رشتوں کے حوالے سے ایک رپورٹ

اس وقت پاکستان میں تین کروڑ سے زائد لڑکیاں مناسب رشتوں کے انتظار میں بوڑھی ہورہی ہیں۔ تین لاکھ سے زائد لڑکیاں شادی کے خواب دیکھتے دیکھتے شادی کی عمر گزار چکی ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ہر تیسرے گھر میں دو سے زائد لڑکیاں ہیں۔ہر آٹھویں گھر میں لڑکیوں کی تعداد پانچ سے زائد ہے۔والدین اپنی بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی آس میں بوڑھے ہو رہے ہیں اور انہیں موزوں رشتے دستیاب نہیں۔

لڑکیوں کے والدین اچھے کھاتے پیتے لڑکے کے انتظار میں لڑکیوں کو گھر بٹھائے رکھنے پر مجبور ہیں جب ان لڑکیوں کی عمر بڑھنے لگتی ہے اور 35 سال کی ہو جاتی ہیں تو پھر وہ اَن پڑھ اور عام رشتے ہی قبول کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لڑکیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جبکہ لڑکے لڑکیوں سے تعلیم کے لحاظ سے پیچھے ہیں۔ بیس سال سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کی شرح دس فیصد بھی نہیں رہی لڑکے اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کا بہانہ اور نوکری لگنے کا کہہ کر ٹالتے رہتے ہیں۔ لڑکیوں کی شرح پیدائش بھی لڑکوں سے بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ اگر یہی حال رہا تو مستقبل میں شادی مزید گھمبیر مسئلہ بن جائے گی ان خطرناک حالات میں ترغیب نہیں بھر پور تحریک کی ضرورت ہے۔

جب کسی چیز کی بہتات ہوجائے تو اس کی قیمت کم ہوجاتی ہے، لوگ اس کی قدر نہیں کرتے، اس کی حفاظت نہیں کرتے، اس پر چوکیدار نہیں بٹھاتے، اسے چھپاتے نہیں، اگر کوئی اس کی ناقدری کرے تو پرواہ نہیں کرتے۔ مثلا آپ پانی کو لے لیں ، ہمیں اﷲ تعالیٰ نے پانی وافر مقدار میں دیا ہے ، پینے کے لئے ہمیں مفت میں دستیاب ہے، آپ کسی سے پانی کا گلاس مانگیں ، کسی ہوٹل کے پاس سے گزرتے ہوئے پانی کا گلاس پی لیں آپ سے کوئی پیسے نہیں مانگے گا، آپ پانی کا گلاس گرا دیں آپ سے کوئی نہیں پوچھے گا۔پانی کے مقابلے میں آپ پٹرول یا سونے کو لے لیں یہ دونوں قیمتی چیزیں ہیں لوگ ان کی قدر کرتے ہیں، حفاظت کرتے ہیں، چوکیدار بٹھاتے ہیں اگر کسی کے پاس سونا ہوتو ہرکسی کو نہیں بتاتا کہ میرے پاس سونا ہے اسے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس لئے کہ یہ دونوں قیمتی ہیں ، مقدار میں کم ہیں، مانگ زیادہ ہے۔یہ اصول تقریباً ہر چیز کا ہے۔بالکل اسی طرح کا معاملہ اس وقت عورت کا بھی ہے۔ دنیا میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے عورت کی قدروقیمت ختم ہوگئی ہے۔اس قدروقیمت کو ختم کرنے میں ہمارے دشمن کے ساتھ ساتھ ہماری عورت کا اپنا قصور بھی ہے۔لوگوں کی بیٹیوں کو رشتے نہیں مل رہے جس کی وجہ سے وہ پریشان ہیں ، زنا عام ہورہے ہیں، جس معاشرے میں نکاح مہنگا ہوجائے اس معاشرے میں زنا سستا ہوجاتا ہے۔آپ نکاح کا تصور کریں آپ کے ذہن میں فوراً ڈیڑھ دو لاکھ کا بجٹ آجائے گا، لیکن زنا کا سوچیں تو صرف چار پانچ سو میں دستیاب ہے(نعوذ بااﷲ)۔بعض والدیں اپنی بیٹیوں کو کسی کے ساتھ دوستی لگاتے ہوئے دیکھ لیتے ہیں مگر صرف نظر کرلیتے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ کسی طریقے سے دوستی لگ جائے اور ہماری بیٹی کو رشتہ مل جائے۔اگر آج کے مسلمان نبیوں اور صحابہ کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے ایک سے زائدشادیاں کرنا شروع کردیں تو کنواری عورتوں کی تعداد کم ہوجائے گی، جس سے ان کی قدروقیمت میں اضافہ ہوگا۔ مانگ زیادہ ہوگی تو قیمت بڑھ جائے گی، لوگ اپنی بیٹی کو چھپا کر رکھیں گے بے دین بھی اپنی بیٹی سے پردہ کروائے گا۔

اﷲ تعالیٰ نے ہر چیز ایک خاص اندازے سے پیدا کی ہے:(انا کل شء خلقناہ بقدر)ہم نے ہر چیز کو ایک متعین اندازے سے پیدا کیا ہے۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر شی کو حکمت کے ساتھ ایک اندازے سے پیدا کیا ہے تو جس خالق نے مردوں میں عورتوں سے زائد جنسی رغبت رکھی اس نے اسی حساب سے مردوں کے مقابلے میں زائد عورتوں کو پیدا بھی کیا ہوگا، تاکہ ایک مرد اپنی اس فطرت کے موافق عورتوں کو خواہ وہ عورتیں اپنی قوم کی ہوں یا اگر اپنی قوم میں عورتوں کی تعداد کم ہو تو دوسری اقوام کی عورتوں سے نکاح کرکے بیک وقت متعدد کو بسہولت نکاح میں جمع بھی کرسکتے۔بیل ، گائے، بکرا، بکری اور مرغا، مرغی وغیرہ میں نرومادہ کی شرح پیدائش اس لئے برابر ہوتی ہے کہ ان اجناس میں ’’نر‘‘ ذبح ہونے اور گوشت کھانے کے لئے یا کسی اور طرح سے مرنے کے لئے ہوتے ہیں، توالدوتناسل کے لئے صرف ایک نر متعدد مادہ کے لئے رکھا جاتا ہے۔عین اسی اصول کے مطابق عجیب بات ہے کہ وہ قوم جس کے مرد اﷲ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے کثرت سے قربان اور شہید ہونے لگیں تو مشاہدہ ہے کہ اس قوم میں اﷲ تعالیٰ لڑکوں کی شرح پیدائش بڑھادیتے ہیں۔چنانچہ افغانوں کے ہاں سنا ہے کہ لڑکوں کی شرح پیدائش لڑکیوں سے زیادہ ہے۔فلسطین میں بھی یہی صورتحال ہے۔

اولیا کی طرف سے نکاح میں بے جا تاخیربھی تشویش ناک صورتحال اختیار کرچکی ہے،بعض والدین کی یہ بْری عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی بچی کے لئے آنے والے پیغام نکاح کو فضول قسم کی باتوں کی وجہ سے رد کردیتے ہیں۔ مثلا بعض والدین کئی کئی پیغام نکاح مہر کی زیادتی کی تلاش میں ٹھکرا دیتے ہیں، بعض لڑکے میں یا اس کے خاندان میں فضول قسم کے عیب نکال کر پیغام نکاح ٹھکرا دیتے ہیں، پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ لڑکی اپنی عمر کا ایک بہترین حصہ گزار لیتی ہے اس کے بعد اس کے پیغام آنا بند ہوجاتے ہیں اور اس طرح وہ ساری عمر گھر میں گزارتی ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب کسی گھر میں کوئی بچی جوان ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ فرشتوں کو حکم کرتے ہیں کہ فلاں فلاں کے دل میں یہ الہام کرو کہ وہ جا کر اس بچی کا رشتہ مانگیں ، فرشتے مختلف لوگوں کے دلوں میں یہ الہام کرتے ہیں کہ وہ جا کر فلاں لڑکی کا رشتہ اپنیلڑکے کے لئے مانگیں ، اس طرح کچھ لوگ اس بچی کا رشتہ مانگنے کے لئے جاتے ہیں۔ اب اگر بچی کے والدین سمجھدار ہوں تو وہ اس پیغام نکاح کو قبول کرلیتے ہیں ورنہ جب وہ اس پیغام نکاح کو ٹھکراتے ہیں تو پھر اﷲ تعالیٰ بھی انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے کہ اب اپنی بچی کے لئے رشتہ خود تلاش کرو اس طرح پھر انہیں رشتہ نہیں ملتا اور وہ شکایتیں کرتے پھرتے ہیں کہ ہماری بچی کا رشتہ نہیں آرہا۔

ایسے والدین کے بارے میں علمائے حنابلہ جن کا مذہب ہے کہ بلا اجازت ولی عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا تو ان کے نزدیک بھی اگر کسی لڑکی کا باپ زیادہ مہر کی لالچ میں لڑکی کو گھر میں بٹھائے رکھے اور پے درپے متوجہ ہونے والے رشتوں کو مسلسل رد کرکے بچی کے نکاح میں غیر معمولی تاخیر کا سبب بن رہا ہو تو اس عمل سے لڑکی کے باپ کی ولایت ساقط ہو جائے گی۔چنانچہ سعودی عرب کے ایک جید حنبلی عالم شیخ صالح العثیمین رحمہ اﷲ ایک فتوے میں فرماتے ہیں:آپ نے بعض لوگ دیکھے ہوں گے کہ جنہیں ان کی بچی کیلئے نکاح کا پیغام بھیجا جاتا ہے اور پیغام بھیجنے والا اس لڑکی کا ہم پلہ(کفو) بھی ہوتا ہے مگر اس کا باپ اسے مسترد کردیتا ہے، پھر ( اس جیسا) کوئی دوسرا پیغام بھیجتا ہے اسے بھی اور پھر اس کے بعدایسے کسی تیسرے کو بھی مسترد کرتا رہتا ہے تو جو شخص ایسی عادت کا ہو تو بچی کے نکاح کے معاملے میں اس کی ولایت ساقط ہوجائے گی اور اس باپ کے سوا کسی دوسرے قریبی ولی کے لئے جائز ہو گا کہ وہ اس لڑکی کا نکاح کرادے(اگرچہ باپ راضی نہ ہو)۔

آج لڑکیوں کو رشتے نہیں مل رہے عورتوں کی تعداد زیادہ ہے جس کی وجہ سے عورت کی قدروقیمت اور ویلیو کم ہوگئی ہے ، نکاح مہنگا اور زنا سستا ہوچکا ہے۔ آپ نکاح کا تصور کریں فورا ذہن میں دو تین لاکھ کا بجٹ آجائے گا، مگر زنا کا سوچیں تو چار پانچ سو میں بھی دستیاب ہے ان تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ ہم حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور صحابہ کرام کی زندگیوں سے سبق حاصل کرکے چلیں۔

خلفاراشدین رضی اﷲ عنہم کا عمل بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے،حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے چار شادیاں کیں، حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے آٹھ شادیاں کیں، حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے آٹھ شادیاں کیں، حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے نو شادیاں کیں۔

حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی شادیوں کی تعداد باقی خلفا کے مقابلہ میں کم ہے کیونکہ ان کی عمر کا کم زمانہ اسلام میں گزراباقی خلفا سے عمر میں بھی بڑے تھے ، دوسرے نمبر پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ہیں ، اور پھر تیسری نمبر پر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ ہیں انہوں نے آٹھ شادیاں کیں ، چوتھے نمبر پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہیں جنہوں نے نو شادیاں کیں اور وفات کے وقت چاربیویاں اور 19 باندیاں تھیں، چونکہ ان کی عمر کا زیادہ حصہ اسلام میں گزرا اس لئے انہوں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر باقی خلفا سے زیادہ شادیاں کیں۔

اگر زیادہ شادیاں کرنا جاہلیت کا دستور ہوتا تو پھر سب سے زیادہ شادیاں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی ہونی چاہئے تھیں اور سب سے کم حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی، کیونکہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی عمر کا زیادہ حصہ جاہلیت میں گزرا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی عمر کا زیادہ حصہ اسلام میں گزرا ، معلوم ہوا زیادہ شادیوں کی اتنی ترغیب اسلام نے ہی دی۔
Syed Abdulwahab Sherazi
About the Author: Syed Abdulwahab Sherazi Read More Articles by Syed Abdulwahab Sherazi: 78 Articles with 74723 views Writer, Speaker, Mudarris.
www.nukta313.blogspot.com
.. View More