کسان اور حکومتی مراعاتی پیکیج

آخر کار حکومت کو کسانوں کا خیال آ ہی گیا،وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کسانوں کے لئے 341ارب روپے کا ریلیف پیکج کا اعلان کر دیا ہے۔70فیصد زرعی ملک ہونے کے باجود کسان کی آج بھی حالت انتہائی خستہ ہے۔کمر توڑ مہنگائی نے کسانوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ان کے مسائل کو حل کرنے والے کسی فورم پر ان کی شنوائی نہیں۔ ان کے ہاتھ میں انتہا کی محنت کرنے کے بعد بھیکچھ نہیں بچتا ،ان کے نہ ختم ہونے والے مسائل جان نہیں چھوڑ رہے،انہیں کھاد میسر نہیں ،ادویات مہنگی اور جعلی ملتی ہیں،فصل کا نقصان ہو جائے تو پرسان حال کوئی نہیں ۔ زمیندار جو اپنی زمین کو فروخت کرنا گناہ سمجھتے تھے ،اب انہوں نے اپنی اباؤ اجداد کے پیشے کو خیر باد کہہ دیا ہے کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جو کئی دہاؤں سے مسائل کی چکی میں پیس رہا ہے۔آج تک ان کے مسائل کو نہ سمجھا گیا اور نہ ہی کبھی ان کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔کسان انتہائی محنتی لوگ ہیں،ان کے حقیقی مسائل ہیں،جن کا حل کرنا حکومت کے فرائض میں شامل ہے ۔شاید جسے دیر سے سہی محسوس کر لیا ہے ، دیر آئید درست آئید۔

جب سے مسلم لیگ (ن ) کی حکومت اقتدارمیں آئی ہے،اُس نے ثابت کیا ہے کہ کرپشن ، نا انصافی ،مہنگائی ، لوڈ شیڈنگ اور کئی مسائل کے ہوتے ہوئے بھی وہ کم از کم زرداری حکومت سے لاکھ درجہ بہتر ہے۔حکومت میں لاکھ برائیاں سہی مگر نیک نیتی ضرور نظر آتی ہے۔اب رہی بات کسی بھی حکومتی منصوبے کی اُس میں کمیاں اور خامیاں ہونے کی وجہ سے ناکامیاں ہوتیں ہیں۔اس میں ٹیکنیکل ٹیم اور مشیران کی نااہلی آڑے آجاتی ہے۔ٹیکنیکل ٹیم منصوبے کے تمام پہلوں پر خصوصی نظر نہیں رکھتی ، مشیران کی توجہ جی حضوری پر مربوت ہوتی ہے،اور رہی سہی کسر ذاتی مفادات کی جنگ پورا کر دیتی ہے اور منصوبے فیل ہو جاتے ہیں۔کئی دفعہ تو تختی لگانے کے تنازع میں منصوبہ فیل ہو جاتا ہے۔

کسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے341ارب کا پیکیج بہت اچھا قدم ہے،اس سے کسانوں کے بہت سے مسائل حل کئے جا سکتے ہیں،جس سے براہ راست ملک کی ترقی میں فائدہ ہو سکتا ہے،لیکن اگر اس میں مناسب طریقہ کار سے کام نہیں کیا گیا تواس کا حقیقی مقصد حاصل نہیں ہو گا۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور کسان کے درمیان گفت و شنید کا فاصلہ بہت زیادہ ہے ۔بڑے مگرمچھ اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور عام کسان کی حالت اُسی طرح رہے گی۔اس کی مثال ایسے ہے کہ کسان آلو 7روپے کلو فروخت کرتا ہے ،بازار میں 40روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔قیمت میں اتنے فاصلے کی وجوہات کو حکومتی حلقے پہچان لیں تو بہت آسانی سے کسان اور عوام کو بیک وقت فائدہ ہو سکتا ہے۔

حکومتیں اپنے طور پر تو کوشش کرتیں رہی ہیں کہ کسان کا بوجھ کم کیا جائے لیکن ہمیشہ بیورو کریسی آڑے آئی اور کسان کی حالت آج بھی جوں کی توں ہے۔ماضی یا ماضی قریب میں زیادہ تر منصوبوں پر عمل درآمد نہیں ہوا ،جیسے پچھلے سال چاول اور کپاس پر سبسڈی دی گئی مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ ہم دوسرے ممالک سے اشیاء خرد مہنگے داموں درآمد کرتے ہیں ، مگر اپنے ملک میں پیدا شدہ اشیاء کو نہیں خریدتے ۔

فصلوں کی بہتر پیداوار اور کسان کو اُس کی محنت کا مناسب معاوضہ کیسے ملے……؟یہ حکومت کے سوچنے کا کام ہے۔ جس سے انہیں سبسڈی دینے کی بجائے حکومت کو فائدہ حاصل ہو ۔ اس کے لئے چھوٹے سے لے کر بڑیکسانوں تک مشاورت کی ضرورت ہے۔ ان کی فصلوں کی انشورنس کا منصوبہ بنایا جائے ۔اگر انہیں سبسڈی بھی دینی ہے تو تحصیلدار،پٹواری یا ضلعی ڈی سی او کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خصوصی انتظام کیا جائے جس سے حقیقی لوگوں کو فائدہ ہو ۔ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی منصوبے کو بناتے ہوئے لاکھوں افراد سے مشاورت کی جاتی ہے،ایسے ہی ہماری حکومت کو کرنا چاہئے۔

یہ حیران کن بات ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے مطابق زراعت وفاقی نہیں بلکہ صوبائی ذمہ داری ہے۔ وزیر اعظم نے کسانوں کے لئے کیسے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ؟حکومت 341ارب روپے کسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ تو کر رہی ہے مگر کسان بے یقینی کی کیفیت میں ہے ،وہ اسے زبانی جمع خرچ سمجھ رہا ہے۔ یہ پیسہ غریب عوام کی جیب سے ٹیکس کی مد میں حاصل کیا ہوا ہے،اسے غلط افراد کی جیبوں سے بچانا حکومت کا اوّلین فرض ہے۔

کسانوں کی فلاح و بہبود کا پیکیج میاں محمد نواز شریف کا ایک اچھا قدم ہے،دیکھنا یہ ہے کہ یہ صرف کاغذی کارروائی ہے یاکہ عملی طور پر کسانوں کی حالت زار درست ہونے جا رہی ہے۔ فیصلہ اچھی یا بری منصوبہ بندی پر ہو گا،یا ماضی کی طرح صرف کسانوں سے مذاق ہی کیا گیا ہے،اس کا فیصلہ جلد سامنے آ جائے گا۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 96862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.