رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور مبارک اور سوانح عمری -20

غزوہ تبوک نے منافقین اور ان کے مذموم عزائم کوعیاں کر دیا
سپاہ اسلام کے خوف سے لشکر روم کی مغلوبی نیز ان فتوحات کے باعث جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ”تبوک“ میں مقیم رہنے کے دوران حاصل ہوئیں۔ منافقین کا حسد و کینہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا اسی لیے جس وقت سپاہ اسلام تبوک سے واپس آرہی تھی تو ان منافقین نے نہایت ہی خطرناک چال چلنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی سازش یہ تھی کہ جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم رات کی تاریکی میں بلند درے سے گزریں گے تو منافقین میں سے دس بارہ آدمی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی گھات میں بیٹھ جائیں گے تاکہ جیسے ہی آپ کی سواری کا اونٹ اس راستے سے گزرے تو اسے بھڑکا دیں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس گہرے درے میں گر کر شہید ہو جائیں۔ مگر خداوند تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی سازش سے آگاہ کر دیا۔ چنانچہ جب منافقین نے یہ دیکھا کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی سازش کا علم ہوگیا ہے تو وہ وہاں سے فرار کر گئے اور اپنے ساتھیوں سے جا ملے۔ اگرچہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب کو پہچان لیا تھا اور صحابہ نے بھی چاہا کہ انہیں قتل کر دیا جائے لیکن رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں معاف کر دیا۔ (السیرة الحلبیہ ج۳ ص ۱۴۳)

منافقین اپنے جرائم کی پردہ پوشی کرنے کے لئے ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتے کہ ہمیشہ دین کا لباس پہنے رہیں۔ مذہب کے پردے میں اپنے ان مجرمانہ افعال کو جاری رکھنے کے لیے انہوں نے محلہ ”قبا“ میں مسجد کے نام سے ایک سازشی مرکز قائم کیا تاکہ وہاں سے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تبوک کی طرف روانگی سے پہلے انہوں نے مسجد کی تعمیر شروع کی اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اس کے بارے میں مطلع کر دیا۔ جس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لا رہے تھے تو مدینہ کے نزدیک قاصد غیب وحی لے کر نازل ہوا اور آیات قرآنی کے ذریعے مسجد بنانے والوں کے گمراہ کن ارادوں سے مطلع کر دیا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حکم صادر فرمایا کہ اس مسجد کو آگ لگا کر خاکستر کر دیں اور جو کچھ وہاں بچ رہے اسے تباہ و برباد کر دیں۔ اور اس جگہ کو ڈلاو کے طور پر استعمال کریں۔ (سورہ توبہ)

غزوہ تبوک میں مسلمانوں کی فتح و نصرت، اس جنگ کے بارے میں منافقین نے جو اندازے لگائے تھے وہ سب باطل ثابت ہوئے جنگ کے دوران ان کی سازشوں کی ناکامی، مسجد ضرار کی ویرانی، اسلام دشمن عناصر کے چہروں سے ریا کی نقاب کشائی اور آیات قرآنی (توبہ) میں ان کے خصوصیات کے بارے میں جو نشاندہی کی گئی تھی ان کے باعث کفر کے پیکر پر پے درپے ایسی سخت ضربات لگیں کہ اس کا سر کچل گیا اور وہ خیانت کار و خطرناک گروہ جو اسلامی معاشرے میں مل رہا تھا منہ کے بل گرا اور وہ لوگ جو محاذ نفاق کی جانب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف نبرد آزمائی کر رہے تھے سخت مایوسی و ناامیدی کے شکار ہوئے۔ چنانچہ یہ مسلسل ناکامیوں نامرادیوں کا ہی نتیجہ تھا کہ منافقین کا سرغنہ ”عبداللہ بن ابی“ غزوہ تبوک کے ایک ماہ بعد ہی غموں میں گھل گھل کر مر گیا۔ (مغازی)

سنہ ۹ ہجری کے اواخر میں زمانہ حج کے شروع ہونے سے قبل قاصد پیغام وحی نے سورہ توبہ کی چند ابتدائی آیات رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنائیں۔ ان آیات میں خدا اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مشرکین سے بیزاری، مسلمانوں کے ساتھ ان کے قطع تعلق اور ان معاہدوں کو منسوخ کرنے کے بارے میں ہدایت کی گئی جو مسلمانوں نے ان کے ساتھ کئے تھے۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر کو امیر حج مقرر کر کے انہیں یہ ہدایت فرمائی کہ مشرکین تک سورہ توبہ کی آیات پہنچا دیں۔ لیکن جب وہ روانہ ہوگئے تو دوبارہ فرشتہ وحی نازل ہوا اور یہ پیغام سنایا کہ اس کام کو پیغمبر خدا یا خاندانِ رسالت کے کسی فرد کے علاوہ کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا۔ چنانچہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو بلایا اور اس کام پر مقرر فرمایا کہ مشرکین تک یہ آیات پہنچا دیں۔

حضرت علی علیہ السلام راستے میں ہی حضرت ابوبکر سے جا ملے اور ان سے فرمایا کہ یہ آیات مجھے عنایت کر دیں۔ اور مذکورہ آیات کو لے کر خود مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔ جب مناسک حج کا زمانہ آگیا تو آپ نے مسلمانوں اور کفار کے مجمع کثیر میں آیات کی تلاوت فرمائیں۔ اور اس کے ساتھ ہی رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام بھی پہنچا دیا اس پیغام میں جو باتیں کہی گئی تھیں وہ یہ ہیں کہ: کافر جنت میں داخل نہ ہوں گے۔ آئندہ مشرکین کو مکہ میں داخل ہونے اور مناسک حج ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آئندہ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ برہنہ خانہ کعبہ کا طواف کرے۔

جن لوگوں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے عہد و پیمان کئے ہیں وہ مدت معینہ تک ہی معتبر و قابل عمل ہیں۔ اور جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا ہے انہیں چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اس عرصے میں اپنے معاہدے کے بارے میں غور کریں۔ اور جب یہ عرصہ گزر جائے گا تو کسی بھی مشرک کے ساتھ عہد و پیمان نہ کیا جائے گا۔ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۹۰ ،۱۹۱)

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ صریح و قطعی اقدام کیا اس کی شاید وجہ یہ تھی کہ اس وقت سے جب کہ یہ پیغام مشرکین کو پہنچایا گیا نزول رسالت تک تقریباً بائیس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ اور اس طویل عرصے میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تمام تر سعی و کوشش رہی کہ مشرکین راہ راست پر آجائیں۔ چنانچہ اس کے بعد کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ بت پرستوں کے شرک اور پیغمبر اکرم کے ساتھ جنگ و جدال کی اصل وجہ ان کی ضد اور ذاتی دشمنی تھی۔ اور اب اس چیز کی سخت ضرورت تھی کہ اسلامی معاشرہ جس قدر جلد ہوسکے ایسے عناصر سے پاک ہو جائے۔ اگر کسی زمانے میں پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سیاسی حالات ک تحت مجبور ہو کر مشرکین کے ساتھ عہد و پیمان کیا تو اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ضروری نہ تھا کہ اس وقت جبکہ تمام منطقہ دین اسلام کے تحت اثر آچکا تھا اور اس نے صرف اندرونی ہی نہیں بلکہ بیرونی محاذوں پر عظیم ترین فتح و نصرت حاصل کرلی تھی ایسے عناصر کو اسلامی معاشرے کے اندر برداشت کریں اور وہ توہمات و خرافات اور خلل اندازی کے پردے میں زمین پر فساد بپا کرتے رہیں۔ انہیں چار ماہ کی مہلت اس لیے دی گئی تھی کہ انہیں اپنے بارے میں سوچنے کے لیے کافی وقت مل سکے۔ اور اپنے توہمات و خرافات سے دست بردار ہونے کے بارے میں غور و فکر کرسکیں۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا قطعی فیصلہ سورہ توبہ کی آیات کا نزول اور مشرکین کے مقابل رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا جرات مندانہ مگر انسان دوستی پر مبنی اقدام بالخصوص چار ماہ کا عرصہ اس امر کا باعث ہوا کہ وہ اپنے بارے میں سوچیں اور موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ اس کے ساتھ ہی دین اسلام کی آسمانی تعلیمات اور اپنے خرافات پر مبنی طور و طریقے کے بارے میں غور و فکر کرنے کے بعد دین اسلام کی آغوش میں چلے آئیں۔

۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 113224 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More