ڈاکٹر اسرار احمد: ایک اور چراغ گل ہوا

ممتاز اسکالر اور مذہبی رہنما، تنظیم اسلامی کے بانی اور لوگوں میں قرآن کا پیغام عام کرنے والے ہر دلعزیز ڈاکٹر اسرار احمد صاحب بروز بدھ 14 اپریل کی شب حرکت قلب بند ہوجانے کے باعث انتقال کرگئے۔ انا للہ وانا الہ راجعون ! مرحوم کی عمر تقریباً ٧٩(اناسی) برس تھی۔ انہوں نے ساری زندگی قرآن کا پیغام عام کرنے میں گزاری، ان کی وفات نہ صرف اہل پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ایک دھچکہ ہے اور ان کا خلاء ایک طویل عرصے تک پر نہیں ہوسکے گا۔ بقول شاعر
ع ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ڈاکٹر صاحب کی وفات کا دکھ اپنی جگہ لیکن اس سے بھی افسوس ناک بات ہمارے میڈیا کا رویہ ہے کیوں میڈیا نے اس بات کو محسوس ہی نہیں کیا کہ ہمارے درمیان سے ایک انتہائی قابل فرد، ایک باعمل مسلمان، ایک جدید اسکالر اور امت کا درد رکھنے والا، قرآنی تعلیمات اور پیغام کو عام کرنے والا ایک شخص رخصت ہوگیا ہے لیکن میڈیا پر ان کے انتقال کی خبر بلیٹن میں چوتھے یا پانچویں نمبر پر چلائی جاتی رہی اور وہ بھی بمشکل ایک منٹ کی خبر اور میڈیا پر اول نمبر پر حسبِ معمول شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کا معاملہ چھایا رہا گویا کہ ہمارے میڈیا کے نزدیک علمی شخصیات کے بجائے اوسط درجے کے کھلاڑی شعیب ملک کی اہمیت زیادہ ہے۔ یہ رویہ ہمارے اخلاقی انحطاط کی نشاندہی کرتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب 26, اپریل 1932 مشرقی پنجاب کے ضلع ہریانہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے کنگ ایڈورڈ کالج، لاہور سے گریجویشن کیا ( 1954 ) بعد ازاں انہوں نے 1965 میں جامعہ کراچی سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا۔ ڈاکٹر صاحب ابتدائی عمر سے ہی بہت فعال اور متحرک انسان تھے۔ تحریک آزادی میں انہوں نے مسلم اسٹوڈینس فیڈریشن کے ساتھ ایک فعال کردار ادا کیا قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کی۔ تعلیم مکمل کرنے بعد جب وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ ہوگئے تو اس کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن 1957 میں انہوں نے بعض نظریاتی اور پالیسی اختلافات کے باعث جماعت اسلامی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا اور بعد ازاں اپنی ایک تنظیم “ تنظیم اسلامی “ (1975) قائم کی۔

اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت کے بعد زمانہ طالبعلمی میں ہی ان کی شناخت ایک مدرس کے طور پر ہوتی گئی اور انہوں نے درس قرآن دینے شروع کردئے تھے۔ جماعت اسلامی سے استعفیٰ دینے کے بعد بھی انہوں نے اپنے دروس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا اور بالخصوص 1965 کے بعد انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے اور اس کو عام کرنے کے لئے وقف کردیا تھا۔ 1967 میں انہوں نے ایک کتاب “Islamic Renaissance: The Real Task Ahead (اسلامی نشاطَ ثانیہ، کرنے کا کام) لکھی، جس میں انہوں نے اپنے کام کی وضاحت کی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلام کی نشاَط ثانیہ کا انحصار مسلمانوں کے ایمان کی تقویت پر ہے بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے کے مسلمانوں کی مضبوطی پر۔ ایمان کی جلا کے لئے قرآنی تعلیمات کو جدید انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جدید طبعی علوم اور معاشرتی سائنس اور دوسری طرف اسلامی الہامی علوم باہم مربوط ہوجائیں۔

1971 کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنی میڈیکل پریکٹس مکمل طور پر ترک کر کے اپنا تمام وقت اسلام کی خدمت کے لئے وقف کردیا ۔1972 میں انہوں نے مرکزی انجمن خدام القرآن کو مستحکم کرنا شروع کیا جبکہ 1975 میں تنظیم اسلامی قائم کی، جبکہ 1991 میں انہوں نے تحریک خلافت کا آغاز کیا۔ 1978 میں ڈاکٹر صاحب نے پی ٹی وی پر پروگرام ال کتاب کے نام سے پروگرام کرنا شروع کیا جو کہ عوام میں بہت مقبول ہوا اور اس پروگرام کو پی ٹی وی (پاکستان ٹیلیوژن) کی تاریخ کے مقبول ترین مذہبی پروگرام کا درجہ حاصل ہے۔ جبکہ الہدیٰ نامی پروگرام سے ان کی شناخت پاکستان کے ہر گھر میں پہنچ گئی، ان کے ٹی وی پروگرام کے لیکچرز کا مرکزی خیال یہ ہوتا تھا کہ اسلامی تہذیب کا احیاء یا اسلام کی نشاط ثانیہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم قرآن کی تعلیمات کو اپنائیں اور ان پر عمل کریں۔ وہ جدید جمہوری نظام کے بھی ناقد تھے اور انہوں نے اس پر سخت نکتہ چینی کی۔ انہوں نے اس پر بحث کرتے ہوئے اس کی خامیوں کی نشاندہی کی کہ اس نظام میں اسلامی ریاست کا سربراہ(صدر) کو یہ اختیار ہے کہ وہ منتخب شدہ اسمبلی کی رائے ( فیصلوں ) کو مسترد کرسکتا ہے (یعنی فرد واحد اکثریت کی رائے کو مسترد کرسکتا ہے) جبکہ ذاتی طور پر وہ اس چیز کو پسند نہ کرتا ہو۔

ان کی خدمات کے اعزار میں 1981 میں انہیں ستارہ امتیاز دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف تھے جن کا موضوع اسلام اور پاکستان ہے ان میں سے نو کتابوں کا انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ وہ ARY Q TV اور PEACE TV پر مستقل طور پر درسِ قرآن پیش کرتے تھے۔ صحت کی خرابی کے باعث وہ 2002 میں تنظیم اسلامی کی امارت سے دستبردار ہوگئے اور ان کی زندگی میں ہی حافظ عاکف سعید کو امیر مقرر کردیا گیا تھا اور رفقاء نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی۔ ان کی ساری زندگی قرآن کا پیغام عام کرنے میں گزاری۔

14 اپریل 2010 کی شب قرآن کا یہ خادم، امت کا درد رکھنے والا اور قرآن کے پیغام کو عام کرنے والا داعی لاکھوں لوگوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔ آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

(نوٹ: یہ مضمون جمعرات ١٥ اپریل کو لکھا گیا لیکن نجی مصروفیات کے باعث ہمیں نادرن سندہ جانا پڑا جس کے وجہ سے یہ مضمون بر وقت آن لائن نہ ہوسکا اور اس مضمون کی تیاری میں معروف ویب سائٹ ویکیپیڈیا سے مدد لی گئی ہے جبکہ عثمان پبلک اسکول کیمپس ٨ کی انتہائی قابل احترام پرنسپل صاحبہ نے اس مضمون پر نظر ثانی کی جس کے لئے ہم ان کے انتہائی مشکور ہیں)
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1468467 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More