ملاپ

شام ہونے کو تھی پیرو بکریوں کا ریورڑ لے کر گھر واپس آیا تو ریورڑ میں موجود ایک بکرا لنگڑا کر چل رہا تھا ،ماں نے پیرو سے اس کی وجہ پوچھی تو پیرو کہنے لگا” ماں ،آج دوپہر کو جب میں بکریوں کو آرام کرانے کیلئے بڑے بوہڑ کے سائے میں لے گیا تو یہ ” رجو “ کے پاس آ کربیٹھ گیا ۔تجھے تو پتا ہے میں رجو کے پاس کسی بکرے کا بیٹھنا پسند نہیں کرتا ۔اس لیئے مجھے اس پر طیش آ گیا اور میں نے اس کی مرمت لگا دی “ ماں پیرو کو کوسنے لگی ۔ ” وے پیرو تو کب سدھرے گا ،کب عقل آئے گی تجھے ،بھلا گنگ جانور کو مارنے کا کوئی فائدہ ہے ،جانور تو جانور ہوتا ہے اس میں اتنی عقل و شعور کہاں ؟ کہ کس کے پاس بیٹھنا ہے اور کس کے پاس نہیں ،بکرا ،بکری کے پاس نہیں بیٹھے گا تو اور بھلا کس کے پاس بیٹھے گا “ ” ماں ،ریورڑ میں اور بھی تو جانور ہیں ،اور بھی تو بکریاں ہیں وہ ان کے پاس جا کر بیٹھ جائے میری ” رجو “ کے پاس کیوں جا کے بیٹھتا ہے ۔ماں تجھے پتا ہے’ رجو “ مجھے اچھی لگتی ہے میں اس کے پاس کسی اور کابیٹھنا پسند نہیں کرتا ،چاہے وہ کوئی بکرا ہی کیوں نہ ہو “ پیرو کے ریورڑ میں کوئی لگ بھک پچاس جانور تھے جن کو چرانے کیلئے وہ انہیں قریبی میدانوں میں لے جاتا اور شام تک ان کو چراتا ۔شام ہوتے ہی گھر لوٹ آتا ۔اس کی ماں آتے سارے ریورڑ کا جائز ہ لیتی ۔گھر کے ساتھ سرکنڈوں کے بنے باڑے میں وہ جانور بند کر دیتا ۔ماں ایک برتن لاتی اور ان بکریوں کا دودھ دوہنے لگتی کے تھنوں پر کپڑے کی بنی ایک تھیلی سی چڑھائی ہوئی تھی ،تھیلی چڑھانے کا مقصد دودھ کو چھوٹے میمنوں سے بچانا تھا ۔چھوٹے میمنے سارا د ن اپنی اپنی ماں کے پہلوں میں دوڑتے دوڑتے تھنوں کو منہ لگاتے مگر ان کو مایوس لوٹنا پڑتا۔ماں ایک ایک بکری کی تھیلی اتارتی دودھ دوہتی ،کچھ دودھ تھنوں میں ہی چھوڑ دیتی جو ان میمنوں کیلئے تھا جو سارا دن بکریوں کے پہلوﺅں میں دوڑا کرتے تھے۔ماں آدھا دودھ پیرو کو پینے کیلئے دے دیتی اور باقی کا آدھا گھر کے استعمال کیلئے رکھ لیتی۔

آج دودھ دوہنے کی بجائے ماں اس بکرے کی تیمارداری کرنے لگی جس کی آج پیرونے ڈنڈا مار کرٹانگ زخمی کر دی تھی ۔ماں نے بکرے کی ٹانگ کو دونوں ہاتھوں سے ٹٹولا تو اسے محسوس ہوا کہ ٹانگ زخمی ہونے کی بجائے ٹوٹ گئی تھی اس لئے وہ لنگڑا رہا تھا ۔ماں نے پرانے کپڑے کی ایک پٹی بنائی اور اس پٹی کے اوپر چکنی مٹی کا لیپ لگا کے بکرے کی ٹانگ پر باندھ دیا اور اس پر آہستہ آہستہ پانی بہانے لگی ،یہ وہ پرانا طریقہ تھا جسے دیہات میں رہنے والے صدیوں سے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں -

باڑے میں ان میمنوں کی مے مے مے مے مے کی آوازیں آنے لگی،جو اس بات کی عکاس تھی کہ ان کو ملنے والے دودھ کے اس حصے میں دیر ہو گئی تھی جو دودھ دوہنے کے بعد پیرو کی ماں تھنوں میں چھوڑ دیتی تھی ۔ماں دودھ دوہنے لگی اور پیرو ’ رجو ‘ کے پاس جا بیٹھا ۔اس کا نرم و گداز جسم اپنے ہاتھوں میں ٹٹولنے لگا ’ رجو ‘ کو بھی جیسے سکون نہ آگیا ہو وہ پیرو کے ہاتھوں میں مجسم بت بنی بیٹھی رہی ۔

’پورے ریورڑ میں یہ واحد بکری تھی جس کا پیرو نے نام ’رجو ‘ رکھا تھا ۔ اس نام کے پیچھے اس کا ماضی چھپا تھا ۔پیرو نے اپنے ماضی کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے کیلئے نئی پیدا ہونے والی بکری کو ’ رجو ‘ کا نام دے دیا ۔ ایک شام جب پیرو ریورڑ لے کر گھر واپس آیا تو ماں نے اسے بتایا کہ اس کے ماموں کی بیٹی ’ رجو ‘ کا نکاح ہو گیا اور وہ بیاہ کر چلی گئی ۔پیرو مبہوت کھڑا ماں کے چہرے کو دیکھنے لگا ۔کوئی وجہ پوچھے بغیر وہ گارے مٹی کے بنے جھونپڑے میں چلا گیا اور کمرے میں پڑی ٹوٹی چارپائی پر اوندھے منہ لیٹ گیا ۔ماں دو تین بار جھونپڑے میں آئی اور بغیر کچھ کہے واپس چلی گئی ۔ماں پیرو کی اس کیفیت کو سمجھ گئی ،وہ جانتی تھی کہ پیرو کیا چاہتا تھا ۔وہ جو چاہتا تھا وہ ممکن نہ تھا ۔پیرو کی ما ں اپنے بھائی سے ’ رجو ‘ کا ہاتھ مانگنے گئی تو بڑے مان کے ساتھ تھی مگر لوٹی اس جواب کے ساتھ کہ پیرو جانوروں کے ساتھ رہتے ہوئے خود بھی جانور بن گیا ہے وہ اپنی بیٹی کسی جانور کے ساتھ نہیں باندھ سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹھتے ہوئے اس نے جو بات کہی اس سے پیرو کی ماں کا دل ہی ٹوٹ گیا ” پیرو کی شادی کسی بکری کے ساتھ کر دے میری بہن “ وہ دن اور آج کا دن پیرو کی ماں اپنے بھائی کے گھر کبھی جھاتی بھی ڈالی ۔اگلے دن پیرو بد دلی کے ساتھ ریوڑ لے کر چرائی کیلئے لے گیا بڑے برگد کے درخت کے نیچے جب وہ دوپہر کو آرام کرانے کیلئے بکریوں کو لے کر بیٹھا تھا ’ رجو ‘ کی ماں نے اسے جنم دیا ۔ پیرو سارا دن اسے ہاتھوں میں اٹھائے پھرتا رہا ۔اس کا نرم و گداز جسم ایسے لگا جیسے ’ رجو ‘ سمٹ کر اس کے ہاتھوں میں آ گئی ہو ۔ایک با ر رجو کا گداز جسم پیرو سے چھو گیا تھا ۔جسم کے چھوتے ہی اس کے ہیجان بھڑک اٹھے اور اسے اپنے تن بدن میں اک عجیب سی لہر دوڑ گئی۔اس سے پہلے اس کے ساتھ کبھی ایسا معاملہ نہ ہوا تھا ۔وہ اپنی اس کیفیت کو سمجھ نہ سکا اور سارا دن سوچتا رہا کہ آخر اس کے ساتھ ایسا کیوں ہوا ہے ؟ شام کو اس نے اس کا ذکر اپنی ماں سے کیا ،ماں نے اسے ڈانٹ دیا ۔پیر و کا دل چاہتا وہ بار بار ’ رجو ‘ کے جسم سے اپنا ہاتھ مس کرے کیوںکہ وہ وہی لذت پھر سے حاصل کرنا چاہتا تھا جو اسے پہلے ملی تھی ۔ایک دن ’ کسی کام سے پیرو کے گھر آئی تو پیرو نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ ’ رجو ‘ کو پیر و کی یہ حرکت بری لگی اور اس نے گھر جا کر اپنے باپ کو بتا دی ۔ ’ رجو ‘ کا باپ غصے سے لال پیلا ہوا پیرو کی ماں سے اس کی اس نازیبا حرکت کی شکایت کرنے آن پہنچا اور پیرو کو ’ جانور ‘ کہتے ہوئے چلا گیا ۔ پیرو کے ہاتھوں کو وہی گدازیت اس نئے پیدا ہونے والے بکرے کے بچے میں محسوس ہوئی تو اس نے اس کا نام ’ رجو ‘ رکھ دیا ۔

پیرو کی ’ رجو ‘ سے انسیت بڑھنے لگی ،وہ اسے ہر وقت اپنی گود میں اٹھائے پھرتا ۔رات اپنے ساتھ سلاتا ۔ماں پیرو سے بولتی کہ جانوروں کے ساتھ اس طرح انسیت نہیں کرتے ۔جانور آخرجانور ہے اور کونسا انہوں نے عمربھر ان کے ساتھ رہنا ہے ۔ان کی روزی روٹی انہی جانوروں کے ساتھ وابستہ ہے ،جب پل کر بڑے ہو جائیں گے تو انہیں بیچ کر اپنی دوسری ضرورتوں کو پورا کرنا پڑے گا “ پیرو ماں سے کہتا ” ماں بے شک تو سارا ریورڑ بیچ دے پر میں تمھیں ’ رجو ‘ کو نہیں بیچنے دوں گا

ماں اسے سمجھاتی مگر وہ اپنی بات پر جیسے بضد ہی تھا ۔ماں اس کی مرضی کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ۔پیرو خوش ہو جاتا اور ریورڑ لے کر چرائی کیلئے چلا جاتا ۔

وقت کے ساتھ ’ رجو ‘ کا جسم فربہ ہونے لگا ۔اسے ہاتھوں میں اٹھانا مشکل ہو گیا ۔وہ اپنی ماں کے پہلو میں دوڑنے لگی ۔تب بھی پیرو کی کوشش ہوتی کہ وہ ’ رجو ‘ کو اپنی نظروں کے سامنے رکھے ۔نظروں سے ہوتے ہوتے ہی پیرو ” رجو ۔۔۔۔ رجو ۔۔۔رجو ۔۔۔۔“ کی آواز لگانے لگتا ۔اسے بھی جیسے اپنے نام کا احساس ہو گیا تھا ۔وہ دوڑی ہوئی پیرو کے پاس آ جاتی ۔پیرو اسے گود میں لے لیتا اور اس کے منہ پر ایک بڑا سا بوسہ دے کر باتیں شروع کر دیتا ۔یوں محسوس ہونے لگےا جیسے سالوں کے بچھڑوں میں ملن ہوا ہے پیرو کہتا ” ’رجو ‘ تو کہاں چلی جاتی ہے ،میری نظروں سے پرے کیوں ہو جاتی ہے ۔ ۔۔۔۔۔ جب تو مجھے نظر نہیں آتی تو میرا دل ڈوبنے لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے میرے جسم سے جان نکل گئی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’ رجو ‘ اماں کہتی ہے جب تو بڑی ہو جائے گی تو وہ تجھے بیچ دے گی ،لیکن ’رجو ‘ میرا وعدہ ہے میں تجھے کبھی نہیں بیچوں گا ،اماں تو کملی ہے ۔بھلا کبھی کسی نے آج تک اپنا دل بھی بیچا ہے ۔ تو میرا دل ہے ۔۔۔۔۔۔۔ “ ’ رجو ‘ پھدک کے پیرو کی گود سے نکلتی اور ماں کے پہلو میں جا کھڑی ہوتی ۔

وقت بدلا اور موسم بھی ،سردیوں کی ایک دوپہر کو ’ رجو ‘ نے اپنی ماں کا پہلو چھوڑا اور بکرے کے پاس جا کھڑی ہوئی ۔جیسے وہ اس سے کچھ کہہ رہی ہو ۔ پھر یوں ہونے لگا ’ رجو ‘ اور بکرا ایک ساتھ چلنے لگے ۔ ’ رجو ‘ جہاں جاتی بکرا اس کے پیچھے پیچھے ہو لیتا ۔ بکرے کا ’ رجو‘ کے ساتھ یوں پھرنا پیرو کو اچھا نہ لگا ۔اس نے ایک آدھ دن تو برداشت کیا ۔وہ ’ رجو ‘ کو آواز دیتا مگر رجو اس کی آواز کا کوئی جواب نہ دیتی ، پیرو کیلئے یہ سب نا قابل برداشت ہوتھا۔اسے اپنے ہاتھوں سے ایک بار پھروہ گداز جو ’ رجو ‘ سے اس کے ہاتھوں کو محسوس ہوا تھا ۔وہ لذت جو جو اس کے جسم میں سراہت کر چکی تھی اپنے سے کہیں دور جاتی دیکھائی دی ۔ ” نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔۔۔۔ میں ایک پھر ’ رجو ‘ کو کسی کا نہیں ہونے دوں گا۔ پیرو نے بھاگ کر ’ ر جو ‘ کو پکڑکر بکرے سے جدا کر دیا اور اور اسے سے لگا اپنے دل کی باتیں کرنے ” ’ رجو ‘ تو ایسا کیوں کرتی ہے ؟ تو اس بکرے کے پاس کیوں جاتی ہے ،۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ جایا کر اس کے پاس ، مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوتا ،میں چاہتاہوں تو میرے پاس ،میرے ساتھ رہا کر ،دیکھ ’ ر جو ‘ تو نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا تو مجھے چھوڑ کر نہیں جائے گی ۔اب اس بکرے کے پاس کیوں گئی ہے ۔ ’ ر جو ‘ میں یہ سب برداشت نہیں کر پاﺅں گا ۔میں نے ’ ر جو ‘ کے جسم کی گرمی تیرے جسم میں محسوس کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ “ پیرو تھا کہ باتیں کیئے جا رہا تھا اور ’ ر جو ‘ اس کی گود میں منمنائی جا رہی تھی ۔اسے ایسے لگا جیسے ’ ر جو ‘ اس کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دے رہی تھی ۔اسے غصہ سا آگیا اور اس نے ’ ر جو ‘ کے دو تین چانٹے مار دیئے ۔ ’ ر جو ‘ جھٹ سے اٹھی اور دوڑتی ہوئی بکرے کے پاس کھڑی ہو گئی جیسے اس بکرے سے پیرو کی شکایت لگا رہی ہو ۔

” پیر و ، کچھ تو عقل کر ،بھلا بکری تیرے پاس کیوں بیٹھے گی،اس کا ملاپ بکرے کے ساتھ بنا ہے تو وہ بکرے کے پاس ہی جائے گی نا “ ” ماں اس کا ملاپ میرے ساتھ بھی تو ہو سکتا ہے “ ” پاگل ! بھلا کبھی کسی جانور کا ملاپ انسان سے بھی ہوا ہے ۔ وہ جانور ہے اور تو انسان “ ” اماں اگر میں انسان تھا تو پھر مامے نے ’ ر جو ‘ کا ملاپ میرے ساتھ کیوں نہ ہونے دیا “ ” تیرا ماما کہتا تھا تو جانوروں کے ساتھ رہ کر جانور ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور آج تیری باتیں سن کر مجھے لگا جیسے واقعی تو جانور وں کے ساتھ رہ کر جانور ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ جا دفع ہو کے اپنے پنڈے پر پانی پھیر ۔تیرے جسم سے بدبو آنے لگی ہے ۔میں دودھ دوہ لوں “ پیروں اس رات جانور اور انسان میں فرق محسوس کرتا رہا اور صبح ہوتے ہی ریورڑ لے کر چرائی کیلئے چلا گیا۔ شام کو ریورڑ لے کر گھر لوٹا تو ماں سے کہنے لگا ” اماں ،مامے نے کہا تھا کہ میں جانوروں کے ساتھ رہ کر جانور ہو گیا ہوں اور تو بھی یہی کہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اماں میں واقعی جانوروں کے ساتھ رہ کر جانور ہو گیا ہوں اسی لیئے میں نے ’ رجو ‘ سے آج ملاپ کر لیا ہے “-
Muhammad Nawaz
About the Author: Muhammad Nawaz Read More Articles by Muhammad Nawaz: 16 Articles with 14147 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.