جہنم کے سوداگر - چوتھی قسط

جہنم کے سوداگر(تحریر:محمد جبران) راوی :وقارعلی جان
جہنم کی آگ (چوتھی قسط)
ڈاکٹر دانش اسحاق کاشمار پاکستان کے مانے ہوئے سرجنوں میں ہوتاتھا۔وہ جرمنی سے خصوصی طور پر پلاسٹک سرجری کی سند لے کر آئے تھے۔ان کا اپناپرائیویٹ ہسپتال تھاجہاں پر ان کے علاوہ دیگر ڈاکڑز بھی پریکٹس کر تے تھے۔انہوں نے میری خاطر خصوصی طور پر اپنے ہسپتال سے دو ہفتوں کی چھٹی لے لی تھی اور ان کی جگہ ان کا چارج ان کی بیوی نے لے لیاتھاجو خود بھی سب سے بڑی ڈاکڑتھیں اور تھائی لینڈ سے ایف سی پی ایس کرکے آئی تھیں۔ڈاکٹر دانش ہماری انٹیلی جنس کے لئے وقتافوقتاٹائم نکالتے رہتے تھے اور ان سے اس سے قبل بھی میری ملاقات کسی نہ کسی موقعے پرہوتی رہتی تھی۔آپ کافی منجھے ہوئے ڈاکڑ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین انسان بھی تھے۔ان کی کمپنی میں میں کبھی بھی بور نہیں ہواتھابہت زندہ دل اور کافی جی دار آدمی تھے۔
ان کی قابلیت کا تو میں پہلے ہی بتاچکاہوں اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اس کا مظاہر ہ انہوں نے جگہ جگہ کیامیری پلاسٹک سرجری کی ذمہ دادری ان کے ذمہ تھی ۔انہوں نے میرے چہرے کا خوب اچھی طرح سے موئنہ کیااور اس دوران خوب مزے مزے کی باتیں بھی کرتے رہے ۔میں انکے ہاتھوں میں تھا اور مجبور تھا وہ مجھے کیا سے کیا بنادیتے میرے اختیار میں نہیں تھالہذا جو وہ کہتے اور چھیڑتے رہے میں صبر اور شکر سے ان کی باتیں سنتارہا۔۔۔۔باتیں کافی دلچسپ کرتے تھے سنتے ہی انسان بے اختیار مسکرادیتاتھا۔۔۔۔
"میاں کب تک یوں چکراتے پھرو گے ؟اپناگھر بسالوورنہ یوں ہی اپناچہرہ پوری عمربدلواتے رہے گے ۔۔۔۔۔۔سوچ لو ۔۔۔۔لیکن میری حالت پر نہ جانے یہ سب کچھ تمہاری بھابھی کا کیادھراہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ میں اب بھی تمہاری طرح جوان ہوتا۔۔۔۔۔"
میں اکثر خاموش رہتاتھااور ان کی باتوں سے خوب لطف اندوز ہوتارہتاتھا۔بس ہلکی سی مسکراہٹ سے ہی کام چل جاتاتھا۔
“یہ بالوں میں دیکھ رہے ہو؟۔۔۔۔۔چاندی اترآئی ہے ۔۔۔۔۔معلوم ہے کیوں ایساہوا؟۔۔۔۔۔۔۔۔میں ڈبل ڈیوٹی کرتاہوں۔۔۔۔"ان کافقرہ ابھی ختم ہوا ہی تھاکہ میں قہقہہ لگاکر ہنسااور گویاہوا:
"مطلب ایک ٹائم کلینک اور دوسرا ٹائم گھر۔۔۔۔۔۔"
"ہنس لو میرے بھائی ہنس لو ۔۔۔وہ بھی جی بھر کر ۔۔۔آج نہیں تو کل تمہیں بھی میری طرح ہوناپڑے گا اور پھر میری ہنسی بھی تم نہیں روک سکو گے۔۔۔۔۔یاد رکھناگن گن کر بدلے لوں گا۔۔۔۔۔۔جس نے کی وہ بھی پچھتایااور جس نے نہ کی وہ بھی پچھتایا۔۔۔۔"
"لیکن اسحاق صاحب کچھ لو گ وہ بھی تو ہیں جو ایک بار نہیں باربار یہ کام کرتے ہیں مگر ان کے بالوں میں آپ کی طرح رونق نہیں آتی۔ اس کی کیاوجہ ہوسکتی ہے۔۔۔۔"میں نے بھی انہیں جواباًچھیڑا۔۔۔۔کبھی کبھی میں بھی ان کے ساتھ ہی شامل ہوجایاکرتاتھاجس سے محفل بہت گرم رہتی تھی ورنہ تو میں بری طرح سے بور ہوجاتاتھا۔
"وہ تو یقیناکسی ریاست کے مہاراجے یا پرنس ہی ہونگے ۔۔۔۔اتنی بیویوں کو خوش رکھنااور ان کی ہر فرمائیش کو پورا کرنا میرے بس میں تو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔لیکن تمہاری شرارت میں بھانپ گیاکہ تم کیا کہناچاہ رہے ہو۔۔۔۔۔۔لیکن یاد رکھنامیں تمہاری خاطر انتی پلاسٹ سرجیاں نہیں کرسکوں گا مجھے اور بھی بہت سے کا م ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہاری طرح نہیں ہوں کہ میں ہرشادی پر اپنی شکل ہی بدلوا لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔حد ہے تمہاری بھی جوان ویسے ۔۔۔۔۔۔۔۔"ان کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ میں ایک بار پھر قہقہہ لگاہنسنے لگا۔ان کاsense of humour کمال تھا۔
"جناب میرے فرشتوں کی توبہ آپ کی یہ حالت دیکھ کر کس نے اتنی شادیاں کرنی ہے عقل مند کے لئے آپ جیسے رول ماڈل ہی کافی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"کیاکیاسوچتے رہتے ہو میاں اب تم نے ہمیں رول ماڈل بھی بنادیا ہے ؟؟؟ یعنی تمہاری پوری کوشش ہے کہ تم اب ڈیوڈ نہ بن سکو۔۔۔ویسے ایساڈیوڈ بناؤں گا کہ تم خود تو چھوڑو وہ تمہاری کو ن سے ایجنسی ہے ۔۔۔۔۔کیا نام ہے اس کا ۔۔۔۔۔۔ ہاں بلیک ایجنسی۔۔۔اس کے سربراہ بھی شک نہیں ہوسکے گا بلکہ خود ڈیوڈ بھی تمہارے سامنے آجائے نہ تو وہ بھی تمہیں دیکھ کر ششدر رہ جائے گا۔"ان کی بات پر میں بے اختیارپھر سے مسکرادیا۔اس وقت میری آنکھیں بند تھیں اور میں ایک بیڈ پر ایک اونچی بیک کے ساتھ ٹیک لگائے نیم حالت میں پڑا ہواتھاجبکہ ڈاکڑ صاحب میر ے چہرہ کا خوب اچھی طرح سے مطالعہ کرچکے تھے۔ان کے ساتھ ایک ٹیبل رکھی ہوئی جس پرڈیوڈ کی ایک اصلی تصویر اور میرے چہرے کا اسکیچ بناہواتھا۔اس دوران انہوں نے ایک لوشن نماچیز میرے چہرے پر خوب اچھی طرح سے ملنی شروع کردی۔اس کام سے فارغ ہوکر انہوں نے مجھے پھر کہا:
"دیکھومیاں اب خبردار اپنی زبان مت چلاناورنہ تم ڈیوڈ سے کچھ اور بھی بن سکتے ہویہ بھی ممکن ہے کہ چارلی چپلن بن جاؤ پھر مجھے مت کہناکہ میں تو مسٹر بین بنناچاہتاتھامگر یہ آپ نے کیاکردیا۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ تمہیں اب اپنی زبان خوب اچھی طرح سے بند رکھنی ہوگااور میری باتوں کوصبر سے برداشت کرناہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔"اس بار وہ بات کر کے خود ہی قہقہہ لگاکر ہنس پڑے اور مجھے ہنسنے کا موقعہ بھی نہ ملا۔۔۔۔وہ اپناکام کرتے رہے اور پھر ہماری مزید کوئی بات نہ ہوئی۔
********
دیکھتے ہی دیکھتے وہ میری آنکھوں کے سامنے ایک جنگلی جانور لائے اور پھر اسے ایک جنگلی نے اس کی شہ رگ پر دانت گھاڑ کر اسے کاٹ دیا۔وہ جانوربری طرح سے چیخنے چلانے لگااس کی گردن سے خون کاایک فوارہ پھوٹاہی تھاکہ ان جنگلیوں نے اس کے خون کے سامنے ایک برتن رکھ دیا۔سارے خون پوری رفتار کے ساتھ اس کے جسم سے نکل کر اس برتن میں گرنے لگا۔کاٹنے کا کوئی مخصوص طریقہ تھاجس کی وجہ سے خون زیادہ جگہ سے نہ نکلابلکہ ایک ہی جگہ سے نکلتے ہوئے ٹھیک اس برتن کے اوپر گر رہاتھا۔بظاہر یہ ایک جنگلی پن کا مظاہرہ لگ رہاتھامگر اس میں بھی ایک خاص مہارت تھی ۔صاف ظاہر تھاکہ وہ مٹی کے برتن میں سارا خون تو نہ جمع کر سکے البتہ جتناہوسکاوہ انہوں نے کرلیا۔پھر ان میں سے ایک جنگلی نے آگے بڑھ کر وہ برتن اٹھایااور پھر وہ اسے اپنے ہاتھوں میں سجائے اپنے سردار کی طرف بڑھنے لگا۔
لمبے لمبے ڈگ بھر تاہواوہ کچھ دیر میں سردار کے پاس پہنچااور اس نے سردار کو وہ خون پیش کردیا۔آن کی آن میں سردار کو اچانک ایک دورہ پڑا اور پھر اس نے وہ برتن اپنے پیاسے ہونٹوں کو لگالیااور پھر اس کے سامنے موجود تمام جنگلیوں سے زیادہ جنگلی ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے غٹاغت وہ ساراخون پی لیا۔اس کے پینے کا انداز اس کا بھونڈا تھاکہ سارا خون نیچے زمین پر اس کے نیم ننگے بدن پر گرتاہوانیچے بہہ گیا۔جو سردار کے دائیں بائیں جنگلی عورتیں تھیں انہوں نے بھی اسی قسم کے جنگلی ہونے کامظاہرہ کیااور سردار کے پاس موجود زمین سے اس کے بدن سے چاٹ چاٹ کر سارا خون پینے لگیں ۔خون تو وہ کیاپیتیں ساری مٹی کھارہی تھی اور خون کے چند ہی قطرے ان کے حلق میں اترے ہونگے۔
پورا مٹی کا برتن چاٹنے کے بعد نہ جانے سردار پر کیاآفت ٹوٹی کہ اس نے برتن ایک طرف پھینکااور وہ بھی دوڑتاہوا دیگر رقص کرنے والے جنگلیوں کے ساتھ رقص میں شامل ہوگیا۔وہ جھولتاہوا ان کے پاس پہنچاتھااور اس کی حالت دیکھ کر لگتاتھاکہ جنگلی جانور کے خون پینے کے بعد اس پر نشہ سوار ہوگیاتھا۔وہ جو کچھ ہورہاتھامجھ سے بے نیاز ہوکرہورہاتھاپھر میری بلاسے جو ہورہاتھاوہ ہوتارہے۔مجھے اس کی کوئی پراوہ نہیں تھی بس وہ جو ہورہاتھاوہ ہوتارہے،میں بس اسے سکون سے دیکھ رہاتھا۔
اگر مجھے ان کی ذہنی حالت پر پہلے کو ئی شک و شبہ تھاتو وہ اب دور ہوگیامگر ان جنونی کیفیات کااطلاق ان قریب مجھ پر بھی ہوسکتاتھا۔جسے روکنے کے لئے کوئی نہ کوئی تدبیرکرنابہت ضروری تھااور اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔وہ مستقبل میں میرے ساتھ جو بھی کچھ کرنے والے تھے اس سے بچنے کے لئے مجھے ان کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہاتھ میں لیناضروری تھاجس سے مجھ پر پیش آنے والے حالات سے فائدہ اٹھایاجاسکتاتھا۔یہ خیال آتے ہی میں ان کی تمام حرکات و سکنات کابغور جائزہ لینے لگاجس سے ایک بات تو بڑی واضح تھی کہ یہ لوگ نہ صرف مکمل جاہل بلکہ جنگلی بھی ہیں لہذا ان سے بات چیت توبالکل ممکن نہیں تھی جو ہماری مہذب دنیاکاخاصہ ہے۔
وہ لوگ ایک تو اپنے جنون کے آخری حد میں تھے اسی وجہ سے بحث کرنااور وہ جو کررہے ہیں اس انہیں روکنایااپنے حق میں مقدمہ لڑناناممکن تھا۔اب دو ہی صورتیں ہوسکتی تھیں کہ وہ خداان کے دل میں لئے رحم کاجذبہ پیدا کردے یادوسراکوئی اور میری مددکوآجائے اس کے علاوہ بظاہرمجھے کوئی تیسری کوئی صورت دکھائی دے رہی تھی۔یااگر تھی تو میرا رب ہی اس پر مجھے واضح کرسکتاتھافی الحال میں اس کی حکمت سمجھنے سے قاسر تھالیکن میں اس سے مایوس ہرگز نہیں تھاجو بھی کچھ اس نے سوچاہوگاوہ میرے لئے یقیناًبہترین تھا۔
جنگلی حبشیوں کاسردار کچھ دیر یوں ہی بے ہنگم رقص کرتارہاپھر وہ دوبارہ مجہولوں کی طرح جھولتاہوادوبارہ اپنے مخصوص اونچے چبوترے پر چڑھ کرکھڑا ہوگیا۔کچھ دیر وہ یو ں ہی خالی خالی نظر وں سے پورے ماحول کو دیکھتارہاپھر یک بیک اس نے تین بارمخصوص انداز میں تالی بجائی تو ایک دم سے ڈھول پیٹنابند ہوگیااور اس کے ساتھ ساتھ رقص کرتے ہوئے حبشی بھی رک گئے اور پھر انہوں نے سردار کی طرف منہ کرتے ہوئے اپنے اپنے سرجھکاکرانتہائی احترام کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
انہیں اپنے سامنے جھکتادیکھ کر سردار کا سینہ مزید چوڑا ہوگیااور اس نے زور زور چیختے ہوئے مقامی زبان میں کچھ کہناشروع کردیاتوسب لوگ میری جانب متوجہ ہوگئے پھر ان میں سے ایک شخص تیز تیز چلتاہوامیرے پاس آیاپھر اس نے زمین سے مٹی اٹھااٹھاکر مجھ پر پھنکتاشروع کردی۔اس کے بعد وہ واپس مڑا اور اپنے پیچھے موجود جنگلی جانور کی کھال ادھیڑناشروع کردی۔آن کی آن میں وہ جانور اپنے ظاہر کپڑوں سے محروم ہوگیاپھر اس نے جانور کو واپس زمین پر پھینکااور وہ کھال لئے تیزتیز چلتاہوامیری جانب بڑھنے لگا۔
میرے پاس آکر چند گز کے فاصلے پر اس بلند آواز سے کسی نامعلوم زبان میں ورد کرناشروع کردیااس کے ہونٹ تیزی سے چل رہے تھے پھر کچھ ہی دیر میں اس وہ ورد بھی تمام ہوا اور پھر وہ اپنی خونی نظروں سے مجھے گھورتاہوامیری پشت پر آیاپھر اس نے وہ کھال مجھے پہنادی۔اس کے بعد وہ واپس پلٹااور پھر وہ دوبارہ میرے سامنے آکر ایک بار پھر سے زمین سے مٹی اٹھااٹھاکر مجھے پھینکے لگااور ساتھ ساتھ وہ تیزی سے کوئی ورد بھی کرتاجارہاتھا۔جو ظاہر ہے میرے اوپر سے ہی گزر رہاتھاابھی اس کا یہ عمل جاری تھاکہ اسے دیکھ کر سب حبشیوں میں یک بیک بجلی عود آئی اور انہوں ایک بار پھر سے دائر ہ بناکر رقص کرناشروع کردیا۔
معلوم نہیں کہ رقص ان کا محبوب مشغلہ تھایاپھر وہ مجھے کوئی اعزاز بخش رہے تھے یہ بات کسی بھی طرح سے میرے پلے نہیں پڑرہی تھی۔مجھے اتنی عزت دینی تھی تو مجھے یوں باندھ کیوں رکھاتھا؟اگر باندھاتھاتو یقینامجھے کسی کے آگے قربانی کے لئے پیش کر ناتھااور اسی جانور جیساحال میرا بھی لکھاتھاتو یہ نہایت ہی بھیانک انجام تھا۔جسے میں کبھی برداشت نہیں کرسکتاتھا۔مگر کرتاتو کیا کرتا؟اس وقت تھاجو میں ان کے رحم و کرم پر ۔۔۔۔۔۔۔۔
********
تقریباًدوسرے ہفتے میری پٹیاں کھل گئی تھیں اور اب میں اپنی شکل آئینہ میں دیکھ کر ڈاکڑصاحب کے فن کی داد دے رہاتھا۔میری چہرہ مکمل طور پر تبدیل ہوچکاتھااور اب تو شاید کچھ عرصہ تک میں خود بھی اپنے آپ کو نہ پہچان سکتا۔ڈاکٹر صاحب نے جو کہاتھاوہ کرکے دکھ دیاتھا،بلاشہ وہ اس وقت پاکستان کے چوٹی کی سرجنز میں شمار ہوتے تھے۔ابھی میں اپنے چہرے کا آئینے میں دیکھ ہی رہاتھاکہ ایسے میں ڈاکڑ صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور اپنی شوخ آواز میں عرض کرنے لگے:
"کیوں میاں کیاہوا؟باربار آئینہ دیکھ رہے ہوخیرہے ؟کسی کو تلاش کررہے ہو کیا؟"
"آئیے آیئے ڈاکڑ صاحب !ابھی میں آپ ہی کا انتظار کررہاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جناب آپ نے تو کایاہی پلٹ دی ،حقیقت میں میں اب خود کو پہنچاننے سے انکاری ہوں۔خدا نے واقعی آپ کے ہاتھ چمتکار رکھاہے۔"
"بس بس اتنی تعریفیں نہ کرو ،میں تو ایک عام ساڈاکڑ ہوں،چمتکار اور کایاپلٹ جیسی چیزیں وہ خود ہی عطاکردیتاہے۔اس کی بے پناہ عنایتیں اور نوازشیں ہیں۔۔۔"
"بے شک بے شک اس میں تو کوئی شک نہیں ،آپ کی انہی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر آپ یہاں اس قدر محنتی ہیں تو سوچیں گھر میں کس قدر نہ ہوگیں ۔وہاں تو آپ تقدیر ہی بدل دیتے ہونگے ۔۔۔۔ ہیں ناں ؟۔۔۔ہاہاہا"میں اپنافقرہ مکمل کرتے ہی زوردار قہقہہ لگاکر ہنس پڑا مجھے دیکھتے ہی وہ بھی مسکرانے لگے ۔
"بہت شریر ہوتو تم سچ میں ،لگتاہے تمہاری انہی حرکتوں کو دیکھ کر محکمے والوں نے تمہارا انتخاب کیاہے۔تمہارے آگے تو بڑے سے بڑے تیس مار خان بھی بھیگی بلی بن جاتے ہونگے تو اب یہ بیچاری لولھی لنگڑی کالی ایجنسی (بلیک ایجنسی ) کیاکرے گی۔"
"وہ کچھ کرے نہ کرے مگر آپ نے تو سب کچھ کردیاہے اب اور کیا چاہیے۔۔۔۔ایسی ہر ایجنسی کی ایسی کی تیسی جومیرے اور آپ کے ملک کے سامنے کھڑے ہونے صرف ہمت بھی کرے۔۔۔۔۔"
"شاباش جوان مجھے تم سے یہی امید تھی اور میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اتنے بلند جذبے اور جرات کے سامنے تو کوئی پہاڑ بھی آکر کھڑا ہوتو وہ بھی اپناراستہ بدل لے گاتو یہ کالی ایجنسی کس کھیت کی مولی ہے۔ویل ڈن جنٹلمن آئی ایم پراؤڈآف یو ۔۔۔۔"ڈاکڑصاحب نے زور زور سے میرے کندھے تھپکاتے ہوئے کہاان کے آنکھوں میں ایک دم سے لہواتر آیاتھاوہ وطن کی محبت سے سرشار ہوکر کہہ رہے تھے ۔میں نے انہیں جذباتی دیکھ تو آگے بڑھ کر ان کے سینے کے ساتھ اپناسینہ لگادیا۔اس دوران جذبات کی رو میں بہہ کر ان کی آنکھوں بھیگ گئیں وہ میرے سینے سے کافی دیر تک لگے اپنے اندر کی آگ کو قابو میں کرنے بھر پور کوشش کرتے رہے۔انسان کے اندرونی احساسات تھے کہ وہ بہہ کر آنسو کی شکل میں باہر آگئے تھے۔ وہ کچھ دیر تو یوں ہی اپنے دل کی دھڑکنیں میرے دل کی دھڑکنوں سے ملاکر انہیں محسوس کرتے رہے پھر ایک دم سے مجھ جدا ہوئے اور اپنے آنسو پونچتے ہوئے میری طرف دیکھنے لگے:
"کیاتمہیں آنسونہیں آتے ۔۔۔۔؟"ان کے سوال میں اس قدر سادگی تھی کہ ان پہ بہت پیار آرہاتھا۔
"نہیں ڈاکڑ صاحب ہمیں نہ آنسو آتے ہیں اور نہ ہی ہمیں اپنی دھرتی کے سوا کسی اور بات کا غم ہوتاہے۔وہ سپاہی ہی کیاجسے سردیوں میں سردی لگ جائے اور گر میوں میں گرمی ہم بیمار نہیں ہو تے اسی لئے تو فولاد کہلاتے ہیں ۔۔۔۔۔"
"بیٹااللہ تمہارے جذبے ہمیشہ سلامت رکھے تم اس دھرتی ماں کے وہ سپوت ہو جسے وطن کا بچہ بچہ اپناہیرو سمجھتاہے۔۔۔۔" ان کا فقرہ ختم ہوا اور بہت دیر تک کمرے میں کاٹ کھانے والی خاموشی رہی۔۔۔ہم دنوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک دوسرے کے جذبات و احساسات آنکھوں کی مدد سے ایک دوسرے کو منتقل کرتے رہے۔
********
ڈھول ایک بار پھر سے شروع ہوگیااور ان کا رقص بھی پورے عروج پر تھاپھر دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے اپنے گرد ایک لمباسادائرہ بنالیااور اپنے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جھومنے لگے ۔البتہ جو حبشی میرے اوپر مٹی پھینک رہاتھاوہ اس دوران مردہ جانور کا گوشت میرے سامنے لے آیااور پھر اسے زمین پر پھینک کر میرے گرد زمین پر ایک لکڑی کی مدد سے ایک دائرہ بنالیااور پھر اس دائرے کے اندر اترکر اس نے اس جانور کے ٹپکنے والے خون سے ایک اور نیم دائرہ بنایااور پھر مردہ جانور کو میرے بالکل پاس لاکر میرے قدموں میں پھینکااور خود وہ دائرے سے باہر نکل گیا۔
اس سارے عمل کے بعد اس نے بلند آواز سے ایک بار پھر کسی چیز کا ورد کرنا شروع کردیانہ جانے وہ کون سے شیطانی الفاظ اپنی زبان سے ادا کر رہاتھا مگر اس بار وہ الفاظ تو جیسے میرے وجود کو آر پار پستول سے نکلی گولیوں کی طرح چھلنی کرتے جارہے تھے۔اس کا ہر ہر لفظ چن چن کر میری روح کو زخمی کرتاجارہاتھااس خطرناک حملے کا نہ تو میرے پاس کو ئی توڑ تھااور نہ ہی میر ی اس حوالے سے کوئی ٹریننگ ہوئی تھی۔مجھے تو لڑنے بھڑنے کی ہی ٹریننگ دی گئی تھی اور اپنے آپ کو کس طر ح مشکل سے نکالناہے یہ سب کچھ میرے دماغ میں فیڈ تھا ۔پھر اسی دماغ کی ہدایات پر ہی میرا دماغ عمل کرتاتھا۔
مگر اس وقت تو نہ جانے کون سی آفت مجھ پر ٹو ٹ پڑی تھی،زندگی میں حقیقتامیں نے اپنی زندگی میں کسی شیطانی عمل کے بارے میں نہ سوچاتھااور اب میری جسم میں جو تکلیف ہورہی تھی اسے بیان کرناایک بار پھر میرے لئے محال تھا۔اس کے دیکھا دیکھی باقی افراد نے بھی بلند آواز سے انہی کلمات کو دہراناشروع کردیا۔سسپنس اور تھرل میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتاجارہاتھاالفاظ کاشور اور ساتھ میں ڈھول کی شیطانی آواز نے میرے ذہن کو بالکل ماؤف کردیاتھا۔۔۔۔۔۔۔وقت نے اپنی چال ایک بار پھر سست کردی تھی اور اس ہولناک منظر کو میری نظروں کے سامنے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قید کردیا۔
********
پھر اسی خاموشی کو کمرے میں آکر ایک ملازم نے توڑااس نے آکر ہمیں اطلاع دی کے پاس کے کمرے میں میرے لئے ایک کچھ ضروری چیزیں آئی ہیں ۔ڈاکڑ صاحب اور میں چند لمحے اسے دیکھتے رہے پھر اسے آنے کا کہہ کر اس کے جاتے ہی کچھ دیر بعد ہم لوگ بھی وہاں سے روانہ ہوکر اسٹڈی روم میں آگئے جہاں پر کاغذات کا پلندہ میرا منتظر تھا۔
"ڈاکڑ صاحب لگتاہے کہ اب میرا کام شروع ہوگیامجھے ایک کپ چائے چاہے اگر آپ ساتھ دیں گے تو مجھے بہت خوشی ہوگی نہیں تو مجھے ابھی گزشتہ ہفتے جو جو ہوا ہے اس کی باقاعدہ خبر لینی ہے۔یہ کاغذات میری راہ نمائی کے لئے ہی لائے گئے ہیں ۔۔۔۔"میں نے پیچھے پلٹ کر ان کی جانب دیکھا تو نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"میرے خیال میں میرا کام ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں سے اب تمہارا کام شروع ہوجائے گا اور اب مجھے واپس جانا ہوگا ورنہ میری بیوی میراکچومر نکال دے گی۔۔۔۔"ان کی اس بات پر میں ایک بار پھر قہقہہ لگا ہنسا اور پھر گویا ہوا۔
"ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر اصل بات آپ کی زبان پر آہی گئی میں سمجھاآپ آخری لمحے تک اس بات کو گول ہی کرتے رہیں گے اور میں آپ کی اصل حقیقت کو جاننے کے لئے ترستارہوں گا۔مگر آپ تو کافی مہربان ثابت ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ ہاہاہا"
"یہ تو اب تم مجھ سے گزشتہ دنوں کے بدلے لے رہے ہو جو میں نے تمہیں ستایاہے۔۔۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔۔۔اس طرح تو نہیں چلے گامیاں۔۔۔۔۔۔کچھ اور سوچوکسی اور بات پر عمل کرو۔"
"کیابات کررہے ہیں جناب میں بھلاآپ کو کیوں اور کیسے ستانے لگا،میں نے تو آپ کی تعریف کرنی تھی کہ خدا نے آپ کے ہاتھوں میں جادو رکھاہے جادو ۔۔۔۔بلاشبہ آپ کمال ہو "
"بس بس میری اس قدر تعریف نہ کرو اگر میں پھول گیاتو پھر کیاہوگا؟اس پھولے ہوئے پیٹ اور چوڑی چھاتی کے ساتھ تو میں تمہاری بھابھی کے سامنے بھی نہیں جاپاؤں گاوہ تو کہے گی کہ اچھابڑے مزے کر کے آئے ہیں اب ذرا گھر پر بھی تو جہ دو ۔بس پھر اسی دن ہی جو ہوا تم میرے غبارے میں بھر رہے ہو وہ نکل جائے گی۔"
"میں بھلا کیوں آپ کے غبارے میں ہوا بھرنے لگا ۔۔۔۔۔۔خیر چھوڑیں یہ بتائیں اب میری آفر مان رہے ہیں یا آپ کا ارادہ پکاہے؟میرے خیال میں تو آپ کو میرے ساتھ ایک کپ چائے لازمی پی کر جانی چاہیے پھر نہ جانے ہمار ی کب ملاقات ہو۔۔آپ کہاں ہوں اور ہم کہاں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے امید ہے آپ اس خاکسار کی گزارش کو رد نہیں کریں گے۔"
"چل یار تو بھی کیا یاد کرے گے تمہارے ساتھ الودعی چائے پی ہی لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ویسے تم ٹھیک کہتے ہوپھر پتہ نہیں ہماری ملاقات کب ہوتی ہے جانے ہوتی بھی ہے یانہیں۔۔۔۔" اس کے ساتھ ہی میں نے ملازم کو آواز دے کر دو کپ چائے لانے کو کہااور پھر ہم دونوں ایک ٹیبل پر آمنے سامنے کرسیاں گھسیٹ کر بیٹھ گئے ۔درمیانے سائز کے اس کمرے کو نہایت بہترین انداز میں سجایاگیاتھا۔ہم لوگ ایک پرائیوٹ رہائش گاہ میں تھے اور یہ اسلام آباد میں ہی تھی ۔اس دوران دنیاکہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی عابد گینگ کے ساتھ کیا سے کیاہوگیاتھااس کی تمام تفصیل کاغذات اور فائلوں کے پلندہ میں موجود تھی اور ساتھ میں کچھ ریکارڈ کئے ہوئے بیانات بھی موجود تھے ۔ان تمام ضروری چیزوں کے مطالعہ کے بعد اور انہیں خوب اچھی طرح سے کھنگال لینے کے بعد اب مجھے عملی طور پر ڈیوڈ کی جگہ میدان میں آنا اور وہ بھی اس طرح سے کہ کسی کوبھی کانوں کا ن خبر نہ ہوتی ۔
اس دوران ڈاکڑ اور میں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے کہ ملازم چائے لے آیا۔بہت ہی غضب کی چائے بنی ہوئی تھی ہم دونوں خوب مزے کے ساتھ چسکیاں لے لے کے پی اور پھر کچھ ہی دیر میں ڈاکڑ صاحب مجھ سے اجازت لے کر کوٹھی سے روانہ ہوگئے میں خود انہیں گیراج تک چھوڑنے گیاجہاں سے ایک بڑی گاڑی میں ہمارے محکمے کے ملازمین انہیں ان کی رہائش گاہ میں چھوڑآتے۔وہاں ہم ایک دوسرے کے ساتھ خوب اچھی طرح سے بغل گیر ہوئے اور پھر میں انہیں رخصت کرتاہواواپس اسٹڈی روم میں آگیا۔جہاں پر گزشتہ دنوں کی ایک مکمل روئیداد میرے منتظر تھی۔
********
مجھے کچھ خیال نہیں تھاکہ اگلے پل مجھ پر کیا بیتے گی لیکن دل ہی دل میں میں کلمہ طیبہ کاورد کرناشروع کردیاتھااور خود کو میں پہلے ہی اپنے ر ب کے حوالے کرچکاتھاشاید اس وقت وہی میرا اکلوتامددگارتھاوہ چاہتاتو سب کچھ بدل سکتاتھااسے کتنی دیرلگتی تھی۔ایک دم سے آسمان پر تیزآسمانی بجلی چمکی اور اس کا شعلہ پوری قوت سے میری جانب لپکااور دوسرے ہی لمحے میں پوری طرح سے اس آسمانی بجلی کی زد میں آگیا۔یہ ناقابل یقین اور ناقابل بیان منظر تھاجوخود مجھ پر بیت رہاتھایہ کافی حیران کن تھا۔
پھر آن کی آن میں میرے تن بدن میں آگ لگ گئی اور میں بری طرح سے تڑپتاہوااپنے آپ کو مچلتے ہوئے رسیوں سے چھڑوانے لگامگر شاید اب دیر ہوچکی تو حالت میری سوچ سے کہیں آگے بڑھ گئے تھے ۔میرا وجود بر ی طرح سے جل رہاتھااور آگ کے شعلوں نے مکمل طور پر مجھے جکڑلیاتھا۔میں لاشعور ی طور پر اپنے آپ کو بچانے کے لئے کوشش کرتے ہوئے ادھر ادھر اپنے جسم کو حرکت دینے لگامگر یہ ساری کوشش محض ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں تھی ۔
میں نہیں جانتاکہ وہ آسمانی بجلی مجھ پر کیوں گری تھی اور ان حبشیوں کے کلام میں آخر کیاطاقت تھی کہ شیطان اپنی تمام تر شیطانی قوت کے ساتھ خود ہی میدان عمل میں کود گیاتھا۔میری زندگی کا سب سے حیران کن اور ناقابل یقین منظر تھاجو میں دیکھ رہاتھامیری سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھاکہ جب سے میں اغوا ہواہوں تو آخر یہ مجھ یہ سب کچھ آخر کیوں بیت رہاہے۔میں ایک بار پھر دنیا اور مافیاسے بے گانہ ہوتاچلاگیا۔بدن میں لگنے والی آگ نے مکمل طور پر مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیاتھااور اب مجھے اس آگ کے کے سواکچھ نظر نہیں آرہاتھا۔وہ آگ جہنم کی آگ تھی جس نے مجھے بالکل بے بس کردیاتھااور میں سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتوں سے محروم ہوگیاتھا۔جو آخری خیال میردماغ تھاوہ یہ کہ میرے بچنے کی اب کوئی امید نہیں اور مجھے سچ میں حبشیوں کے شیطان کے سامنے بلیدان کردیاگیاہے۔اب مجھے یہ جہنم کی آگ کے شعلے ہمیشہ کے لئے جلاکر راکھ کردیں گے۔۔۔۔۔۔
********

(جاری ہے)
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 56680 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More