شکیل بدایونی

ہماری زندگی میں گیت لکھنے کا رواج اسی وقت سے شروع ہوا جب سے شاعری کا آغازہوا۔لیکن ہمارے نقادوں نے اس صنف کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ گیت کوئی علحٰیدہ صنفِ شاعری نہیں اور یہ خیال تو بے حد عام ہے کہ گیت کا تعلق ہندی شاعری سے ہے بے شک اردوگیت نگاری ہندی گیت سے متاثر رہی ہے لیکن اردو گیت کا خود اپنا وجود اور اپنی خصو صیات ہیں۔

بحر کیف جن دنوں شاعر دبے کچلے طبقوں اور سماج کی برائییوں پر اپنی توجہ دے رہے تھے ان دنوں شکیل بدایونی نے خود کو اس روایت سے الگ کرتے ہوئے ایسے گیت لکھے جو دل کی گہرائیوں کو چھو جاتے ہیں۔ تہذیب کے شہر لکھئنو نے فلمی دنیا کو کئی مشہور ہستیاں دی ہیں جن میں سے ایک نغمہ نگار شکیل بدایونی بھی ہیں۔
 

image


شکیل اتر پردیش کے بدایوں قصبے میں ۳ اگست ۱۹۱۶ء کو پیدا ہوئے۔ انکے والد کا نام محمد جمال احمد قادری تھا۔بنیادی تعلیم نوابوں کی دھرتی شہرِلکھئنو میں پائی۔ان کے اجداد میں خلیفہ محمد واصل کے علاوہ کسی کو بھی شاعری سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ شکیل بدایونی کے والد چاہتے تھے کہ وہ تعلیم حاصل کر کے اپنی زندگی میں اچھے انسان بنیں اسلئے انہوں نے شکیل کے لئے گھر پر ہی اردو۔فارسی۔ہندی اور عربی پڑھانے کیلئے خاص انتظام کیا لیکن شاعری اور مشاعروں کے شہر لکھئنو نے انہیں ایک شاعر ہی بنا دیا اور وہ شکیل احمد سے شکیل بدایونی ہو گئے۔

دور کے ایک رشتہ داراور اس زمانے کے مشہور شاعر ضیاء القادر سے شکیل اتنے متاثر ہوئے کے انہوں نے انکی شاگردی قبول کر لی اور پھر انہیں کی شاگردی میں شاعری کی باریکیاں سیکھیں۔ ۱۹۳۶ ء میں شکیل نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اس کے بعد انہوں نے انٹر کالج اور یو نیورسٹی میں منعقد مشاعروں میں حصّہ لینا شروع کیا اورکئی با ر انعامات بھی حاصل کئے ۔ ۱۹۴۰ ء میں ان کا نکاح ان کے دور کی رشتہ دار سلمہٰ سے ہوا۔ بی۔اے پاس کرنے کے بعد ۱۹۴۲ ء میں وہ دہلی پہنچے جہاں انہوں نے سول سپلا ئی کے افسر کے طور پر اپنی پہلی ملازمت کی ۔اس درمیان وہ مشاعروں میں بھی شرکت کرتے رہے جس نے انہیں ملک بھر میں مشہور کر دیا اپنی شاعری کی بے پناہ کامیابی سے حوصلہ پا کر شکیل بدایونی نے نوکری چھوڑ دی اور ۱۹۴۶ ء میں دہلی سے ممبئی آگئے جہاں ان کی ملاقات اس وقت کے مشہور پروڈیو سر( Producer ) اے۔آر۔کاردار اور موسیقار نوشاد صاحب سے ہوئی۔ یہاں انہوں نے اپنا پہلا گیت ’’ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے ہر دل میں محبت کی آگ لگادیں گے‘‘ لکھا۔ یہ گیت نوشاد صاحب کو اتنا پسند آیا کے انہوں نے فوراََ کاردار صاحب کی فلم درد کے لئے سائن کر لیا۔ فلم درد کے نغمے بہت کامیاب ثابت ہوئے خاص کر ’امادیوی کا نغمہ ’’ افسانہ لکھ رہی ہوں ‘‘۔

بہت کم لوگ ہوتے ہیں جنہیں کامیابی پہلے قدم پر ہی مل جاتی ہے شکیل بدایونی ان میں سے ایک ہیں۔

شکیل بدایونی اور نوشاد کی جوڑی بحیثیت گلوکار اور مو سیقار اس دور کی کامیاب جوڑی ہے جنہوں نے کچھ ایسے نغمے بنائے جو آج کے اس دور میں بھی اپنی مقبولیت رکھتے ہیں۔ جن میں فلم برجو باورا کا گیت دنیا کے رکھوالے ، فلم شباب کا گیت چندن کا پالنا ریشم کی ڈوری فلم گنگا جمنا کا گیت دھونڈو دھونڈو رے ساجنا دھونڈو اور فلم مغلِ اعظم کا مشہور گیت پیا ر کیا تو ڈرنا کیا جسے لتا منگیشکر جی نے اپنی آواز دی شامل ہے۔ نوشاد کے علاوہ شکیل بدایونی نے موسیقار روی اور ہیمنت کمار کے ساتھ مل کر بھی کئی خوبصورت نغمے بنائے۔

شکیل بدایونی کو اپنے نغموں کیلئے تین بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جن میں پہلا فلم فیئر ایوارڈ ۱۹۶۱ء میں آئی فلم چودھویں کا چاند کے نغمے چودھویں کا چاند کو ملا جسے محمد رفیع صاحب نے اپنی خوبصورت آواز دی تھی۔ اس کے علاوہ فلم گھرانہ کے نغمے حسن والے تیرا جواب نہیں کو ۱۹۶۲ء میں اور کہیں دیپ جلے کہیں دل نغمہ فلم بیس سال بعد کو ۱۹۶۳ء میں فلم فیئر ایوارڈ ( Filmfare Award )سے سرفراز کیا گیا۔

ہندوستانی حکومت نے شکیل بدایونی کو گیت کارِ اعظم کے خطاب سے نوازا۔ شکیل بدایونی نے کئی گلوکاروں کیلئے غزلیں بھی لکھیں۔ جن میں پنکج اداس اہم ہیں۔زندگی کے آخری دنوں میں شکیل ڈائیبٹیز ( Diabetes )کا شکار ہوئے اور تقریباََ ۵۳ برس کی عمر میں ۲۰ اپریل ۱۹۷۰ء کو انہوں نے اس جہانِ فانی کو الوداع کہا۔
شکیل اپنے تعلق سے خود لکھتے ہیں کہ ۔۔
میں شکیل دل کا ہوں ترجمان
کئی محبتوں کا ہوں رازدان
مجھے فخر ہے میری شاعری
میری زندگی سے جدا نہیں۔

IMRAN YADGERI
About the Author: IMRAN YADGERI Read More Articles by IMRAN YADGERI: 26 Articles with 31090 views My Life Motto " Simple Living High Thinking ".. View More