حیدر آباد میں”ولی“ کے بت کی پوجا

حیدر آباد میں”ولی“ کے بت کی پوجا
محمد بن قاسم کا قافلہ دیبل سے ٹھٹھہ آیا اور یہاں سے حیدر آباد کو روانہ ہوا-اب بھی ٹھٹھہ اور حیدرآباد کے درمیان ان مجاہدین کی قبریں ”سوڈا“ کے مقام پر موجود ہیں - وہ مجاہدین کہ جو ہندو سے دو دو ہاتھ کرنے آئے تھے-

حیدر آباد میں دو قلعے ہیں- ایک ”کچا قلعہ“ ہے اور دوسرا پکا--کبھی وہ وقت تھا کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی سپاہ نے یہ قلعے ہندوں سے چھینے اور یہاں توحید وجہاد کے پرچم لہرائے-مگر آج ان قلعوں پہ نہ کوئی توحید کا نشان ہے اور نہ جہاد کی علامت!!!”کچے قلعے“ پر جب ہم چڑھے تو آج وہاں ایک دربار تھا‘ جسے پیر مکی کا دربار کہا جاتا ہے- ہمارے دیکھتے دیکھتے ایک عورت دوڑتی ہوئی آئی‘ وہ متواتر رو رہی تھی -اب وہ دربار کی کھڑکی پر جاتی‘ الٹے قدموں پیچھے چلتی اور پھر دوڑ کر”’بابے “ کی قبر کے پاس پہنچ جاتی- ہاتھ جوڑ کر بابے سے فریادیں کرتی- ہٹ ہٹ کر دیوار سے ٹکریں مارتی -وہ کہہ رہی تھی-” بابا میری بیٹی کا آپریشن ہسپتال میں ہو چکا - تو اسے ٹھیک کر دے-“

مدینے کو جانیوالا خفیہ راستہ :
پیر مکی کی قبر پر یوں ٹکریں مار کر پھر لوگ اس دربار کی پشت پر ایک تنگ سی کوٹھری میں پہنچ جاتے ہیں- وہاں ایک کھڑکی ہے کہ جس کے ساتھ لوگ تالے اور دھاگے باندھتے ہیں- اس کھڑکی کے بارے میں یہ مشہور کیا گیا ہے کہ اس کا راستہ مدینے کو جاتا ہے-

دیوار کے ساتھ لوہے کی ویلڈ کی ہوئی پیر مکی کی اس کھڑکی کا راستہ مدینے کو جاتا ہے کہ نہیں‘ البتہ مکے کو جاتا ضرور نظر آتا ہے- وہ مکہ کہ جہاں سے دو راستے نکلے‘ ایک تو وہ راستہ تھا کہ جس پر اہل مکہ کچھ اس طرح سے گامزن تھے کہ صحیح مسلم میں ہے:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :یہ (مکی مشرک) کہا کرتے تھے ”اے اللہ(تیرے دربار میں) حاضر ہیں- تیرا کوئی شریک نہیں ( یہ سن کر) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہتے تم پر افسوس ہے یہیں رک جا- یہیں ٹھہر جا- مگر وہ نہ رکتے اور ( پھر یوں کہتے)”اے اللہ تیرا شریک تو کوئی نہیں“ مگر وہ شریک کہ جو تیرا ہی ماتحت ہے اور اس کا تو ہی مالک ہے اور جس چیز کا یہ بزرگ مالک ہے- اس کا بھی تو ہی مالک ہے”(مکی مشرک) یہ کلمات کہتے اور بیت اللہ کا طواف کرتے تھے-

قارئین کرام! ایک تو یہ راستہ ہے کہ جس پہ مکی بزرگ ابو جہل‘ عتبہ اور شیبہ وغیر گامزن تھے -مکے کا دوسرا وہ راستہ ہے کہ جس پر امام الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چل کر دکھایا ہے- اس راستے میں کسی قبر پر پرستش‘ نہ دربار کی کوئی گنجائش ہے نہ کسی عرس اور میلے کی اجازت اس لئے کہ اگر یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسول اللہ کا راستہ ہوتا تو سب سے برا عرس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر لگتا‘ سب سے بڑا میلہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبروں پر لگتا کہ جو زندگی میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں بائیں تھے اور آج ان کی قبریں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں بائیں ہیں اور قیامت کے روز جنت میں بھی اسی طرح داخل ہوں گے- حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو راستہ ہے وہی سیدھا راستہ ہے- اسی راستہ کے بارے میں اللہ نے مسلمانوں کو دعا کرنے کی یوں تلقین فرمائی ہے:

اِھدِنَاالصِّرَاطَ المُستَقِیم

(اے اللہ )”ہمیں سیدھے راستے پہ چلا“

یاد رکھئے! مکے سے نکلنے والے دو راستے ہیں‘ ایک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا راستہ ہے اور دوسرا ابوجہل اور اس کے پیروکاروں کا راستہ ہے - یہ دونوں راستے آج بھی موجود ہیں- ان پر چلنے والے بھی موجود ہیں- بات صرف پہچان کی ہے وہ پہچان کر لینی چاہئے- اور پھر اس راستے پہ چلنا چاہئے جو محمد مکی و عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ ہے- اور اس راستے پہ چلنے کی جو راہنما کتابیں (Guide Books ) ہیں‘ وہ قرآن اور حدیث کی کتابیں بخاری اور مسلم وغیرہ ہیں- ان کا مطالعہ کر لینا چاہئے-

”کچے قلعے“ سے اترنے کے بعد دائیں جانب ایک دربار ہے - اس صاحب دربار کے بزرگ کو سندھی زبان میں”سائیں امیدن بھریو“ کہتے ہیں- یعنی وہ پیر جو کہ امیدیں پوری کرتا ہے مگر ہماری منزل اب پکا قلعہ تھی- پکا قلعہ سے پہلے ہم شاہی بازار کی ایک تنگ گلی کے کنارے پہنچے- اس کنارے پہ ایک بڑا دربار ہے-اب اس دربار کے حیا سوز مناظر ملاحظہ کیجئے-

مادر زاد ننگے چھتن پیر کے دربار پر:
حضرت چھتن پیر کہ جنہیں امیر شاہ بھی کہا جاتا ہے جب ہم ان کی ”درگاہ پاک“ میں جوتا اتار کر داخل ہوئے تو دائیں طرف ان کا ”دربار شریف“ تھا اور سامنے”حجرہ مبارک“ - ہم پہلے حجرہ مبارک میں داخل ہوئے - جونہی داخل ہوئے تو ایک پلنگ پڑا تھا- جس پر بستر سجا ہوا تھا تکیہ لگا ہوا تھا- پلنگ کے اوپر چھت کو اس طرح سے سجایا گیا تھا کہ جس طرح آج کل لوگوں کے ہاں دلہا و دلہن کی مسہری بنانے اور سجانے کا رواج ہے- ہم نے سوچا کہ حضرت چھتن شاہ صاحب اس پلنگ پر تشریف فرما ہوتے ہوں گے مگر تصوف کی دنیا کے مطابق وہ تو پردہ فرما چکے ہیں- جبکہ اس کے باوجود وہ اپنے اس پلنگ پر روحانی طور پر موجود ہوتے ہیں-


پلنگ کو بوسے....:
بہرحال ہم دیکھ رہے تھے کہ اب جن عورتوں کو اولاد لینا ہوتی ہے وہ اس پلنگ کو بوسے دیتی ہیں-اس پر ہاتھ پھیر کر اپنے جسم پر پھیرتی ہیں- اور بعض تو اس پلنگ کے نیچے لیٹ جاتی ہیں اور لیٹنے کے بعد خیال کیا جاتا ہے کہ اب بابا پیر اولاد دے گا- اس پلنگ کے اوپر ریشمی پردہ پڑا ہوا تھا اور پردے کے اوپر ہار لٹک رہے تھے- مسہری والے کمرے میں ریشمی پردے اور ہاروں کے پیچھے کونسا حسین چہرہ چھپا بیٹھا ہے- عورتیں تو یہ گھونگٹ اٹھاتی ہیں اور پھر نیاز دیتی ہیں‘ سلامی دیتی ہیں-

دور سے ہم نے لوگوں کو اس حسین چہرے کے بوسے لیتے ہوئے دیکھا تھا- اب ہم نے بھی آگے بڑھ کر قریب ہو کر گھونگھٹ اٹھایا - پردہ سرکایا تو یہ تصویر تھی‘ حضرت ولی کامل چھتن شاہ قدس سرہ اور مدظلہ العالی کی- اور ہم دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حضرت مدظلہ العالی کی تصویر بالکل برہنہ تھی-

جی ہاں -- ”ولیوں“ کی یہ وہ قسم ہے کہ جن کو مجذوب کہا جاتا ہے- یہ ولایت کا بڑا بلند مقام ہے کہ اس مقام پر پہنچ کر ولی اسی طرح پاک ہو جاتا ہے کہ جس طرح بچہ مادر زاد ننگا شکم مادر سے اس دنیا میں آتا ہے-اس طرح کے ولی بازاروں میں گھومتے پھرتے بہت دکھائی دیتے ہیں- تو جی ہاں - یہ مجذوب اولیاءکرام کی ٹیم ہے کہ برصغیر میں اسلام پھیلانے میںا ن کا بھی بہت بڑا حصہ ہے ا ور یہ اسلام ابھی تک پھیلتا چلا جارہا ہے- ہاں! تو حصرت چھتن شاہ کا دربار بھی فیوض و برکات کا منبع ہے اور یہاں اسلام خوب پھیل رہا ہے-ہم اس کے پھیلنے کا مزید مشاہدہ کرنے کے لئے اب اس مقدس حجرے سے نکل کھڑے ہوئے اور بائیں جانب حضرت کے دربار کی طرف چل دئیے- حضرت کی قبر کہ جسے دربار شریف کہا جاتا ہے- اس پر کھلونا نما تین عدد پنگھوڑے پڑے تھے تو جنہیں اولاد لینا ہوتی ہے وہ کمرہ عروسی میں ننگے بابے کی تصویر کو سجدہ کرنے اور بوسے دینے کے بعد یہاں پنگھوڑوں میں نیاز ڈالتے ہیں ور پھر اس کو ہلاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب اس پنگھوڑے میں یہ جو نوٹ جھولے جھول رہے ہیں تو یہ درحقیقت مستقبل کے پیراں دتہ اور غوث بخش جھولے جھول رہے ہیں-

اب ہم حضرت چھتن شاہ کے دربار سے نکلے تو حجروں کی طرف چل دیئے-ایک حجرے کے اندر قدم رکھا تو دوسرا قدم اندر رکھنے کی جرات نہ ہوسکی -حضرت چھتن شاہ کے ملنگوں نے ہمیں اندر آنے کو کہا-مگر ہم نہ جاسکے- کس طرح جاتے ہمارا یہ مقام ہی نہ تھا- یہ مقام تو اصحاب طریقت کا ہے- وہ اصحاب طریقت کہ جو ولایت مجذوبیت کے مقام سے آشنا ہیں اور ہم نا آشنا تھے- اب ہم چرس اور ہیروئن سے آشنا ہوتے تو اندر داخل ہو جاتے کہ یہاں تو جو پاکباز ہستیاں تھیں.... وہ ہیروئن اور چرس کے کش لگا رہی تھیں- اور وہ جذب و مستی کی نہ جانے کن کن منزلوں اور فضں میں پہنچ کر تصوف کی منزلوں پہ منزلیں سر کر رہی تھیں- چنانچہ ہم چھتن شاہی ولایت کے اس سیاہ ماحول میں دوسرا قدم رکھتے تو آخر کیسے؟ ہم نے تو اگلا قدم بھی پیچھے کو ہٹا لیا -اور پھر ”پکے قلعے“پر جاپہنچے-

پکا قلعہ اور جہادی بہاروں کی یادیں :
”پکا قلعہ “اب ہم دیکھنے لگے- محمد بن قاسم کی جہادی یلغاروں اور سندھ میں توحیدی بہاروں کی یادیں تازہ کرنے لگے- جمعہ کا وقت اب قریب تھا اور آج کا خطبہ جمعہ مجھے اس پکے قلعے کے مین گیٹ کے سامنے اہل توحید کی مرکزی جامع مسجد میں پڑھانا تھا- آج میرا موضوع اللہ کی توحید اور فریضہ جہاد کا پیغام تھا-

اے اہل توحید! ذرا غور کیجئے کہ یہ امت تو قبر پرستی سے بڑھ کر اب تصویر پرستی اور بت پرستی تک جاپہنچی اور پھر تصویر اور بت بھی وہ کہ جو شرک کی آخری حد کے ساتھ ساتھ فحاشی کو بھی اپنے دامن میں- تقدس کے پردے میں چھپائے ہوئے ہیں اور یہ ناٹک کسی اجڈ دنیا میں نہیں- یہ ڈھونگ کسی دور دراز جنگلی مقام پر نہیں رچایا جارہا بلکہ ملک کے ایک بڑے اور مہذب شہر کے عین وسط میں رچایا جارہا ہے-تصوف و طریقت کے پردے میں فحاشی بیچ چوراہے کے ناچ رہی ہے-شرم وحیا اپنا دامن بچا کر یہاں سے بھاگ رہی ہے-

قارئین کرام! میں ان درباروں پر جو خرافات دیکھتا ہوں ان کو ورق و قرطاس پر منتقل نہیں کرسکتا- صرف انہی خرافات کو نقل کرتا ہوں جن کا نقل کرنا ممکن ہوتا ہے-

میرے بھائیوں!میں جو یہ کام کرتا ہوں تو اس سے میرا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں بلکہ میں جان جوکھوں میں ڈال کر یہ کام اس لئے کرتا ہوں کہ میرے باپ آدم کے بیٹے اور میری ماں حوا کی بیٹیاں جہنم کی بھڑکتی ہوئی نار سے بچ جائیں- میں تو جنت کے گلزاروں کے راستے دکھاتا ہوں اور یہ راستے اسی طرح دکھلاتا ہوں جس طرح میرے آخری اور پیارے رسول امام الھدی علیہ السلام کے فرامین دکھلا رہے ہیں-ذرا ملاحظہ فرمائیے! یہ حدیث ترمذی کی ہے - یہ حدیث پڑھئے اور اندازہ کر لیجئے کہ کیا ہم تصویر پرستی کے اس انجام کی طرف نہیں بڑھ رہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا تھا کہ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک مسلمانوں کا ایک گروہ بت پرستوں کی جماعت سے مل نہ جائے-“
( سنن الترمذی ·کتاب الفتن باب ما جاءلاتقوم الساعة حتی یخرج کذابون رقم الحدیث2219) ( حدیث صحیح ہے دیکھئے صحیح الجامع الصغیر رقم الحدیث 7418)

اسی طرح ترمذی کی ایک حدیث ہے-اس میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے باپ حصین سے کہا: اے حصین آج کل کتنے مشکل کشں کی تو بندگی کرتا ہے-اس پر میرا باپ کہنے لگا: سات کی- ان میں چھ زمین پر ہیں اورایک آسمان پر - تب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: ان میں سے امید اور خوف کے وقت تو کس کو پکارتا ہے- کہنے لگا وہ جو آسمان پر ہے-

اس پر قرآن نے خوب تبصرہ کیا ہے-اس طرز عمل پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سورة لقمان میں یوں مخاطب ہوتے ہیں:

وَ لَئِن سَا لتُھُم مَن خَلَقَ السَّمَوٰاتِ وَ الا رضِ لَیَقُو لُنَّ اللَّہُ - قُلِ الحَمُدُ لِلَّہِ بَل اَکثَرُ ھُم لاَ یَعلَمَُُونَ

ترجمہ: میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یہ بہر صورت کہتے ہیں کہ اللہ نے -( میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس پر تم الحمد للہ کہو- جبکہ ان کے اکثر لوگ جانتے ہی نہیں- ( لقمان : 25)

اسی طرح سورة یونس کی آیت نمبر31 میں فرمایا:

قُل مَن یَّر زُ قُکُم مِّنَ السَّمآ ئِ وَ الارضِ امَّن یَّملِکُ السَّمعَ وَالابصَارَ وَمَن یُّخرِجُ الحَیَّ مِنَ المَیِّتِ وَ یُخرِجُ المَیِّتَ مِنَ الحَیِّ وَ مَن یُّدَ بِّرُ الاَ مرَ - فَسَیُقُولُونَ اللَّہُ فَقُل اَفَلاَ تَتَّقُونَ

” میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ان مکی بزرگوں) سے پوچھو کون ہے؟جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے- سننے اور دیکھنے کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں- کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار سے بے جان کو نکالتا ہے- کون اس نظم عالم کی تدبیر کرہا ہے....؟؟ تو یہ بول اٹھیں گے کہ” اللہ ہے-“ تب کہہ دو پھر کیا تم (شرک کرنے سے )بچتے نہیں-

یاد رکھئے! اللہ کو ماننا اور اس کے ساتھ ان بزرگوں کو بھی حاجت روا٬ مشکل کشا اور داتا و دستگیر تسلیم کرنا٬ یہی شرک ہے- نوح علیہ والسلام کی قوم بھی یہی شرک کرتی تھی- انہوں نے بھی اپنے پانچ ولی”پنج تن“ بنا رکھے تھے‘ جن کا قرآن نے ذکر کیا ہے اور باقاعدہ ان کے نام لئے ہیں- ان کے نام حضرت سواع‘ حضرت ود‘ حضرت یغوث‘ حضرت یعوق اور حضرت نسر تھے-

یاد رکھئے! ہندو بھی اسی طرح کا شرک کرتے ہیں- آپ ان کے جوگیوں پنڈتوں اور سادھوں سے پوچھ کر دیکھئے! وہ کہیں گے ہم شرک کہاں کرتے ہیں- ہمارا ہر بت ہمارے اصلی خدا بھگوان یا رام کا ہی ایک روپ ہے- بت بے شک جدا جدا ہیں مگر ان سب میں ایک بھگوان ہی کی پوجا مقصود ہے - ان بتوں میں بھگوان ہی دکھائی دیتا ہے اور یہ کہ ہم ان بتوں کو نہیں پوجتے یہ تو عوام ہیں کہ جنہوں نے ان بتوں کو ہی خدا سمجھ لیا ہے-

میرے بھائیوں! اب ظلم یہ ہے کہ مسلمان کہلانے والے بھی پیر پرستی پھر قبر پرستی اور اب بت پرستی میں مبتلا ہو چکے ہیں-اور پھر ظلم پہ ظلم یہ ہے کہ یہ بت پرستی بھی ننگ پرستی کی شکل میں ہے-

آئیے! دعوت نوح علیہ السلام پھر زندہ کریں دعوت ابراہیم کا پھر احیا کریں اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح پھر سے توحید کا چرچا کریں کہ اب یہ امت شرک کی آخری حد پھلانگنے لگی ہے-
Asim
About the Author: Asim Read More Articles by Asim: 11 Articles with 25322 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.