتھ بھر پور ہمدری اور یکجہتی کا اظہار کرنا ہے اور انھیں یقین دلانا ہے کہ مجرمانہ دور کے اقدامات کسی بھی دور میں انعامات ثابت ہو سکتے ہیں۔ اﷲ کو منظور ہوا تو بول ٹی وی آپ کے مخالفین کے سر چڑھ کر بولے گا ۔ لاکھوں کی تعداد میں تعلیم سے محروم بچے پڑھ سکیں گے اور پاکستان کو آپ کے ذریعے اربوں کے زرمبادلہ کے علاوہ دنیا میں نیک نامی اور پاکستان کے لیے اربوں ڈالر کے زرمبادلہ کے حصول کی آپ کی خواہش بھی یقینا پوری ہو گی ۔جس دور میں ایان علی پر انعامات اور شعیب شیخ پر الزامات کی بارش ہو اُس دور کے حکمران تاریخ میں جواب دہی سے نہیں بچ سکیں گے ۔
جس دور میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی
اُس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی
Sardar Attique Ahmed Khan
About the Author: Sardar Attique Ahmed Khan Read More Articles by Sardar Attique Ahmed Khan: 23 Articles with 38138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.