کشف المحجوب سے - آداب طعام

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویر ی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان کے لئے غذا لازمی چیز ہے ۔طبیعتوں کا سکون کھانے پینے سے برقرار رہتا ہے ۔مگر شرطِ مروت یہ ہے کہ اس میں مبالغے سے کام نہ لیا جائے اور آدمی روز و شب فکرِ خورد و نوش میں غرق نہ رہے۔ امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا :من کان ہمتہ ما یدخل جونہ کان قیمتہ ما یخرج منہ ۔’’جس شخص کی کوشش ہمیشہ اس چیز پر صرف ہو جو پیٹ میں اتر تی ہے ۔اس کی قیمت وہی کچھ ہے جو پیٹ سے نکلتا ہے ۔‘‘

سالکان حق کے لئے پر خوری سب سے زیادہ ضرر رساں چیز ہے ۔کہتے ہیں حضرت با یزید رحمۃ اﷲ علیہ سے لوگوں نے پوچھا ۔ آپ بھوک کی بہت تعریف کرتے ہیں؟ فرمایا درست ہے اگر فرعون بھوکا ہوتا تو ہر گز یہ نہ کہتا ۔’’میں ہی تمہارا سب سے بڑا خدا ہوں۔‘‘ اگر قارون بھوکا ہوتا تو سر کشی نہ کرتا ۔ثعلبہ بھوکا تھا تو سب اسے قابلِ تعریف سمجھتے تھے ۔سیر ہو کر اس نے نفاق کا بیج بویا ۔حق تعالیٰ نے کفار کی نسبت فرمایا :ذَرْھُمْ یَاْ کُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَیْلَھُمُ الْاَمَلِ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْن ۔’’انہیں چھوڑ دیجئے وہ کھائیں تمتع حاصل کریں تمناؤں میں الجھے رہیں عنقریب و ہ سب کچھ جان لیں گے۔‘‘پھر باری تعالیٰ نے فرمایا :وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا یَتَمَتَّعُوْنَ وَ یَاْکُلُوْنَ کَمَا یَاْکُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوً ی لَّھُمْ ۔ترجمہ :’’کفار دنیا میں تمتع حاصل کرتے ہیں اور چوپایوں کی طرح کھاتے ہیں ۔ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے ۔‘‘

حضرت سہیل بن عبد اﷲ فرماتے ہیں ۔میں شراب سے بھرے ہوئے پیٹ کو طعام حلال پر کیے ہوئے پیٹ سے بہتر سمجھتا ہوں ۔ لوگوں نے پوچھا کیوں ؟فرمایا پیٹ شراب سے بھر جائے تو عقل گل ہو جاتی ہے ۔آتش نفس ختم ہو جاتی ہے او رلوگ پینے والے کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ ہو جاتے ہیں ۔اس کے بر عکس اگر طعام حلال سے پیٹ پر ہو تو لغویت زور مارتی ہے ۔شہوت برانگیختہ ہوتی ہے اور نفسانی خواہشات بیدار ہو جاتی ہے ۔مشائخ کرام نے ایسے لوگوں سے متعلق کہا ہے ۔اکلھم کا کل المرضیٰ و نومھم کنوم الغرقیٰ کلامھم کلا م الثکلیٰ۔’’ کھاتے ہیں تو مریضوں کی طرح ،غرقابوں کی نیند سوتے ہیں اور ماتم کرنیوالی عورتوں کی طرح کلام کرتے ہیں ۔‘‘

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ آداب طعام کی شرط یہ ہے کہ تنہا نہ کھائیں اور کھاتے وقت ایک دوسرے کے لئے ایثار کریں ۔پیغمبر ﷺ نے فرمایا :’’ سب سے برا آدمی وہ ہے جو تنہا کھائے ۔غلام کو پیٹے اور بخشش کرنے سے پہلو تہی کرے ۔‘‘

جب دستر خوان پر بیٹھنے تو بسم اﷲ سے شروع کرے ۔خوان پر رکھی ہوئی چیزوں کو الٹ پلٹ کر نہ دیکھے تا کہ دوسروں کو کراہت نہ ہو پہلے نمکین لقمہ اٹھائے اور ساتھیوں کے ساتھ انصاف کرے۔

حضرت سہل بن عبد اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ سے لوگوں نے اس آیت کا مفہوم پوچھا ۔اِنَّ اللّٰہَ یَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ ۔’’بلا شبہ حق تعالیٰ عدل اور نیکی کا حکم فرماتا ہے ۔‘‘آپ نے فرمایا :عدل یہ ہے کہ کھانے میں اپنے ساتھی کے ساتھ انصاف کرے اور احسان یہ ہے کہ کھانے میں اس کو اپنے آپ سے بہتر سمجھے ۔

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے شیخ محترم نے کہا مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو دعویٰ کرتا ہے ترک دنیا کا اور شب و روز کھانے کی فکر میں سرگردان رہتا ہے ۔

کھانا ہاتھ سے کھانا چاہئے ۔نظر صرف اپنے لقمے پر رکھے۔ پانی اس وقت پیے جب سچی پیاس ہو اور اتنا پیے کہ جگر تر ہو جائے ۔ لقمہ چھوٹا بنائے ۔منہ میں ڈالنے اور چبانے میں جلدی نہ کرے ۔یہ سنت اور اصولِ صحت کے خلاف ہے ۔کھانے سے فارغ ہو کر الحمد ﷲ پڑھے اور ہاتھ دھوئے ۔اگر جماعت میں سے دو یا تین یا زیادہ افراد چوری چھپے کسی دعوت پر چلے جائیں اور کچھ کھائیں تو بعض مشائخ کے نزدیک حرام ہے اور حقوق صحبت میں خیانت کے برابر ہے۔اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے : ’’یہی وہ لوگ ہیں جو پیٹوں میں بجز آگ کچھ نہیں بھرتے ۔‘‘ دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ اگر وہ باہم موافق ایک جماعت ہو تو رواہے ۔ایک اور گروہ کا خیال ہے کہ اگر ایک آدمی ہو تو بھی جائز ہے کیونکہ تنہائی میں انصاف کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ انصاف ہم نشینوں کی موجودگی میں ہوتا ہے ۔علیحدگی میں حکم صحبت برقرار نہیں رہتا اور وہ اس کے بدلے ماخوذ نہیں ہو سکتا ۔

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اہم ترین امر یہ ہے کہ درویش کی دعوت کو رد نہ کرے اور دنیا دار کی دعوت قبول نہ کرے ۔اس کے گھر نہ جائے اور اس سے کوئی چیز طلب نہ کرے ۔یہ اہل طریقت کے لئے باعث خفت ہے ۔اہل دنیا درویش کے محرم نہیں ہوتے ۔سازو سامان کی کثرت سے آدمی دیندار نہیں ہو جاتا اور اس کے فقدان سے درویش نہیں بن جاتا ۔جو شخص ثروت و غنا پر فقر کو افضل سمجھتا ہو وہ دنیا دار نہیں چاہے بادشاہ ہی کیوں نہ ہو فقر کا منکر دنیادار ہوتا ہے چاہے مفلس ہی کیوں نہ ہو ۔دعوت پر کسی چیز کے کھانے یا نہ کھانے میں تکلف نہ کرے بہ تقاضا ئے وقت جو ملے کھا لے ۔جب صاحب دعوت محرم ہو تو شادی شدہ کے لئے روا ہے کہ کھانا ساتھ بھی لے جائے ۔نا محرم ہو تو اس کے گھر جانا ہی روا نہیں ۔بہر صورت کھانا ذلت ہے ۔‘‘توفیق اﷲ کے قبضہ اختیار میں ہے ۔
Peer Owaisi Tabasum
About the Author: Peer Owaisi Tabasum Read More Articles by Peer Owaisi Tabasum: 40 Articles with 62950 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.