ڈومیسائل کی ضرورت کیا ہے ؟

پاکستان میں غیر ضروری طور ایسے سرکاری کاغذات کا بھی اجرا کیا جاتا اور امور رائج ہیں جن کا نہ کوئی مقصد ہے اور نہ ہی اب کوئی ضرورت رہ گئی ہے۔سب سے پہلے اہم بات یہ کہ جب سے پاکستان میں کمپیوٹرکارڈ کا اجرا نادرا کے توسط سے ہونا شروع ہوا ہے تو اس کے بعد ڈومی سا ئل کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ ڈومی سائل کا اجرا ء ایسٹ انڈیا کمپنی دور کی یادگار ہے اور جاگیر درانہ انداز فکر کی تکمیل کیلئے اجرا کیا جاتا تھا جس کا بنیادی مقصد ضرورت ملازمت ، داخلہ پالیسی اور تعلیمی امور کے علاوہ دیگر ضروریات تھیں ۔ لیکن نہ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جب نادرا کی جانب سے شناختی کارڈ بنا لئے جاتے ہیں تو اس میں ضلع کا نام بھی آجاتا ہے اور سکونت کا عارضی اور مستقل ایڈریس بھی درج ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد ڈومی سائل جو اسی قسم کی شناخت کیلئے بنایا جاتا ہے ماسوائے ڈپٹی کمشنرز آفس میں کام کے اضافے اور رشوت ستانی کے لئے علاوہ کسی دوسرے مقصد میں کام نہیں ااتا ۔ بچوں کی تعلیمی ادادروں میں داخلے کے دوران ڈومیسائل کا طلب کئے جانا عجیب ہے کہ جب قومی شناختی جیسی اہم دستاویزات ہیں تو پھر الگ سے ڈومی سائل بنا کر عوام کی پریشانیوں میں اضافی کس قسم کی پالیسی ہے۔ ڈی سی آفس میں ڈومی سائل بنانے کے نہ صرف بھاری رشوت وصول کی جاتی ہیبلکہ اس سلسلے میں متعلقہ آفس رشوت خوری کا بازار گرم رہتاہے ۔ اب تو ایک نئی صورتحال شروع ہوگئی ہے کہ بچوں کا ڈومی سائل بنانے کے لئے والدین کا ڈومی سائل ضروری قرار دے دیا گیاہے۔ کیا یہ بے انصافی نہیں ہے کہ جب والدین کے شناختی کارڈ بن چکے ہیں اور انھوں نے اپنے بچوں کا اندراج نادرا آفس میں ب فارم کی شکل میں کرا دیا ہے تو پھر ان کے ڈومی سائل کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔یہ اس وقت یقینی لازمی ہوگا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر قبضہ کرلیا تھا اور ایسے شناختی علامت کیلئے اس قسم کیلئیکاغذات کی ضرورت پڑتی ہوگی۔ پاکستان میں ڈومی سائل سر ٹیفکیٹ کا اجرا 1951ء میں سیٹزن ایکٹ کے تحت شروع ہوا اس کا مقصد درحقیقت بھارت سے کثیر تعداد میں ہجرت کرنے والوں کو شہریت کا سرٹیفیکٹ دینا تھا اس دور میں یہ کسی بھی فرد کی واحد سرکاری دستاویزتھی جو کالجوں ، یونیورسٹیوں میں داخلوں اور ملازمت کے حصول کیلئے کام آتی تھی ۔ اس کے بعد ہر شخص پر پاکستانی شناختی کارڈ کا حصول ضروری قرا ر دے دیا گیا کہ اس کی رجسٹرشن اور کارڈ بنانا لازم قرار دیا گیا ، کچھ اور وقت بڑھا اور عوام کے مشکلات کو دیکھتے ہوئے ایک سہل جدید طریقہ بظاہر بنانے کی کوشش کی گئی ، اور نادرا کے ادارے کی ضرورت میں عمل میں لایا گیا ۔ نادر سیا مکمل کمپیوٹرایزڈ دستاویز بنی شروع ہوئیں جیسے معتبر بھی قرار دیا جاتا ہے ، لیکن مقام حیرت ہیکہ کالجوں ، یونیورسٹیوں اور سرکاری اداروں میں اسے شہریت یا سکونت کا تصدیق نامہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ سرکاری اداروں میں شناختی کارڈ کے ساتھ ڈومی سائل کا دم چھلا لگانا ضروری قرار دیا گیا ہے جس کی کوئی منطق سمجھ نہیں آتی ڈمیسائل کے مقابلے میں شناختی کارڈ شہریت اور سکونت کی ایک معتبر سرکاری دستاویز ہے لیکن ایسے اداروں میں ڈومی سائل کے مقابلے میں اہمیت نہیں دی جاتی ۔ جب ڈومی سائل کی اتنی قدر و قیمت ہے تو پھر شناختی کارڈ اور ب فارم بنانے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ۔ عوام سے ایک ہی کام کے اربوں روپے کس مد میں لئے جا رہے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ڈومی سائل سرٹیفیکٹ کیلئے شرائط کا تعین کرنا اکثر متعلقہ افسران کی صوابدید پر ہوتا ہے ، کمپیوٹرئز رکارڈ نہیں ہوتا ۔کوئی بھی کسی بھی وقت کسی بھی ضلع سے ڈومی سائل 1500روپے میں جتنے چاہیے با آسانی بنا لیا لیتا ہے۔ جبکہ نادرا کے شناختی کارڈ جاری ہونے کے بعد ڈومی سائل کی اہمیت اورا فادیت ختم ہوچکی ہے ۔کیونکہ جو تفصیلات ڈمی سائل کیلئے طلب کیں جاتی ہیں ، وہی معلومات نادرا کے کارڈ میں اور اس کے کوائف کی صورت میں ڈیٹا بیس میں جمع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح شناختی کارڈ کے حصول کیلئے ایک سخت شرط فارم ب کی لگا دی گئی ہے ۔ جس نے تمام بگاڑ پیدا کیا ہوا ہے۔
 
غیر ملکی تارکین وطن ملکی شہریت کیلئے کسی بھی خاندان کے کوائف میں اپنا نام داخل کرادیتے ہیں اور اکثر اوقات اُس خاندان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس کے افراد خانہ میں کسی غیر متعلقہ فرد کا اضافہ ہوگیا ہے۔یاپھر اس کے کوائف سے کسی دوسرے شخص کا کارڈ بن چکا ہے۔ نادرا کا نظام بھی اس قدر انوکھا ہے کہ غلطی وہ کرے اور سزا عوام بھگتے۔ڈومی سائل کی حشر سامناں کیوں ہیں اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے ما سوائے عوام کے پاس ، کہ یہ عوام سے پیسے بٹورنے کا پرانا طریقہ ہے ، اب تو شناختی کارڈ کی طرح ڈومی سائل کیلئے بوڑھے والدین کے شناختی کارڈ کے ساتھ ان کے ڈومی سائل بھی بنانے کی شرط لگا دی گئی ہے ۔ عوام اب فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ شناختی کارڈ ضروری اور اہم سرکاری شناخت ہے یا پھر ڈومی سائل اہم ملکی شناخت ہے ۔وفاقی و صوبائی وزارت داخلہ کو اس معاملے میں نوٹس لینا چاہیے کہ اہم سرکاری دستاویز نادرا کے کارڈ کے بعد ڈومی سائل کی کیا ضرورت پیش آتی ہے ، کیا ڈومی سائل میں ایسے کو ئی کوائف ہیں جو شناختی کارڈ میں نہیں ہیں۔یقینی طور پر وفاق و صوبائی حکومیتں اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔ اسی طرح دوسرا اہم غیر ضروری معاملہ مردم شماری کا ہے ، نادرا شناختی کارڈ میں کوائف کے بعد پاکستانی شہریوں کے تعداد گھر گھر جا کرکرنے کی کیا ضرورت پیش آتی ہے ، تمام کارڈ اضلاع اور علاقے کی سطح پر بنے جاتے ہیں ، بچوں کے ب فارم کا اندراج بھی نادرا میں کیا جاتا ہے ۔ اب اگر کسی شخص نے کارڈ یا ب فارم تیسا یا چالیس سالوں سے نہیں بنایا تو اس کا مطلب ایسے پاکستانی شہریت سے دل چسپی نہیں ہے ، اب تو بھاری جرمانے بھی رکھے جا رہے ہیں تاکہ 5 فیصد ایسے افراد یا خاندان میں جس نے کارڈ نہیں بنایا تو وہ بنا لئے۔مردم شماری کیلئے نادرا کا ریکارڈ ہی کافی ہے ، لہذاربوں کا ضائع کرنا اور حدود بندی کیلئے خانہ شماریاں کرنا بھی عوام خزانے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے ویسے بھی پاکستان میں مردم شماری کبھی وقت پر نہیں ہو پاتی ، لیکن نادرا کے توسط سے ہر مہینے بلکہ ہر روز ہمیں با آسانی پتہ لگ سکتا ہے کہ پاکستان آبادی میں روز کتنا اضافہ ہوا ۔ یہ دس سالہ قانون کی قدغن ختم کرنے کیلئے پارلیمنٹ مردم شماری ختم کرنے کیلئے قانون سازی پر غور کریں۔

نادرا کی جدید سہولیات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام پاکستانیوں کا انکم ٹیکس نمبر اس کے شناختی کارڈ کو قرار دے دینا چاہیے اس طرح ٹیکس دائرے میں تمام شناختی کارڈ ہولڈر ، سرکاری یا غیر سرکاری قومی ڈیٹا بیس میں آجائیں گے ۔ انکم ٹیکس کے لئے شناختی کارڈ نمبر ہی واحد اور معتبر شناخت بن جاتی ہے اس کے بعد رشوت دیکر انکم ٹیکس بچانے کیلئے جعلی ایف بی آر سرٹیفیکتٹ کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے ۔ملک کا سب اہم مسئلہ ہ ووٹ کا اندراج بھی ہے ، نادرا کی سہولت کی وجہ سے شناختی کارڈ ہولڈر کو علاقے اور ضلع کی مناسبت سے مستقل بنیادوں پر ووٹ نمبر جاری ہوسکتاہے۔ گھر گھر جا کر نئے ووٹوں کا اندراج جس میں ایڈریس بھی درست نہیں لکھا ہوتا اور ووٹر کی شکایت ہوتی ہے کہ اس علاقے کا ووٹ دوسری جگہ منتقل کردیا ہے ۔ اس سے مستقل بنیادوں پر عوام کی پریشانی کاازالہ ہوجائے گا۔ہر الیکشن میں نئی ووٹرلسٹیں پیپر پرفوٹو کاپیوں کی شکل میں دیں جاتی ہیں جس سے اربوں روپوں کا ضائع ہوتا ہے اور عوام کو پریشانی کا سامنا بھیبرداشت کرنا پڑتا ہے۔ شناختی کارڈ میں مستقل رہائشی پتے پر ووٹ کا اندراج کرکے انتخابات سے قبل جعلی ووٹوں کا انداراج کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ہر ضلع کی آبادی اور ہر علاقے کی آبادی کا درست اندارج مہیاہوگا اورا لیکشن کیلئے کسی نئے اندارج کی ضرورت جعلی ووٹوں کا تصور ختم ہوکرازخود حلقہ بندیا ں ہوسکیں گیں۔ لیکن یہ سب کرے گا کون۔ ؟ اور اس میں قباحت ہی کیا ہے۔اگر کوئی خاندان یا شخص نے علاقے کو تبدیل کرنا ہے تو شناختی علامت میں تبدیلی اس کیلئے ناگزیر ہوجائے گی ۔ اور وہ اپنا ووٹ درست جگہ کاسٹ کرسکے اور حکومت میں نقل مکانی کی نگرانی از خود ہوتے رہے گی جس سے جرائم پیشہ عناصر کی نقلوحرکت سے ادارے باضبر رہ سکیں گے مردم شماری کے بکھڑے میں دھاندلیوں اور اپنے علاقے میں آبادی کے اضافے کا رجحان ختم ہوجائے گا نیز ایک جگہ اندارج کے بعد وہ دوسری جگہ تو کم از کم ووٹ نہیں ڈال سکے ۔ ڈامی سائل کے خاتمے سے لیکر عوام کی ان گنت پریشانیوں کا حل صرف ایک کلک کی دوری پر ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 673783 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.