نور اعلی نور - قسط ۔ ۶

 ’’اے اﷲ! تو نے ہی مجھے یونیورسٹی میں ایڈ ہومیشن دلایا تھا…… اب تو ہی میری جاب بھی لگا دے……‘‘۔ حسن کے وظیفے شروع تھے اور آج کل یہ دعا سر فہرست تھی۔چند ایک انٹرویوز وہ دے چکا تھااور کہیں سے بس کال آنے کے انتظار میں تھا۔ویسے تو آئے دن اسے دینداری کا دورہ پڑتارہتا تھا۔مگر اب ایسے نازک موقعوں پر تو وہ مصلے سے چپکا ہی رہتا تھا۔جب بھی کبھی کسی نامعلوم نمبر سے فون آتاتو اچک کر سنتاکہ کہیں کوئی انٹرویو یا جاب آفر نہ آگئی ہو ۔دوست یار سب بھول کر اس نے اپنی پوری توجہ صرف جاب ڈھونڈنے پر مرکوز کر رکھی تھی ۔

’’بسم اﷲ !۔‘‘ حسن نے اﷲ کا نام لے کر اپنے مبائل پر ایک انجان کال موصول کی ۔
’’السلام علیکم۔‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی ۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ حسن نے جواب دیا ۔
’’آپ کا آر ٹیک میں انٹرویو ہوا تھا……۲۳ تاریخ کو…… آپ کو سیکنڈ انٹرویو کے لئے آنا ہے……‘‘
’’اچھا……! ……سیکنڈ انٹرویو!!!‘‘۔ حسن نے حیرانی سے کہا۔
’’جی…… آپ کل بارہ بجے آ سکتے ہیں؟؟؟ ہماری شاہراہ فیصل والی برانچ پر آنا ہو گا۔‘‘
’’او کے۔ انشاء اﷲ میں کل آ جاؤ گا‘‘۔ حسن نے کنفرم کر کے بات ختم کی اور اپنی امی کے کمرے کی طرف گیا۔

’’کل پھر انٹرویو کے لئے بلا لیا ہے……‘‘۔حسن نے منہ بنا تے ہوئے اپنی امی سے کہا ۔ وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھیں کوئی رسالہ پڑھ رہی تھیں۔
’’پھر؟؟؟‘‘۔ انہوں نے چونک کر حسن کی طرف دیکھا۔ ’’کیا مطلب؟؟؟‘‘ انہیں بات ٹھیک طرح سمجھ نہیں آئی۔
’’پہلے دیا تھا …… اسی کمپنی میں انٹرویو…… اب دوبارہ بلا رہے ہیں‘‘۔
’’اچھا! …… تو کیا ہوا…… دے آؤ نا……‘‘۔ انہوں نے سیدھا ساجواب دیا۔
’’ایک ہی دفعہ فائنل کر لیں بھئی……‘‘۔ حسن بیزار ہو گیا تھا۔ وہ چاہ رہا تھا کہ اب اسے سیلیکشن کی کوئی کال آتی۔ اس کی امی خاموش ہو گئیں۔
’’اﷲ کرے اب کل ہی فائنل ہو جائے……‘‘۔ وہ کمرے میں رکھے صوفے پر بیٹھ گیا۔
’’آمین۔ انشاء اﷲ……ہو جائے گا‘‘۔ اس کی امی نے حوصلہ دیا۔

دوسرے دن حسن اچھی طرح تیار ہو کر اسی کمپنی میں پھر پہنچا ۔ وہاں پہنچتے ہی ریسیپشنسٹ نے اسے مینجر سے ملوا دیا۔
’’السلام و علیکم حسن! کیا حال ہے آپ کا؟‘‘
’’جی سر…… الحمد اﷲ میں بالکل ٹھیک…… آپ سنائیں؟‘‘
’’اﷲ کا شکر ہے‘‘۔
وہ تھوڑا رک کر بولے۔ ’’ آپ کا سیلیکشن ہو گیا ہے……یہ آفر لیٹر پڑھ لیں……اور سانن کر کے واپس کر دیں‘‘۔ انہوں نے حسن کو آفر لیٹر دیا۔ حسن اندر ہی اندر کھل اٹھا۔اس کے دل کو اطمینان ہوگیا۔
’’او کے ۔ میں پڑھ لیتا ہوں……‘‘۔
’’ میں کل سائن کر کے دے دوں آپکو؟ …… آرام سے ڈیسائڈ کر لوں گا‘‘۔ حسن نے پوچھا۔
’’اوکے۔ نو پرابلم۔ کل تک فائنل بتا دیجئے گا‘‘۔ حسن نے ان سے اجازت لی اور باہر نکلا۔

’’ارے سہیل تم؟؟؟‘‘ ۔حسن باہر نکلا تو اس کا ایک اور کلاس فیلو سہیل بھی ریسیپشن پر موجود تھا۔
’’تمہارا بھی انٹرویو ہوا ہے کیا یہاں؟؟؟‘‘
’’ہاں یار آج دوسرا انٹرویو ہے……‘‘۔ اس نے جواب دیا۔
’’اوہ! پھر تو شاید تمہیں بھی آفر دیں گے ابھی…… ‘‘۔ ’’میں بھی سمجھ رہا تھا کہ دوسرا انٹرویو ہے مگر انہوں نے آفر لیٹر دے دیا……‘‘۔
’’اچھا!‘‘۔ سہیل بھی خوش ہو گیا۔
’’چلو تم لیٹر لے آؤ …… میں تمہارا یہیں انتظار کر لیتا ہوں……‘‘۔ حسن وہیں ریسیپشن پر بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر میں سہیل بھی آفر لیٹر لئے باہر نکلااور وہ دونوں اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔

مگر حسن کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ ’’ کیا ہوا؟‘‘۔ گھر آتے ساتھ ہی اسکے امی ابو د ونوں نے پوچھا ۔
’’آفر تو آگئی ہے…… مگر کم دی ہے……‘‘۔ اس نے اداس سی آواز میں جواب دیا۔
’’کتنی تنخواہ ہے؟‘‘۔ اسکی امی نے پوچھا۔
’’مجھے اٹھارہ ہزار آفر کئے ہیں اور دوسرا ایک دوست ہے اسکو بیس……‘‘
’’اچھا! ……کیوں؟‘‘۔ حسن کی امی وجہ جاننا چاہتی تھیں۔
’’پتا نہیں‘‘۔ حسن نے منہ بنا کر جواب دیا۔
’’انٹرویو اچھا ہوا ہو گا نا اسکا……‘‘ ۔ اسکی امی نے خود ہی اندازہ لگایا۔
’’پتا نہیں…… کلاس میں تو ایسے ہی ہوتا تھا……‘‘۔ اس کے والد یہ سن کر ہنسنے لگے۔
’’ چلو کوئی نہیں!!! اﷲ کا شکر ادا کرو…… ‘‘۔ ’’ ابھی تو شروعات ہے آگے انشاء اﷲ بڑھتی رہے گی‘‘۔
’’ہاں انشاء اﷲ……‘‘۔’’ویسے بھی بیٹا!…… یہ رزق کا معاملہ بڑا مختلف ہوتا ہے…… کئی لوگ ایسے دیکھے ہیں جنہیں کچھ آتا جاتا نہیں اور اﷲ انہیں کسی اور وجہ سے دئیے جاتاہے…… اور بہت سے لوگ بہت قابل ہوتے ہیں لیکن تنخواہیں ویسی نہیں ہوتی ان کی……‘‘۔ حسن کے ابو نے جیسے عالم بالا کا کوئی راز کھول دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ابھی اندھیرا ہی تھا۔ سورج طلوع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ ذولفقار کے ہاتھ پاؤں سردی سے کانپنے لگے۔ اس کی آنکھ کھل گئی۔ کہیں دور سے کسی مسجد سے فجر کی آذانوں کی آواز آنے لگی۔ ساحل کی لہروں نے اس کے کپڑوں کو پوری طرح بھگو دیا تھا۔ سمندر کے ساحل پر تیز تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔ جوں ہی کوئی سرد ہوا کا جھونکا آتا ……وہ ایک کپکپی لے کر رہ جاتا……

ذولفقار کا ذہن بالکل خالی تھا۔ وہ کسی طرح اٹھا اور آہستہ آہستہ لڑکھڑاتے قدم چلتاخشک ساحل کی طرف بڑھنے لگا۔ افق پر روشنی نمودار ہو رہی تھی۔ وہ دوبارہ وہیں خشک ریت پر بیٹھ گیا۔ تا حد نگاہ صرف پانی ہی پانی نظرآ رہا تھا…… اور لہروں کا شور…… دور جہاں آسمان اور زمیں مل جاتے ہیں……وہاں سے سورج اپنی پہلی پہلی کرنیں بکھیر رہا تھا ……سورج کی کرنیں سمندر کے پانی پر منعکس ہو کر عجیب منظر پیش کر رہیں تھیں……ہر ہر گزرتا پل سمندر کو ایک نیا روپ بخشتا…… سارا سمندر سونے اور چاندی کی طرح چمکنے لگا…… صاف ستھری پاکیزہ سورج سے نکلتی کرنیں ساحل کے پانی کو نت نئے رنگوں کا تحفہ دے رہیں تھیں……
’’سبحان اﷲ!‘‘۔ ذولفقار کے منہ سے بے اختیار نکلا۔

ذولفقار کا جی چاہا کہ سورج سے نکلتی ساری کی ساری کرنیں اپنے اندر جذب کر لے۔ کچھ دیر بعد اسے سردی لگنا کم ہوئی۔ وہ اس دلفریب منظر میں جیسے کھو سا گیا…… کل رات جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا…… وہ سب بھول گیاتھا۔

’’ارے! یہ تو سارے پیسے وغیرہ بھی گیلے ہو گئے……‘‘۔ ذولفقار کو بھوک کا احساس ہوا تو اس نے اپنی جیبوں کو ٹٹولا۔ اس نے کچھ اور وقت وہیں گزار کرپیسوں کو سکھایااور سمندر کے ساتھ جڑی ایک سڑک کی طرف بڑھا۔ ’’شکر ہے چابی ہے!‘‘۔اس نے اپنی گاڑی کی چابی کو ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ وہ بھول گیا تھا کہ اس نے گاڑی کہاں پارک کی تھی۔ بہرحال اسے گاڑی نظر آ گئی۔

بڑی مشکل سے اسے پٹھان کا ایک ہوٹل ملا جہاں وہ صبح سویرے پراٹھے بنا رہا تھا۔ اس نے شکر کیا…… اس کا بھوک سے برا حال تھا۔
’’یار ! دو پراٹھے اور چائے دینا‘‘۔پٹھان نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا، جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ اتنی صبح صبح وہ کہاں سے آگیا۔
’’چائے تھوڑی دیر میں بنے گی‘‘۔ اس نے کہا۔
’’یار! زرا جلدی کر دینا……‘‘۔ ذولفقار نے بیزاری سے جواب دیا اور وہیں باہر سڑک کے کنارے رکھی ایک پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھ گیا۔سڑک پر اب بھی ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ اس کے کونے پر بنی مسجد میں گنے چنے نمازی نماز پڑھنے آ رہے تھے۔ایک دو آدمی اس کے سامنے سے بھی گزر گئے۔ مسجد میں جماعت ہونے لگی۔ اتنے میں پٹھان بھائی پراٹھے لے آیا۔
’’السلام و علیکم و رحمت اﷲ ‘‘۔ ’’السلام و علیکم و رحمت اﷲ ۔‘‘ مسجد سے آواز گونجی۔ جماعت ختم ہو چکی تھی۔ ذولفقار وہیں ہوٹل کی کرسی پر بیٹھا رہا۔ کبھی وہ سوچتا نماز پڑھے ، پھر سستی دکھانے لگتا…… پھر سوچتا اور پھر سستی کرنے لگتا…… آخر کو وہ اٹھا اور مسجد کے دروازے کے سامنے سے گزرتا ہوا آگے نکل گیا۔ اسے دل میں ایک بوجھ سا محسوس ہونے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ نماز نہ پڑھ کر اس نے غلط کیا ہے۔ مگر وہ بے حسی سے آگے بڑھا۔ مسجد کا دوسرا چھوٹا دروازہ سامنے آیا…… اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ تیز تیز قدم چلتا یک دم مسجد میں داخل ہو گیا۔

یہ ایک چھوٹی سی پرانی مسجد تھی۔ بالکل سادہ سی…… کچھ کچھ جگہوں پر مختلف رنگوں کی ٹائلیں نصب تھیں جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ کبھی کبھار لوگوں نے اسے آراستہ اور جدید کرنے کی کوشش کی ہے۔ صبح سویرے شاید مسجد کے فرش کی دھلائی ہوئی تھی۔ ذولفقار نے چپل اتار کر جیسے ہی سیمنٹ کے فرش پر پاؤ رکھا …… ایک پیارا سا ٹھنڈک کا احساس اس کے تلوؤں کو چھو گیا۔ وہ مسجد کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے پہلے کبھی کسی مسجد میں آیا ہی نہ ہو۔مگر یہ ضرور سچ تھا کہ فجر کے اس وقت وہ واقعی ناجانے کتنے سالوں بعد مسجد میں آرہا تھا۔ ورنہ عام طور پر تو وہ کبھی کبھار جمعے کو یا پھر عید کے دن مسجد کی شکل دیکھتا تھا۔

بہرحال اس نے وضو کیا اور مسجد کے اندرونی حصے میں چلا گیا۔ وہاں چند بزرگ کونے میں بیٹھے گفتگو کر رہے تھے اور چند اور اپنی اپنی تسبیح و تقدیس میں مشغول تھے۔
’’فجر میں تو دو ہی رکعت ہوتی ہیں……‘‘۔اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا اور دو رکعت ادا کیں۔ پھر دوبارہ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
اس نے ایک بار پھر نیت باندھی اور طوطے کی طرح رٹی رٹائی نماز کی دو اور رکعتیں پڑھ ڈالیں۔

وہ دعا کرنا بھول ہی گیا۔ وہ وہیں کونے میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ایک چھپاکے کے ساتھ کل رات کا سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ شور و غل، وحید کا اسے گالیاں دینا، اس پر ہا تھ اٹھانا، سدرہ کی نازیبا حرکات، امی اور عائشہ کا زار و قطار رونا دھونا، چیخ و پکار، ……اس کے ذہن پر زور پڑنا شروع ہو گیا……اس نے زور لگا کر اپنی آنکھیں کھول لیں۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
’’یا اﷲ!‘‘۔ اس کے منہ سے نکلا ۔ جو بزرگ کونے میں بیٹھے تھے انہوں نے سر گھما کر ذولفقارکی طرف دیکھا۔

’’اﷲ!‘‘
’’کیا میں یہیں ساری زندگی گزار دوں گا…… میں گھر نہیں جانا چاہتا…… میں واپس نہیں جانا چاہتا‘‘۔ وہ دل ہی دل میں اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔
’’میں کیا کروں؟؟؟…… کہاں جاؤ؟‘‘
’’حسن!!!‘‘۔ ’’ ہاں حسن کو فون کرتا ہوں……‘‘۔ اس نے موبائیل اٹھا کر حسن کا نمبر ڈھونڈنا شروع کیا۔
’’نہیں…… وہ تو اپنی زندگی میں گم ہے……وہ تو آج کل جاب ڈھونڈ رہا ہے……‘‘۔ اس کے ہونٹوں پر اپنے ہی لئے ایک طنزیا مسکراہٹ آ گئی۔ کیونکہ یہ وقت تو اس کا بھی جاب ڈھونڈنے کا تھا…… مستقبل بنانے کا تھا…… اور وہ کہاں مارا مارا پھر رہا تھا……
’’کاشف! …… نہیں! …… وہ تو بہت مطلبی سا ہے……وہ میرا کیا کرے گا……‘‘۔ اس نے ایک اور دوست کے بارے میں سوچنا شروع کیا ۔
’’آخر میں چاہتا کیا ہوں؟؟؟……‘‘
’’دنیا سے فرار؟؟؟…… گھر سے فرار……؟؟؟‘‘۔
’’کیسے عجیب موڑ پر آ کھڑا ہوا ہوں میں……‘‘
’’یا اﷲ! تیرے علاوہ میرا کوئی نہیں ہے ……‘‘۔ ذولفقار کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے۔ ا س کا جی چاہا سجدے میں گر جائے مگر اسے آس پاس لوگوں کے بیٹھے ہونے سے شرم آنے لگی۔اس کا دل بھاری ہو رہا تھا۔ اس کی سانسیں گہری ہو رہی تھیں۔ وہ اپنے آپ کو بالکل اکیلا اور بے یار و مددگار محسوس کرنے لگا۔ اس کی آ نکھوں میں نمی بڑھ گئی۔ آخر کار اس سے رہا نہ گیا …… اس نے اپنا ماتھامسجد کے فرش پر ٹکا دیا اور گھٹ گھٹ کر رونے لگا…… اپنے کئے کرائے کو یاد کرنے لگا…… اﷲ سے فریاد کرنے لگا……

’’ہاہ! ……یہی تو وہ لمحہ ہے جو تیرے رب کو سب سے ذیادہ پسند ہے……‘‘۔ فدائیل پکار اٹھا۔
’’جب کوئی گناہ گار اپنے گناہوں کو یاد کر کے روئے اور اپنے پروردگار سے معافی مانگے……‘‘۔ دونوں کی آنکھیں بھر آئیں۔
’’اے ہمارے رب! اسے معاف کر دے…… اسے ہدایت سے بہرہ مند فرما……‘‘۔ اسی پل رب العالمین نے ان بزرگوں کے دل میں الہام کیا۔ اچانک وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ شاید وہ اپنے کچھ ساتھیوں کو الوداع کر رہے تھے۔ ذولفقار نے ان کی آوازیں سن کر اپنے آپ کو سنبھالااور خیال کیا کہ شاید ان لوگوں کی توجہ اس پر نہ ہو…… وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔

’’بیٹا ناشتہ کرو گے؟؟؟‘‘ ایک بزرگ بولے۔
’’ام م م …… نہیں‘‘۔
’’شرماؤ نہیں بیٹا ! آجاؤ……‘‘ دوسرے بزرگ نے فرمایا۔ وہ سب اپنے سامنے اپنا ناشتہ بچھائے بیٹھے تھے۔
’’نہیں نہیں…… تھیک یو……‘‘۔ ذولفقار نے پھر انکار کر دیا۔

وہ اپنا ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ جب چائے پینے کا وقت آیا تو ان میں سے ایک ہاتھوں میں دو پیالیاں لئے ذولفقار کے سامنے آ کر بیٹھ گئے۔
’’ارے نہیں! تھینک یو……‘‘۔ ذولفقار بولا۔
’’لے لو…… پی لو بیٹا…… ماشاء اﷲ آپ نیک بچے ہو…… صبح سویرے نماز کو آئے ہو……‘‘
’’کبھی ہمارے ساتھ بھی وقت لگاؤ……‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’ام م م …… نہیں …… آ…… انشاء اﷲ ……‘‘۔ ذولفقار زرا کنفیوز سا ہو گیا۔

و ہ دراصل ایک تبلیغی جماعت والوں کا گروپ تھا۔ وہ بزرگ ذولفقار کے ساتھ بیٹھے چائے پیتے رہے اور اسے دین کی راہ میں نکلنے کی تلقین کرتے رہے۔ ذولفقار بھی ان کی باتوں کا ہاں ہوں میں جواب دیتا گیا۔

’’ہم لوگ ابھی چلے پر جا رہے ہیں آپ بھی سوچیں……؟؟؟‘‘۔ ذولفقار جیسے کسی گہری سوچ میں پڑ گیا۔ یہی تو وہ چاہتا تھا ۔ دنیا سے فرار…… گھر سے اور گھر والوں سے بھاگنا……
’’اچھا!‘‘۔ اس کا لہجہ اچانک بدل سا گیاجسے ان بزرگ نے بھی محسوس کیا۔
’’یہیں رہتے ہیں نا آپ؟؟؟‘‘ انہوں نے فورا َپوچھا۔
’’ا م م م …… نہیں…… قریب ہی دوسرے علاقے میں……‘‘
’’کہاں؟؟؟‘‘
’’ام م م …… طارق رروڈ کے قریب……‘‘۔ اس نے جھجھکتے ہوئے جواب دیا۔
’’وہ تو کافی دور نہیں ہے یہاں سے؟؟؟‘‘
’’جی…… وہ…… میں…… ایک دوست کے گھر آیا تھا‘‘۔
’’اچھا‘‘۔ انہوں نے یقین کرتے ہوئے کہا۔
’’تو آپ کا نام لکھوا دوں؟؟؟‘‘
’’ہاں‘‘۔ ذولفقار نے فورا حامی بھر لی۔ اسے تو پتا بھی نہ تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ وہ تو آج تک کسی مسجد میں شب جمعہ پر بھی نہ گیا تھا۔ وہ تو بس کہیں دور جانا چاہتا تھا۔ اپنا حال بدلنا چاہتا تھا۔

ذولفقار بہت تنہائی محسوس کر رہا تھا۔ جیسے اس کا کوئی نہ ہو۔ اب اسے اپنی امی کی فکر بھی ہونے لگی تھی۔
’’ہاں…… امی کو میسج کر کے بتا دیتا ہوں‘‘۔ اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور ایک چھوٹا سا میسج امی کو ٹائپ کر دیا اور انہیں اپنے چلے پر جانے کے پلان کے بارے میں بتا دیا۔ اداسی اس پر چھائی ہوئی تھی۔ اس نے پھرموبائیل اٹھایا اور ایک کال ملائی۔

’’ہیلو حسن!‘‘
’’ہیلو! ……ام م …… ہاں ……کیسے ہو ذولفقار؟‘‘۔ حسن سو رہا تھا۔ اس نے نیند میں ہی کال اٹھائی۔
’’یار وہ……‘‘۔ ذولفقار کچھ کہتے کہتے رکا۔
’’کیاہوا؟‘‘
’’یار حسن! …… میں جا رہا ہوں……‘‘۔ اس کے لہجے کی اداسی حسن نے محسوس کر لی۔
’’ہیں……؟؟‘‘۔ حسن کچھ سمجھ نہ پایا۔
’’یار …… وہ میں…… یہ……کچھ لوگوں کے ساتھ…… مسجد سے…… تبلیغ پر جا رہا ہوں‘‘۔
’’ہیں؟؟؟ …… کیا؟؟؟…… ہی ہی ……‘‘۔ حسن کی نیند کی حالت میں ہی ہنسی نکل گئی۔
’’تبلیغ پر جا رہے ہو؟؟؟‘‘۔ ’’خیریت ہے؟؟؟‘‘
’’بس ویسے ہی…… میں نے سوچا تھوڑا گھوم پھر لوں گا……‘‘۔ ذولفقار نے اپنی آواز کی اداسی چھپاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا!!!…… چلو!!!‘‘۔ حسن حیران تھا۔
’’چلو پھر بعد میں بات کرتا ہوں…… تم سو رہے ہو‘‘۔ ذولفقار نے اﷲ حافظ کہ کر کال کاٹ دی اور مایوس سا ہو گیا۔ وہ حسن سے ابھی اور بات کرنا چاہتا تھا۔

حسن پھر بستر میں گھس گیا۔ صبح کے ساڑھے سات بجے ذولفقار کہہ رہا ہے کہ وہ تبلیغ والوں کے ساتھ جا رہا ہے۔ حسن کے چہرے پر حیرانی تھی۔ وہ پھر سوچنے لگا۔ اسے فکر سی ہونے لگی۔
’’کیا ہو گیا ہے…… پتا نہیں……‘‘ حسن بڑبڑا کر اٹھا۔ ’’کچھ گڑ بڑ ہے‘‘۔ حسن کو ذولفقار کی فکر ہونے لگی۔ وہ بستر سے اترا، منہ ہاتھ دھو کر فارغ ہوا۔ ناشتہ وغیرہ کر کے اس نے خود ذولفقار کا نمبر ملایا۔
’’جی فرمائے…… مولوی صاحب؟؟؟‘‘
’’یہ کون سا بخار چڑھ گیا؟؟؟‘‘ حسن نے ذولفقار کی آواز سنتے ہی کہا۔
’’نہیں حسن! میں بس چالیس دنوں کے لئے جا رہا ہوں‘‘۔
’’ابے! کیا ہو گیا ہے…… چالیس دن……اس طرح اچانک…… تبلیغ والوں کے ساتھ……‘‘
’’کیا…… ہوا کیا ہے؟‘‘۔ حسن نے جلدی جلدی کہنا شروع کیا۔
’’ہاں…… بس……‘‘۔ ذولفقار نے مشکل سے اس کی باتوں کے بیچ میں کہا۔
’’اور جاب وغیرہ نہیں ڈھونڈ رہے کیا؟؟؟…… آئی مین…… ذولفقار……‘‘
’’اتنی صبح صبح تم نے فون کیا تھا…… تھے کہاں تم؟‘‘۔ ذولفقار نے تو بس اس لئے فون کیا تھا کہ شاید حسن اس کے سفر میں اس کا ساتھی بن جا ئے۔
’’بس ابھی تو مارکیٹ سے میں کچھ ضروری سامان، بیگ وغیرہ خرید رہا ہوں‘’۔’’آج شام کو ہم لوگ نکل جائیں گے‘‘۔ ذولفقار نے بتایا۔
’’جا کہاں رہے ہو؟ کون لوگ ہیں؟؟؟‘‘۔
’’آئی تھنک…… مختلف جگہوں پر جائیں گے…… کہہ رہے تھے ایبٹ آباد تک جائیں گے……‘‘
’’اچھا! ایبٹ آباد تک جاؤ گے؟؟؟‘‘ حسن خوش ہو گیا۔
’’چلو میں بھی چلتا ہوں…… گھوم پھر لیں گے‘‘۔ حسن چہک اٹھا ۔
’’دادا جان کی طرف بھی چلیں گے۔ ایبٹ آباد سے قریب ہی ہے ہماری جگہ……‘‘۔ حسن نے دو منٹ میں ساری پلاننگ کر لی۔
’’ٹھیک ہے۔ آجاؤ’’۔ ذولفقار بھی خوش ہو گیا۔ اسے اپنا پرانا دوست ساتھی کے طور پر جو مل گیا تھا۔
’’چلو میں تمہیں آدھے گھنٹے بعد فون کرتا ہوں‘‘۔’’بائے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔
۱’’ماں!!! جو دھنیا کے بیج میں نے بوئے تھے، آج ان میں سے کونپلیں نکل آئیں ہیں۔‘‘ ’’سامری کا عمل کام کر گیا ، گھر میں کتنی برکت ہو گئی ہے نا۔۔۔‘‘ رجا کی بیٹی نے کھلکھلا کرکہا۔
’’دھنیا کے بیج تو کوئی بھی بوئے دو دن میں کونپلیں نکل ہی آتی ہیں……‘‘ اس کی ماں نے طنز کیا۔

یہ تقریبا پانچ سو سال قبل مسیح کی بات ہے۔ بنی اسرائل بابل کے حکمراں بخت نصر کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کھا چکے تھے۔ یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی ۔ ہیکل سلیمانی مسمار کر دیا گیا تھا۔ تورات کا کوئی مکمل نسخہ کسی کے پاس محفوظ نہ تھا۔

بنی اسرائل اپنی تاریخ کے ایک سیاہ دور سے گزر رہے تھے۔ ان گنت لوگ بابل میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے لئے گئے تھے۔ مگر اب بھی یہ لوگ اپنی نجات کا کوئی سیدھا سچا رستہ ڈھونڈنے کے بجائے اوچھے ہتکھنڈوں پر سارا زور لگا ہوئے تھے۔ عمل عملیات، اخلاقی پستی، بے دینی، بے ایمانی، چوری چکاری، سود خوری کو یہ لوگ اپنی ترقی کا آسان ذریعہ سمجھتے تھے۔ ایسے ہی معاشرے کا ایک یہودی گھرانہ رجا کا تھا۔

رجا نے اپنا ضروری سامان اٹھایا اور اپنے مالک کے کھیتوں کی طرف نکلا۔ مگر وہ کھیت کی طرف جانے والے رستے کے بجائے ایک او رہی سمت کو چل پڑا۔ جہاں زلکا کا گھر تھا۔

زلکا نے اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لئے کنویں میں ڈول ڈالا۔ ’’ ادھر آؤ ، پانی پیو!‘‘۔ زلکا نے ایک بکری کو پکارا جو پہاڑی کی دوسری جانب جھاڑیوں کی طرف دوڑ گئی تھی۔
’’ تم یہاں کھڑے ہو!!!‘‘ زلکا نے رجا کو دیکھتے ہی ڈر کر کہا۔ ’’ زاھب ابھی گھر پر ہی ہے…… ؟؟؟ ‘‘ زلکا بہت گھبرا گئی تھی کہ اس کا شوہر ذاھب گھر پر موجود ہے اور اس طرح رجا کے اس سے ملنے آنے پر وہ آگ بگولا ہو جائے گا۔
’’اچھا…… میں تو …… میں تو……‘‘ رجا کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کہے۔
’’دیکھو! تم جو چاہتے ہو وہ نہیں ہو سکتا……‘‘ زلکا نے جلدی جلدی بہت زور دے کر کہا۔
’’کہاں ہو ؟؟؟ کس سے باتیں کر رہی ہو؟؟؟‘‘ اندر سے ایک مردانہ آواز آئی۔
زلکا نے بکری کے بچے کو اٹھایااور بھاگتی ہوئی واپس پلٹی۔ ’’ کچھ نہیں یہ بکری بھاگ گئی تھی …… میں نے سنا ہے یروشلم سے توریت کا اصل نسخہ مل گیا ہے۔‘‘ زلکا نے بات گمائی اور وہی بات کی جس پر آج کل پورا بابل بات کرنا چاہتا تھا۔
’’ہونھ…… سلیمان کی عظیم الشان سلطنت کا دارومدار تو محض چند منتروں اور نقوش پر تھا……‘‘ زاھب نے منہ بنا کر کہا۔
’’کیا واقعی یہ سچ ہے؟‘‘ ، زلکا نے بات بڑھائی۔
’’ہاں، جانتی نہیں…… جادو کی سب کتابیں تو سلیمان کے کمرہء خاص سے برآمد ہوئی تھیں……‘‘ زاھب نے ایسے وضاحت کی کہ جیسے اس بات پر تو کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔
’’جھوٹ ہے یہ…… ‘‘ ایک بوڑھی لرزتی آواز آئی۔ ’’ سلیمان نے کبھی ایسا کفر نہیں کیا……کفر تو یہ شیاطین کرتے ہیں جو بازار بابل میں لوگوں کو جادو ٹونے سکھاتے پھرتے ہیں۔‘‘
’’تم لوگوں کا دل نہیں لرزتا نبیء خدا پر ایسا گھناؤناالزام لگاتے ہوئے؟؟؟‘‘ ۔’’پروردگاراں کے قہر سے ڈرو!!!‘‘
’’سلیمان کی طرف یہ کالے علم منسوب کرنے سے پہلے ان شیطان لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرنا چائیے۔‘‘
’’چپ کر بڑھیا……نا سمجھ!!!‘‘ زاھب نے اپنی بوڑھی ماں کو چیخ کر کہا۔ ’’ تورات نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؟ یہ غلامی اور کسمپرسی کی زندگی؟؟؟‘‘
’کیا کہا؟؟؟ توریت کے احسانات بھول گئے …… آج ہم جیتے ہیں تو توریت کے منصفانہ قوانین کی بدولت ……‘‘
’’ پہاڑ سر پر لٹکا کر ہمارے آباء سے توریت پر عمل پیرا ہونے کا عہد لیا گیا تھا…… اور آج تورات کہاں ہے کسی کو پتا ہی نہیں……‘‘
’’تمہاری غلامی اور کسمپرسی کی زندگی کی اصل وجہ تورات کے احکامات سے غفلت ہے…… ہم سب خداونداں کی لعنت کا شکار ہیں…… بابل کے بازار کی خرافات نے تم لوگوں کی اخلاقی پستی اور بزدلی کو دگنا کر دیا ہے۔‘‘

زاھب کی ماں دم نہیں لے رہی تھی، وہ منہ بنا کر بکریاں چرانے باہر نکلا اور رجا کو اپنے گھر سے دور کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ اس کا شک یقین میں بدلتا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔

بازارِ بابل میں ہمیشہ کی طرح گہما گہمی تھی۔ لوگ اپنے اپنے کاروبار زندگی میں مشغول تھے۔ کہیں کپڑا بیچنے والا صدائیں لگا رہاتھا، کہیں کوئی کرتب دکھا رہا تھا تو کہیں کوئی پانسے پھینک پھینک کر قسمت کا حال بتا رہا تھا۔ اسی بازار میں سامری مازا نے بھی اپنی دکان لگا رکھی تھی۔
’’تو پھر آ گیا ……‘‘۔
’’ دیکھ! پچھلی بار بھی تو نے پیسے دینے میں بڑا جھگڑا کیا تھا……‘‘ سامری مازا نے رجا کو پھر اپنے ٹھیئے پر دیکھتے ہی کہا۔
’’نہیں ! تم مجھے ٹھیک ٹھیک میرے مستقبل کا حال بتا دو …… میں تمہیں پیسے دے دوں گا۔‘‘ رجا نے بیقراری سے کہا اور اسے یقین دلانے کی کوشش کی۔
’’کم از کم ایک بکری تمہیں مجھے دینا ہو گی۔‘‘
’’ تم جانتے ہی ہو کہ میں بابل کے مشہور ترین کاہنوں میں سے ایک ہوں……‘‘۔ ’’میرا بتایا ہوا …… کبھی غلط نہیں ہوا……‘‘۔ اس نے اونچی آواز میں کہا۔
’’تو پھر مجھے بتاؤ ……کیا میری زلکا سے شادی ہو جائے گی؟‘‘
’’زلکا کون؟‘‘ مازا نے پوچھا۔
’’وہ……وہ……زاہب چرواہے کی بیوی……!‘‘
’’او…… وہ…… تو تم اس کی بیوی سے شادی کرنا چاہتے ہو……‘‘ سامری مازا کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئی ۔ جیسے یہ بات سن کر اسے بڑا اچھا لگا۔
’’ہاں ……‘‘۔ ’’ میں اسے بہت پسند کرتا ہوں۔‘ ‘
’’مجھے بتاؤ ……کیا میری اس سے شادی ہو جائے گی‘‘ ۔ زلکا نے جزباتی انداز میں سامری سے اصرار کیا۔
’’رُکو! دیکھتا ہوں‘‘۔ سامری مازا اچانک کرخت ہو گیا۔

وہ کچھ کہے بغیر مختلف زائچے بنائے جارہا تھا۔ کبھی ان میں کچھ ہندسے لکھتا تو کبھی عجیب عجیب الفاظ……کبھی اپنا سر جھڑکتا پھر نئے نئے نقوش بناتا۔ کافی دیر تک سامری یہ کرتا رہا پھر بولا۔
’’شادی تو ہو جائے گی……‘‘
اس نے کچھ رک کر اپنی بات پوری کیاور کہا۔ ’’مگر اتنی آسانی سے نہیں……‘‘
اس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا اور دوبارہ اپنے حساب کتاب میں لگ گیا، جیسے اسے کوئی پرواہ ہی نا ہو کہ اس کا یہ جواب رجا کو کتنا بے چین کر دے گا۔
رجا کسی مزید وضاحت کے انتظار میں وہیں بیٹھا رہا۔ پھر بے چینی سے بولا ، ’’بس……؟؟؟‘‘ وہ مزید کچھ سننا چاہ رہا تھا۔
’’ہاں……‘‘ ۔’’ بتا تو دیا تمہیں……‘‘ سامری نے چڑ کر کہا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ رجا ابھی تک وہاں کیوں بیٹھا ہے۔
’’مگر یہ تو بتاؤ کہ مشکل کیا ہے؟‘‘ رجا نے پھر پوچھا۔

’’تقدیر کے خلاف کرنا …… کوئی آسان کام نہیں ……‘‘ سامری مازا نے اتراتے ہوئے طنز کیا۔
رجا کچھ سمجھ نہ پایا اور حیرانی چہرے پر لئے وہاں سے اٹھا۔ وہ گہری سوچ میں پڑ گیا کہ مازا کی باتوں کا کیا مطلب لے۔

اس رات رجا سو نہ سکا۔ زلکا کے عشق میں اندھا ، وہ سب کچھ کرنے کو تیار تھا۔ ہر خطرہ مول لینے کو……ہر مشکل کا سامنا کرنے کو…… چاہے اسے حاصل کرنے کے لئے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔

خشکی سے کوسو دور…… جہاں کوئی نہ تھا۔ گہرا نیلا سمندر…… اور اس کی ویرانی …… سنسان جہان……حد نگاہ تک بس پانی ہی پانی……نہ کوئی چرند نہ کوئی پرند…… کوئی بھٹکے سے بھی وہاں نہ آسکتا تھا۔گر کوئی بھولا بھٹکا کشتی میں سوار وہاں پہنچ بھی جاتا، تو واپس نہ جانے پاتا……
ایسے بحر عظیم کی سطح پر وہ اپنے عرش پر براجمان تھا۔ آفتاب غروب ہونے کو تھا۔ وہ عین اس کے سینگوں کے درمیان غروب ہو رہا تھا۔
سرخ، سخت، کرخت لمبا سا چہرہ۔……موٹی موٹی خوفناک آنکھیں…… اس کی تھوڑی کے نیچے معمولی سے بال تھے…… اس کی شکل و صورت کسی مخنث سے ملتی جلتی تھی…… وہ اپنا دربار لگائے بیٹھا تھا۔ میلوں تک اس کے حضور شیاطین دست بستہ قطاریں بنائیں کھڑے تھے۔ ایک ایک آئے جاتا اور اپنی روداد سنائے جاتا۔
’’آؤ!‘‘
اس نے اپنے ایک کارندے کو پکارا۔
وہ خاموشی سے اس کے آگے آنحاضر ہوا۔
’’سامری کے پاس ایک شخص آیا۔ وہ ایک عورت کے عشق میں مبتلا ہے۔ وہ اسے حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔‘‘ حکما ہاتھ باندھے کہ رہا تھا۔
’’وہ عورت کسی اور کے نکاح میں ہے۔‘‘

’’یہ ثابت ہو کر رہے گا کہ میں نے جو کیا ٹھیک کیا۔‘‘ وہ خوشی سے کھڑا ہو گیا۔
’’یہ انسان کیسے ہم سے افضل ہو سکتا ہے!!!‘‘۔ ’’یہ مٹی سے بنا ہے اور میں آگ سے……‘‘
’’تو جا! اس شخص کا کام کر۔‘‘
’’تو میرے خاص بندو ں میں ہو گا…… اور میرے ہاں تجھے اونچے مرتبے ملیں گے……‘‘ ۔
’’جا……‘‘

حکما نے ایک اڑان بھری اور واپس بابل سامری کے پاس جا پہنچا۔
۔۔۔۔۔۔۔

کئی مہینے گزر چکے تھے ۔ رجا کا یہی معمول تھا۔ وہ روز صبح اپنا کھیتی باڑی کا سامان اٹھا کر نکلتا اور زلکا کہ گھر کے قریب کہیں چھپ کر بیٹھ جاتا۔ کبھی تو زلکا سے گھنٹوں ملاقات رہتی اور کبھی وہ بس اس کی ایک جھلک کو ترستا رہتا۔

آج بھی وہ درختوں کی اوٹ میں چھپا زلکا کے آنگن پہ نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ وہ کبھی کسی کام سے آنگن میں آتی اور پھر اندر چلی جاتی۔ وہ اسکے شوہر زاہب کے گھر سے باہر جانے کا انتظار کرنے لگا۔ مگر آج بہت دیر ہو گئی اور زاہب گھر پر ہی رہا۔
’’ہائے……‘‘ ۔ رجا اس روز روز کے انتظار سے بیزار ہو گیاتھا۔
’’میں اس مشکل کا حل نکال کر ہی چھوڑوں گا‘‘۔ وہ دیوانوں کی طرح درخت سے ٹیک لگائے زور زور سے کہنے لگا۔ وہ بہت بے چین اور بے قرار ایسی ہی باتیں خود سے کرنے لگا۔ آخر کو وہ اٹھا۔
رجا نے فیصلہ کر لیا کہ وہ سامری مازا کے پاس پھر جائے گا۔

’’دیکھو! تمہیں میری مدد کرنی ہی ہو گی……‘‘۔ ’’ اب میں اور برداشت نہیں کر سکتا……‘‘۔ ’’ زلکا کو حاصل کرنے کے لئے میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں……‘‘
زلکا نے جذبات میں آ کر سامری کو دیکھتے ہی یہ سب بھونک ڈالا۔
’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ مازا نے اپنے بارعب انداز میں رجا کو جیسے حکم دیا۔

’’دیکھ …… یہ کھیل اتنا آسان نہیں…… ‘‘۔ اس نے ٹھہر ٹھہر کر بولنا شروع کیا۔
’’برسوں جتن کئی ہیں میں نے یہ علم حاصل کرنے کے لئے…… ‘‘ ۔’’ بہت کٹھن وقت گزارا ہے……‘‘
’’معلوم ہے ! جب سلیمان نے ہم سب کو جکڑ لیا تھا……‘‘۔ ’’وہ ہم سب پر حاوی ہو گیا تھا……‘‘
’’ مگر آج ہم پھر آزاد ہیں اور جو چاہے کر سکتے ہیں……‘‘ ۔
رجا اسے دیکھ کر سہم گیا۔ سلیمان نبی ؑ کا نام سن کر سب ہی سہم جاتے تھے۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر وہ بولا۔ ’’ تو تمہیں زلکا چائیے……‘‘
’’ہاہاہاہا……‘‘ اس نے رجا کا مزاق اڑایا۔

’’ آقا کا حکم ہے……‘‘
’’اس کا کام کرنا ہو گا……‘‘۔ حکما نے سامری کے کان میں پھونکا۔ وہ کسی کو نظر نہیں آ رہا تھا۔ مگر دوسرے تمام لوگ اس کی نظروں میں تھے۔

سامری حکما کا وسوسہ جان کر اچانک چونک اٹھا۔ اس کا لہجہ دھیما پڑ گیا۔ وہ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔ رجا نے یہ آثار اس کے چہرے پر محسوس کئے۔
’’ایسا کر …… ام م م……تو……تو کل آ……‘‘۔ ’’ تیرا کام ہو جائے گا۔‘‘
رجا سوچتا رہ گیا کہ یہ اچانک اسے کیا ہو گیا ہے۔ وہ کچھ سمجھ نہ پایا ، لیکن مازا کے تیور بدلتے دیکھ کر اٹھا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں کل آ جاؤ گا……‘‘ رجا جاتے ہوئے پلٹ پلٹ کر اسے دیکھتا رہا۔
سامری مازا اس کے جاتے ہی اپنے ٹھیئے کے اندر کی کوٹھری میں جا گھسا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں مازا خلوت میں وہ اعمال کیا کرتا تھا جن کے اثرات سخت ترین اور خطرناک ترین ہوتے تھے۔ اس کوٹھری میں نہ کوئی کھڑکی تھی، نہ روشندان، نہ کوئی روشنی کا دیا۔ صرف ایک چھوٹا سا دروازہ تھا۔ اور وہ بھی جب بند ہو جاتا تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا۔

مازا نے ایک کوئلے کا ٹکڑا پکڑا اور زمین پر ایک پانچ کونوں کا الٹا ستارہ بنایا۔ یعنی ایسے کے اس کی چونچ نیچے کی جانب تھی۔ مازا اس ستارے کے بیچو بیچ بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے منہ سے الٹے سیدھے نہ سمجھ آنے والے الفاظ کہنے شروع کر دئیے۔ اس کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ وہ دیر تک بیٹھا یہی کچھ پڑھتا رہا ۔

اچانک ستارے کے پانچ کے پانچ کونے بھڑک اٹھے اور وہ چپ ہو گیا۔ کوٹھری میں خاموشی چھا گئی، ہلکا ہلکا دھواں اٹھنے لگا۔
’’میں تمہیں رجا کی امداد پر آمادہ دیکھتا ہوں‘‘۔ سامری نے ہولے سے خالی کمرے میں پکارا۔
خاموشی چھائی رہی۔ کوئی جواب نہ آیا۔ صرف شعلوں کی لپک سے کبھی کوئی آواز پیدا ہو جاتی۔ سامری نے کچھ اور نہ کہا نہ کیا ۔ بس کسی آواز آنے کی امید میں سکتے کی سی حالت میں بیٹھا رہا۔ مگر بے سود…… کوئی جواب نہ آیا۔
’’ہاں……‘‘۔ سامری کے بائیں جانب د و پیلی زرد آنکھیں ہوا میں معلق تھیں۔ جیسے کسی خونخوار کتے کی شیطانی آنکھیں ہوں۔
’’مجھے حکم ہے کہ اس معاملے میں تمھاری مدد کروں‘‘ حکما کمرے میں حاضر تھا ۔
مازا سامری نے اس کی جانب دیکھا۔ وہ اندھیرے کمرے میں ایک سیاہ ہیولا سا تھا۔ بہت اونچا، لمبا،کالا…… مازا اسے حیرانی سے دیکھتا رہا ۔
مگر ……تم بھی جانتے ہو کے…… یہ کام آسان نہیں‘‘ ۔مازا نے ٹھہر ٹھہر کر بے یقینی سے کہا ۔
’’ہاہاہاہا……‘‘ حکما نے قہقہہ لگایا اور یہ سیاہ ہیولا اتراتا ہوا مازا کے اردگردآہستہ آہستہ گھومنے لگا۔’’ہمارے لئے کیا مشکل ہے؟؟؟‘‘
’’بھول گئے وہ وقت جب تم ایک معمولی شعبدہ باز ہوا کرتے تھے ……‘‘
’’گلی گلی ٹونے، کرتب دکھاتے پھرتے تھے ……!!! ہم نے تمہیں عزت بخشی……‘‘
’’بنی اسرائیل تمہیں تمہاری گندی خصلت کے طعنے دیتے تھے ……تمہاری تاریخ کا مذاق اڑاتے تھے ‘‘ ۔
’’تم لوگوں سے بات کرنا تو دور کوئی تمہارے قریب تک نہ آتا تھا…… تم لوگ اچھوت تھے……‘‘ حکما کے طنز کے نشتروں نے سامری کا دل چھلنی کر دیا۔
وہ تھوڑا رکا پھر مزید بولا۔ ’’بھول گئے تمہارے آباء کے ساتھ موسـی نے کیا کیا تھا ……‘‘ ۔’’…… اور ان یہودیوں کے خدا نے……!!!‘‘۔

’’اگر بھول گئے ہو تو پوچھ دیکھو!‘‘

’’ہاں ……‘‘۔ ’’میں اس ذلت کی زندگی کو کیسے بھول سکتا ہوں……!!!‘‘ سامری نے اپنے آپ سے سرگوشی کی۔
۔۔۔۔۔۔۔
َُْؐؔؑ
ؑؑ؁’’……تو کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی اے موسی!‘‘ خداوندا نے فرمایا۔
وہ بس میرے پیچھے آ ہی رہے ہیں۔‘‘
’’میں جلدی کر کے تیرے حضور آ گیا ہوں اے میرے رب!…… تا کہ تو مجھ سے خوش ہو جائے……‘‘۔ موسیؑ نے فرمایاکہ وہ خداوندا کے حضور سب سے پہلے پہنچنا چاہتے تھے تاکہ وہ ان کی ملاقات کی چاہت دیکھ کر خوش ہو جائے۔
’’اچھا تو سن!!! ہم نے تیرے پیچھے تیری قوم کو آزمائش میں ڈال دیاہے…… اور سامری نے انہیں گمراہ کر ڈالا……‘‘ پروردگار نے فرمایا۔

یہ تقریبا ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح کی بات ہے، جب موسی نے بنی اسرائیل کو اﷲ کی مدد سے فرعونیوں کی غلامی سے نجات دلائی۔ لاکھوں کی تعداد میں اسرائیلی مصر سے نکلے اور جزیرہ نمائے سینا کی طرف سفر کرنے لگے۔ مصر میں فرعون کے زیرِ اقتدار400 سال کی غلامی کی زندگی نے انہیں ذہنی طور پر مغلوب کر دیا تھا۔ مصر میں بت پرستوں کے ساتھ رہتے رہتے بچھڑے کی پرستش ان کے دلوں میں رچ بس گئی تھی۔ دوران سفر جب انہوں نے ایک بستی کو بتوں کی پرستش کرتے دیکھا تو موسی سے بھی ایسے ہی کسی معبود کے بنانے کا مطالبہ کر دیا۔

بنی اسرائیل کو آزاد فضاؤ میں سانس لینا راس نہ آیا۔ زندگی گزارنے کے لئے انہیں چند قوانین کی ضرورت پڑی۔ لہذا یہ حکم ہوا کہ موسی ؑ طور کے داہنی جانب چالیس راتیں اپنے رب کے ذکر و عبادت میں صرف کریں ۔ یہ چالیس راتوں کا چلہ مکمل ہونے پرپروردگار نے کوہ طور پر موسی ؑسے کلام کیا او ربذات خود توریت کے ابتدائی دس احکامات انہیں پتھر کی لوحوں پر لکھ دئیے…… یہ اسرائیلیوں کے لئے اﷲ کی طرف سے پہلی ہدایت اور رحمت تھی۔

کوہ طور پر جاتے ہوئے موسی ؑ نے اپنے بھائی ہارون ؑسے کہا ، ’’ میرے پیچھے میری قوم میں تم میری جانشینی کرنا ……اور ٹھیک کام کرتے رہنا……‘‘۔
’’ اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقہ پر نہ چلنا۔‘‘
مگر موسی کے پیٹھ پیچھے سامری نے لوگوں کو گوسالہ پرستی میں مبتلا کر دیا۔

یہ ایک فتنہ پرور اور مکار شخص تھا۔خدائے واحد کے بجائے اس کا دل مصری خداؤ کی طرف مائل تھا۔ اس نے لوگوں کا سونا اکھٹا کیا اور اسے پگھلایا اور خود بھی اس میں کچھ ڈالا۔ پھراس بھٹی میں سے لوگوں کے لئے بچھڑے کی ایک مورت بنا کر نکال لایا تا کہ وہ اس کی پرستش کریں۔ اس نے اس مورت میں کچھ اس طرح سوراخ کئے اور ایسے بچھڑے کی صورت بنائی کہ اس میں سے بیل کی سی آواز بھی نکلتی۔ بچھڑے کی محبت تو ان لوگوں کے دلوں میں ویسے ہی بسی تھی، وہ ان کے مصری آقاؤ کے خدا جو تھے ۔ سو سامری کی اس شعبدہ بازی کو دیکھتے ہی وہ پکار اٹھے۔
’’یہی ہے تمہارا خدا…… اور موسی کا خدا……‘‘۔ (شاید) موسی بھول گیا……‘‘
’’لوگوں ! تم اس کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو تمہارا رب تو رحمان ہے!!!…… تم میری پیروی کرو……میری بات مانو……‘‘ ۔ ہارونؑ نے اپنی قوم کی ایسی جسارت دیکھ کر انہیں پروردگار کے قہر سے ڈرایا…… انہیں اس گناہ سے بچانے کی سر توڑ کوشش کی ۔ مگر وہ لوگ الٹا انہیں دھمکا نے لگے، آپس میں لڑنے لگے۔ ایک دوسرے سے بحث، تکرار، منہ ماری…… اور ہارون ؑکے ساتھ بے ادبی اور بدتمیزی توکچھ نہیں ، قریب تھا کہ انہیں مار ہی ڈالتے۔
’’ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک موسی واپس نہ آ جائے۔‘‘ آخر کو انہوں نے صاف صاف کہہ دیا۔

خدا تعالی سے اپنی قوم کے اس گناہ عظیم کی خبر پا کر موسی ؑ غم سے بھر گئے۔ رنج سے چور ، غضب ناک ، وہ اپنی قوم کی طرف پلٹے جو بچھڑے کے ارد گرد ناچتے گھومتے جشن منا رہے تھے۔

’’بہت بری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد……!!!‘‘ موسی ؑنے جب انہیں اس حالت میں دیکھا کہ بچھڑے کی سنہری مورتی ان کے بیچ میں ہے اور سب مشرک دیوانہ وار اس کی ارد گرد ناچ رہے ہیں تو توریت کی تختیاں پٹخ دیں۔ وہ ویسے ہی چلالی طبیعت کے مالک تھے…… وہ غصے سے بپھر گئے۔
’’کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کر لیتے؟؟؟‘‘ ۔ ایک ساعت میں جشن تھم گیا …… خاموشی چھا گئی۔
’’اے میری قوم کے لوگوں ! کیا تمہارے رب نے تم سے اچھے وعدے نہیں کئے تھے؟؟؟‘‘
’’کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں؟؟؟…… یا تم اپنے رب کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے؟؟؟……‘‘ موسیؑ نے سب کو خدا تعالی کے احسانات یاد کروائے جو اس نے ان پر کئے تھے۔ غلامی کے دنوں میں ان پر کیسے کیسے ظلم و ستم ہوتے تھے…… یہاں تک کہ ان کے آقا ان کے تمام بچے جو لڑکے پیدا ہوتے انہیں بے رحمی سے قتل کر دیتے اور لڑکیوں کو اپنی لونڈیاں بنا لیتے۔

لوگ گھبرا گئے اور جان گئے کہ وہ گمراہ ہو گئے ہیں۔
’’ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی۔‘‘ مجمع میں سے ایک شخص بولا۔
’’لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لدگئے تھے اور ہم نے تو بس ان کو پھینک دیا تھا……‘‘۔ کسی نے بہانہ بنایا کہ کسی طرح جان کی خلاصی ممکن ہو۔

موسی ؑنے اپنے بھائی کے بال پکڑ کر اسے کھینچا اور ان کی داڑھی نوچی۔’’ہارون! تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ لوگ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمہارا ہاتھ پکڑاکہ میرے حکم پر عمل نہ کرو……؟؟؟‘‘
’’کیا تم میرے حکم کے خلاف ہو گئے تھے؟؟؟‘‘ ۔ موسی ؑنے غصے میں للکارا۔
’’اے میرے ماں جائے!!! …… میری داڑھی نہ پکڑ …… نہ میرے سر کے بال نوچ……‘‘ ہارون ؑ رونے لگے۔
’’مجھے اس بات کا ڈر تھا ……کہ تو آ کر کہے گا کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی……‘’۔ ’’اور میری بات کا پاس نہ کیا……‘‘
’’اے میرے ماں جائے!!! ان لوگوں نے مجھے دبا لیاتھا…… اور قریب تھا کہ مجھے مار ہی ڈالتے……‘‘
’’تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے……اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے شامل نہ کر۔‘‘

پھر موسی ؑ کو معلوم ہوا کہ اصل کیا کرایا سامری کا ہے۔ سَو وہ اس کی طرف ہوئے۔’’اور تیرا کیا معاملہ ہے سامری؟‘‘۔ موسی ؑنے سامری سے پوچھا۔
سامری اپنے بچاؤ کی ایک پر فریب کہانی گھڑا بیٹھا تھا۔ اس نے جب موسی ؑ کے یہ تیور دیکھے تو بولا۔
’’میں نے وہ چیز دیکھی جو دوسروں کو دکھائی نہ دی……‘‘۔ سامری نے اپنی فتنہ پرور داستان سنانی شروع کی۔
’’میں نے رسول کے نقش قدم سے ایک مٹھی اٹھا لی اور اسے ڈال دیا…… میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سجھایا……‘‘۔ سامری نے یہ پہیلی بجھا کر گو یاکہ موسی ؑکو ذہنی رشوت دینی چاہی، کہ وہ اس واقعے کو اپنے قدموں کی مٹی کی کرامت سمجھ کر پھول جائیں۔ شاید کہ اس سے معاملہ اس کے حق میں ہو جائے۔ اہو سامری کے ساتھ کوئی رعایت کی جائے۔ مگر یہ شاید ایک شیطانی الہام تھا جوابلیس نے سامری کو کیا۔

’’اچھا!!! ……‘‘ موسی نے اسے پھٹکارا اور اس کی مکاری اس کے منہ پر دے ماری۔
’’ تو جا…… اب زندگی بھر تجھ کو یہی پکارتے رہنا ہے کہ’ مجھے نہ چھونا ‘ ‘‘۔
’’اور تیرے لئے باز پرس کا ایک دن مقرر ہے جو تجھ سے کبھی نہ ٹلے گا۔‘‘ قیامت کے دن تو سب سچ کھل کر سامنے آ ہی جائے گا۔
’’اور دیکھ اپنے اس خدا کو جس پر تو ریجھا ہوا تھا……‘‘ موسی ؑاس سونے کے بچھڑے کی طرف لپکے۔
’’اب ہم اسے جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے سمندر میں بہا دیں گے۔‘‘

’’لوگوں!!! تمہارا خدا توبس ایک اﷲ ہی ہے…… جس کے سوا کوئی خدا نہیں…… ہر چیز پر اس کا علم حاوی ہے۔‘‘ موسی ؑنے بلند آواز میں اعلان کیا۔

’’یا رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف کر ……اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما،…… تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے‘‘۔ موسی ؑ توریت کی تختیاں اٹھا نے لگے۔
جواب میں ارشاد ہوا، ’’ جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا وہ ضرور اپنے رب کے غضب میں گرفتار ہو کر رہیں گے…… دنیا کی زندگی میں ذلیل ہوں گے۔ جھوٹ گھڑنے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔‘‘
’’اور جو لوگ برے عمل کریں پھر توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں ، تو یقینا اس توبہ اور ایمان کے بعد تیرا رب درگزر اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘

’’لوگوں ! بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنے اوپر سخت ظلم کیاہے …… تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو……اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو…… ‘‘
’’اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے۔‘‘ موسی ؑنے ا خدا تعالی کی وحی موصول ہونے پر لوگوں سے خطاب کیا اور انہیں ان کے کئے کی آسمانی سزا سنائی۔ اس وقت اﷲ تعالی نے ان کی توبہ قبول کر لی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

اس واقعے کے بعد لوگ سامری اور اس سے ہمدردی رکھنے والوں کو لعنت ملامت کرتے کہ اس کے فریب میں آ کر سب پر خداوندا کا غضب ٹوٹا۔ اﷲ کی ایسی پھٹکار اس پر ہوئی کہ اگر کوئی اس کے اس آ کر اس غلطی سے بھی چھو لیتا تو اسے تاپ لگ جاتا…… اور وہ خود ہی سب سے کہتا پھرتا کہ اسے نہ چھونا…… بس ایک شیطان ہی اس کا دوست تھا۔سامری اپنی شعبدہ بازی اپنے اقرباء میں منتقل کرتا گیا۔ مازا سامری بھی اسی سامری کی نسل میں سے ایک تھا ۔

بہت دیر بعد مازا سامری اپنے ماضی کی سوچوں سے باہر نکلا۔ وہ اسی طرح سکتے کی سی کیفیت میں اپنے بنائے ہوئے پانچ کونوں کے ستارے کے بیچ میں بیٹھا تھا۔ ستارے کے جو کونے دہک رہے تھے، وہ اب ٹھنڈے پڑچکے تھے۔ کوٹھری میں اس کے سوا کوئی نہ تھا۔ حکما جا چکا تھا۔
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78769 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More