دوہرا معیار

بدعنوانی دیمک کی طرح پھیل رہی ہے۔جہاں سستاانصاف نہ ملے وہاں عوام مسائل کا شکار ہوتے ہیں ، جس معاشرے میں انصاف نہ ہووہ نیست ونابود ہوجاتا ہے۔حکومت کا فرض ہے کہ وہ معاشی نظام میں ایسی راہیں پیدا کر یں کہ کسی کا استحصال نہ ہو۔یہ باتیں چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کراچی میں خطاب کرتے ہوئے فرمائی ہے۔چیف جسٹس کی یہ تقر یر پورے معاشرے اور حکومت کی عکاسی کر تی ہے۔ ہم اب ایک ایسی پستی کی طرف گامزن ہے کہ ہر سال مذہبی تہور مناتے ہیں،زیارتوں ، فقیروں ، پیروں سے دعاؤں کی اپیلیں بھی کرتے ہیں اور خیرات اور دہکے بھی چڑھاتے ہیں ،جھنڈے بھی اٹھاتے ہیں،جلوسوں اور محافل میں شریک بھی ہوتے ہیں ان کے انعقاد اور چندے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ زیارتوں اور درگاہوں پر چادرے بھی چڑھاتے ہیں ۔نعتیں اور درود بھی پڑھتے ہیں ، اپنے آپ کو نیک ،پر ہیزگار اور اچھاثابت کرنے کے لئے نجانے کیا کیا کرتے ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوب رسول کی ایک بات نہیں مانتے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوب نے ہمیں جھوٹ سے منع فرمایا ہے۔ دھوکہ دہی اور فریب کرنے والوں کو مسلمانوں اور اسلام کا متضاد قرار دیا ہے کہ مسلمان جھوٹ اور دھوکہ دہی نہیں کر سکتا ۔ ظلم و بربریت کی جتنی مذمت اورسزا کی وعید اسلام نے دی ہے وہ کسی بھی قانون یا حکومت میں موجود نہیں۔معاشرے میں عدل وانصاف کی بالادستی اور اقتصادی چہل پہل کے لئے اور منافع خوری اور ذخیرہ اندوازی سے بچنے کے لیے سود کو حرام قرار دیا ہے تاکہ غریب لوگوں کا استحصال نہ ہو۔ قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے امیر و غریب اور بادشاہ کو بھی قانون کے سامنے برا بر تصور کیا ہے۔تاکہ معاشرے میں انصاف کا نظام قائم ہو ، ہمارے پیار ے آقانے فرمایا کہ کسی گوارے کو کالے پراور کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پر ہیز گار اور متقی ہو۔ آج ہم اپنے اردگرد دیکھے تو جتنامسلمان ظلم اورغریبو ں کا استحصال کرتا ہے وہ ظلم وزیادتی غیرمسلم معاشرے میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اﷲ کے رسول فرماتے ہیں کہ مسلمان جھوٹ نہیں بول سکتا ہم چو بیس گھنٹے جھوٹ اور فریب میں زندگی گزرتے ہیں۔نعوذ باﷲ جھوٹ ، دھوکہ دہی ، غلط بیانی ،ظلم وزیادتی کو ہم نے اسلام کا حصہ سمجھ لیا ہے۔دکھاوئے کے لیے تو سب کچھ کرتے ہیں جیسا کہ عرض کہ مباح یا مستحب چیزوں کے پیچھے تو بھاگتے ہیں لیکن فرض،واجب اور سنت کو چھوڑ دیا ہے، زکوٰۃ تو نہیں دیتے لیکن کچھ جھنڈے اور دیکیں پکا کر ہم سمجھ لیتے ہیں کہ ہم اسلام اور دین کے خادم ہے ۔ ہم نے فرض پورا کر دیا۔ خیرات سے میں اﷲ کو رضی کر دوں گا۔ بھائی پہلے زکوٰۃ دو ،فرض ادا کرو اس کے بعد خیرات اور صداقات دیا کروں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں خیرات کی بڑی اہمیت اور فضلت ہے۔ میں کوئی عالم تو نہیں لیکن جتنا اسلام کے بارے میں پڑھا اور قرآن مجید فرقان حمید کو سمجھا ہے ۔جو ہم دکھاوا کر تے ہیں اس کی نفی کر تا ہے ۔ اسلام نے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے اور انسانیت کا درس دیا ہے ۔ آج ہم اپنے چند سو روپوں کی خاطر دوسروں کو ہزاروں اور لاکھوں کا نقصان دینے میں ذرہ برابر عار محسوس نہیں کرتے،پیسے کی خاطر کسی کی جان جائے یا کوئی مالی نقصان اٹھائے لیکن مجھے فائد ہ ہو وہ میں کروں گا اور اس کو ترقی اور پیسے کمانے کا ہنر کہتے ہیں۔جھوٹ اور فریب سے کمائی ہوئی رقم سے آپ دوسروں کو تکلیف تو دے سکتے ہیں لیکن اپنے آپ کو اور بچوں کوسکون نہیں دے سکتے۔سکون تو اﷲ نے انسانوں کی خدمت اور خلوص میں رکھی ہے کہ اپ دل سے کسی کی خدمت کر یں اور ان کی دعائیں حاصل کر یں۔اﷲ بے نیاز ہے نہ ان کو ہماری ان دکھاؤں کی ضرورت ہے جو ہم جھنڈے اٹھاکر اپنے آپ کو نیک ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نا ہی اﷲ ہمیں ان کروڑں کی حرام کمائی سے چند ہزار کے دیکیں پکا کر محفوظ بنا دے گا۔

میں یہ ہر گز نہیں کہتا کہ ہمیں اسلامی تہور یا کسی پیر فقیر سے عقیدت نہیں رکھنی چاہیے اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ ہمیں یہ رنگ برنگے جھنڈے اٹھانے سے گریز کرنا چا ہیے ۔ جن لوگوں کو ان کاموں سے تسلی ہو تی ہے وہ ضرور یہ کام کر یں۔ میرا تو ایمان ہے کہ ان نیک ہستیوں کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے لیکن دین کی تعلیمات بہت واضح ہے ۔ اس میں ہم اپنے آپ کو تودھوکا دے سکتے ہیں لیکن ہمیں پیدا کرنے والے ذات کو نہیں کہ جن کاموں سے وہ ہمیں منع کر تا ہے وہ تو ہم کر یں لیکن دکھاوئے کے لیے ہم جلوسوں میں شریک ہو اور پھر پورا سال اپنے آقا کی تعلیمات کو پسے پشت ڈالے۔ان سے محبت اور عقید ت ہمیں پوری عمر کرنی چاہیے ۔ ان سے محبت کا تقضا یہ ہے کہ جن کاموں سے اﷲ تعالیٰ کے رسول ہمیں منع فرمایا ہے ہم ان کو نہ کر یں اور جن کے کرنے کا حکم دیا ہے وہ ہم کر یں۔آج جہاں پر حکومت نے دہرا معیار اپنائی ہوئی ہے ۔رشوت،جھوٹ فریب اور کرپشن نیچے سے لے کر اوپر تک ہے وہاں پرہمارے معاشرے میں ہم پیسوں اور اپنے فائدے کی خاطر اسلام تو کیا انسانیت کو بھی بھول جاتے ہیں۔ آج ہم نے دنیا وی لالچ اور حرص کی وجہ سے اپنے سگے رشتوں کو بھی بھول گئے ہیں۔اپنے مالی فائد ے کے لیے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ عدل وانصاف جہاں پر حکومتی اداروں میں ناپیدا ہو چکا ہے وہاں پر ہم اپنے روزمرہ زندگی میں اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ بھی وہی سلوک رکھتے ہیں جتنا ہمارا بس چلتا ہے ان کو اذیت دیتے ہیں۔ ہم خود انصاف نہیں کرتے اور دوسروں سے انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم خود ظالم ہے ،ہمارے اوپر حکمران ہم سے بڑا ظالم ہے ۔ جب تک ہم خود ظلم نہیں چھوڑیں گے ،ہمارے حکمران ہم پر ظلم نہیں چھوڑیں گے۔ اﷲ تعالیٰ کا کوئی رشتہ دار نہیں وہ تمام فیصلے میرٹ پر کرتا ہے۔جو اچھائی کر یں گا اس کا بدلہ ملے گا اور جو برائی کر یں گا اس کا صلہ ملے گا۔جب تک ہم اپنا دوہرا معیار نہیں چھوڑیں گے اس وقت تک یہ معاملہ ایسا ہی چلتا رہے گا۔ہم خود ظالم ہو، دھوکہ باز اور کرپٹ ہو اور ہم دوسروں سے اچھائی کی توقع رکھیں یہ ممکن نہیں۔دہرا معیار نہ حکومتوں کی کامیابیوں اور ملک کی تر قی میں چلا ہے اور نہ ہی معاشرے میں چل سکتا ہے، اس لئے آج ہم زوال پذیرہے۔ ہمیں یہ دہرا معیار ختم کرنا ہو گا اس میں ہماری دین اور دنیا کی بھلائی ہے۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 203929 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More