حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کی حیات و خدمات

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

1857 کے تاریخی معرکے کے بعد ہندوستان کی باگ دوڑ انگریزوں کے ہاتھوں میں مکمل جا چکی تھی،اسلامی سطوت وشوکت کے چراغ سے صرف دھواں اٹھتا رہ گیا تھا جو مغلیہ اقتدار کے چراغ کے بجھ جانے کا اعلان کر رہا تھا،اسلامی شعائررفتہ رفتہ روبزوال،دینی تعلیم گاہیں اور علمی خانوادے اجڑ چکے تھے،دینی شعور رخصت اور فتنے پروان چڑھائے جا رہے تھے،علماء کے لیے پھانسیوں کے پھندے تھے یا جلاوطنی کے مصائب ،فرنگی زبان کو برصغیر پر مسلط کرکے عملی طور پر اہل ہندکو ان پڑھ بنا دیا گیاتھا،اعلان یہ تھاکہ اب وہی پڑھالکھا شمار ہوگا جو انگریز کے رنگ میں ڈھل کر ان کی زبان میں تعلیم حاصل کریگا،ہرطرف مایوسی ،اضطراب اور بے چینی کی گھٹائیں تھی۔اس وقت میں چند نفوس قدسیہ نے ستم زدہ مسلمانوں کے ملی ،نظریاتی وسیاسی وجود کے تحفظ ،علوم نبوت واسلامیہ کے بقا اور اسلامی شعورکی حیات نوکی جدوجہدکا آغاز کیا،ان خداپرست بزرگوں اور اولیاء اﷲ کی جماعت کی سربراہی حجۃالاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتویؒکررہے تھے۔

حضرت مولانامحمد قاسم نانوتویؒ ضلع سہارنپور کے ایک قصبہ نانوتہ کے مذہبی اور تعلیم یافتہ گھرانے میں شعبان یا رمضان المبارک1248ھ بمطابق 1832ء میں پیدا ہوئے،آپ کاتاریخی نام محمد خورشیدتھا، آپ کے والد کا نام شیخ اسد علی ولد غلام شاہ اور والدہ سہارنپور کے مشہور وکیل شیخ وجیہ الدین کی صاحبزادی تھیں۔آپ نے کم عمری میں حفظ قرآن پاک کی سعادت حاصل کی،ابتدائی تعلیم نانوتہ میں حاصل کی،خوش نویسی سیکھی ،اپنے ساتھیوں میں بہت ممتاز شمار ہوتے تھے،نوبرس کی عمر میں آپ نے دیوبند میں قیام کے دوران مولانا مہتاب علی ؒ سے عربی اور فارسی کی کتب پڑھیں۔(بانی دارالعلوم دیوبند)محرم 1260ھ بمطابق 1844کو مولانامملوک علی نے آپ کو اور اپنے بیٹے محمدیعقوب نانوتوی کو عربک کالج دہلی سابقہ مدرسہ غازی الدین خان میں داخل کروا دیا،کالج کی تعلیم کے دوران آپ کی ذہانت اور صلاحیتوں کا اعتراف اساتذہ و طلبہ سب کو تھا،آپ نے تمام علوم و فنون کی کتابیں مولانا مملوک علی ؒ سے ان کے گھر پر پڑھیں ،دیگر اساتذہ میں مولانا مفتی صدر الدین تلمیذ خاص شاہ عبدالعزیزؒ قابل ذکر ہیں مگر آپ بالقصد کالج کے آخری سالانہ امتحان میں شریک نہ ہوئے۔(سوانح قاسمی ) آپ اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ نے دورہ حدیث شریف اور علوم حدیث شاہ عبدالغنی ؒ اور مولانا احمد علیؒ محدث سہارنپوری سے حاصل کیے۔دورہ حدیث شریف کے دوران آپ نے حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی ؒ(جو آپ کے رشتہ دار بھی تھے) سے بیعت سلوک کی ، آپ کی باطنی توجہ نے حضرت نانوتوی ؒ کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب پیدا کیا۔

1840ء میں دورہ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی جب کہ اس وقت آپ کی عمر17سال تھی،عملی زندگی میں قدم رکھا تو سب سے پہلے اپنے استاد مولانا احمد علیؒ کے مطبع میں مصحح کتب کے طور پر ملازمت شروع کرلی اور یہیں آپ نے بخاری شریف کے آخری پانچ پاروں کے حواشی بھی لکھے جومقبول عام و خاص ہوئے۔

1857ء کی جنگ آزادی کے موقع پر آپ کی عمر 25سال تھی،تھانہ بھون میں مسلم علماء ومشائخ کی مجلس شوریٰ نے حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی کی امارت میں انگریز کے خلاٖ ف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تو آپ پرجوش نوجوان کی حیثیت سے اس قافلے کے اہم سپاہی تھے ، آپ اپنے رفقاء کے ساتھ شاملی کی طرف روانہ ہوئے،انگریز فوج سے مقابلے کے بعد ان مجاہدوں نے پوری تحصیل پر قبضہ کر لیا ، مخبروں نے اس بغاوت کے محرکین کے نام انگریز سرکار تک پہنچا دئیے،لڑائی کے بعد سوائے مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی کے سب اکابر گرفتار ہوئے۔آپ نے چارسال تک مختلف شہروں میں مقیم رہ مشکلات کا مقابلہ کرتے رہے۔1860ء میں مولانا یعقوب نانوتوی ؒ کے ساتھ سفر حج کا عزم کیا اور چھ ماہ کے طویل اور پرکھٹن سفر کے بعد حجاز مقدس پہنچے اور 1861میں وطن واپس لوٹے تو حالت قدرے بہتر تھے ملکہ ویکٹوریہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جنگ آزادی کی بغاوت میں تمام مطلوب افراد کو معاف کر دیا گیا تھا ، آپ نے بخاری شریف کا درس دینا شروع کیا جس میں مولانا محمد یعقون نانوتوی بھی شریک درس ہوتے تھے۔(قصص الاکابر)

1293.94ھ میں میلہ خدا شناسی(مذاہب کانفرنس) میں شرکت فرمائی ،جس میں مختلف مذاہب کے مناظرین، مبلغین ، نمائندے اور وکیل شریک ہوئے، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے بحیثیت وکیل اسلام دونوں کانفرنسوں میں شرکت کی اورمباحثہ ،مناظرہ اور تقاریر کے ذریعہ آپ نے نہ صرف اسلام اور اہل اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا بلکہ پوری دنیا کے سامنے آپ کی خدادادصلاحیتیں بکھر کر سامنے آئیں ،اپنے اور بیگانے سب ہی آپ کی علمیت ،خطابت ،جرأت اور اعلیٰ اوصاف کے معترف نظر آئے، مشہور پادری اسکاٹ نے 1294ھ کے میل خدا شناسی کے اختتام پر کہا کہ مولوی صاحب فقط مولوی نہیں ،صوفی مولوی ہے،اس قسم کا علم اب اہل اسلام کے پاس نہیں ہے،پادری نے یہ بھی اقرار کیا کہ الہیات میں کوئی اہل اسلام کے ہم پلہ نہیں ہے۔(روداد میلہ خدا شناسی)۔1295ھ میں پنڈت دیانند سرسوتی کومیرٹھ اور رڑکی سے بھاگنے پر مجبور کیا ۔

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں پر قیامت صغریٰ ٹوٹی تھی،عملی طور پر مسلمانوں پراسلامی تعلیم کا دروازہ بند کر دیا گیا تھا،لارڈ میکالے نے تعلیم کی اسکیم پیش کی کہ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ ونسل کے لحاظ سے ہندوستانی ہوں اور دل و دماغ کے لحاظ سے انگلستانی ہوں۔ان حالات میں حضرت نانوتویؒ نے ایک دینی مدرسے کے قیام کی ضرورت کو محسوس کیاجو مسلمانوں کی دینی تعلیم کی ضرورت کو پورا اور درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرسکے،چنانچہ 15محرم1283ھ بمطابق30مئی1866 ء بروز جمعرات شمالی ہند کی تاریخی بستی دیوبند (سابقہ نام دیبی بند تھا)میں مسلمانوں کی دینی وعلمی،ملی وتہذیبی زندگی کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا،چھتے کی قدیم مسجد کے کھلے صحن میں انار کے درخت کے سائے تلے دارلعلوم دیوبند کی ابتداء کی گئی ، سب پہلے استاد ملا محمودجو ماہر عالم و مدرس تھے، مقرر ہوئے اور حسن اتفاق سے پہلے اور تنہا طالب کا نام بھی محمود ہی تھا ۔اخلاص، خدمت دین اور توکل علی اﷲ کی جمع پونجی ،ایک استاد اور ایک شاگرد سے شروع ہونے والے اس ادارے کا فیض پورے عالم میں پھیلا اور ازہر الھندکا لقب عطا کیا گیا۔طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا تو دارلعلوم کے لیے صدر مدرس مولانا یعقوب نانوتوی ؒ کو مقررکیا گیا جن کے دارلعلوم کے پہلے مہتمم حاجی حافظ سیدعابد حسین ؒ کو منتخب کیا گیا،آپ کے سفر حج پر جانے کے بعد دوسرے مہتمم حاجی مولانا شاہ رفیع الدین ؒ کا انتخاب کیا گیا۔جب کہ سب سے پہلی مجلس شوریٰ میں حجۃالاسلام مولانا قاسم نانوتویؒ،حاجی عابد حسینؒ،مولانا مہتاب علیؒ، مولانا ذوالفقار علیؒ،مولانا فضل الرحمٰن ؒ،شیخ نہال احمدؒاورمنشی فضل حق ؒ شامل تھے۔

دارالعلوم کی ابتداءً کو ئی عمارت نہ تھی، مدرسہ کبھی چھتہ کی مسجد میں ،کبھی کرائے کے مکان میں،کبھی قاضی کی مسجد میں اور کچھ عرصہ تک جامع مسجد کے اطراف میں بنوائے گئے حجروں میں رہا ۔ 2ذوالحجہ 1292ھ بروز جمعہ مولاناقاسم نانوتویؒ کی تحریک پردارلعلوم کے لیے الگ عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا،میاں جی منے شاہ،حاجی عابد حسین، مولانارشید احمد گنگوہی اور مولانامحمدقاسم نانوتویؒ نے سنگ بنیاد رکھا۔ گویا آپ نے دارلعلوم کی مستقل بنیاد رکھا کر عملاًیہ اعلان کر دیا کہ ہم ایسے نوجوان تیار کریں گے جو رنگ و نسل کے لحاظ سے ہندوستانی ہوں گے اور دل ودماغ کے لحاظ سے اسلامی ہوں گے۔(علماء ہند کا شاندار ماضی)

حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے تصنیف و تالیف کے میدان میں مسلم امہ کی بہتریں راہنما کی ، آب حیات،قبلہ نما،ہدیۃ الشیعہ،اجوبہ اربعین،تحذیر الناس من انکار اثر ابن عباسؓ،قصائد قاسمی،انتصار الاسلام اورحاشیہ بخاری شریف سمیت کئی کتابیں علمی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔

شوال 1294ھ بیس علماء و فضلاء کے ہمراہ سفر حج پر روانہ ہوئے ، حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد واپسی پرجدہ میں ہی طبیعت ناساز ہو گئی،وطن واپسی پرکچھ افاقہ ہوا مگر کھانسی مسلسل رہی ،شعبان 1295ھ میں پنڈت دیانندسرسوتی نے رڑکی اور میرٹھ میں اسلام پر بودے اعتراضات کئے اورآپ سے مقابلے کا چیلنج کیا،آپ باوجود علیل ہونے کے اس کے سوالات کا جواب دینے رڑکی اور میرٹھ گئے مگر پنڈت آپ کے سامنے آنے کی جرأت نہ کر سکا۔اس سفر میں مرض کا آپ پر شدید حملہ ہوتا رہا ،دوا کے باوجود کوئی آفاقہ نہ ہوا،بالاخر4جمادی الاولیٰ1297ھ بمطابق15اپریل 1880بروز جمعرات47سال کی عمر میں آپ خالق حقیقی سے جا ملے،آپ کے پسماندگان میں تین بیٹے احمد،محمد ، محمد ہاشم اور تین بیٹیاں اکرام النساء،عائشہ اور رقیہ شامل تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ آپ جیسی شخصیات نہ کبھی فنا ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کے روشن اور تابندہ کارناموں سے انکار کیا جا سکتا ہے بلکہ تاریخ ان لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 250754 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More