استغفار…… فراخیِ رزق اور طمانیت کی کنجی

اگر صبح سے شام تک کی محنت کے باوجود بھی دو وقت کی روٹی کا انتظام نہ ہوسکے۔ اگر تعلیم کی اعلیٰ ڈگری بھی روزگار کی ضمانت نہ دے سکے۔ اگر تجارت کے تمام اصولوں کو بروئے کار لانے کے بعد بھی کاروبار نہ چلے اور تنگ دستی کا سامنا ہو۔ اگر علاج کے باوجود بیماری بڑھتی رہے اور شفا نہ ملے اور اگر آسائشاتِ زندگی تمام میسر ہوں لیکن پھر بھی سکون نصیب نہ ہو، تو انسان کیا کرے؟

مادہ پرست ذہن ظاہری اسباب کے علاوہ کسی چیز پر یقین نہیں رکھتا۔ بدقسمتی سے مادہ پرستی ہمارے معاشرے کے لاشعور پر قبضہ کر چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ماحول پر بے چینی اور اضطراب کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور ہر شخص پریشان ہے۔ پریشانی اور افسردگی حد سے بڑھ جائے تو مایوسی جنم لیتی ہے۔ مایوسی زندگی سے فرار کا راستہ سُجھا دیتی ہے اور ایسی حالت میں بسا اوقات خودکشی کے سوا اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
پھر ان مسائل کا حل کیا ہے؟
خالق ارض و سماء قرآنِ عظیم الشان میں فرماتا ہے:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْط اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًاOلا یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًاO وَّ یُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھٰرًاO (سورۃ نوح۷۱:۱۲-۱۰)
’’میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کردے گا۔‘‘

ایک مرتبہ قحط کے موقع پر حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ بارش کی دُعا کرنے کے لیے نکلے اور صرف استغفار ہی پڑھتے رہے۔ لوگوں نے عرض کیا: ’’امیرالمومنین! آپ نے بارش کے لیے تو دُعا کی ہی نہیں۔‘‘فرمایا: ’’میں نے آسمان کے اُن دروازوں کو کھٹکھٹا دیا ہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے اورپھر سورۂ نوح کی یہ آیات لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں۔‘‘(ابن جریر و ابن کثیر) اسی طرح ایک مرتبہ حصرت حسن بصری کی مجلس میں ایک شخص نے خشک سالی کی شکایت کی۔ انھوں نے کہا: ’’اللّٰہ سے استغفار کرو۔‘‘ دوسرے شخص نے تنگ دستی کی شکایت کی، تیسرے نے کہا: ’’میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی‘‘، چوتھے نے کہا: ’’میری زمین کی پیداوار کم ہورہی ہے‘‘ ہر ایک کو وہ یہی جواب دیتے چلے گئے کہ استغفار کرو۔ لوگوں نے کہا: ’’یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ سب کو مختلف شکایتوں کا ایک ہی علاج بتا رہے ہیں؟‘‘ انھوں نے جواب میں سورۂ نوح کی یہ آیات سنا دیں۔ (کشاف)
سورۂ ہود میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ(سورۂ ہود۱۱:۳)
’’اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدت خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا۔‘‘
یعنی دنیا میں ٹھہرنے کے لیے جو وقت مقرر ہے۔ اس وقت تک تم کو اچھی طرح رکھے گا۔ اس کی نعمتیں تم پر برسیں گی۔ خوش حال اور فارغ البال رہو گے۔ زندگی میں امن و چین نصیب ہوگا۔ عزت و شرف کے ساتھ جیو گے۔
ایک اور جگہ پر اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً (سورۃ النحل۱۶:۹۷)
’’جو شخص بھی ایمان کے ساتھ نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، ہم اس کو پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔‘‘
سورہ ہود کی ایک اور آیت ہے:
وَیٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَO (سورۂ ہود۱۱:۵۲)
’’اور اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کر ے گا۔ مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو۔‘‘
عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللّٰہ سے تعلق بڑھانے، صدق، دیانت و امانت اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے سے آخرت بنتی ہو تو بنے لیکن دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے اور ایسے لوگ دنیوی زندگی میں تہی دست اور قلاش ہوتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا بھی بنتی ہے۔ یاد رہے کہ خوش حالی اور طمانیت کا وعدہ صرف دعوائے ایمان سے مشروط نہیں بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے مشروط ہے۔ ہر جگہ نیک اعمال اور استغفار یعنی اللّٰہ تعالیٰ سے رجوع کو خوش حالی اور طمانیت و سکون کی کنجی قرار دیا گیا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ سے روگردانی کا انجام بیان کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰیO(سورہ طٰہٰ:۱۲۴)
’’اور جو میرے ’’ذکر‘‘(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا، اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔‘‘

ایک خیال یہ بھی ہے کہ خدا کے وجود کے منکر، باغی اور فاسق و فاجر لوگ تو دولت میں کھیل رہے ہیں اور خوب عیاشی کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ رزق کی فراخی کا تعلق صرف دولت و آسائش زندگی کے فراوانی سے نہیں بلکہ قناعت اور اطمینان سے بھی ہے اور تنگ زندگی سے مرادصرف آسائشِ زندگی سے محرومی ہی نہیں بلکہ بے چینی، اضطراب اور طمانیت کا فقدان ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ بے چینی اور اضطراب(Tension) کی ایسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جنھیں خواب آور دوا لیے بغیر نیند نہیں آتی۔ اسی طرح اگر دنیا پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کی امیرترین ریاست کیلی فورنیا، ماڈل ویلفیئر سٹیٹ سویڈن اور صنعت کی دنیا کا بے تاج بادشاہ جاپان میں خودکشی کی شرح ساری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ حالانکہ ان ریاستوں میں آسائشِ زندگی کی کوئی کمی نہیں، لیکن ان کے دل ایمان کی حلاوت اور اطمینان سے خالی ہیں اور اسی کیفیت کا نام تنگ معیشت ہے۔

جو آدمی اللّٰہ ایمان لاتا ہے، اُسی کے بھروسے پر زندگی گزارتا ہے۔ روکھی سوکھی کھا کر اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر بھی اس کا دل اطمینان سے لبریز رہتا ہے اور یہی حقیقی خوش حالی کی علامت ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنَّ الْقُلُوْبُ!
 
Hamid ullah khattak
About the Author: Hamid ullah khattak Read More Articles by Hamid ullah khattak: 17 Articles with 16359 views Editor,urdu at AFAQ.. View More