قاتل مصور

سعید نے کار ایک پانچ منزلہ عمارت کی پارکنگ میں روکی، پھر وہ دروازہ کھول کر باہر نکلا اور گاڑی لاک کرکے پارکنگ بوائے کے پاس چلاگیا۔وہاں پہلے ہی بہت سی رنگ برنگی کاریں اور موٹر بائیکس موجود تھیں،اس نے ٹوکن لیا اور پھر زینے چڑھتا ہوا عمار ت کے اندر داخل ہوگیا۔یہ کمرشل پلازہ تھا جس میں مختلف کمپنیوں کے دفاتر،انٹرنیٹ کیفے ،دکانیں اور دیگر اسٹورز وغیر ہ موجود تھے۔یہاں کرائے پر آسانی کے ساتھ دو ،تین کمرے مل جایا کرتے تھے ،اس لئے بے روزگار اشخاص کے لئے یہ جگہ کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے سب کو مجبور کردیا تھاکہ وہ اپناذاتی بزنس شروع کرلیں۔یہاں پر زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی ،البتہ شہر کے مشہور ومعروف مصور ایم اے مجاہد بھی یہیں پر اپنے فن کو کمائی کا ذریعہ بنائے بیٹھے تھے ۔وہ کوئی پچیس ،تیس سال سے اسی فن سے منسلک تھے ،مگر اب تک انہیں پاکستان میں وہ پذیرائی نہیں ملی تھی جسکے وہ حقدار تھے ۔سالانہ آرٹ گیلر ی میں انکی شہکار تصاویرنمائش کے لئے لگتیں تو انہیں وہیں سے تھوڑی بہت آمدنی ہوجاتی تھی ۔ اگر وہ باہر کسی ملک میں ہوتے تو انکی خوب عزت افزائی ہوتی،مگرپیارے پاکستان میں تو اس بے چارے فن کو بھلادیا گیا۔ورنہ پاکستا ن نے دنیا کے بہترین مصور پیدا کیا جو اپنی مثال آپ تھے ۔ان میں قابل ذکرعبدالرحمان چغتائی صاحب کا نام ہے جن کا اپنا چغتائی اسٹائل تھا ،جوفارسی اور منگول کلچر کا حسین امتزاج تھا ۔اس کے علاوہ احمد پرویز صاحب جن کا تعلق پنڈی سے تھاانہوں نے ابتداء واٹر کلرز سے کی اور بعدازاں وہ آئل پینٹ کی طرف آگئے۔انہیں امریکہ اور برطانیہ میں خوب پذیرائی ملی۔ اس کے بعد اگر صادقین صاحب کا ذکر نہ کریں تو زیادتی ہوگی ،انہوں نے دیوار وں پر نقش نگاری کے ساتھ ساتھ خطاطی میں بھی کمال مہارت کا مظاہر ہ کیا۔

ان دنوں تپتی گرمیوں کاموسم تھا لہذا سب لوگ شام کے بعد ہی گھر سے باہر نکلا کرتے تھے ۔کراچی کا موسم اب ویسا خوشگوار نہیں رہا تھا جیسے پہلے ہوتا تھا۔سمندر کی وجہ سے گرمیاں زیادہ تر محسوس نہیں ہوا کرتی تھیں ۔ مگر اس بار موسم بہت بے رحم ثابت ہوا تھا،پورا دن گر م اور راتیں کبھی کبھار ٹھنڈی ہوجایاکرتی تھیں ۔ راتوں کے ٹھنڈے ہونے کی خاص وجہ ٹھنڈی ہواؤں کا چلناتھا۔سعید زینے چڑھتا ہو اچوتھی منزل پر پہنچا جہاں پر ایک دروازہ کے باہرایم اے مجاہد کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی۔دروازہ کھلاتھا، البتہ اس کے آگے پردہ گرا ہوا تھا وہ دروازہ کھٹکاتا ہوااندر داخل ہواتو سامنے دفتری میز کی دوسری طرف ایم اے مجاہد کا اسسٹنٹ بیٹھا ہواتھا۔میزپر کاغذات کا پلندہ تھااور اسسٹنٹ کچھ لکھنے میں مشغول تھا،دروازے پر نظر پڑتے ہی اس نے سعید کاکھڑے ہوکراستقبال کیااور مصافے کے لئے ہاتھ بڑھادیا، دونوں میں مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا،مصافہ ہوا اور پھر اسسٹنٹ گویاہوا:
"تشریف رکھئیے جناب ۔۔۔۔۔۔۔فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتاہوں؟۔۔۔۔"
"جی یہ میراکارڈ ہے ،میرانام سعید ہے اور میں ایک پرائیویٹ فرم میں سیلزآفیسر ہوں۔۔۔۔۔"سعید نے بیٹھتے ہی اپنی جیب سے ایک کارڈ نکال کر اسسٹنٹ کی طرف بڑھادیا۔جسے لیکر اس نے غورسے دیکھا اور پھر وہ سعید کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔
"وہ دراصل مجھے مصوری کا بے حد شوق ہے،جنون کہیں تو بے جانہ ہوگا۔کراچی میں جب بھی نمائش ہوتی ہے تو میں ضرور دیکھنے جاتا ہوں۔یقین کریں کئی دفعہ تو میں فن مصوری دیکھ کر اتنامتاثر ہوتا ہوں کہ پینٹنگز بہت مہنگے داموں بھی خرید لیتا ہوں۔میں صادقین صاحب کا بہت بڑا فین ہوں ،تاہم انہیں ہم سے بچھڑے عرصہ بیت گیا،مگر میرے گھر میں آج بھی انکی خطاطی کی تصاویر موجود ہیں۔کمال کی بھی کوئی آخری حد ہوگی تو شاید میرے نزدیک انہوں نے اس حد کو عبورکردیاتھا۔مجھے کبھی ان سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوااگر آج وہ حیات ہوتے تو ان کے پاس ضرور جاتا۔آخر کو انہیں پرائڈ آف پرفامنس ملا کوئی نہ کوئی تو خاص بات ہوگی ناں ان میں ۔۔۔۔۔۔۔"
"جی بالکل اس میں تو کوئی شک نہیں انکی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے ،بلاشبہ پاکستان کے سب سے بڑے پینٹرز میں انکا شمار ہوتاتھا۔انہیں فرانس اور آسٹریلیاکے سب بڑے ایوارڈز سے بھی نوازہ گیا۔اس کے علاوہ انہیں تمغہ امتیاز اور ستارہ امتیاز سے بھی نوازہ گیااس میں کوئی شک نہیں کہ ان جیسا کمال تو کسی کسی کو نصیب ہوتاہے۔۔۔۔"
"معاف کیجئے گا،آپ بھی کہیں گے کہ میں مجاہد صاحب کے آفس میں بیٹھ کر کسی اور مصور کی تعریف کررہا ہوں۔ یقین کریں اس سال ہونے والی سالانہ نمائش میں میں نے مجاہد صاحب کی فن مصوری دیکھی،بلاشبہ کمال کی تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان میں ایک اور عظیم مصور پیدا ہوگیا ہے۔غالباً یہاں انکی تصاویر کو پہلی دفعہ نمائش کے لئے پیش کیا گیا،مجھے ان سے ملنے کا بہت اشتیاق ہو رہاتھا بڑی مشکلوں سے بھاگ دوڑ کے بعد وہاں کی انتظامیہ سے آپ کا پتہ ملا ۔ پلیز آپ بتائیں مجھے کیا کرنا ہوگا اور میری ان سے کیسے ملاقات ممکن ہوپائے گی؟۔۔"
"ارے نہیں جناب آپ تو ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہیں،ہم آپکے کہے پر بھلا کیوں ناراض ہونے لگے؟پاکستان کے تمام مصور ہمارے سرآنکھوں پر،چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔نام تو پاکستان کا روشن ہوگانہ جی اور ہاں آپ کی بات درست ہے ۔ان کی تصاویر پہلی بارکراچی میں نمائش کے لئے پیش کی گئیں ۔اس سے قبل لاہور میں ہوتی تھیں،وہ دراصل مجاہد صاحب کافی عرصہ کوئٹہ گزار کر آئے ہیں تو اسلئے انہیں اتنازیادہ ابھی کوئی نہیں جانتا۔دیکھیں ناں اگر کوئٹہ میں کوئی بہت اچھی چیز ہوتو باقی پاکستان کو کم ہی معلوم پڑتی ہے نہ جانے ایساکیوں ہے۔آخر وہ بھی پاکستان کا حصہ ہے، خیراگر آپ برا نہ منائیں تو میںآپ کو تھوڑی سی تکلیف دوں گا ۔آپ ایساکریں یہاں سے سیدھااس پردے کوہٹاکراندرچلے جائیںآپ کی ملاقات مجاہد صاحب سے ہوجائے گی۔ وہ اس وقت اندر ہی اپنے کام میں مشغول ہیں اور آپکاآنا انہیں بہت اچھالگے گا۔"
"مجھے یہ سن کر کافی مسرت ہوئی کہ مجاہد صاحب یہاں موجود ہیں اور ان سے ملاقات یقیناًخوشگوار ہوگی۔یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے ،جہاں تک آپ نے کوئٹہ کی بات کی تو میں آپ سے متفق ہوں۔ ہمیں کوئٹہ پر بھی توجہ دینی چاہے اور وہاں کے لوگوں کو بھی پرموٹ کرناچاہے۔۔"اس کے بعدسعید اٹھااور اس نے اپنارخ سائیڈ پر موجود اندرونی دروازے کی طرف کرلیا۔وہ پردہ ہٹا کراندر داخل ہواتووہاں نیم اندھیراتھا۔وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا ہوں اندر داخل ہوا۔چاروں طرف مختلف پینٹنگز اور دیگر نمائشی تصاویردیواروں پر آویزاں تھیں۔وہ ایک چھوٹاساہال نماکمرہ تھاجس کے درمیان میں ایک کینوس موجود تھامگر مجاہدصاحب کاکہیں پتانہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں؟ایک دم سے کمرہ روشن ہوا اور کینوس کے پیچھے پردہ ہٹاکرایک شخص نمودار ہوا جس کے چہرے پرسفید فرنچ کٹ سر پر فلیٹ ہیٹ اور آنکھوں میں تیز چمک تھی۔عمرکوئی پچاس کے قریب رہی ہوگی مگر وہ چالیس کا لگتاتھا،اس نے بدن پر ایک خوب صورت شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور وہ مسکراتا ہوا سعید کے پاس آیااور پھر اس سے مصافہ کرتے ہوئے کہنے لگا:
"آئیے سعید صاحب مجھے ایم اے مجاہد کہتے ہیں ،کیسے ہیں آپ؟"اس کی اس بات سے سعیدذرا سا چونکااور پھراس نے بھی بڑی مشکل سے مسکراتے ہوئے اپنی حیر ت کا اظہار کیا:
"ارے واہ آپ تو میرا نام بھی جانتے ہیں،جان کر کافی خوشگوارحیرت ہوئی۔پھر تو آپ میری نوکری کے بارے میں بھی جانتے
ہوں ۔ہاہاہا ۔۔۔۔۔لگتاہے آپ چھپ کر ہماری باتیں سن رہے تھے۔۔۔"
"آپ جو چاہے سمجھ لیں میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ یہاں پر کس مقصد کے لئے آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔"
"اچھا۔۔۔۔۔۔تو پھر بتائیں وہ کون سامقصد ہوسکتاہے ؟۔۔۔۔"سعید نے انتہائی حیرت سے کہا
"یہی کہ آپ نے اپنی تصور بنوانی ہے ۔۔۔۔"
"مم مگر آپ کویہ کیسے پتہ اس کا ذکر تو میں نے ابھی تک کسی سے نہیں کیاہے؟۔۔۔۔۔۔"
"آئیں آپ کے لئے ایک اور حیرت انگیزخوشخبری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مصور مجاہد نے سعیدچہرے پر مکروہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے اپنے ساتھ لیا اور کینوس کے دوسرے طرف لے آیا۔کینوس کو دیکھ کر سعید کا منہ حیرت سے کھل گیاوہ سچ مچ بے ہوش ہونے لگاتھا ،اس نے بڑی مشکلوں سے اپنے آپ کو قابو کیااور پھر گویاہوا:
"یہ یہ۔۔۔۔۔۔ناممکن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کیسے ہوسکتاہے؟ یہ تو ہوبہومیری تصویر ہے۔۔۔آپ نے یہ کیسے کرلیا؟"سعید کا بدن بری طرح سے کانپ رہاتھا۔اس کی زبان بھی ہکلارہی تھی ، بڑی مشکلوں سے اس نے اپنی زبان سے الفاظ ادا کئے تھے۔
" یہ تو خدا کی دین ہے ،جیسے لکھاری اپنے قلم سے کسی بھی منظر کی الفاظ کی شکل میں منظر کشی کرلیتاہے ویسے ہم مصور لوگ کسی کو بھی اپنے کینوس میں اتارلیتے ہیں،بس اس کے لئے تھوڑا خون چاہیے۔۔۔۔ہاہاہا بس جو ایک بار اس کینوس میں اترجاتاہے وہ پھر ہمیشہ کے لئے اس میں قید ہوجاتاہے۔بالکل ایسے ہی جیسی آپ یہ تصاویردیواروں پر دیکھ رہے ہیں۔یہ بے چارے بھی آپ کی طرح اپنی تصویر بنوانے آئے تھے اور اب یہ ہمیشہ کے لئے قید ہوگئے ہیں ۔کیونکہ مرنے کے بعد کوئی واپس نہیں آتا۔۔۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ایک بار کینوس پہ اتر جائے اس کی زندگی میری آرٹ گیلری کی قیدی بن جاتی ہے۔۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔۔"یہ کہتے ہی مصور نے اپنی سائیڈ جیب سے ایک خنجرنکال کر سعید کے پیٹ میں گھونپ دیا۔سعید نے بے اختیارکراہ کر خنجراور اپنے پیٹ کو ہاتھ لگایا۔اس کی چیخ اندر ہی کہیں گھٹ کر رہ گئی تھی اور خون تھاکہ پانی کی طرح بہہ رہاتھا۔اس کی آنکھوں میں پہلے آنسوآئے پھر وہ لال ہوگئیں،اس کا چہرہ عجیب بے بسی اور حیرت کی ملی جلی تصویربن گیا تھا۔اس کے تووہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہاں آکر اس کے ساتھ یہ ہوگا۔اسے ابھی بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کے ساتھ کیاہورہاہے؟قریب تھا کہ وہ جھولتاہوازمین پر گر جاتا کہ قاتل مصور نے اسے تھام لیااور پھر اسکے پیٹ سے خنجرنکال کر اسکی شہ رگ کاٹ دی۔خون فووارے کی طرح اس کی گردن سے اُبل اُبل کربہہ رہاتھا۔اس کے بعد قاتل مصور نے خنجر ایک سائیڈ پر پھینکااور اس کی گردن کے ساتھ اپنے ہونٹ لگادئیے۔اس دوران قاتل مصورکااسسٹنٹ کمرے میں داخل ہوا اور پھروہ مسکراتا ہواان کے پاس آیا اور اس نے اپنے ہونٹ سعید کے پیٹ کو لگالئے۔اب کمرے میں ایک نامعلوم پراسرار خاموشی تھی اور سعید زمین پر پڑا ہوا تھا، جبکہ وہ دونوں اس پر جھکے ہوئے تھے اور چھت والا پنکھااپنی پوری رفتارسے چل رہاتھا۔۔۔ قاتل مصور نے باقی لوگوں کی طرح سعید کو بھی اپنے کینوس کا غلام بنادیا تھااور اب وہ ہمیشہ کے لئے اس کی آرٹ گیلری کا قیدی بن چکاتھا۔۔۔!
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 56688 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More