ایک نظر ادھر بھی

نیب آج جس طرح ملک سے کرپشن کے خاتمے میں فعال کردار ادا کر رہا اور مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو امید ہو چلی ہے کہ اگر اسی طرح اس ادارے کی غیر جانبداری قائم رہی تو انشاء اﷲ وہ وقت دور نہیں جب ملک سے کرپشن جیسی لعنت کا ناصرف خاتمہ ممکن ہو گا بلکہ وہ لوگ جو یہ مکروہ کام کرتے ہیں اس کو کرنے سے پہلے ان کو نیب جیسے اداروں کی طرف سے ملنے والی سزاؤں کا بھی ڈر ہو گا یوں تو نیب نے بے شمار سکینڈل سامنے لائے ہیں اور بہت سے لوگوں کو اس میں سزائیں بھی دلوائی گئی ہیں مگر اور بہت سے کاموں کی جانچ پڑتا ل کے بعد اب نیب کو سی این جی اسٹیشنز کے بارے میں بھی ہونے والی کرپشن کا جائزہ لینا چاہیے کیونکہ اس صنعت کے لوگوں کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا ان کی چار سو ارب روپے کی سرمایہ کاری حکومت اسے ڈبونا چاہتی ہے کچھ تو ناقص پالیسیوں کی وجہ سے اور کچھ این ایل جی کے زریعے سے سابق ادوار میں جس طرح کوئی پالیسی بنائے بغیر اندھا دھند سی این جی لائینس دیے گئے اس سے بہت سے لوگوں کو ناقابل تلافی نقصان بھی اٹھا نا پڑا اس چکر میں کئی لوگ اپنی جمع پونجی سے مرحوم بھی کر دیے گئے کیونکہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے سرمائے کی واپسی کی کوئی گارنٹی نہ تھی اور حکومت کو دی جانے والی سیکیورٹی کی مد میں رقم بھی غیر معمولی حد تک زیادہ تھی اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس سیکیورٹی (رقم)کے دیے جانے کے باوجود لوگوں کو نہ تو گیس دی گی اور نہ سیکیورٹی واپس کی گئی کچھ بیچارے تو دفتروں کے چکر کاٹ کاٹ کر پریشان حال ہو گئے جبکہ اثر رسوخ والوں نے اپنے اسٹیشنوں کو این ایل جی پر منتقل کروا لیا اب انھوں نے کیسے منتقل کروایا یہ جواب کسی کے پا س نہیں ماضی میں جب حکومت سی این جی کے فروغ کے لئے عوام کو اس طرف راغب کر رہی تھی اس وقت اس کے استعمال اور اس کی مقدار پر کوئی لانگ ٹرم پالیسی کیوں نہیں بنائی گئی کی آج تقریبا بیس سال بعد ہی عوام کو اس وقت پالیسی نہ بنائے جانے کے انتہائی خطرناک نتائج کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے اگر اس وقت کی حکومت بھی آنے والے بحرانوں کو ذہن میں رکھتی تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی لیکن ہمارے ہاں حکمران صرف اور صرف کمیشن کے چکر میں میں ہوتے ہیں وطن کی عزت اور ناموس کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ملکی کاروبر پر دسترس رکھنے والے مافیا کو یاد آیا کہ اس ( سی این جی اور این ایل جی )سے تو بہت سا مال کمایا جا سکتا ہے جیسا کہ اس سے پہلے آٹا ،چینی اور دیگر کئی ملکی مصنوعات کو مہنگا کرکے کمایا گیا تھاسوال یہ ہے کہ اس وقت حکومت کہاں تھی جب ہر چیز کو سی این جی پر کنورٹ کیا جا رہا تھا حکومت کو نہیں پتا تھا کہ ہمارے گیس کے ذخائر محدود ہیں اور کل کو انھوں نے کم یا ختم بھی ہو جانا ہے لیکن یہاں ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے کہ وقت گزارو آگے کی دیکھی جائے گی کچھ لوگوں کا خیال ہے حکومت میں بیٹھے ہوئے سرمایہ داروں نے ایل این جی اور ایل پی جی میں کمیشن کی خاطر یہ فیصلہ کیا تھا جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گیس کہ یہ ذخائر کافی ہیں لیکن کچھ مخصوص عناصر اپنے مفادات کی خاطر عوام کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں اور اپنے کمیشن کی خاطر عوام کو ذلیل کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں موجودہ حکومت نے مختلف شعبوں کو گیس کی فراہمی کے لیے بہتر اقدمات کیے ہیں جس میں اولین ترجیح گھریلو اور تجارتی صارفین کو جبکہ سب سے کم تر ترجیح گاڑیوں میں گیس کے استعمال کو دی گئی ہے سی این جی سے جہاں شہریوں ماحولیاتی آلودگی سے بچنے میں بھی مدد ملتی ہے وہاں دیگر فیول کی نسبت کم قیمت بھی ہے انیس سو ستانوے میں جب گاڑیوں میں گیس استعمال کرنے کی پالیسی کو فروغ دیا گیا اس وقت کراچی ،لاہور اور راولپنڈی جیسے شہروں کی میں فضا آلودگی بہت زیادہ ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ آج کراچی ،لاہور راولپنڈی میں فضائی آلودگی کی صورتحال بہتر ہے گیس پیدا کرنے کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا ستائیسواں بڑا ملک ہے جبکہ گاڑیوں میں گیس استعمال کرنے کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے دنیا آج کل مال برداری کے لئے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے گاڑیوں میں سی این جی استعمال کی جا رہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پیٹرولیم کے شعبے کی افادیت کودیکھتے ہوئے اس کی بھاگ دوڑ کسی غیر جانبدار شخص کو دی جائے جو بہتر سے بہتر پالیسی بنائے اگر ایسا نہ ہو سکا تو کمیشن مافیا عوام کی جیبوں پر یوں ہی ڈاکہ ڈالتے رہیں گئے اور عوام ماضی کی طرح لٹتے رہیں گے -

این ایل جی کے لائسینسوں کے اجراء میں بھی بہتری لائی جائے اور جن لوگوں نے کروڑوں روپے سی این جی اسٹیشنوں کی مد میں لگائے ہوئے ہیں ان کو اولین ترجیح دی جائے تاکہ ان کے ملک میں لگائے جانے والے سرمایے کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ اس سلسلے میں نیب کو حرکت میں آنا چاہے اور جس طرح کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں لینڈ ریکارڈز کو چیک کیا جا رہا ہے اسی طرح ماضی میں دیے جانے والے سی این جی کے لائیسنسوں کو اور تعمیر ہونے والے سی این جی اسٹیشنوں کی جانچ پڑتال بھی کرنی چاہیے ۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 208027 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More