اصول اور ہمارا معاشرہ

انسانی زندگی اصول کے تصور کے بغیر ناممکن ہے ۔ بعض لوگ انہی اصول سے جان بچانے کے طریقے وضع کرتے ہیں اور زندگی کا بہاؤ بھی اسی طرف کرلیتے ہیں اور ایک ذمہ دار معاشرے کے فرد بن کر ابھرتے ہیں ، وہ چاہے کچھ بھی کہلائے جائیں لیکن ان اصولوں کی پیروی کے باعث بہر حال کئی عذاب اور آلام سے محفوظ رہتے ہیں ۔تاہم اگر زندگی کے تصور سے منہ پھیر کر اصول سے دامن بچانے کا عمل تواتر سے دہرایا جائے تو وہ خود ایک اصول بن جاتا ہے جبکہ بعض لوگوں کا تصور ہے کہ ان کا اصول یہ ہے کہ ان کا کوئی اصول نہیں جو غالباً بداخلاقی کے زمرے میں آتا ہے اور جس کی مذمت معاشرے کا ہر فرد کرتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ بداخلاقی کا یہ اقرار دراصل اس شخص کے اندر موجود اس غیر اخلاقی قوت کی جانب واضح اشارہ ہے جس سے معاشرے کا سکون تباہ ہونے کا خطرہ ہے اور یہ معاشرے باعزت شہریوں کیلئے عندیہ ہے کہ اب معاشرتی اقدار کو پامال کیا جاسکتا ہے ۔انسان نے اپنی شعوری زندگی کے آغاز سے ہی اصول سازی یا قانون سازی کا کام سرانجام دیا البتہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس نے جس قدر جدوجہد ، جوش وخروش اور کدو کوش سے اصول بنائے ہیں اسی شدومد کے ساتھ انہیں توڑا بھی ہے ، ہاں یہ بات بھی قابل قدر ہے کہ انسان مے کچھ اصول ایسے بھی ہیں جن میں عہد بہ عہد بہت سی تبدیلیاں وقوع پزیر ہوئی ہیں جبکہ کچھ اصول ایسے ہیں کہ جن پروہ اسی طرح کا یقین رکھتا ہے جس طرح وہ ان اصولوں کے آنے کے وقت رکھتا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ان کی پیروی بھی مکمل طور پر نہیں کی مگر اس نے کبھی ان اصولوں کی پامالی کی ہے تو ساتھ ساتھ اس بات کابھی اظہار کیا ہے کہ ان کی پامالی اچھی بات نہیں ، چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اس پس منظر میں اس نے ان کی خلاف ورزی پر سزائیں مقرر کیں اور عمل درآمد بھی کیا ہے ۔ مثال کے طور پر اصول بنایا گیا کہ ہر انسان پر دوسرے انسان کے جان و مال کا تحفظ فرض ہے اور وسیع تر معنوں میں یہ سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت کا قانون بنایا گیا ہے اور جس نے اس کے خلاف قدم اٹھایا اس نے سزا پائی ۔

دنیا میں قائم کردہ وہ معاشرے بھی ہیں جوکسی مذہب کو نہیں مانتے وہ بھی ان اصولوں پر یقین رکھتے ہیں ۔ اصول کی اہمیت اور اس کے نفسیاتی زندگی پر گہرے اثرات کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ کوئی فرد بے اصولی کرنے کا مرتکب بھی ہوتا ہے تو اس کیلئے بھی اصول کی ہی آڑ لیتا ہے اور یہ صورت انفرادی سطح پر ہی نہیں اجتماعی طور پر بھی بروئے کار لائی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر امریکا یا یورپ کی ابلیس صفت قیادت یا ایسی ہی کوئی دوسری طاقت جب کسی ملک پر چڑھائی کرتی ہے تو وہ بھی اس اقدام کیلئے کسی نہ کسی اصول و قاعدے کا سہارالیتی ہے گوکہ یہ سہارا کس قدر غلیظ ، کراہیت انگیز اور مضحکہ خیز کیوں نہ ہو بہر کیف ہوتا اصول کا ہی سہارا ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصول کسے کہتے ہیں ؟ انسان اصول کیوں بناتا ہے اور اس پر عمل کیوں کرتا ہے ؟
مذاہب کے ماننے والوں کیلئے ان تمام سوالات کا جواب دینا غیر مذہب کے ماننے والوں سے بہت آسان ہے ، یعنی مذہب کے پیروکاروں کے نذدیک اصول اس ہدایت کا نام ہے جو اﷲ کی جانب سے بھیجے گئے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں تک پہنچ گئی ۔اس پس منظر میں دوسرا سوال کہ انسان اصول کیوں بناتا ہے خود بخود ختم ہوجاتا ہے کیونکہ اصول انسان نہیں بناتا بلکہ خدا ان کو بناتا ہے یہ خدائے بزرگ و برتر کے بنائے ہوئے ہیں جن پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاہم اس وقت کی عملی صورتحال اس کے برعکس ہے کیونکہ لوگوں نے اپنے عمل سے اسے خارج کرکے برطرف کردیا ہے جبکہ کچھ لوگ اس پر عمل پیرا ہونے کے باوجود اسے بے اعتبار بنارہے ہیں ۔ بدقسمتی سے ہم مسلمانوں کا شمار بھی ان لوگوں میں ہورہا ہے جوخود اصول سازی کررہے ہیں اس لئے لازم ہے کہ ہم جان لیں کہ اصول کسے کہتے ہیں ۔ ہمارے مطالعے کے مطابق اصول دراصل اس کیفیت کا نام ہے جو انسان کی رسائی اور نارسائی کے احساس سے جنم لیتی ہے جس میں انسانی فلاح کا احساس مضمر ہے ۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان اصول اس وجہ سے بناتا ہے تاکہ اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ مرتب اور یقینی بناسکے، اس کی ذات کو ایسے حالات میسر آسکیں جن میں اس کی زندگی اپنی پور ی توانائیوں اور مکانات کے ساتھ ظاہر ہو اور اپنی ذات کے اظہار سے زیادہ سے زیادہ مسرت حاصل کرسکے۔ یعنی اصولوں پر عمل کا مقصد اس کی زندگی مختلف قسم کے رخنہ انداز یوں سے محفوظ رہ کر سمت کے ایک واضح احساس کے ساتھ بسر ہو۔ مذہبی نقطہ نگاہ کے مطابق ہم دوسرے کی جان ومال کا تحفظ اور احترام اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں اس کاحکم دیا گیا ہے ، اسی طرح سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت کا بھی کم و بیش یہی تصور ہے ۔ اب یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ جو لوگ مذہب یا خدا پر یقین نہیں رکھتے وہ کیونکر ان اصولوں پر عمل کرتے ہیں جو عام طور پر کسی مذہبی حلقے میں رائج ہیں ۔ اس کے کئی جواب ہوسکتے ہیں ، مثا ل کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے انسانوں میں ان اصولوں کی پیروی کا رجحان خلق کیا چاہے وہ خدا کو مانیں یا اس کے ہونے کا انکار کریں وہ ان اصولوں پر اسی طرح عمل کرنے پر مجبور ہیں جیسے وہ خدا کو مانے بغیر سانس لینے پر مجبور ہیں ، دوسرے یہ کہ انسان کی موجودہ نفسیاتی و روحانی کیفیت یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی جان و مال کا احترام اور تحفظ اس بنا پر کرتا ہے کیونکہ اسے اپنی جان اور مال کا تحفظ درکار ہوتا ہے ۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ لوگ اسی لئے کسی دوسرے کا احترام کرتے ہیں کیونکہ انہیں خود اپنی امان چاہئے ہوتی ہے یعنی مجھے اپنی جان عزیز ہے اس لئے میں دوسروں کا احترام کرتا ہوں ، مجھے معلوم ہے کہ میں کسی کی جان کے درپے ہوجاؤں گا تو میری ہستی بھی خطرے میں پڑسکتی ہے ، البتہ دنیا میں انسان، انسان کے خلاف تشدد پر اس لئے آمادہ ہوتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اس میں اس قدر قوت موجود ہے کہ وہ اپنا تحفظ اور دفاع کرسکتا ہے ۔ دنیا کی بڑی طاقتیں چھوٹے ممالک کے ساتھ جو سلوک کررہی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ دنیا کے ہر اصول کی نفی کرنی کی طاقت رکھتی ہیں اپنی جان کے تحفظ کے خیال سے دوسری کی جان کا احترام کرنا ایک لحاظ سے بدترین خود غرضی اور بداخلاقی تصور کی جانی چاہئے ، کیونکہ اس کی معنی یہ ہیں کہ دنیا میں کمزور لوگوں کو جینے کا حق نہیں۔ اگر دنیا کی مجموعی صورتحال کی جائزہ لیا جائے تو بیشتر لوگ کمزور ملیں گے جس کا مطلب یہ ہوا کہ کمزور لوگوں کو یہاں جینے کا حق نہیں اور یہ رجحان تقریباً ہر جگہ کارفرما ہے ، یہی جنگل کا قانون کہلاتا ہے اور آج کی دنیا اسی کی لپیٹ میں ہے اور خطرناک بات یہ ہے کہ ہر کوئی اس کی پرستش کرتا ہوا نظر آتا ہے ، یعنی اس بات سے قطعی طو ر پر انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا اس وقت جس بحران کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ اور بنیادی سبب قوت پرستی ہے ۔

مملکت ِ خداد پاکستان قائم کرنے کا مقصد کرنے کا ہرگز یہی تھا کہ یہاں انسانی اقدار کی حرمت اسی طرح برقرار رکھی جائے جس طرح قانون خداوندی ہے ۔ اس ریاست میں جو اﷲ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اور اسے رائج کرنے کیلئے بنائی گئی ہے اس میں کمزور اور طاقت ور کا تصور ختم کردیا جائے تاکہ معاشرے میں عدم تحفظ سے متعلق تمام تحفظات دور ہوجائیں ۔ لوگ مفاد پرستی کے بغیر احترام انسانیت کو تعلیمات کو اسی طرح اپنائیں جس طرح نبی مہربان ﷺ نے اپنی سنت سے لوگوں کو بتلایا تھا۔ عدل و انصاف کے ان تمام اصول و قوانین پر عمل کیا جائے جس میں عزیز ، رشتہ دار ہو ں یا غیر رشتہ دار، عام آدمی ہر شخص کو یکساں اور فوری انصاف کی رسائی ہو ، حکمرانی کی وہ مثالیں قائم ہوں جس میں مقتدر افراد عوام کا خدمتگار تصور کریں اور کسی بھی وقت ان کا احتساب کرنا مشکل نہ ہو اور نہ وہ اس سے غافل ہوں کر اپنی ذات کو فائدہ پہچانے میں سرگرم ِ عمل نہ رہیں ، حکمران خود کواﷲ اور اس کی مخلوق کے سامنے خود کو ہر وقت جوان دہ سمجھتے ہوئے منصب اقتدار کو ایک امانت اور اسے فلاح انسانیت کا ذریعہ بنائیں ۔ عالم یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر تاحال کمزور لوگ پس رہے ہیں اور طاقت ور مزید طاقتور بنتے جارہے ہیں جبکہ اصول و قوانین ان لوگوں پر فرض عین اور خود پر اس کاطلاق گناہ کبیرہ کہلایا جاتا ہے ۔ حکمرانوں نے عرصہ ہوا قانون بالائے طاق رکھ کر ملک میں ملوکیت کو پروان چڑھایا ہوا ہے ۔ عدلیہ جو ایک باختیار ادارہونا چاہئے تھا اور ملک کے ایک عام شہری تک عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کا ذریعہ بن جانا چاہئے تھا اب تک مقتدر حلقوں اور امراء کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے ۔ کرپشن اس قدر عام ہوچکی ہے کہ لوگ اب اسے اپنا حق جاننے لگے ہیں ۔احتساب کا عمل بھی جانبدارانہ ہوگیا ہے ۔ عام آدمی جلد گرفتار جبکہ سیاسی وابستگی کے حامل افراد کھلے عام گھوم رہے ہیں اور پولیس ہے کہ ان کی گرفتاری میں حیل و حجت سے کام لے رہی ہے ۔ حال ہی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سابق وفاقی وزیر اور سابق صدر آصف علی ذرداری کے دست راست ڈاکٹر عاصم کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے کی سماعت میں ڈی ایس پی الطاف حسین نے عدالت کے روبرو بیان دیا کئی ملزمان کا پتہ نہیں چل رہا البتہ ایک ملزم جو پہلے ہی سے جیل میں تھا حراست میں لیا جاچکا ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جن ملزمان کو ڈی ایس پی صاحب لاپتہ قرار دے رہے ہیں وہ مختلف ٹی وی چینلز میں دکھائی دے رہے ہیں ۔ عدالت نے بھی اس بیان پر برہمی کا اظہار کیا کیا پولیس اپنی رپورٹ میں ان ملزمان کو لاپتہ کہہ رہی ہے حالانکہ وہ میڈیا کی ہر روز زینت بن رہے ہیں ۔ اس طرز عمل سے یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انصاف کے تقاضے صرف عام پر اطلاق ہورہے ہیں جبکہ بااثر افراد کو ہاتھ ڈالنے والا کوئی نہیں جو کسی معاشرے کی تنزلی کا اہم جزو ہے ۔ بی ملک میں ڈ گورنس کی بات پر کوئی دھان نہیں دیتا البتہ چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا ہے کہ عدلیہ بیڈگورنس سے لا تعلق رہ کر عوام کو حکومت کے ہاتھوں یرغمال بنے نہیں دیکھ سکتی ۔ عوام جس طرح مقتدر افراد کے رحم و کرم پر ہے وہ درست نہیں ،عوام جس ایمان داری سے ٹیکس دے رہے ہیں اس کے بدلے میں انہیں کچھ نہیں مل رہا اور نہ ہی ان کے بنیادی مسائل حلے کئے جارہے ہیں جو معاشرے میں جرائم کے فروغ کا باعث ہوسکتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ مل کر ان اصولوں اور ضابطوں پر عمل در آمد کو یقینی بنائے جو ملک کے بہتر مفاد کیلئے بنائے گئے تھے ۔ بصورت دیگر معاشرے میں افراتفری اور جرائم کی شرح کا بڑھنا کوئی انہونی بات نہ ہوگی ۔

Mujahid Hussain Shah
About the Author: Mujahid Hussain Shah Read More Articles by Mujahid Hussain Shah: 60 Articles with 44046 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.