صادقیں -- پہلی بار کب دیکھا ، پہلی بار کب سنا

مجھے صادقین ( سید صادقین احمد نقوی ) کو دو تین بار دیکھنے کا موقع ملا --

پہلی بار اس وقت ، جب وہ لاہور کے عجائب گھر میں سورہ یٰسین کی خطاطی کر رہے تھے - ان کی خطاطی کی مہارت دیکھ کر میں ایک قسم کے سکتے میں رہ گیا - -جب برش ایک مرتبہ چلتا تو لفظ/حرف کی تکمیل تک رکتا ہی نہیں تھا - لیکن ، اس کے ساتھ ہی برش کی رفتار نہایت تیز ہوتی تھی اور وہ خود بھی مچان پر اتنی ہی اتنی تیزی سے حرکت کر رھے تھے-اسٹول پر مختلف کلر کی ٹیوبز رکھی ہوئیں تھیں - نیچے کچھ خواتین و حضرات منہ میں انگلیاں دابے حیرت سے ان کا کام دیکھ رہے تھے - پتہ چلا کہ یہ محکمہ تعلیم پاکستان کے وفد کے اراکین تھے - ان میں خواتین بھی تھیں -لیکن اس وقت صادقین کی توجہ صرف اور صرف‘ سورہ رحمان کی خطاطی کی تخلیق پر تھی - ایسے لگتا تھا کہ اللہ کے حضور میں کھڑے اللہ کی صفات کو لکھ کر تسلیم کر رہے ہیں
فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ -
وفد میں کراچی کی ڈاکٹر فرحت جہاں( ڈاکٹر بی بی قریشی کی بہن)بھی تھیں - صادقین کا اپنے ہاتھوں اور انگلیوں کی جنبش پر اتنا قابو تھا کہ مجال ہے برش انکی تصور کردہ گولائی ،زاوئیے یا لمبائی سے باہر نکل سکے - نیچے بہت سے سگریٹ کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے - بعد میں کسی نے مجھے بتایا تھا کہ بعض اوقات وہ کام کے دوران سگریٹ سلگاتے اور ایک کش لینے کے بعد کام میں میں اتنا محو ہو جاتے کہ دوسرا کش لینے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی اور سگریٹ ختم ہو جاتا تھا

انکو دوسری مرتبہ میں نے عجائب گھر کے باہر دیکھا تھا - پاجامہ پہنے وہ مال روڈ پر عجائب گھر کی بیرونی جنگلے یا غالبا“ دیوار یا کے ساتھ کھڑے تھے - میں بس میں سوار کہیں جا رہا تھا - ڈبل ڈیکر بس تھی - لگتا تھا کہ کام کرتے کرتے تھک گئے تھے - میں سوچنے لگا کہ کسی کو کیا پتہ ایک بڑی شخصیت- ایک عظیم تخلیق کار ‘ جس نے مصوری کو خطاطی اور خطاطی کو مصوری کا روپ دیا ہے ، وہاں کھڑا ہے -

پھر انہیں آرٹس کونسل کراچی میں انکی تصاویر کی نمائش کے موقع پر دیکھا - وہاں انکی تصاویر کے ویو کارڈ بھی مل رہے تھے اور وہ اپنے مداحین کو دستخط کرکے دے رہے تھے - میں نے سوچا کہ کارڈوں کی قیمت بہت رکھی ہو گی لیکن حیران رہ گیا کہ قیمت نہ ھونے کے برابر تھی - فن کو زر کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا جا رہاتھا - میں نے ایک کارڈ خریدا اور انکے سامنے رکھ دیا - مجھے لگا کہ وہ وہ خطاطی کے دلدادہ لوگوں کی رغبت دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں -انہوں نے دستخط ثبت کئے - کارڈ لینے کے بعد میں نے سوچا کہ اسے کسے تحفہ دیا جائے - ایسا جو قراں کو لفظوں تک محدود نہ رکھے بلکہ ان کی گہرائی میں جانے کی طلب رکھتا ہو - جو پاکستاں کی محبت کی تڑپ رکھتا ہو - پاک فوج میں میرا بھانجا تحسین-کتابوں کا شیدائی اور قران کو اصل معنوں میں سمجھنے کی لگن رکھتا تھا - میں نے یہ کارڈ اس کی خدمت میں پیش کر دیا --حیرت کی بات ہے کشمیر کی سرحد پر اس کی شہادت کے بعد کتابوں کے دو صندوق جو بھیجے گئے تھے ان میں مارٹن لنگز کی کتاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم میں یہی کارڈ رکھا ہوا تھا -

ایک مرتبہ صادقین کو ٹی وی پر دیکھا - ٹی وی کمپئیر نے ان سے الٹا لکھنے کی فرمائش کی تھی - میز کی ایک جانب صادقیں اور مخالف جانب دوسری طرف کمپئر بیٹھے ہوئے تھے - صادقین نے لکھنا شروع کیا -- الٹا لکھنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر حرف “ج “ لکھ رہے ہین تو اس طرح لکھا جائے کہ جیم کا چاند والا حصہ لکھنے والے کی جانب نہ ہو بلکہ سامنے بیٹھے فرد کی طرف ہو - اسی طریقے سے انہون نے ایک آیت پوری کی پوری لکھ دی -حیرت کی بات یہ تھی کہ اس طریقے سے لکھنے کے باوجود تحریر کے حسن میں کسی قسم کا سقم نہیں محسوس ہو رہا تھا -

آج زمانہ بیت گیا - ڈاکٹر فرحت جہاں اس جہاں سے چلی گئیں - کرنل تحسیں نے اللہ کی راہ میں بمقام کشمیر جام شہادت نوش کر لیا - صادقین بھی فریر ہال کے آخری فن پارے کو تکمیل کرنے کی خواہش لئے اللہ کے ہاں جا چکے ہیں - مجھے مختار مسعود کی آواز سنائی د ے رہی ہے “ اہل شہادت ‘ اہل احسان اور اہل جمال کون لوگ ہیں ؟ اہل شہادت دوسروں کے لئے جان دیتے ہیں -محسن دوسروں کے لئے زندہ رہتے ہیں - اور اہل جمال وجود کو تابندگی بخشتے ہیں - جس عہد کو یہ تینوں گروہ میسر نہ آئیں وہ مٹ جاتی ہیں - “

صادقین ---پہلی بار کب سنا
--------------------------------
ایک اچھے شاعر -ایک اچھے مصنف -ایک اچھے تخلیق کار کو ہمیشہ خوبصورت نظاروں سے بھرپور اور شور و غل سے پاک ، زمان و مکان کی تلاش رہتی ہے - جہاں پھول کھلیں تو ساری دنیا گل رنگ نظر آئے - جہاں خوشبو پھیلے تو پورا عالم معطر محسوس ہو - جہاں پرندوں کی بولیاں اور دھیمے دھیمے بہتے ہوئے آب جو کی آوازیں سنیں تو پوری فضاء وجد کی سی حالت میں لگے - قیام پاکستان کے بعد کا کوئٹہ ایسا ہی مقام تھا - شہر کوئٹہ کا یہی وہ دلفریب رخ تھا جس کے سبب قرہ العین حیدر کوئٹہ گئیں - رئیس احمد جعفری اپنے ایک ناول کی تخلیق کے لئے کوئٹہ قیام پذیر ہوئے - - اور یہی رخ صادقین کو 1951 میں کوئٹہ کھینچ کر لے گئیں - صادقین کو یہاں آکر ، افغانستان سے موسم سرما میں ہجرت کر کے پاکستان آنے والے خانہ بدوشوں کی زندگی کے کئی پہلوؤں سے آشنائی ہوئی - اور ان سب کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا - ارد گرد واقع حسین مناظر کینوس پر منتقل کئے اور اپنی زندگی کی پہلی تصویری نمائش 1954 کو کوئٹہ میں منعقد کی - کوئٹہ سے انکی الفت ختم نہیں ہوئی اور جولائی 1958 میں کوئٹہ کی ایک اور نمائش میں حصہ لیا - جمشید مارکر کو انکی تصاویر اتنی پسند آئیں اور انہوں نے تمام کی تمام تصاویر خرید لیں - بلاشبہ یہ ایک اعزاز کی بات تھی - صادقین نے کیا سوچا وہی بہتر جانتے ہیں - میں اس پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہوں- - کوئٹہ میں جنوری 1960 کا مہینہ شروع ہو چکا تھا - برفیلی ہوائیں ہڈیوں میں گودا جما نے پر آمادہ تھیں - گھروں میں معدنی کوئلے کے ہیٹر سردی کا اثر زائل کر نے کی ناکام کوشش کر رہے تھے - جنوری کے اس یخ بستہ مہینے میں ایک تصویروں کی نمائش ہوئی جس میں صادقین نے بھی حصہ لیا - اور تصاویر پر پہلے سے ہی لکھ دیا کہ یہ فروخت کے لئے نہیں ہیں - ایک سے بڑھ کر ایک تصویر - کسے بہتر کہیں فیصلہ ہی نہیں کر سکتے تھے - ان تین برسوں میں ان کے کام میں میں مزید نکھار پیدا ہو چکا تھا - اس کامیاب نمائش کے بعد یہ تمام تصاویر کوئٹہ کے ایک فوٹو گرافر دوست کو بلا کسی معاوضے کے عطیہ کردیں - صادقین نے کیا سوچا وہی بہتر جانتے ہیں - میں کوئٹہ میں رہائش رکھتا تھا دنگ رہ گیا - یہ پہلا موقع تھا جب میں نے ان کا نام سنا - زاہدہ حنا نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ سردیوں کے موسم نے کہانیوں کو جنم دیا - صادقین نے طویل سرمائی راتوں کو مختصر کر نے کے لئے ایک موضوع دے دیا تھا -
اس کے بعد کئی مرتبہ صادقین کا نام سنا - منگلا میں انکی تخلیق کردہ بڑی طویل تصویر بھی دیکھی - ان کی لکھی ہوئی رباعیوں کے بارے میں بھی سنا - مصر میں ایک خطاط کو انکی مدح میں رطب اللسان بھی دیکھا اور پتہ چلا کہ نہ صرف پورے عالم عرب میں بلکہ فرانس ، رومانیہ ، انگلستان اور ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بھی انکی تخلیقات ایک خاص مرتبے کی حامل ہیں اور لوگوں کے لئے ایک خصوصی کشش رکھتی ہیں -انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی ، تمغہ امتیاز - ستارہ امتیاز سے نوازا گیا - بلاشبہ وہ اس کے حقدار تھے - لیکن وہ آج میرا موضو ع نہیں ہے - میں نے تو صرف یہ بتانا تھا کہ میں نے سب سے پہلے کب ان کا نام سنا تھا اور سب سے پہلے کب انہیں دیکھا تھا

دس فروری 1987 کو کو صادقین اس فانی جہاں سے رخصت ہو ئے - التماس ہے کہ ان کے لئے دعائے مغفرت پڑھ لیجئے - آمین
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 334265 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More