حج - انسانی اجتماعیت کا لا زوال منشور

 خالق کائنات نے جتنی عبادتیں مسلمانوں پر فرض کی ہیں، ان میں حج اس لیے ممتازومنفرد حیثیت کا حامل ہے کہ یہ صاحب استطاعت اور عاقل و بالغ مسلمان پر، پوری عمرکے دورانیے میں صرف ایک بار فرض ہو تا ہے۔ حج کو بجا طور پرتمام عبادات کا مجموعہ بھی قرار دیاجا سکتا ہے۔ کیوں کہ حج بدنی اور مالی عبادت کا خوب صورت مظہر ہے۔ اس میں پنج وقتہ نمازوں کی طرح دعا اور توبہ واستغفارکا بھی اخاص اہتمام کیا جاتا ہے۔روزے داروں کی طرح بسا اوقات بھوک پیاس کی شدت سے گزرنا پڑتا ہے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل سے اجتناب کر نا پڑتا ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ یہ اجتماعیت و مساوات کے ساتھ اور شاہ وگدا اور امیر و غریب کی تفریق کے بغیر ایک ہی مقام پر، ایک ہی ساتھ اور ایک ہی طرح کے لباس میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس فریضہ کی ادائیگی کے ذریعے جہاں اور بہت ساری دینی حکمتوں اور مصلحتوں کا اظہار مقصود ہے، وہیں امت مسلمہ کو اجتماعیت، اتحاد، یک جہتی، اشتراک عمل، با ہمی تعاون ، اپنے دینی اور ملی مسئلے کے حل کے لیے باہمی مشاورت پر آمادہ کرنا بھی مقصود ہے۔ خود آپ ﷺ نے ہر کام باہی مشورے اور اجتماعیت کے ساتھ کر کے امت مسلمہ کو اسی اہم پہلو کی طرف رغبت دلا نے کی کوشش کی ہے۔

یوں تو اسلام نے دیگر ارکان کی ادائیگی میں بھی اتحاد اور اجتماعیت کا مظاہرہ کر کے اس کے دوررس فوائد و اثرات سے امت مسلمہ کے ہر فرد کوفائدہ اٹھانے کی تلقین کی ہے۔ نماز باجماعت کی ادائیگی پر ستر گنا ثواب کا وعدہ اسلام کی اسی اجتماعیت پسندی کی طرف اشارہ کر تا ہے۔ زکوۃ جیسی مالی عبادت کو بھی اجتماعیت کے ساتھ ادا کر کے اس کے اثرات کے دائرہ کو توسیع دی جاسکتی ہے۔ لیکن حج کو نہ صرف یہ کہ اجتماعیت اور وحدت عمل کا مظہر بنایا گیا ہے، بلکہ اس کے سارے ارکان کو بھی ایک ہی رنگ میں رنگ دیا گیا ہے، تاکہ پوری دنیا کویہ آفاقی پیغام دیا جاسکے کہ اسلام کس قدر اجتماعیت اور انسانی مساوات کی حوصلہ افزائی کر تا ہے اور ان عناصر کی نہ صرف حوصلہ شکنی کر تا ہے، بلکہ ان تمام منفی قدروں سے اپنی حد درجہ بے زاری کا بھی اظہار کر تا ہے، جو انتشارو افتراق اور خلفشار و بکھراؤ پر منتج ہو تے ہیں۔
اسلام کا اپنا ایک مسلم اور وسیع نظریۂ حیات ہے ، جس پر وہ اپنے پیرو کاروں کوسختی سے چلنے کی تلقین کر تا ہے۔ ارکان حج کی ادائیگی کے بعد جہاں ایک مسلمان کے اندر کیف و سرور کی برقی لہر دوڑ جاتی ہے، وہیں اس کو اجتماعی تربیت، اتحاد عمل، پاکیزگی نفس اور دنیاوی آلائشوں سے دوری کا زریں سبق بھی ملتا ہے۔ اسلام کی بنیاد ہی عدم مساوات، نا برابری، جنسی اور نسلی تفاوت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر ہے، قرآن میں صاف اعلان کر دیا گیا ہے کہ ہم نے جوقومیں، قبائل اور طبقات بناے ہیں وہ صرف اور صرف پہچان اور ایک قبیلے سے دوسرے قبیلے کے ما بین امتیازکر نے کے لیے ہے، اﷲ تبارک و تعالی کے نزدیک افضلیت کا مدار تقوی ، طہارت اور اندرونی پاکیزگی پر ہے۔ خود آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر پاکیزہ نفوس پرمشتمل صحابۂ کرام کی ایک بڑی تعدادکے سامنے جو بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا تھا، اس کے یہ الفاظ آج بھی انسانیت کے نام عالمی منشور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس خطبے کا اہم پہلو یہی تھا کہ اسلام نے اونچ نیچ اور چھوٹے بڑے کی تمام تر تفریق اور تمام نسلی تعصبات کو سرے سے ختم کر دیا ہے۔ کسی گورے کو کسی کالے پر نہ ہی کسی عربی کو کسی عجمی پر رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی برتری حاصل ہوگی۔ تمام تر اسلامی تعلیمات میں اتحاد و یک جہتی، مودت و محبت اور صلح و آشتی کی بنیادوں کو مضبوط کر نے کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہی وہ مذہب ہے جس نے اپنی عبادات کے طور طریقوں کو حاکمیت و محکومیت اور شاہ وگدا کی تفریق سے بالاتر رکھا ہے۔ حج میں بھی یہی حکمت مضمر ہے کہ بیت اﷲ کے سفر سے واپس لوٹنے والا شخص جہاں وحدت الہ کے مضبوط تصور کو عملی جامہ پہناے، وہیں وحدت انسانیت کے اصولوں کو بھی اپنی زندگی میں برتنے کی کوشش کرے۔

مکہ مدینہ کی حسین وادیوں میں عازمین حج کا قافلہ کتنا حسین منظر پیش کر تا ہے کہ یہاں سبھی ایک ہی قسم کے سادے لباس میں ملبوس ہیں۔ اور فوجیوں کی طرح پورے نظم وضبط کے ساتھ ایک منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ جہاں نظر دوڑائیے،سارے حجاج شوق وجذب کے عالم میں ایک ذات اقدس کی طرف لو لگاے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ وہ اپنے پچھلے گناہوں اور تمام چھوٹی بڑی لغزشوں اور کو تاہیوں پرحد درجہ نادم ہیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسؤوں کی جھڑی لگی ہو ئی ہے۔ ان کی زبانوں پر نعرہ بھی ایک ہی رہتا ہے۔ تمام حاجیوں کی زبان سے لبیک اﷲم لبیک، اور اﷲ اکبر اﷲ اکبر کی سرمستانہ اور عاشقانہ صدائیں بلند ہو رہی ہیں، جس سے مکہ مدینہ کے بام ودر گونج رہے ہو تے ہیں۔ سبھی کا مساوات کا مظاہرہ کر تے ہوے بیت اﷲ کا طواف کر نا، حضرت ہاجرہ کی یاد گار صفا اور مروہ کے بیچ ایک ساتھ شوق و وارفتگی کے عالم میں سات سات چکر لگانا، ۹؍ ذی الحجہ کومیدان عرفات کی طرف پا پیادہ اور سواری پر پورے قافلے کا ایک ہی وقت مارچ کر نا، وہاں پہنچنے کے بعد کسی ایک امام کی قیادت میں انسانوں کے ٹھاٹھے مارتے سمندر کا ایک ہی خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونا، مقررہ نماز سے فارغ ہو نے کے بعد امام کی تقریر کو دل کے کانوں سے سماعت کر نا ، آگ برساتے آسمان اور شعلے اگلتی زمین پر رمی جمرات کرنا،اور اخیر میں ابراہیم خلیل اﷲ کی عظیم سنت قربانی کو منی میں اجتماعیت کے ساتھ ادا کر نا ، ان تمام ارکان میں وحدت و اجتماعیت کا جو حسین مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے، ایسا دنیا کے دوسرے مذاہب اور اقوام وملل میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔

لیکن کیا ہم نے کبھی حج کے اس عظیم پہلو پر غور و فکر کرنے اور انسانوں کے اس بابرکت روح پروراجتماع کو بار آور بنانے کی کوشش کی ہے۔ خدا تعالی نے یوں ہی حج کو مخصوص ایام میں فرض نہیں فرمایا ۔ حج کو اجتماعی عمل بنانے کا یہی مقصد ہے کہ بنی آدم پر مشتمل یہ جاں سپا س اور صبر وشکر کے جذبات سے لبریز یہ انسانی جتھہ، اسلام کے اس عظیم پیغام کو اپنی نجی زندگی میں جگہ دینے کے ساتھ ، اسلام کی معاشرتی اور اخلاقی تعلیمات، اس کے عظیم تصور انسانیت ، اخوت و مساوات پر مبنی نظریات کو دنیا کے ہر خطے میں بھی اجاگر کر سکے۔ کیا اس سے نوع انسانی کو یہ پیغام دینا مقصد نہیں کہ اسلام کس طرح منفی طبقاتی قدروں کی صراحتا نفی کر تا ہے۔ حج کو اسی لیے اجتماعی عمل بنایا گیا ہے کہ حاجیوں کا دل نہ صرف انسانیت کے انمول جوہر سے آشنا ہوتا ہے،بلکہ ان کے اندر رحم دلی، رفاقت کا عظیم جذبہ، رواداری، عفو و درگزر جیسی صفات خود بخود پیدا ہو نے لگتی ہیں۔

ماضی کی اسلامی تاریخ اور اکابر و اسلاف کے کارناموں کے دریچے میں جھانکنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس عظیم الشان اجتماع کے موقع پر مسلم سلاطین و حکمراں سر جوڑ کر بھی بیٹھتے تھے۔ وہ اس سفر کو سیر وتفریح، لہو ولعب ،تجارت یا دوسری دنیاوی اغراض کے لیے وقف نہیں کر تے تھے۔ نہ ہی اس مقدس سفر کو اس قسم کے لا یعنی اشتغال کا ذریعہ بنانا چاہیے۔مولانا ابو الکلام آزاد نے بجا لکھا ہے۔’’ عید الاضحی محض سیر و تفریح، عیش و نشاط، لہو ولعب کا ذریعہ نہیں ، وہ تکمیل شریعت کا ایک مرکز ہے ۔ ‘‘ تاریخی اوراق اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ خلفاے راشدین، اموی اور عباسی سلاطین اور دوسرے مسلم حکم راں قومی اور ملی مسائل کے پائیدار حل ، نیز عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے اس موقع پر باہمی مشاورت اور تدبیر کار کر تے تھے اوراتفاق راے سے پوری امت مسلمہ کے نام وہاں سے ایک جامع، طویل مدتی اور ٹھوس منشور جاری کر تے تھے۔ جس کی روشنی میں مسلم ممالک مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کر تے تھے۔شارع علیہ السلام کا وہ یادگار خطبہ جو انسانیت کے نام آج بھی عالمی آئین کی حیثیت رکھتا ہے، ہمارے لیے قابل تقلید نمونہ عمل ہے۔ پہلے سے کہیں زیادہ موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ ہمارے حکمراں، قومی اور ملی تنظیموں کے سر براہان اس مقدس موقع پر کوئی ایساہمہ گیر لائحۂ عمل تیار کریں ، جو نہ صرف یہ کہ مسلم ممالک کے داخلی اور خارجی امور کو صحیح سمت عطا کر نے میں معاون ہو، بلکہ مسلمانوں کی نجی زندگی میں صالح انقلاب کی راہ ہموار کر نے میں بھی معاون و مددگار ثابت ہو۔

آج مسلم آبادی کم و بیش ڈیڑھ ارب کے آس پاس ہے، لیکن ہماری عددی طاقت سمندر کے جھاگ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ہم دنیا کے کل رقبے کے چوتھائی حصے پرآباد ہیں، مگر امریکہ اور چین جیسی عالمی طاقتوں کے سامنے ہماری زمینی حقیقت کیا ہے، یہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تیل کے ذخائر کاچالیس فی صد حصہ مسلم دنیا کے پاس ہے، عسکری اور افرادی قوت کے مقابلے میں بھی وہ بہت سے یوروپی ممالک سے برابری کا دعوی کر سکتے ہیں، لیکن شیرازہ بندی کے فقدان، متحدہ قیادت کی عدم موجودگی اور داخلی و خارجی پالیسیوں کی بے سمتی کی وجہ سے عالمی منظر نامے پر ہم کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اسلام مخالف طاقتیں اور اسلام دشمن عناصر ہمیں لقمۂ تر سمجھ کر ہر دم نگلنے اور صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا ڈالنے کے در پے ہیں۔ وہ ہماری تہذیب و ثقافت کے ایک ایک نقش کومٹا ڈالنے کی منظم پالیسی تشکیل دے رہے ہیں۔ سپر پاور امریکہ نے عالمی راے عامہ کی ذرہ برابر پر وا نہ کرتے ہوے افغانستان اور عراق پر، بزور بازو اپنے خونی پنجے گاڑ لیے ہیں اور اب پڑوسی ملک ایران کو’ بدی کا محور‘ قرار دے کر اس پر نشانہ سادھنے کی تیاری چل رہی ہے۔ امریکہ کا بغل بچہ اسرائیل ہر دن نہتے اور معصوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے نئے نئے ہتھکنڈے اختیار کر رہا ہے۔ آخر ہم کب تک عالی طاقتوں کے رحم و کرم پر جیتے رہیں گے۔ اس موقع پر ہمارے مسلم حکمراں اپنے سیاسی اور اقتصادی مسائل کے حل کے لیے متحدہ اور مشترکہ لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں۔ ماضی میں اس کی مثالیں مو جود ہیں۔ لیکن اس کے لیے حوصلے، جرأت اور جگر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ حج کے ذریعے انفرادی زندگی میں بھی صالح انقلاب لایا جا سکتا ہے، لیکن اگر ا س سالانہ انسانی اجتماع کا فائدہ اٹھا کر عام طور سے پورے انسانی کنبے اور خاص طور سے فرزندان توحیدکے نام کوئی منشور جاری کیا جاے ، جس سے انھیں راہ عمل اور اپنی زندگی کا روز نامچہ ترتیب دینے میں آسانی ہو ، تو حج کے عظیم آفاقی پیغام کے دائرہ اثر کو مزید وسعت دی جا سکتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں شاید اسی اہم پہلو کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔
زائرین کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں

Moulana Muhammad Aijaz
About the Author: Moulana Muhammad Aijaz Read More Articles by Moulana Muhammad Aijaz: 3 Articles with 2272 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.