کسان پھر سڑکوں پر کیا۔۔۔۔؟

کسانوں نے اب پھر24فروری کو احتجاج کا علان کیا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی اور پھر قومی اسمبلی کے سامنے نہ صرف دھرنا دیں گے بلکہ جب تک مطالبات تسلیم نہیں ہوتے دھرنہ ختم نہیں ہوگا، پاکستان دنیا میں زرعی معیشت والا ملک کہلاتا ہے ،یہاں پر دنیا کا بہترین نہری نظام قائم ہے زیر زمین پانی میٹھا ہے لیکن حالت یہ ہے کہ پاکستان زرعی اجناس بھی درآمد کر رہا ہے ،اس وقت مارکیٹ میں سبزیوں سے لے کر پھلوں تک اور بعض اوقات گندم بھی درآمد کرنا پڑتی ہے ،پاکستان کی معیشت کا تقریبا 70فیصد انحصار زرعی شعبے پر ہے ویسے بھی ماضی قریب میں 2007ء میں ملک میں گندم کا شدید بحران آیا جس کا سابق صدر پرویز مشرف کو سیاسی طور پر بہت نقصان ہوا تھا ،پنجاب کو دودھ کا گھر سمجھا جاتا ہے لیکن حالت یہ ہے کہ دودھ اور اس سے متعلقہ پراڈکٹس بھی درآمد کرنا پڑتی ہیں ،پاکستان کا کسان جو کبھی خوشحالی کی مثال ہو اکرتا تھا وہ آج غربت کا شکار ہے ،چھوٹے کسانوں کی اولادیں شہروں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں جس کی وجہ حکومتی پالیسیاں ہیں ،حکومت نے کبھی زرعی پالیسی جاری نہیں کی ،مختلف فصلوں پر سپورٹ پرائس دی جاتی ہیں اور دعوی کیا جاتا ہے کہ زراعت کو ترقی دی جارہی ہے محکمہ زراعت اور محکمہ خوراک کا زرعی شعبے کی ترقی سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے ،ان محکموں میں بیٹھی افسر شاہی اور اہلکار کسانوں کی سادہ لوحی اور لا علمی کا فائدہ اٹھا کر انہیں لوٹنے کے درپے رہتے ہیں ،گندم کی فصل کو ہی لے لیں جو کہ چند ماہ بعد مارکیٹ میں آنے والی ہے سرکاری اہلکار چھوٹے کسانوں کو بار دانہ ہی مہیا نہیں کرتے ،پھر ٹھیکداری نظام کے تحت ٹھکیدار چھوٹے کسانوں کی گندم کم ریٹ پر خریدتے ہیں ،گزشتہ سال محکمہ نے گندم کی خریداری کم کی جس کے باعث کاشت کاروں نے کم ریٹ پر گندم فروخت کی ،اور محکمے نے ٹارگٹ پورا نہیں کیا ،طاقت ور اور بڑا زمیندار فائدہ میں رہ جاتا ہے وہ باردانہ بھی حاصل کر لیتا ہے اور سرکاری نرخ پر گندم بھی فروخت کر دیتا ہے ،جبکہ چھوٹے کسان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی ،چھوٹے کسان کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ اسے ٹیوب ویل کا پانی خریدناپڑتا ہے بجلی مہنگی ہونے کے سبب یہ پانی بھی مہنگے داموں ملتا ہے زرعی مداخل جن میں زرعی ادویات ،بیج اور کھاد شامل ہیں وہ بھی انتہائی مہنگی ہونے کی وجہ سے چھوٹے کسان کی فی ایکٹر لاگت بڑھ جاتی ہے ،اور جب فصل تیار ہوتی ہے تو وہ مناسب نرخوں پر فروخت نہ ہو تو چھوٹے کسان مقروض ہو جاتے ہیں اور پھر قرض سے چھٹکارے کے لئے اپنے جانور فروخت کرنے پڑتے ہیں ،مسلم لیگ (ن) کی جب بھی حکومت آتی ہے ہمیشہ زرعی شعبے کی ترقی متاثر ہوئی ہے ،حکمران خاندان کا تعلق چونکہ کاروباری اور صنعتکار گھرانے سے ہے اس لئے ان کی توجہ کا مرکز شہر ہیں ،دیہی ضروریات اور دیہی معیشت کے حوالے سے ان کا علم نہ ہونے کے برابر ہے ،اٹھارویں ترمیم کے بعد وازارت خوراک و زراعت عضو معطل بنی ہوئی ہے ،مسلم لیگ (ن) کی چوٹی کی قیادت بھی غیر زرعی شخصیات پر مشتمل ہے اور بیور کریسی کو بھی زراعت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ،ان دونوں گروہوں کی توجہ دوبئی ،لندن اور کینڈا میں پلازے تعمیر کرنے یا جائیدادیں خریدنے پر ہے ،اس طرز عمل نے پاکستان کی زراعت کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ،زراعت کی ترقی صرف پیکیج سے نہیں ہوتی ،زرعی ثقافت کو سمجھنے کی سائنس کا نام ہے جس طرح انڈیا کے صوبہ ہریانہ میں تمام صوبائی حکومتوں نے زراعت پر توجہ دی جس سے ہریانہ زرعی اعتبار سے انڈیا کی خوشحال ریاستوں میں شامل ہے ،وہان کسان کی فصل اگر ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو اسے نقصان نہیں ہوتا کیونکہ انڈین حکومت مقررہ نرخ پر زرعی اجناس خریدنے کی پابند ہوتی ہے ،جبکہ پاکستان میں چاول کی فصل کا گزشتہ دو سال سے جو حال ہے اس سے کاشت کار تباہ ہو گئے ہیں اور اب آلو سے کاشت کار تباہ ہو رہا ہے جبکہ ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کود اعتراف کیا ہے کہ آلو کی قیمت انہتائی کمہے ،بلاشبہ شہروں میں رہنے والے صارفین کو آلو اور چاول سستے مل رہے ہیں لیکن جو فصلیں کاشت کرنے والے کسان تباہ ہو گئے ہیں ۔۔۔ایسے مواقع پر حکومت آگے آئے اور کسانوں سے فصل مقررہ نرخ پر خرید کرے اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ میں خود کاشتکار گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ اب کوئی زرعی زمین ٹھکیے پر لینے کو تیار نہیں ہوتا اور اگر کوئی لے بھی لے تو قیمت انتہائی کم ہے ،اس وقت کسانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے وزیر اعظم نے341ارب کے زرعی پیکیج کا اعلان کیا مگر اس پر10فیصد تک عمل درآمد نہیں کیا گیا ،کسانوں کو درپیش مسائل پر پنجاب اسمبلی میں بھی بحث ہوئی مگر حکومتی اور اپوزیشن اراکین کاشتکاروں اکھٹے ہو گئے ،اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرزید کا کہنا تھا کہ پنجاب میں کاشت کار بدترین حالات کا شکار ہے کسانوں کو درپیش مسائل پر کسان تنظیمں احتجاج کر رہی ہیں ،کاشت کاروں کو ریلیف دینا چاروں صوبائی حکومتوں کی زمہ داری ہے جبکہ حکومتی ترجیح کچھ اور ہے کسی حکومت کی زرعی پالیسی نہیں ہے صرف ایڈہاک پر کام چلایا جا رہا ہے چاول1300روپے کی بوری بک رہی ہے اور جو سپورٹ پرائس دی جاتی ہے اس کا حققیت سے دور تک واسطہ نہیں ہوتا،وفاق اور چاروں صوبائی حکومتیں کسان دشمنی کا ثبوت دے رہی ہیں ۔۔۔۔پوری دنیا میں زراعت پر سبسڈی دے رہی ہے ہم نے ختم کردی ہے کاشت کار ہر سال250ارب کا ڈیزل استعمال کرتے ہیں جبکہ حکومت فی لیٹر 40روپے ٹیکس بھتہ وصول کر رہی ہے زراعت اور دیگر شعبوں سے اربوں روپے کے فنڈز ختم کر کے اورنج ٹرین کی مد میں لگائے جارہے ہیں ۔۔۔۔کسی حکومت نے بھی کاشت کاروں کی بہتری اور فلاح کے لئے کوئی پالیسی نہیں بنائی بلکہ آج تک بننے والی تمام پالیسیاں اور ادارے و مھکمے کاشت کاروں کے دشمن ہیں ،کاشت کار کو محکمے کھا رہے ہیں اور اسل فائدہ ملز مالکان اور تاجر اٹھا رہے ہیں ،حکومتی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کاشت کاروں کے مسائل پر کمیٹی بنائی جائے جس میں کاشتکاروں کے نمائندہ شامل ہو اور زرعی پالیسی کو از سر نو مرتب کیا جائے چند دن پہلے حکومت نے ایکسپوٹرز کو اجازت دی کہ وہ آلو کو باہر بھج سکتے ہیں اس پر کوئی ڈیوٹی نہیں ہے ،گنے کے کاشت کاروں کو گزشتہ مالی سال کی 99فیصد ادائیگی اور اب کے برس 80فیصد ادائیگی سے بھی کاشت کاروں کے مالی معاملات بہتر ہوں گے۔۔۔حکومت کو چائیے کہ زراعت کے شعبے پر خصوصی توجہ دے اور کسانوں کی حوصلہ افزائی کرے تا کہ ملک میں خوراک کی کمی جیسے بحران کا شکار نہ ہو ،
 
Abdullah Tabasum
About the Author: Abdullah Tabasum Read More Articles by Abdullah Tabasum: 24 Articles with 16181 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.