باپ وفا کا پیکر

 ہر ابتدا ء ہے تیری ابتداء کے ہونے سے
تُو دور ہوتے ہوئے بھی نہ مجھ سے دور ہوا
باپ وفا کا پیکر ، روشن مینار ،صبح کا ستارہ ، بہادر محافظ، سورج کی پہلی کرن ، محبت کا دیوتا، اندھیرے میں اُجالا ، چمن میں ایسا پھول جس کی خوشبو سے سارا گلزار مہکتا ہے۔ ماں کا لعل تو باپ شیر ، بہنوں کا ہیرا تو بھائیوں کا مضبوط سہارا ، بیوی کا مجازی خدا تو بچوں کا پالن ہار ، گھر کا سرابراہ تو خاندان کی جان ۔ سارا خاندان ادھورا ہے صرف ایک میرے باپ کے سوا۔میرا باپ میرے گھر کی کاملیت کا نشان ہے۔ اور کتنے الفاظ کا گلدستہ باپ کی شان میں پیش کروں ۔اگر ساری دنیا کے اچھے الفاظ کو ایک لڑی میں پرو کر بھی باپ کی شان میں پیش کروں تو بھی باپ کی بڑھائی بیان نہیں کر سکتا ۔ باپ ایک ایسی ہستی ہے جس کو بھلانا میرے بس میں نہیں۔

17جون1966سے ہی ساری دنیا بڑی شان و شوکت کے ساتھ والد کا دن مناتی چلی آرہی ہے۔ اِس دن کا آغاز ایک چھوٹی لڑکی سونیرا نے کیا تھا۔ آج یہی دن پوری دنیا میں بڑی عزت واحترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ وہ بچے کیا ہی خوش قسمت ہوتے ہیں ۔ جن کے سر پر اُ ن کے باپ کا سایہ ہوتا ہے ۔ باپ ہمیشہ اپنے بیوی ،بچوں کے لیے فکر مند رہتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اُس کو ہمیشہ اپنے بیوی بچوں کی فکر لاحق رہتی ہے اور اُن کی یاد بار بار دل کو تڑپاتی ہے ۔ تنبیہہ کرتے وقت سخت اُستاد اور پیار کرنے میں ماں بن جاتا ہے۔ باپ اپنے بچوں کی جیت کے لیے اپنا سب کچھ ہار دیتا ہے۔ اپنے بچوں کی جائز ضرریات پوری کرنے کی خاطر اپنا تن، من ، دھن قر بان کرتا ہے۔ جب ایک مزدور باپ سارا دن کی محنت و مشقت سے چور اور پیسنے سے شربور تھکا ہارا گھر واپس لوٹتا ہے۔ تو ننھے مُسکراتے ، کھلکھلاتے لختِ جگراپنے بچوں کو دیکھ کر اُس کی ساری دن بھر کی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔ چاند سی بیٹی جب اپنے ہاتھوں سے پانی کا ٹھنڈا پیالہ اپنے باپ کے ہاتھ میں تھماتی ہے تو اپنی بیٹی کو دیکھ کر باپ کی روح کو جسمانی اور روحانی تسکین پہنچتی ہے۔
؂میرے لئے تو حرف ِ دعا ہو گیا وہ شخص
سارے دکھوں کی جیسے دوا ہو گیا وہ شخص

باپ کو ہم مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ کوئی لالہ کہہ کر تو کوئی ابا کہہ کر بُلاتا ہے۔کوئی ابو جی تو کوئی بابا جی کہہ کر ، کوئی ڈیڈ تو کوئی ڈیڈی کہہ کر اور اسی طرح کو ڈیڈو تو کوئی پاپا کہہ کر بُلاتا ہے۔ باپ کا ایک گھرانے میں بڑا عظیم رتبہ ہوتا ہے۔
؂ میں تیرے نام کو لکھتا ہوں اپنے نام کے ساتھ
تیرے سبب سے میری نسل کا ظہور ہوا

اگر ماں بچے کو بولنا سکھاتی ہے تو باپ بچے کی اُنگلی پکڑ کرچلنا سکھاتا ہے اور اُسے سکول چھوڑ کر آتا ہے تاکہ اُس کا بچہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو سکے ۔ اپنی جان جو کھوں میں ڈال کر اپنے بیوی ،بچوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ خود پھٹے پرانے کپڑے پہن کر لیکن اپنی بیوی بچوں کو نئے نئے کپڑے اور جوتے لیکر دیتا ہے۔ اپنے منہ سے چیز نکال کر اپنے بچے کو دیتاہے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس کا بچے بھوک سے مر جائیں ۔ جس طرح آسمانی باپ اپنے بیٹے سے پیار کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ ’’ یہ میرا پیارہ بیٹا ہے ۔ المحبوب ۔اس کی سنوں ۔‘‘اسی طرح ہمارا جسمانی باپ بھی ہم سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ جس طرح باپ اپنے مصرف بیٹے کو واپس لوٹتے دیکھتا ہے تو اُس کے ملنے کو آگے بڑھتا ہے اور پل بھر میں اُس کی تما م گستاخیوں کو پسِ پُشت ڈال کر اُسے معاف کرتا ہے ، گلے سے لگاتا ،چومتا ، خوشی ومسرت کے آنسوں بہاتا اور اُس کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی ، پاؤں میں اچھی جوتی اور شاہانہ پوشاک پہنانے کا حکم صادر کرتا ہے۔ یہ باپ کی اپنی بیٹے سے محبت ہے۔ ہمارا آسمانی باپ ننانویں بھیڑوں کو چھوڑ کر ایک کی تلاش میں نکل پڑتا ہے جو دنیا کی بھیڑ میں کھو چکی ہے ۔ اور جب اُسے پاتا ہے تو شاہی ضیافت تیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بچھڑے اور برے ذبح کرتا ہے، خوشی و شادمانی کے نغمے الاپتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی بھیڑ کو پا لیتا ہے۔

اِسی طرح ہمارے آسمانی باپ کی آنکھیں بھی اشکوں سے تر ہو جاتی ہیں۔ جب ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ سچے دل سے اپنے باپ سے معافی مانگتے ہیں ۔ باپ کا دل پسیج جاتا ہے۔اپنے بیٹے یا بیٹی کو دیکھ کر باپ کے آنسواُس کی اپنے بچوں کے لیے شفقت ، محبت اور ہمدری کی غمازی کر رہے ہوتے ہیں۔باپ آسمان کے ستاروں اور ریت کے ذروں سے زیادہ قدر رکھتا ہے۔
؂ وہ لمحے ، وہ یادیں میں کیسے لکھوں
پھر آجائیں بابا، یہ کیسے کہوں

اگر کسی کو باپ کی قدروقیمت جاننے کا اتفاق ہو تو اُن سے پوچھو جن کی ماں اپنے بچوں کو جنم دینے کے بعد ہی اِس جہانِ فانی سے کُوچ کر گئی ہو ۔ اور اُن کے باپ نے ایک ماں کی طرح اپنے بچوں کی پرورش کی ہو ۔ اُن سے پوچھو جن کا باپ اُن سے مِیلوں دور پردیس میں زندگی کاٹ رہا ہو ، اُن سے پوچھو جو باپ کے سایۂ رحمت سے محروم ہوں۔ باپ بہت قدرو قیمت رکھتا ہے۔

پہلے پہل بچے اپنے باپ سے ڈرتے تھے اُس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ بیٹیا ں اپنے باپ کی اجازت کے بغیر گھر کی دہلیز سے باہر قدم نہیں رکھتی تھیں۔ بیٹے اپنے باپ کو دیکھ کر گھر بھاگ آتے تھے۔ باپ گھر میں عزت کا مقام رکھتا تھا۔

لیکن آج کے جدید دور اور جدید ٹیکنالوجی نے ہماری نوجوان نسل کو کافی ہوا دی ہے۔ اِس کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اِ ن کے اندر سے اپنے باپ کا ڈرو خوف دور ہو گیا ہے۔ کچھ بچے تو اپنے باپ کے سامنے بھی قینچی کی طرح زبان چلاتے ہیں اور کبھی کبھی تو اپنے باپ پرہاتھ اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔جب باپ جوان ہوتا ہے اور تمام کام کرنے کے قابل ہوتا ہے تو وہ اکیلا پورے خاندان کو اپنی نیک کمائی سے پالتا پوستا ہے۔ لیکن جب وہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ تو سارا گھرانا اُس اکیلے کو روٹی نہیں کھِلا سکتا۔ یاں تو اُس کی چارپائی باہر بِچھا دی جاتی ہے یا پھر اُس کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑ آتے ہیں۔ اِ س بات کو بھولتے ہوئے کہ ایک دن ہم نے بھی بوڑھا ہونا ہے۔ اور کچھ تو اِسی خیال میں رہتے ہیں۔ کہ کب یہ بوڑھا باپ ہماری جان چھوڑے گا۔ لیکن باپ بڑھاپے میں بھی اپنے بچوں کی سلامتی اور زندگی کے لئے دعا گو رہتا ہے کہ کہیں میرے بچوں پر کوئی آنچ نہ آئے۔باپ ایک بہادر اور نڈر سپاہی کی طرح اپنا خاندان کی حفاظت کرتا ہے ۔ اپنے خاندان کی کفالت کرتا ہے۔

آخر میں میری اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں سے سے گزارش ہے کہ اپنے بوڑھے باپ کا خیال رکھیں ۔ اُن کا احترام کریں ۔ اُن کی تما م ضروریات پوری کریں ۔ زندگی کے آخری ایام میں ہر پل اُن کے ساتھ ہو ں اور اُن کا خیال رکھیں۔ تاکہ وہ برکات حاصل کرسکیں جو اُن کے باپ نے اُن کے لیے تیار کر رکھی ہیں۔
؂ان کے جذبوں ،ان کی ہر فریاد کا
باپ رکھتا ہے خیال اولاد کا
ماں بچوں کے مقدر کا ثمر
باپ تاریکی میں انوارِ سحر
باپ ہی سرمایہء اولادہے
باپ ہی اجداد کی بنیاد ہے
گود ماں کی درس گاہِ اولین
باپ ہے روحِ جمالِ دل نشیں
Irfan Dominic
About the Author: Irfan Dominic Read More Articles by Irfan Dominic: 6 Articles with 5765 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.